FIKRism

Tuesday, November 29, 2011

RASOOM-E-AQWAM

RASOOM-E-AQWAM
by Ali Abbas Jalalpuri
1983


رسومِ اقوام

علی عباس جلالپوری
1983

۔مشمولات:۔
۔۱۔ ولادت
۔۲۔ بلوغت
۔۳۔ بیاہ
۔۴۔ طلاق
۔۵۔ موت
۔۶۔ مذہبی رسمیں
۔۷۔ اجداد پرستی
۔۸۔ صائبیت
۔۹۔ لنگ پوجا
۔۱۰۔ ناگ پوجا
۔۱۱۔ قربانی
۔۱۲۔ کھانا پینا
۔۱۳۔ چائے، کافی
۔۱۴۔ پان
۔۱۵۔ تمباکو
۔۱۶۔ منشیات
۔۱۷۔ لباس
۔۱۸۔ وضع قطع، زیبائش
۔۱۹۔ آداب و اطوار
۔۲۰۔ طبقاتِ معاشرہ
۔۲۱۔ تفریحات
۔۲۲۔ تہوار
۔۲۳۔ شاہیت
۔۲۴۔ جرم و سزا
۔۲۵۔ بردہ فروشی
۔۲۶۔ بنج بیوہار
۔۲۷۔ توہمات
۔۲۸۔ عصمت فروشی
۔۲۹۔ سادھو، سنت، فقیر
۔۳۰۔ طب
۔۳۱۔ حمام
۔۳۲۔ ٹے بُو
۔۳۳۔ ضمیمہ


دنیا کی رسم و رواج، خصوصاً سندھ و پنجاب کے رسم و رواج، ان کا سببِ ابتداء اور موجودہ زمانے میں ان کی معدومیت پر چھوٹی سی پر جامع کتاب۔




۔اقتباسات:۔

میری انتوانت
۔۔ نپولین سے پہلے فرانس میں رواج تھا کہ ملکہ برسرِ عام بچہ جنتی تھی۔ وضع حمل کے وقت محل کے دروازے کھول دیئے جاتے اور عورتیں مرد اندر ہجوم کر آتے، ملکہ میری انتوانت نے اِسی عالم میں سیکڑوں لوگوں کے سامنے بچے کو جنم دیا تھا۔ خیال یہ تھا کہ کسی کو یہ شک نہ ہو کہ بچہ بادشاہ کا نہیں ہے کسی دوسرے کا لاکر رکھ دیا ہے۔ 18

رُستم
۔۔ فردوسی شاہنامہ میں لکھتا ہے کہ پیدائش کے وقت رُستم غیر معمولی طور پر فربہ تھا جس سے وضع حمل میں بڑی دقت پیش آئی اور اُس کی ماں درد کی شدت سے نیم جاں ہوگئی۔ آخر خدا خدا کرکے بچہ پیدا ہوا تو اُس کی ماں نے شکر کرتے ہوئے کہا۔ رُستم "یعنی میں نے رہائی پائی۔" زال نے یہی اپنے بچے کا نام رکھ دیا۔ 18-19


بیاہ
۔۔ علم انسان کے طلبہ بتلاتے ہیں کہ شادی بیاہ کا آغاز پدری معاشرے میں ہوا جو زرعی انقلاب کے بعد صورت پذیر ہوا تھا۔ 27


متعہ
۔۔ بعض اوقات اعراب اپنی بیویاں تبدیل کرلیتے تھے۔ اسے نکاح البدل کہتے تھے۔
ایک نکاح المتعہ تھا یعنی مقررہ مدت کیلئے کسی عورت سے نکاح کرنا۔ اس مدت گزرجانے کے بعد جدائی ہوجاتی تھی۔ اسے صیغہ یا نکاح موقت بھی کہتے تھے، متعہ آنحضرت اور شیخ اول کے زمانے میں رائج تھا۔ شیخ ثانی نے اسے ممنوع قرار دیا لیکن کئی اکابر صحابہ اسے جائز سمجھتے رہے۔
مامون رشید نے متعہ کی حِلت کا علان کروایا تھا۔ جلال الدین اکبر نے ایک مالکی فقیہہ سے فتویٰ لے کر ایک ہی دن میں متعدد عورتوں سے مُتعہ کیا تھا۔ فیروز شاہ بہمنی نے متعہ کے جواز پر سنیوں اور شیعوں میں مباحثہ کرایا۔ شیعوں نے متعہ کی حلت کو ثابت کردیا تو فیروز شاہ نے ایک ہی دن میں تین سو جوان عورتوں سے متعہ کرکے اُنہیں اپنے حرم میں داخل کیا۔ شاہان اودھ واجد شاہ وغیرہ کے محلوں میں سیکڑوں ممتوعات رہتی تھیں۔ 31



۔۔ کالدیا میں مرد اپنی ہی برادری میں نکاح نہیں کرسکتا تھا۔ دوسری طرف بعض قبائل اپنی ہی برادری میں نکاح کرنے پر مجبور تھے، جیسا کہ یھودیوں اور برہمنوں میں رواج ہے۔ ہندوستان میں ذات پات کا ادارہ قائم ہوا تو مرد اپنی ہی ذات یا گوت میں شادی کرنے کا پابند ہوگیا۔ یہ پابندی آج بھی باقی و بحال ہے۔ 31


۔۔ ہندووں اور سکھوں میں رواج تھا کہ کسی عورت کو تصرف میں لانا مقصود ہوتا تو اس پر چادر ڈال دیتے تھے۔ 33
راجہ داھر والی سندھ نے اپنی سگی بہن پر چادر ڈال کر اس سے نکاح کیا۔ 34


