FIKRism

Saturday, February 27, 2010

Wadiye Sindh Aur Tehzeeben_Excerpts

وادئ سندھ اور تہذیبیں
سرمورٹیمروھیلر
اشاعت: ستمبر2003





موہن جو دڑو
۔۔ در حقیقت یہ باقاعدہ شہری منصوبہ بندی کی اب تک ظاہر ہونے والی سب سے پرانی مثال ہے۔ 12

۔۔ قدیم ایشیا میں یہ طرز کا سب سے مکمل نمونہ ہے۔ سارے شہر سے یہ عیاں ہے کہ اس کے عروج کے وقت وہاں خوشحال متوسط طبقہ آباد تھا اور بلدیاتی نظام بڑے جوش و خروش سے چلایا جاتا تھا۔ 12

۔۔عام طور سے یہاں بادشاہ اور مذہبی پیشواؤں کی جس ملی جلی طرزِ حکومت کا اندازہ ہوتا ہے۔ 11

۔۔ سرکاری غلہ گودام موجود تھے اس گودام کی حیثیت ایک جدید قومی بینک جیسی تصور کی جاسکتی ہے۔ 11
۔۔ اناج کے گوداموں کے فرشوں کا کل رقبہ کوئی ۹ ہزار مربع فٹ تھا۔ 14

۔۔ موہن جو داڑو میں صفائی کے اعلٰی انتظامیات پر آج بھی دنیا کے بہت سے حصوں میں رشک کیا جاسکتا ہے۔ 28

۔۔ (صابن؟) مٹی کے بنی تکونے ڈھیلے غالباً جسمانی صفائی کے کام آتے تھے۔ 29


۔۔ پچھلے چار ہزار برسوں میں ان علاقوں پر وقتاً فوقتاً جو حملے ہوئے ہوں گے وہ یقیناً ایسے لوگوں نے کیے ہوں گے جو جسمانی ساخت کے لحاظ سے ان لوگوں سے ملتے جلتے یا پھر یہ حملےاتنے چھوٹے پیمانے پر ہوئے کہ ان کی وجہ سے جسمانی خصوصیات میں کوئی نمایاں تبدیلی نہ ہوسکی۔ بہتات لمبے والوں کی
dolichocehalic
تھی۔
[اس اعتبار سے یہ 'حملے' بیرونی نہیں تھے بلکہ ان کے آپس میں لڑائیوں اور پھڈوں کی وجہ تھے۔ ابڑو]

۔۔ بظاہر یہ قبرستان عام شہریوں کا تھا۔ اس میں کوئی 60 ڈھانچے ملے ہیں۔ ڈھانچے اس طرح قبرستان میں دفنائے گئے ہیں کہ ان کا سر شمال کی جانب تھا اورہر ایک کے ساتھ اوسطاً 15 یا 20 مٹی کے برتن دبائے گئے تھے جن سے سندھ کے تمدن کے بختہ دور کا پتہ چلتا ہے۔ 33

۔۔ بالغان قد میں پانچ فٹ پانچ انچ سے پانچ فٹ آٹھہ انچ تک کے ہوتے تھے۔ 34
لوگوں کا اوسط عرصہ حیات کم تھا۔ (20-40 سال)

۔۔ بیشتر مہروں پر کچھ تصویری تحریر
(Pictograghic Script)
بھی ہے لیکن غیر معمولی کاوشوں کے باوجود ابھی تک اس تحریر کو پڑھا نہیں جا سکا ہے۔ یہ تصویری تحریریں میسوپوٹیمیا اور مصر کی تصویری تحریروں سے اتنی ہی مختلف ہیں جتنی یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا ہیں۔ یہ ایک دلچسپ بات ہے کہ ایک محدود وقت اور علاقے کے اندر ارتقا پانے والی تین عظیم تہذیبوں نے تین قطعاً مختلف اسالیبِ تحریر کی تخلیق کی۔ 36