ہبتہ النفس
۔۔ ارتھ شاستر میں لکھا ہے کہ کوئی شخص کسی عورت کو دشمنوں کے چنگل سے چُھڑائے یا سیلاب وغیرہ کسی آفت سے بچائے تو اُسے اُس عورت کے ساتھ جنسی ملاپ کا حق مل جاتا تھا۔
مصر جدید کے دیہات میں رواج ہے کہ اگر کوئی کنواری کسی نوجوان کو خلوت میں کہہ دے وھبت لک نفسی (میں نے اپنا آپ تمہیں بخش دیا) تو وہ بغیر گواہوں اور خطبہ نکاح کے خلوت میں جاسکتے ہیں۔ اسے ہبتہ النفس (پنجابی میں تن بخشائی) کہتے ہیں۔ اس کے لئے گواہوں کی ضرورت نہیں پڑتی۔ 35


۔۔ چناچہ رنڈی کا معنیٰ کسبی کا بھی ہے اور بیوہ کا بھی۔ 37


۔۔ مصر میں عروسی کی شب کو لیلۃ الدخلہ کہتے ہیں۔ دُلہا دلہن کو ایک چٹائی پر بٹھا دیا جاتا ہے پھر دلہن کا پیراہن آگے پھیلا کر دُلہا دو رکعت نماز یوں ادا کرتا ہے کہ وہ دُلہن کے دامن پر سجدہ کرسکے۔ 49


برصغیر ہندوپاک کے شمالی مغربی علاقے میں بیاہ کی اکثر رسمیں ہندووں مسلمانوں میں مشترک ہیں بلکہ یہ کہنا قرین صحت ہوگا کہ بہت سی رسمیں ہندووں ہی سے لی گئی ہیں۔ 50


۔۔ مجوسیت میں عورت پر عبادت فرض نہیں ہے گویا اُسے نماز کے قابل ہی نہیں سمجھا جاتا۔ 52


۔۔ اسلام سے پہلے عرب اپنی زوجہ کو تین بار جدا جدا طلاقیں دیا کرتے تھے۔ 53


۔۔ ازروئے شریعت کوئی جرّہ (آزاد عورت) اپنے ہی غلام سے نکاح نہیں کرسکتی۔ 54-55


۔۔ جس طرح بعض سُنی فقہا متعہ کو ناجائز سمجھتے ہیں اسی طرح بعض شیعہ علماء حلالہ کے جواز کے قائل نہیں ہیں۔ 55


۔۔ میت کو غسل دیتے وقت سنی نیم گرم اور شیعہ ٹھنڈا پانی استعمال کرتے ہیں۔ 58


عدم آباد
۔۔ قدیم مصری اور یونانی بھی ہندووں کی طرح مُردے کے مُنہ میں کچہ سونا یا کوئی سکّہ رکھ دیا کرتے تھے تاکہ عدم کا دریا عبور کرانے والا ملاح کشتی کاکرایہ وصول کرکے روح کو عدم آباد پہنچا دے۔ 59


گنبد
۔۔ فن تعمیر میں گُنبد تعمیر کرنے کا اسلوب بودھوں کی چھتریوں سے مستعار لیا تھا تھا۔ مسلمانوں کی قُبہ پرستی، مزاروں کی زیارت کو جانے اور وہاں منتیں ماننے اور اُن کے قریب اُگے ہوئے پیڑوؤں پر منت کی دھجیاں اور فیتے لٹکانے کی رسمیں بودھوں سے لی گئی ہیں۔ 59-60


ستی
۔۔ ستی کی رسم کا رگ وید میں کہیں ذکر نہیں ملتا۔ یہ رسم سکیتھیوں کے ساتھ ہندوستان میں آئی، سکیتھی اپنے سردار کی موت پر اُس کی زوجہ کو بھی اُس کی نعش کے ساتھ دفن کرتے تھے۔ راجپوت سکیتھیوں کی اولاد تھے۔ برہمنوں نے اُن کا شجرہ نسب سورج دیوتا اور چاند دیوتا سے ما ملایا۔ 63



اجداد پرستی
۔۔ پُرکھوں کی روحوں کی ضیافت بھی قدیم مذاہب سے یادگار ہے۔ ہندوؤں کا عقیدہ ہے کہ دیوالی پر پُرکھوں کی روحیں اپنے اپنے گھر کا چکر لگاتی ہیں۔ اس لئے اس تہوار پر طرح طرح کے پکوان اور مٹھائیاں بنواکر اُن کی ضیافت کی جاتی ہے۔ برہمن منتر پڑھ کر یہ کھانے روحوں کو پہنچاتے ہیں اور پھر خود شکر سیر ہوکر کھاتے ہیں۔ ایران کے مجوسی ہمسپت سیدیا کے ایام میں کھانے پکوا کر دخموں اور گھروں کی چھتوں پر رکھتے ہیں تاکہ مُردے کی روحیں بھوکی پیاسی نہ لوٹ جائیں۔ مسلمان بھی فاتحہ پر روحوں کی ضیافت کا اہتمام کرتے ہیں۔ قسم قسم کے کھانے دسترخوان پر چُنے جاتے ہیں۔ مُلاجی اور اُن کے شاگرد فاتحہ کا ثواب رُوحوں کہ پہنچاتے ہیں اور کھانے خود کھا کر تن تازہ ہوتے ہیں۔ 71


شماس
۔۔ آفتاب کے پوجاریوں کو شماس کہتے تھے۔ جلال الدین اکبر بھی شماس تھا۔ وہ دن میں چار دفعہ صبح دوپہر شام اور رات کو سورج کی پوجا کرتا تھا۔ 74


صائبین کعبہ کو سورج کی پوجا کا سب سے بڑا مرکز سمجھتے تھے۔۔
کعبہ کی مشرقی دیوار میں ایک سرخی مائل سیاہ پتھر یعنی حجراسود نصب تھا۔۔
یہ پتھر ایک شہاب ثاقب تھا۔ جسے صائبین کے خیال میں سورج دیوتا نے آسمان سے اُن کے لئے بھیجا تھا۔ 75-76


ملتان ۔ مولستھان
۔۔ چاند کا ایک بڑا معبد ملتان ۔۔ اصل مُولستھان یعنی چاند کا مقام ۔۔ میں تھا۔
یہ بت لکڑی سے تراشا گیا تھا جس پر سرخ رنگ کا غلاف منڈھ دیا گیا تھا۔ 77


گاہ
صائیبن سورج کے طلوع و غروب اور اس کی حرکت کے مختلف مراحل کے ساتھ سات نمازیں پڑھتے تھے اور ان میں رکوع و سجود کرتے تھے۔
مجوسیوں کے پانچ نمازیں اُنہیں سے ماخوذ ہیں۔ جنہیں وہ گاہ بھی کہتے ہیں۔ پنج گاہ یا پنج گانہ کے الفاظ پانچ نمازوں کے لئے وضع کئے گئے ہیں۔ 72


۔۔ متھرامت کے پجاری دن میں تین مرتبہ سورج کی عبادت کیا کرتے تھے۔ پہلے پہر مشرق کی جانب مُنہ کرکے، دوپہر کو جنوب کی جانب رُخ کرکے اور شام کو مغرب کا رُخ کرکے رکوع و سجود کیا کرتے تھے۔ 74


جلال الدین اکبر کے لئے ایک زردشتی ایران سے مقدس آگ لایا تھا۔ اس عالم کا نام اردشیر تھا۔ اکبر نے اس آگ کو نورِخداوند سمجھ کر اس کا انتظام شیخ ابوالفضل کے سپرد کیا۔ 75


انصاب ۔ طواف
اسلام کی اشاعت سے پہلے کے عرب جہاں کہیں قیام کرتے وہیں ایک پتھر کھڑا کرلیتے اور اسے دیوتا سمجھ کر اُس کا طواف کرتے اور قربانی کرتے تھے۔ ان پھتروں کا انصاب کہتے تھے۔

طواف سے ایک اور رسم وابستہ ہے۔ ایران اور ترکستان میں کوئی شخص بیمار پڑ جاتا تو غلاموں سے کہتے کہ مریض کے پلنگ کے گرد چکر لگا کر باہر نکل جائیں۔ کہتے تھے باہر جانے والے مرض اپنے ساتھ لے جاتے ہیں اور میرض شفایاب ہوجاتا ہے۔ شاہجہاں بیمار پڑا تو اس کی بیٹی جہاں آراء نے کئی لونڈیوں غلاموں سے کہا کہ بادشاہ کے پلنگ کا چکر لگا کر باہر چلے جائیں۔ گلبدن بیگم لکھتی ہے کہ اُس کا بھائی ہمایوں بیمار پڑگیا۔ اُس کی حالت دگرگوں ہوگئی تو ظہیرالدین بابر نے اضطراب کی حالت میں جناب مولا علی ابن ابی طالب کا تصور کرکے اپنے بیٹے کےپلنگ کا طواف کیا چناچہ ہمایوں شفایاب ہوگیا اوربابر چل بسا۔
یونانی برھنگی کی حالت میں طواف کیا کرتے تھے کیوں کہ ان کے ہاں برھنگی صداقت کی علامت تھی۔
سکندراعظم نے جنگ ٹرائے کے ہیرو اکیلیس کی قبر کا طواف مادر زاد برہنہ ہوکر کیا تھا۔ 79



ڈاڑھی مونچھ
۔۔ رومن کیتولک پادری دھرتی دیوی کے پجاریوں کے طرح ڈاڑھی مونچھ کا صفایا کراتے ہیں، سر کے بال گول تھالی کی شکل میں مونڈواتے ہیں، عمر بھر کنوارے رہتے ہیں، رنگ برنگ کے ریشمیں کپڑے پہنتے ہیں۔۔۔ 78-79


ہندوستان۔ عجائب گھر
۔۔ ہندوستان واحد "مہذب" ملک ہے جہاں انسانی شعور کے ارتقاء کے جملہ مراحل ترتیب وار ہمارے سامنے آتے ہیں۔ اس ملک کو قدیم ترین متول، جادو کے ٹونے ٹوٹکوں، دیومالائی ریتوں، اجدادپرستی، بُت پرستی، قبر پرستی، تبرکات پرستی کے ساتھ ساتھ توہمات و خرافات کا عجائب گھر سمجھا جا سکتا ہے جس کی سیر آنے والے وقتوں میں علم انسان اور تقابلی مذہب کے طلبہ کے لئے دلچسپی کا باعث ہوتی رہے گی۔ 83


بت ۔ بُدھ
۔۔ بودھوں نے گوتم بُدھ کے بت تراشنا شروع کئے جیسا کہ گندھارا فنِ سنگ تراشی سے مفہوم ہوتا ہے۔ یاد رہے لفظ بُت بُدھ ہی کی بدلی ہوئی صورت ہے۔ 84