۔۔ ۔۔۔ ان مہروں کے مکمل مقصد کا صرف موہن جو داڑو میں 1200 سے زیادہ ایسی مہریں ملی ہیں لیکن ان کے مقصد و مصرف کی یقینی طور سے تب تک کوئی تعین نہیں کیا جا سکتا جب تک ان پر کندا تحریر کو سمجھ نہیں لیا جاتا۔ ۔۔۔ ان میں سے کچھ پر لوگوں کے ذاتی نام کندہ ہیں۔ ایک دشواری یہ ہے کہ ایک ہی تحریر والی ایک سے زائد مہریں بہت کم پائی گئی ہیں۔ لیکن اس سے کم از کم یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی مذہبی یا بیانیہ نوعیت کی تحریر نہیں تھی۔ ۔۔۔ برتنوں یا ٹھیکریوں پر بھی یہی تحریر کندہ پائی گئی ہے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ ہوگا کہ سندھ کی آبادی خاصی حد تک خواندہ تھی۔ 37

۔۔ میسوپوٹیمیا والے مجسمے اُلو کی طرح گھورتے
(Owl Like Staring)
دکھائے گئے ہیں۔ اس لحاظ سے سندھ کی تہذیب کے مجسمے ان سے بہت مختلف ہیں کیونکہ ان میں غوروفکر کی محویت نظر آتی ہے۔
دراصل دونوں خطوں کی مجسمہ سازی میں کوئی چیز نمایاں طور سے مشترک نہیں۔ 37-38

۔۔ یہ امر قبلِ غور ہے کہ بیلوں کے مجسمے ہیں گایوں کے نہیں ہیں، مرغیوں کے ہیں مرغوں کے نہیں ہیں، ظاہر ہے کہ بوجھہ ڈھونے والے بیل اور انڈے دینے والی مرغی کو ترجیح حاصل تھی۔ 38

۔۔ سندھ کی تہذیب اس بات کی مثال مہیا کرتی ہے کہ گہنوں اور طلسمی تعویذوں (یا ان کے نمونوں) کا ایک سے دوسری تہذیب میں تبادلہ ہوتا رہتا تھا لیکن ساتھ ہی ساتھ تکنیکی طور پر بنیادی آزادروی بھی تھی۔ یہ مثال بالکل واضح ہے مگر اس کی مثال نہیں ہے۔ 40-41

۔۔ سندھ کی تہذیب کے مٹی کے برتنوں سے عام تاثر یہ ہوتا ہے کہ بڑی کاریگری سے ساتھ انہیں بڑے پیمانے پر تیار کیا جاتا تھا۔ 41
[کیا بڑے پیمانے پر تیار کرنے کا مقصد انہیں بیچنا یا درآمد کرنا ہوتا تھا؟ یا فارغ وقت میں یہ ان کے محبوب مشاغل میں سے تھا؟۔۔ ابڑو]

۔۔! سندھ کی وادی کی تہذیب ایسی نہیں تھی کہ وادی کے اندر یا کہیں اور دوسرے تمدنوں کو فوراً ہی اپنے اندر سمیٹ کر جذب کرے۔ 44

۔۔ سب سے پہلے اس بات پر زور دینا ہوگا کہ کسی تجسس پسند ذہن کے لیے وادئ سندھ پرکشش بھی ہے اور اسے عقدہ کشائی کے لیے للکارتی بھی ہے۔ اُس وقت میں یہ کچھ حد تک دلدلی جنگلوں کا علاقہ تھا جہاں آزارکن درندے بستے تھے۔ ان ہی درندوں کی شبیہیں سندھ کی مہروں کی زینت بنیں۔ اس وادی کے میدان دور دور تک زرخیز تھے۔ ۔۔۔
ذہنی طور پر اس تہذیب کے بانیوں کو ایک بڑی برتری حاصل تھی۔ ان سے کچھ ہی پہلے دو عظیم دریائی تہذیبیں وجود میں آچکی تھیں۔ میسوپوٹیمیا اور مصر میں۔ مادی اعتبار سے ان دونوں میں سے کوئی بھی تہذیب اس کی جنم داتا یا فوری منبع نہیں سمجھی جاسکتی، سندھ کی تہذیب کے اپنے انفرادی اسالیب ہوتے تھے اور طرزِتحریر، اس کی نوعیت جداگانہ تھی اور یہ مغرب کی محض نوآبادی نییں تھی، ۔۔۔ 47-48، 65