ممنوعہ پھل
۔۔ بنو اسرائیل کے ہاں ناگ خرد و دانش کا نشان بھی تھا جس نے حوا کو شجر ممنوعہ کا پھل کھانے کی ترغیب دی تھی۔ اُن کے خیال میں ممنوعہ پھل کھانا آدم اور حوا کا جنسی مقاربت کرنا ہی تھا۔ 89


گندم
۔۔ گندم اُگانے کا راز سب سے پہلے عورت نے عراق میں دریافت کیا جہان یہ پودا وسطی ایشیا، شمالی افریقہ اور یورپ کو پہنچا۔ باغ عدن کی روایت دوآبہ دجلہ و فرات ہی سے وابستہ ہے۔ 96



چاول
چاول وادی سندھ سے جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک کو گیا۔ دنیا میں سب سے پہلے اسی وادی میں پہلے چاول کی کاشت کی گئی تھی۔ ہڑپا اور موئن جو دڑو کے کھنڈروں سے چاول کے دانے دستیاب ہوئے ہیں۔ 97



گوشت
۔۔ گوشت انسان کی اولین غذائوں میں سے ایک ہے۔ اس کی دو معروف قسمیں ہیں، سُرخ اور سفید، گائے، بیل، بکرے، دنبے، بھیڑ کا گوشت سُرخ کہلاتا ہے۔ سفید گوشت مُرغے، تیتر وغیرہ پرندوں کا ہوتا ہے جو زیادہ زُود ہضم اور مُقوی ہوتا ہے۔ 98


۔۔ برہمن گوشت اور انڈا نہیں کھاتے حتی کہ شلجم سے بھی پرہیز کرتے ہیں کہ اس کا رنگ گوشت جیسا ہوتا ہے۔ 99


بُدھ کی موت
ہندوؤں کے برعکس بودھ شروع سے گوشت کھاتے رہے ہیں۔ خود گوتم بُدھ کی موت سور کا گوشت زیادہ مقدار میں کھالینے سے ہوئی تھی۔ 99


سموسہ
سنبوسہ (سموسہ سندھ سے لیا گیا تھا)۔ 101


چھری کانٹا
۔۔ مغربی ممالک میں ۔۔ چُھری کانٹا کا رواج وسطی زمانے کے یورپ میں ہوا۔ وینس کے ایک حاکم ڈوگے کی بیوی دومی نیکو سلویا نہایت نازک مزاج تھی۔ کھاتے وقت شوربے سے انگلیاں لتھڑنا یا ہاتھ سے گوشت کے قتلے اُٹھانا اُسے ناگوار گذرتا تھا۔ یہ دیکھ کر اُس کے شوہر نے اُس کے لئے سونے کا ایک کانٹا بنوادیا جس سے وہ کھانے میں کام لینے لگی۔ بعد میں فرانس کے امیر مونتاسیر نے کانٹے پر چُھری کا اضافہ کیا اور یہ طریقہ مغرب میں ہر کہیں پھیل گیا۔ 102


۔۔ کھانے سے پہلے دعا مانگنے کی روایت مصری ہے۔ 102


مفت خور
۔۔ عرب مفت خوروں کو طفیلیہ کہتے تھے۔ کوفہ میں ایک شخص طفیل نامی رہتا تھا جو کسی نہ کسی بہانے دعوتوں میں شریک ہوجاتا تھا۔ اُسی کے نام پر مفت خوروں کا طفیل خوار یا طفیلیہ کہنے لگے۔ 104


چائے
۔۔ چین میں قدیم زمانے سے ناشتے کے ساتھ چائے پی جاتی تھی۔ ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی کے اہل کار سترھویں صدی کے اوائل میں چائے کو مغربی ممالک میں لائے۔ اس سے پہلے اہل مغرب ناشتے میں بئیر یا چاکولیٹ پیا کرتے تھے۔ 1645ء میں چائے پینے کا رواج انگلستان بھر میں ہوگیا۔ چین میں چائے اُس پانی کو کہتے ہیں جس میں پتیاں اُبالی جاتی ہیں۔ مغرب میں پتیوں کو چائے کہنے لگے۔
چین اور جاپان میں چائے بغیر شکر اور دودھ کے پی چاتی ہے۔ اس میں دودھ اور شکر ملانے کا رواج ہندوستان میں ہوا۔ 105


پان
۔۔ پان سندھ کے طبیب اسے دربار بنوعباس میں لے گئے جہاں اس میں لونگ کا اضافہ کیا گیا۔ 107


جام جمشید
۔۔ فردوسی کہتا ہے کہ جمشید شاہِ ایران نے شراب کشید کرنے کا طریقہ دریافت کیا اور اس کے پینے کا آداب وضع کئے تھے۔ جامِ جمشید اور جامِ جم کی تلمیح فارسی سے اردو شاعری میں آئی۔ 110


۔۔ سکاٹ لینڈ کی وسکی، روس کی واڈکا، جاپان کی ساکی، انگلستان کی جِن تیز نشہ لاتی ہیں۔ 110


نبیذ
۔۔ عربوں کے ہاں نبیذ پینے کا رواج رہا ہے جو کشمش اور خرما کا غیساندہ ہے۔ ۔۔۔ کہتے ہیں کہ نبیذ حرارت عزیزی کو بحال رکھتی ہے اور بڑھاپے کی کمزوری سے بچاتی ہے۔ عراق کے فقہاء نے نبیذ کی حلت کا فتوی دیا تو اس کے پردے میں شراب نوشی کا رواج عام ہوگیا۔ 111


کپاس
۔۔ کپاس کا پودا سب سے پہلے سندھ میں کاشت کیا گیا۔ موئن جو دڑو اور ہڑپا کپاس بیلنے، سُوت کاتنے اور کپڑا بننے کے مرکز بن گئے۔ ان کا بُنا ہوا سوتی کپڑا عراق کے شہروں کو برآمد کیا جاتا تھا۔ سوتی کپڑا بُننے کی صنعت وادی سندھ ہی سے عراق کو پہنچی تھی۔ 116


۔۔ صلیبی جنگوں سے پہلے عیسائی سلاطین و امراء ننگ دھڑنگ سویا کرتے تھے، شب خوابی کا لباس عربوں کی دیکھا دیکھی اختیار کیا۔ 119


خیاطی در ہند
۔۔ مسلمانوں کی آمد سے پہلے ہندو کمر سے لنگوٹی باندھتے تھے اور ننگے پاؤں ننگے سر رہتے تھے عورتیں ایک بے سلی چادر کمر سے باندھ کر اس کا پلو سر پر ڈال لیتی تھیں۔ اسے ساری کہتے ہیں۔ بابر کی تزک سے معلوم ہوتا ہے کہ ہند میں خیاطی کا ہنر نہیں تھا۔ خیاط مسلمان حملہ آوروں کے ساتھ ایران اور خراسان سے آئے تھے۔ 120


نقاب
۔۔ ایران، خراسان اور ترکستان میں عورتیں چہروں پر نقاب ڈال لیتی تھیں۔ لیکن آنکھیں کُھلی رکھتی تھیں۔ تاجیک عورتیں گھوڑے کی دُم کے بالوں کا نقاب اوڑھتی تھیں جسے رُوبند کہا جاتا تھا۔
پرانے زمانے میں نظر بد سے بچنے کے لئے عورتیں اور خوبصورت مرد نقاب اوڑھا کرتے تھے۔ محمد بن عمرہ کندی شاعر نقاب پہن کر باہر نکلتا تھا۔ امین الرشید نقاب کے بغیر دربار میں نہیں آتا تھا۔ تنجہ اور الجزیرہ کے ملثمین (لثام یا نقاب اوڑھنے والے) کھلے منہ باہر نہیں نکلتے تھے حالاں کہ اُن کی عورتیں کھلے منہ باہر جاتی تھی۔ 120


شلوار
۔۔ شلوار ایران سے آئی، عربوں نے اسے سروال بنالیا، سکھ عورتوں نے سُتھنا کہہ کر اسے اپنا لیا۔ 121


۔۔ انیسویں صدی میں مغربی عورتوں کالباس ٹخنوں تک ہوتا تھا پھر جو گھٹنا شروع ہوا تو بیسویں صدی کے اوائل میں گھٹنوں کے اوپر تک گیا اور اب جنوبی ممالک میں چڈی کی صورت اخیتار کرتا جا رہا ہے۔ 122


۔۔ سکندر اعظم نے تاریخ میں پہلی بار اپنے سپاہیوں کی ڈاڑھیاں مونڈا دیں کہ لڑائی میں ڈاڑھی سے دشمن کے قابو میں نہ آجائیں۔ 124


۔۔ ابن بطوطہ کہتا ہے کہ ہندوستان میں مسلمان عورتیں کان نہیں چھدواتیں جب کہ ہندو عورتیں کان چھدوا کر بالیاں پہنتی ہیں۔ 125


الفیہ
۔۔ کشیدہ قامت عورت (عربوں کی الفیہ یعنی ا کی طرح سیدھی، ایرانیوں کی سروِرواں) جس کے ہاتھ پاؤں چھوٹے چھوٹے اور گداز ہوں خاص طور سے خوبصورت سمجھی جاتی ہے۔ 126


عشق مشک
نپولین کی ملکہ اپنا رومال مُشک میں بسائے رکھتی تھی۔ سیمی رامیس، یزبل، میسالینا، ہیلن، دلائلہ، تائیس، تھیوڈورا، اور کلیوپیٹرا کی بے پناہ جنسی کشش کا راز عطریات ہی میں تھا۔ شیکسپیئر کلوپییٹرا کے بارے میں کہتا ہے کہ وہ اپنا بدن اور لباس اسقدر مُعطر رکھتی تھی کہ ہوائیں بھی اس کے عشق کی مستی میں گرانبار ہوجاتی تھیں۔ فرانس کی ایک حسینہ جبریلے نے شاہ ہنری چہارم کو پسینہ پونچنے کے لئے اپنا مشک میں بسایا ہوا رومال دیا تو وہ اس کے عشق میں دیوانہ ہوگیا۔ ترکستان اور ایران میں غالیہ، ند، مُر، عود، اور عنبر بہت مقبول خوشبوئیں تھیں۔ 128


کاجل
۔۔ ہمارے ہاں عورتیں زیبائیش کے لئے آنکھوں میں کاجل لگاتی ہیں۔ ابتداء میں کاجل بدروحوں کو بھگانے کے لئے لگایا جاتا تھا۔ 129


مساگ
۔۔ پنجابی عورتیں ہونٹوں اور دانتوں پر اخروٹ کے درخت کی چھال ملتی ہیں جسے سندھ میں مُساگ اور پنجچاب میں چھوڈا یا سکڑا کہا جاتا ہے۔ اس سے دانت صاف ہوکر چمکنے لگتے ہیں اور ہونٹوں پر سرخی کالالکھا جم جاتا ہے۔ 129