۔۔ متعدد ٹیڑھے میڑھے مجسموں سے ظاہر ہوتا ہے کہ موہن جو داڑو میں پکائی مٹی کی مورتیاں بنانے والے مزاحیہ طبیعت کے تھے۔ 64 (تصویر)

۔۔ موہن جو داڑو میں وقتاً فوقتاً سیلاب آنے کی وجہ خواہ کچھ بھی ہو مگر ان سیلابوں سے زمین اور عمارتوں کی حالت برابر خستہ ہوتی گئی۔ اس عمل سے یقیناً یہ سیلاب وہاں کے باسندوں کے حوصلے پست کرنے میں معاون ہوئے۔ ۔۔۔ موہن جو داڑو کےانجام کے بارے میں ایک بات بالکل عیاں ہے۔ اپنے خاتمے سےپیشتر یہ شہر دھیرے دھیرے مرتا رہا تھا۔ 79

۔۔ تہذیب سندھ کے بہت سے مقامات پر پائے گئے منکے اور زیورات سے مغرب کی قدیم تہذیبوں کے ساتھ تعلقات کا صاف پتہ چلتا ہے۔ 84 (تصویر)

۔۔ تہذیب سندھ کے مٹی کے برتن اکثر بہت نفیس قسم کے ہوتے ہیں اور بیشتر چاک پر بنے ہیں۔ 85 (تصویر)

۔۔!!! برسوں پہلے میں نے قیاس پیش کیا تھا کہ برصغیر کے شمال مغرب پر یلغار کرنے والے آریہ لوگ اس تہذیب کی آخری تباہی کا باعث تھے۔ یہ ثابت نہیں کیا جاسکتا اور بالکل غلط بھی ہوسکتا ہے۔ 97

۔۔ جن کروڑوں لوگوں نے اس جنس (چاول) کو اپنی خوراک کا سب سے بڑا حصہ بنایا ہے ان کی جسمانی اور ذہنی ساخت پر اس کے اثر کو جتنی بھی اہمیت دی جائے کم ہے ۔۔۔ مذہب کے اِکادُکا ناطوں یا کچھ عام معیاروں کے باوجود گیہوں کھانے والے پنجابی کسان اور چاول کھانے والے بنگالی کسان کے درمیان اختلافات نمایاں ہیں۔ 108

۔۔ ٹیکسلا (بھیر ٹیلا سکاپ) پے پائی گئی بہت سی اشیاء میں فارس والوں، یونانیوں اور پارتھینیوں کا غیر ملکی تاثر عیاں ہے۔ 127 (تصویر)

۔۔ ہیروڈوٹس نے تھوڑے عرصے بعد (486 ق م) "انڈیا" کو سلطنتِ فارس کا سب سے آخری اور خوشحال صوبہ بیان کیا ہے۔ 137

۔۔ چناچہ اس سرحدی علاقے (ٹیکسلا، پشکلاوتی) میں چھٹی صدی قبل مسیح کے بعد کے حصے میں یا اس سے بھی پہلے لوہے کا ستعمال ہونے لگا تھا۔ 140

۔۔ تب 327 ق م میں سکندر اعظم کی آمد ہوئی، وسطی ایشیا میں اس کی مداخلت صرف چند مہینوں کا واقعہ تھا لیکن اس کے سیاسی اور تمدنی نتائج بہت عظیم تھے۔ اس کے بعد کے واقعات انقلابانہ نوعیت کے تھے سیاسی طور پر اس سے شمال میں اتنے بڑے پیمانے پر ہندوستانی قومی بیداری عمل میں آئی جس کی پہلے کوئی مثال نہ تھی۔
نقطہ آغاز 330 ق م سمجھا جاسکتا ہے جب آخری دارا کو فاتح کی حدِشنوائی کے اندر قتل کیا گیا تھا اور(اصطخر پولس) کےاس کے محل کو جلا دیا گیا تھا ۔ فارس کے عظیم بادشاہوں کا دور ختم ہو چکا تھا۔ سکندر نے انسانیت اور ذاتی مفاد کے مخلوط مقاصد کے زیرِاثر فارس کے مفتوحہ شہروں کی حفاظت کرنے اور اپنے آپ کو خودساختہ وارث مقرر کرکے اکائمینی حکومت کو دوام بخشنے کی خواہ کتنی ہی کوشش کی مگر وہ زمانے کی رَو کو پلٹ ہی نہیں سکتا تھا۔
سلطنتِ موریہ
اس کے بعد جو کچھ ہو اس کا نقشہ کھینچنا مشکل نہیں ہے۔ سکندر پنجاب سے مغرب کی طرف لوٹ گیا ور 323 ق م میں بابل میں مر گیا۔ ادھر اس کے مشرقی وارث سلوکس کے مقابلے میں ہندوستانی قومیت حیران کن حد تک بیدار ہوگئی۔ اس قومیت کا فائدہ گنگا کنارے کی ایک چھوٹی سی ریاست مگدھ کا حکمران چندرگپت تھا۔ جو مریہ خاندان کا پہلا راجہ تھا۔ 142-143

۔۔ چندر گپت (موریا) کے پوتے اشوک اعظم نے بودھ مذہب اختیار کرنے کےبعد تیسری صدی ق م کے وسط میں (یادگار ستون) نصب کروائے تھے۔ 159

۔۔ پہییہ جسے شیروں نے اٹھایا ہوتا تھا شہنشاہی حکومت کی ایک علامت تھی۔ بعد میں اسے بدھ نے بودھ دھرم چکر کے روپ میں اپنا لیا۔ 160 (تصویر۔ 150۔ یہ اشوک نے قریب 250 ق م میں نصب کروایا اور اب یہ جمہوریہ ہند کا سرکاری نشان ہے۔)

۔۔ سلطنت فارس کے زوال اور سکندر کے یہاں سے گزرنے کے بعد کی صدی نے برصغیر کے تمدن پر جتنا اثر ڈالا شاید اس سے زیادہ اثر ویسے ہی کسی اور عہد نے نہیں ڈالا ہوگا۔ یوں تو ان واقعات کے ظہور پذیر ہونے سے پیشتر ہی شمالی ہند میں گنگا کے شہروں میں تہذیب کے بہت سے مادی عناصر موجود تھے، لیکن اس کے بعد ہی کے دور میں چندرگپت اور اشوک کی قوی ذہانت نے، جس پر اشوک کے معاملے میں ہندوستانی روحانیت کا شدید تسلط تھا، نئے دھاگوں کو جمع کر کے ان کا ایسا تانابانا بُنا کہ ایک طرح کے قومی انداز کی تخلیق ہوئی، اس عمل کا نتیجہ ہے کہ 2000 برس کے بعد ایک بڑے حصے میں ایک یکجہتی تہذیب وجود میں آئی۔ 162-163

مشرق، وسطی و جنوبی ہندوستان
۔۔ اس بات پر زیادہ بحث کرنے کی ضرورت نہیں کہ وسطی ہند میں تہذیب اچانک طور پر ظہور میں آئی۔ ۔۔۔ یہ عمل پانچویں صدی قبل مسیح کی ابتدا تک ظہور پذیر ہوچکا تھا۔ 169


Wadiye Sindh aur Tehzeeben_Summary

Wadiye Sindh Aur Tehzeeben

Summary:
Barsagheer main tehzeebn Indus Civilization se qareeb 2500 BC main shuru hoti hyn, aur apni irtiqai manazil te karte hue, phelte hue aur bal-akhir zawal pazeer hojati hyn, qareeb 1500 BC tak, Irani Fateheen ki waja se ye Khata North-Western 'South Asia' (Pakistan), ahle-Faras ke soobajat main shamil hojata hy, 3sri Sadi Qabl Maseeh main Irani Badshahon ki Tanazzul Pazeeri aur Sikandar Azam k invasion aur wapsi ke baad Ganga nadi se Mooriya khandan ko moqa milta hy apna Iqtidar haasil karna ka, aur Chandar Gupt aur baad main uske poote Ashok Azam apna tasallut jamate hyn, aur North Pakistan aur South India ko invade karte hyn.
in short: Barsagheer Pak o Hind ki munasbat se moujudah India ka aaj se 4 5 hazar saal pehle koi naam na tha, Sindhoo Maathri se Tehzeeben uthti hyn, apne gard o nawah main phelte hue, apne Urooj se Zawal tak puhuchti hy, qareeb 1000BC main Ganga Jamna k gird tehzeeben pinapti hyn aur baad main neeche (South India) ki taraf safar karti hyn. yani Sindh se shuru karte, Punjab aur East (Ganga Jamna) ki taraf barhte, South India ki taraf 'hawa' chalti hy.
Doosre alfazon main ye bhi kaha ja sakta hy 'Qadeem India' aaj ka Pakistan hy.
sub se pehle SINDH abad hua, 2500BC aur sb se akhir main South India, qareeb 500BC main.