مصافحہ
۔۔ قدیم زمانے میں ہاتھ اُٹھا کر یا مصافحہ کر کے ملنے سے یہ جتلانا مقصود ہوتا تھا کہ میرے ہاتھ خالی ہیں اور میرے پاس کوئی ہتھیار نہیں ہے جس سے کسی قسم کا خطرہ ہوسکتا ہو۔ یہ رواج اُس دور سے یادگار ہے جس ہر وقت ہر شخص سے جان کا خطرہ لاحق رہتا تھا۔ 130


۔۔ جلال الدین اکبر نے زمین بوس کا رواج دیا یعنی اُس کے سامنے جاکر لوگ زمین چومتے تھے۔ ۔۔۔۔ لکھنو اور دلی میں شرعی سلام علیک ترک کردیا گیا اور ایک دوسرے کو آداب یا تسلیمات کہنے لگے۔ 131


۔۔ چہار زانو نشست کو فرعونی کہا جاتا تھا۔ 132


طبقاتی معاشرہ
۔۔ زرعی انقلاب کے بعد ریاست صورت پذیر ہوئی جس کے ساتھ معاشرہ انسانی مختلف طبقات میں بٹ گیا۔ بادشاہوں اور اُن کے حاشیہ نشینوں نے اقتدار پر قبضہ جمالیا۔ محنت کش کاریگر اور کسان ان کے لئے عیش و عشرت کے سامان فراہم کرنے پر مامور ہوئے۔ اس طرح دو بڑے طبقات معرض وجود میں آگئے۔ سلاطین، اُمراء اور پروھتوں کا طفیل خوار مقتدر طبقہ اور محنت کش عوام جن کا استحصال وہ کرتے تھے۔ قدیم مصر میں فرعون، اُس کے درباریوں اور پروھتوں کا سب سے طاقتور طبقہ تھا۔ اُن کے بعد بتدریج گوالے، سورچرانے والے، تاجر، ملاح اور کسان آتے تھے۔ کنفیوشس نے چین میں جس معاشرے کی طرح ڈالی اۡس میں عالموں کی عظمت قائم کی۔ وہ حکومت کے اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔ ان کے بعد کسان، کاریگر اور تاجر تھے۔ تاجروں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا کیوں کہ کاریگر اور کسان محنت مشقت کر کے روزی کماتے ہیں جب کہ تاجر اجناس اور مصنوعات کا محض تبادلہ کرکے دولت سمیٹ لیتے ہیں۔ ۔۔ عرب تجارت کو شریف تریں پیشہ سمجھتے تھے اور کسانوں کے حقیر جانتے تھے۔ 134


۔۔ عربی موسیقی اصلاً عجمی ہے۔ خسروپرویز کے سرباری گویوں بارپد اورنگیسا نے ایرانی موسیقی کو بامِ کمال تک پہنچا دیا۔ نو مسلم عجمیوں نے ایرانی دُھنوں کو عربی اشعار میں منتقل کیا۔ اکابر مغنی سیاط، فلیح، زلزل، ابراہیم موصلی، اسحٰق موصلی، طولیس، زریاب سب عجمی تھے۔ 140


سازینہ یا آرکیسٹرا
۔۔ سازینہ یا آرکیسٹرا سب سے پہلے ہارون الرشید کے عہد میں ترتیب دیا گیا۔ اُس کے سامنے عود، چنگ، صنج اور دف بجانے والی کنیزیں اپنے اپنے ساز لے کر الگ الگ پرلے باندھ کر کھڑی ہوجاتی تھیں اور باری باری یا مل کر اپنے اپنے ساز بجاتی تھیں۔ ۔۔۔
ایک ماہر موسیقار ہاتھ میں قضیب (چھوٹی سی چھڑی) لئے اسے کے اشاروں سے کنیزوں کو ہدایت دیا کرتا تھا۔ جیسا کہ مغرب کے آرکیسٹر میں کنڈکٹر کرتا ہے۔ بعد میں سازینہ کا یہ اسلوب دوسرے ممالک میں بھی رواج پا گیا۔ 141


سرکس کے شیر
۔۔ نواب اور مہاراجے کسی سرکس کا شیر جنگل میں چوڑ دیتے اور صاحب بہادر اُسے مار کر اپنی بہادری کا چرچا کیا کرتے تھے۔ 145


پولو
۔۔ عربوں کے واسطے سے چوگان، یورپ تک پہنچ گیا۔ آج کل اسے پولو کہا جاتا ہے۔ 146