-abro


Tuesday, February 23, 2010

Tabqati Nizam in the Quran

Surah Zakhraf (43), Ayat, 32 ...

32. Is it they who would portion out the Mercy of thy Lord? It is We Who portion out between them their livelihood in the life of this world:and We raise some of them above others in ranks, so that some may commandwork from others. But the Mercy of thy Lord is better than the (wealth)which they amass.

33. And were it not that (all) men might become of one (evil) way of life, We would provide, for everyone that blasphemes against (Allah) MostGracious, silver roofs for their houses and (silver) stair-ways on which togo up,

34. And (silver) doors to their houses, and thrones (of silver) on which they could recline,

35. And also adornments of gold. But all this were nothing but conveniences of the present life: The Hereafter, in the sight of thy Lordis for the Righteous.

___________________________________
Surah Nisaa (04), Ayat: 32

اور اللٰہ نے تم میں سے ایک کو دوسرے پر جو برتری دی ہے اس کی تمنا نہ کرو۔ مرد جو کچھ کماتے ہیں اس میں ان کا حصہ ہے۔ اور عورتیں جو کچھ کماتی ہیں اس میں ان کا حصہ ہے۔

32. And do not covet that by which Allah has made some of you excel others; men shall have the benefit of what they earned women shall have the benefit of what they earn; and ask Allah of His grace; surely Allah knows all things.
___________________________________
Surah Ana'am (06), Ayat: ..165

کہہ دے "کیا میں الٰلہ کے علاوہ کوئی آقا تلاش کروں جبکہ وہی ہر چیز کا آقا ہے:" اور ہر شخص جو کچھ بھی وہ کماتا ہے اس کا زمہ دار ہے، اور کوئی بوجھہ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھہ نہیں اٹھائے گا، پھر تمہارے رب کی طرف تمہاری واپسی ہوگی، اور وہ تمہیں بتائے گا جن باتوں میں تم اختلاف کیا کرتے تھے۔ 164۔

اور وہی تو وہ (خدا) ہے جس نے تمھیں زمین میں (اپنا) نائب بنایا اور تیم میں سے بعض کے بعض پر درجے بلند کئے تاکہ جو (نعمت) تمہیں دی ہے اس میں تمھارا امتحان کرے۔ اس میں تو شک ہی نہیں کہ تمھارا پروردگار بہت جلد عذاب کرنیوالا ہے اور اسمیں بھی شک نہیں کہ وہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔
165



164. Say: What! shall I seek a Lord other than Allah? And He is the Lord of all things; and no soul earns (evil) but againstitself, and no bearer of burden shall bear the burden of another;then to your Lord is your return, so He will inform you of that inwhich you differed.

165. And He it is Who has made you successors in the land and raised some of you above others by (various) grades, that He might try you by what He has given you; surely your Lord is quick to requite (evil), and He is most surely the Forgiving, the Merciful.

Saturday, February 20, 2010

Rooh-e-Asar_Jalalpuri

ROOH-E-ASAR (Zeitgeist)
Ali Abbas Jalalpuri
1969



ابواب:

۔۱ انتسابِ ارواح
۲۔ زرخیزی کی مت
۳۔ اصلاحِ مذاہبِ قدیم
۴۔ آزادی فکر و نظر
۵۔ عالمی شہریت کا تصور
۶۔ عہدِ علم کلام
۷۔ نشاۃ الثانیہ
۸۔ صنعتی انقلاب اور مغربی سامراج
۹۔ صدی رواں اور زوالِ مغرب
۱۰۔ رُوحِ عصرِ حاضر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تت و اقتباس:

۱۔ انتسابِ ارواح
۔۔۔ حجری زمانے کا انسان
۔۔۔ روح کی دریافت
۔۔۔ آگ کی ایجاد
۔۔۔ ٹوٹم، ٹیبو

دنیا کو سورج سے جدا ہوئے ۲ ارب سال گذر گئے۔
Ice age: 5 lac years ago. Last ice age: 5000-25000 years ago.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۲۔ زرخیزی کی مت
۔۔۔ زرخیزی کی ایجاد
۔۔۔ تہذیب و تمدن
۔۔۔ خدا، مذہب
۔۔۔ دیومالا، توہمات
۔۔۔ مقدس عصمت فروشی سے عصمت فروشی
۔۔۔ تیوہار، کارنیولس
۔۔۔ خون کی قربانی
۔۔۔ جنسی بے راہ روی (آزادی)
۔۔۔ لنگ یونی
۔۔۔ سائنس اورمذہب جادوگری کی گود میں
۔۔۔ شادی، نکاح
۔۔۔ غلامی، بردہ فروشی
۔۔۔ ذاتی ملکیت

اقتباسات:

۔۔ سر آرتھر کیتھہ لکھتے ہیں: قدیم سُمیریوں کے نسلی آثار کا کھوج مشرق کی جانب افغانستان اور بلوچستان سے لے کر وادی سندھ تک کے باشندوں میں لگایا جاسکتا ہے جو میوپوٹیمیا سے ڈیڑھ ہزار میل کی مسافت پر واقع ہے۔ ہڑپہ اور مہنجوڈرو کی کھدائی میں ایک ترقی یافتہ تمدّن کے آثار دریافت کئے گئے ہیں۔ ان مقامات سے جو اشیاء کھود کر نکالی گئی ہیں ان میں وہ چَوکور مُہریں خاص طور سے دلچسپی کا باعث ہیں جو ساخت، ہئیت اور نقوش کے لحاظ سے اُن مُہروں سے ملتی جلتی ہیں جو سُمیریا میں پائی گئی تھیں۔۔ 25-26

۔۔ دجلہ، فرات، نیل، سندھ، اور ینگ سی کیانگ کے کناروں پر کی زمین زرخیز تھی۔ 26

۔۔ سامی روایات کی وساطت سے یہ اساطیر بعد میں آنے والی آریائی اقوام یونانیوں، ایرانیوں، اور ہندیوں میں مقبول و مروج ہوئے۔ 38

۔۔ بابل کی سرزمین بیک وقت سحروسیمیا اور علم ہئیت اور ریاضی کا گہوارہ سمجھی جاتی تھی۔
اہلِ بابل کو صائبین بھی کہتے ہیں۔ 47-48

۔۔ مصر میں فرعون اخناتن ۔۔۔ نے تاریخ عالم میں پہلی مرتبہ بُت پرستی اور مجسمہ سازی کے خلاف آواز بلند کی اور آتن کے مجسمے بنانے سے منع کیا۔ 48-49

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۳۔ اصلاحِ مذاہبِ قدیم
(چہٹی صدی قبل مسیح)
۔۔۔ جب بیک وقت میں پوری دنیا میں عظیم مفکر پیدا ہوتے ہیں:
چین میں کنفیوشس
ایران میں زردشت
ہندوستان میں گوتم بدھ
اسرائیل میں یسعیاہ کا گمنام نبی
بحیرہ روم میں طالیس ملیطی

۔۔۔ اور تقدیر کی ایجاد / دریافت

اقتباسات:

۔۔ یہ محض تاریخی اتفاق نہیں ہے کہ بانی فلسفہ طالیس ملیطی نے بھی چھٹی صدی قبل مسیح کا ہی زمانہ پایا۔ 69

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۴۔ آزادی فکر و نظر
(چھٹی صدی سے دوسری صدی قبل مسیح کا دور)
(طالیس ملیطی سے ارسطو تک کا دور)

۔۔۔ ایرانی یلغار نے 'علم' کو یونان کی طرف دھکیل دیا۔
۔۔۔ اوہام و خرافات سے چھٹکارا
۔۔۔ سائنس کا آغاز
۔۔۔ دیوتاوؤں کا مافوق الفطر ہئیت سے انسانی ہئیت میں آنا/اترنا