۔۔ فٹ بال اور تاش چین کی دین ہے۔ 146-147


شطرنج
۔۔ شطرنج اصل میں چترانگ (چار پہلو) تھا جو ہندو راجاؤں کی فوج کے چار شعبوں پیدل، پیلا (فیل)، گھڑسواروں اور رتھوں کی رعایت سے ایجاد کیا گیا۔ اس کی ایجاد سندھ کے ایک بودھ سوامی سسّہ سے منسوب ہے۔ نوشیرواں کا وزیر برزویہ اسے ایران لے گیا جہاں سے عربوں نے اسے مغرب تک پہنچادیا۔ بنو عباس شطرنج کھیلا کرتے تھے۔ ہارون رشید نے ہاتھی دانت کا ایک خوبصورت شطرنج شارلیمان شاہِ فرانس کو بھجوایا تھا جو آج بھی پیرس کے ایک عجائب گھر میں محفوظ ہے۔ بعض سلاطین سونے کے جڑواؤ مُہر بنواتے تھے جن میں فیل، گھوڑے، رتھوں اور پیدلوں کی صورتیں بنوائی جاتی تھیں۔
ہندوستان کا منتری ایران جاکر فرزین (مشیر وزیر) بن گیا۔ اہلِ مغرب نے اسے ملکہ بنادیا کیوں کہ ان کے دربار میں ملکہ بادشاہ کے ساتھ تخت پر بیٹھا کرتی تھی اور بڑی صاحبِ اخیتار ہوتی تھی۔ اس کی ایک مثال فرڈینیڈ شاہ ہسپانیہ کی ملکہ ازابیلا پیش کرتی ہے۔ شطرنج کے مُہروں کی چال معین ہے۔ بادشاہ پر کسی مُہرے کی زد پڑے تو کھیلنے والا آواز دیتا ہے "شہ" یا شکست اور بادشاہ کے لئے چال چلنے کا کوئی خانہ نہ رہے تو اسے شہ مات یا مات کہتے ہیں۔ بعض مغل بادشاہ زندہ شطرنج کھیلتے تھے۔ حسین کنیزیں ہتھیاروں سے مُسلح مُہرے بن کر اپنے اپنے خانوں میں کھڑے ہوجاتی تھیں اور تیغ زنی کے جوہر دکھاتی تھیں جب کوئی مُہرہ پٹ جاتا تو اُس کی کنیز بساط سے باہر نکل جاتی تھی۔ شطرنج ایک نہایت پیچیدہ کھیل ہے جس کے عُقدے سُلجھانے پر بہترین دماغوں کا زور صرف ہوتا رہا ہے۔ آج کل روسی عورتیں مرد اس کے بہترین کھلاڑی سمجھے جاتے ہیں۔ اس کھیل پر بڑی بڑی صخیم کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ 147-148



۔۔ ہمارے ہاں کے بچوں اور بچیوں کے پسندیدہ کھیل: گڑے گڑیا کا بیاہ، آنکھ مچولی، چیل جھپٹّا، باگھ بکری، دب دبولی، کِیڑکڑانگا، گلی ڈنڈا، قاضی مُلّا، سِت کُدی، ٹھیکری مار، شاہ شٹاپوُ، ٹہنا تھال، گیڑیاں، چیچو چیچ گھچولیاں وغیرہ۔ 150


نوروز
۔۔ ایک روایت کے مطابق یہ جشن جمشید نے پہلی بار منایا تھا۔ 151


جرمنی کے بعض دیہات میں کرسمس کے بعد چوتھے روز بچے ماں باپ کی پٹائی کرتے ہیں۔ بلغاریہ میں اس روز نوکر اپنے آقا پر حکم چلاتے ہیں۔ اس سے ملتی چلتی ایک رسم ایران میں تھی جسے مردِ گیراں کہتے تھے۔ ایک روز کے لئے عورتوں کے حکومت مردوں پر قائم ہوجاتی تھی اور مرد کو عورت کی ہر فرمائش پورا کرنی پڑتی تھی۔ 153


بسنت
۔۔ ماگھ کی پانچویں کو بسنت یا بہار کی آمد کاتہوار منایا جاتا ہے۔ چاروں طرف گانے بجانے کی آوازیں آتی ہیں، ایک دوسرے پر گلال پھینکتے ہیں۔ پنجاب میں اس روز رنگ برنگ کی پتنگیں اُڑائی جاتی ہیں۔ بچے جوان بوڑھے پتنگ بازی کے مقابلوں میں جوش و خروش سے حصہ لیتے ہیں۔ عورتیں بسنتی جوڑے یعنی سرسوں کے پھولوں کے رنگ کا زرد بلاس پہنتی ہیں۔ 154


بادشاہ
۔۔ بادشاہوں کی اکثریت کم سواد، بے شعور اور برخود غلط احمقوں پر مشتمل تھی۔ وہ اپنے آپ کو زمین پر خدا کا نائب سمجھتے تھے۔ چنگیز خاں کہا کرتا تھا۔ "اُوپر خدا نیچے خان"۔۔۔ 159


۔۔ جلال الدین اکبر صبح سویرے درشن کے جھروکے میں کھڑا ہوتا تھا اور ہزاروں آدمی اُسے دیکھتے ہی سجدے میں گر پڑتے تھے۔ 160


سکندر کے سینگ
۔۔ سکندر اعظم اپنے تاج پر مصر کے دیوتا آمن رع کے مقدس بیل کے سینگوں کا نشان پہنا کرتا تھا۔ 160


عمر قید کی سزا
۔۔ (ارتھ شاستر میں قانون کی ایک شق۔۔) کنواری لڑکی جس کی نسبت کہیں نہ ٹھری ہو اگر اپنی مرضی سے کسی شخص کے ساتھ خلوت میں جاتی تو سزا کے طور پر دونوں کو بیاہ کردیا جاتا تھا گویا عمر قید کی سزا دی جاتی تھی۔ 169

۔۔ رومہ میں چوری کی سزا یہ تھی کہ چور موقع پر پکڑا جاتا تو اسے صاحب خانہ کی غلامی میں دے دیا جاتا تھا۔ 170


گوبھی کا پھول
۔۔ اُنیسویں صدی کے اواخر تک انگلستان میں گوبھی کا پھول یا بھیڑ چرانے کی سزا موت تھی۔ بچوں کو بھی معاف نہیں کیا جاتا تھا۔ 170


۔۔ آٹھویں نویں صدیوں میں برہمنوں نے بودھوں کا استحصال اس بے رحمی سے کرایا کہ بُدھ مت جو ہندوستان کے کونے کونے میں پھیل چکا تھا حرفِ غلط کی طرح مٹادیا گیا۔ بودھوں کے ستوپے اور دیہارے آگ لگا کر خاکستر کردئیے گئے اور بودھوں کو اُونٹتے ہوئے تیل میں پھکوا دیا گیا۔ 170