اقباسات:

۔۔ تاریخ کی ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ ایرانیوں کی فاتحانہ یلغار سے خائف ہوکر ملیطس اور دوسرے ساحلی شہروں کے باشندے بھاگ کر یونان میں جا بسے اور اپنے ساتھ فلسفہ اور سائنس بھی لیتے گئے نتیجتہً طالیس اور اس کے شاگردوں کے افکار ایشیا کی سرزمین میں جڑ بہ پکڑ سکے اور مغرب میں جاکر بارآور ہوئے۔ 71

۔۔ بعض صداقتیں اور قدریں ایسی بھی ہیں جو انسان کی حسّیات سے ماوراء اور مستقل بالذّات ہیں۔ (سقراط) ۔ 74

۔۔ رفتہ فتہ فلسے کی دو متوازی و متخالف روایات کی تشکیل عمل میں آئی جن میں آج بھی نزاع و کشمش جاری ہے۔ ایک طرف روحانیت، باطینیت، عرفان اور مثالیت کی روایات ہے جو فیثاغورس، زینوفینس، پامنی دیس اور افلاطون سے شروع ہوکر فِشٹے، شوپنہار، ہیگل، بریڈلے، کروچے اور ایوکن پر منتہی ہوتی ہے۔ اور دوسری طرف مادیّت کی روایت جو طالیس اور دیماقیطس سے شروع ہوکر ابیقورس، لکریشیس، ہابس، دیدرو، بیل ہنتسمکو، ہیگل، فوئرباخ اور کارل مارکس کے افکار میں کارفرما ہے۔ ارسطو اور کانٹ کا شمار ان فلاسفہ میں ہوتا ہے جو ان دونون روایات میں مطابقت اور مفاہمت کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ 74

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۵۔ عالمی شہریت کا تصور
200 BC to 500 AD

۔۔۔ عالمی شہریت، بین الاقوامیت ، شہنشاہیت
۔۔۔ رواقیت، ابیقوریت

اقتباس:
۔۔ رواقیت کا بانی زینو تھا جو طالیس ملیطی کی طرح فنیقی النسل ایشیائی تھا۔ 81


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۶۔ عہدِ علم کلام
500 AD to 1500 AD

۔۔۔ علم کلام
(عقل و نقل کی تطبیق کو علم کلام کہتے ہیں)
۔۔۔ اینٹی علم کلام
(ابن رشد، ابن خلدون)

اقتباسات:

۔۔ ارسطو کی منطق، افلاطون کی اشراق، فلاطینوس کے عرفان، بقراط کی طب، آریابھٹ اور بطلیموس کی ہئیت نے عربوں کو خاص طور سے متاثر کیا۔ فلاسفہ و منطق کے ذوق نے اہلِ علم کو از سرِ نو اپنے مذہبی اعتقادات کا جائزہ لینے کی تحریک کی۔ اور معتزلہ نے جنہیں اس دور کے مفکرین مین شمار کیا جاتا ہے، عقائد مین غور و فکر کرنے کی ابتداء کی اور علمِ کلام کی ترویج کا باعث ہوئے۔ رفتہ رفتہ اعتزال سے فلسفہ کی جانت گریز ہوا۔ چناچہ یعقوب اسحاق الکندی جو مسلمانوں میں ارسطا طالیسی فلسفہ کا بانی سمجھا جاتا ہے معتزلی العقیدہ ہی تھا۔ 88

۔۔ اسی بنا پر البیرونی کی "الآثار" کے ایڈیٹر نے کہا ہے کہ اگر مسلمانوں میں اشعری اور غزالی نہ ہوتے تہ آج تک ان میں سینکڑوں گلیلیو اور نیوٹن پیدا ہوچکے ہوتے۔
مسلمانوں میں معتزلہ کی آزادی فکر کی تحریک کو متوکل عباسی اور اس کے حاشیہ نشین فقہا نے کچل دیا تھا۔ ابوالحسن اشعری نے معتزلہ کے نظریہ قدر و اختیار کی تردید کے جوش میں قانونِ سبب و مسبب ہی سے انکار کردیا جس سے علمی تحقیق کو ناقابلِ بیان صدمہ پہنچا کیونکہ یہی قانون سائنٹیفک تحقیق کا سنگ بنیاد سمجھا جاسکتا ہے۔ اس کے ساتھ غزالی نے باطینہ اور صوفیہ کے عقائد کو اسلامی تعلیمات میں ممزوج کردیا۔ 89