۔۔ اورنگزیب نے دکن کے شیعہ مملکتوں پر کئی سال حملے جاری رکھے اور انہیں برباد کرکے دم لیا۔ 171


۔۔ مذہبی اختلاف کی بنا پر قتل کرنا زیادہ عبرت ناک ہے کہ اِس جُرم پر قاتل کی ضمیر اُسے پریشان نہیں کرتی۔ 171


۔۔ آقاؤں اور غلاموں کی آویزش بعد میں جاگیرداروں اور مزارعوں کی چپقلش میں بدل گئی۔ 174


مولیٰ/ موالی
۔۔ آزادی خریدنے کے بعد غلام اپنے آقا کا مولیٰ بن جاتا تھا، عرب باپ اور لونڈی ماں کے بیٹے ہجین (دوغلے) کہلاتے تھے جنہیں حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ غلام کو اس کے نام لے کر بلانا معیوب تھا۔ اسے تالی پیٹ کر بلایا کرتے تھے۔ 174-175
مولیٰ کا درجہ حُر اور غلام کے بین بین تھا۔ موالی اپنے آقا کے قبیلے سے وابستہ رہتے تھے۔ 176


۔۔ یونان میں دینار سونے کا اور درہم چاندی کا سکہ تھا۔
درہم کا معنی ہے 'مٹھی بھر' (جَو یا گندم) ایک دینار دس درہم کے برابر تھا۔ 178


روپیہ
۔۔ مُغلوں نے روپیہ (رُوپا بہ معنیٰ چاندی) چلایا جو چالیس دام کے برابر تھا۔
جلال الدین اکبر کے حکم پر ٹنکہ اور مُہر پر تاریخ الف ثبت کرائی گئی۔ اس کا مقصد یہ ظاہر کرنا تھا کہ ایک ہزار سال گذر چکے ہیں اور اسلام کا دور گذر چکا ہے، اب دینِ الٰہی کا دور ہے۔ 179


مرزا کا جنازہ
۔۔ بعض اوقات قرض کی وصولی کے لئے مقروض کا جنازہ روک لیا جاتا تھا۔ جب تک گھر والے قرض ادا نہ کرتے جنازہ اُٹھانے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی جیسا کہ مرزا غالب کی وفات پر ہوا تھا۔ 180


وادی سندھ
۔۔ وادی سندھ میں دنیا بھر میں سب سے پہلے چاول اور کپاس کی فصلیں اُگائی گئیں۔ انہیں کشتیوں مین لدوا کر عراق کو برآمد کیا جاتا تھا۔ موئن جو دڑو اور ہڑپا کے شہروں سے سُمیریا کی کچھ مُہریں دستیاب ہوئی ہیں جو سکّوں کے بطور استعمال کی جاتی تھیں۔ دراوڑوں سے جو باٹ ملے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ لین دین کے کھرے تھے۔ 180


شمن مت
۔۔ شمن (لغوی معنی بزرگ، سیانا) مت میں علاجِ امراض اور غیب کی حال بتلانے کے لئے روحوں سے رجوع لاتے تھے۔ ترکستان اور ملایا میں شمن انسانوں اور روحوں کے مابین ضروری واسطے سمجھے جاتھے تھے۔ شمن ہمیشہ وجد و حال کے عالم میں پیش گوئی کیا کرتا تھا۔ عقیدہ یہ تھا کہ ازخود رفتگی کے عالم میں شمن کی زبان سے روحیں کلام کرتی ہیں۔ اس حالت میں شمن کی روح اپنے بدن سے جُدا ہوکر کسی مُردہ آدمی یا جانور کے قالب میں منتقل کی جاسکتی ہے۔
شمن اور جادوگر میں فرق ہے۔ شمن ہمزاد کی مدد سے بدروحوں کو بھگادیتا ہے جب کہ جادوگر منتروں کے زور سے بدارواح پر قابو پالیتا ہے۔ 185


۔۔ کہتے ہیں جن نمک، لوہے، حرمل، مہندی، اور چمڑے سے دور بھاگتے ہیں۔ تیز روشنی کے قریب بھی نہیں پھٹکتے۔ 186


۔۔ سندھ میں عام کسبی کو رنگیلی کہتے ہیں 189

(کسبیوں کے دھندوں سے) جو محصول لیا جاتا تھا اس سے پولیس والوں کو تنخواہیں دی جاتی تھی۔ 189


۔۔ اُمراء اپنے بیٹوں کو آداب محفل سکھانے کے لئے طبقے کے ڈیروں پر بھیجا کرتے تھے۔ اس ضمن میں یونان کی ہٹیرا، جاپان کی گیشا، ہند کی ویشیا اورلکھنو کی ڈیرہ دار طوائف قابلِ ذکر ہیں۔ 190


۔۔ عیسائی راہبوں اور راہبات کو ایک بات دوسروں بے شرع و بے قید لوگوں سے ممتاز کرتی تھی۔ وہ عمر بھر غسل نہیں کرتے تھے کہ ان کے خیال میں بدن کی صفائی سے نفسانی خواہشات غلبہ پالیتی ہیں۔ وہ جوؤں کو "خدا کے موتی" کہا کرتے تھے۔ 195


۔۔ سندھ سے منکہ، بہلا اور فلبرفل جیسے معالج بنو عباس کے دربار میں باریاب ہوئے اور آیورویدک اور طب یونانی کا امتزاج عمل میں آیا۔ 198

_______________________________________________
Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...