۔۔ قدیم یونانی تجربات کے قائل نہیں تھے صرف قیاسی استدلال سے علمی نتائج اخذ کرتے تھے۔ 89

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۷۔ نشاۃ الثانیہ
(1500 – 1800)

۔۔۔ یورپ (اٹلی) میں علمی یونان کا احیاء
۔۔۔ سائنس
۔۔۔ کلیسیا، مذہب کا تنزل
۔۔۔ کوپرنیکس، گلیلیو، نیوٹن، کیپلر، دیسلیس، ڈیکارٹ، فرانسس بیکن، پیٹراک، یوکاکیو، مائکل انجلو، رفائیل، تاتیان، والیس کیتھ، کلاد لورین، دا ونچی، شیکسپیر، ایرسمیس، موور، مینٹس، کولمبس، واسکوڈیگاما، ماجیلین، والٹر پیل
۔۔۔ چھاپے خانے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۸۔ صنعتی انقلاب اور مغربی سامراج
(1800- 1900... )
(عروجِ مغرب)

۔۔ اس انقلاب کا آغاز کم و بیش 1730 میں انگلستان مین ہوا جب آرک رائٹ نے سُوت کاتنے کی کل ایجاد کی جو آبی قوت سے چلتی تھی۔
1782 میں جیمز واٹ نے دخانی انجن ایجاد کیا۔
1829 میں لِورپول اور مانچیسٹر کے درمیان ریل کی پٹڑی بچھائی گئی۔
1838 میں پہلی دخانی جہاز "گریٹ ویسٹرن" نے بحراوقیانوس کو عبور کیا۔
1842 میں سموئیل مورس نے تار برقی ایجاد کی۔ ۔۔۔ 111

اس دور کی چند خاص چیزیں:

۔۔۔ صنعت
۔۔۔ نوآبادیات
۔۔۔ مشنری عیسائیت
۔۔۔ اشتراکیت


اقتباسات:

۔۔ "زرعی انقلاب کے بعد صنعتی انقلاب تاریخ عالم میں سب سے بڑا سنگ میل سمجھا جا سکتا ہے۔" 119

۔۔ نظام کلیسا، قانونِ فوجداری، اور سلطنت کے نظم و نسق کے ساتھ سامراج بھی اہلِ مغرب کو رومہ سے ورثے میں ملا تھا۔ 113

۔۔ سامراجیوں اور تاجروں نے سترہوین صدی سے مذہبی تبلیغ کی اہمیت کو محسوس کر لیا تھا۔ چناچہ سینکڑوں مشنری ادارے قائم کئے گئے اور مشنری عیسائیت کی تبلیغ کے لئے جوق در جوق مشرقی ممالک کو جانے لگے۔ یہ سلسلہ ابھی تک ختم نہیں ہوا۔ عیسائیت کی اشاعت سے اہل مغرب کا مقصد یہ تھا کہ دیسیوں نے عیسائیت قبول کر لی تو وہ اپنے مغربی آقائوں کو اپنا ہم مذہب سمجھہ کر ان کی معاشی لوٹ کھسوٹ کے خلاف احتجاج نہیں کرےگے۔ اس طرح اہل مغرب نے مذہب کے نام پر اقتصادی تسلط برقرار رکھنے کی کوشش کی۔ جنوبی افریقہ کے ایک قبائلی سردار نے کہا تھا: "جب سفید آدمی آیا تو اُس کے پاس بائبل تھی اور ہمارے پاس اراضی۔ اب اُس کے پاس اراضی ہے اور ہمارے پاس بائبل۔" 114

۔۔ اہل مغرب زبان سے انسانی برادری اور انسانیت عالیہ کا دم بھرتے ہیں۔ لیکن مشرق کی "رنگ دار" اقوام کو جانور سے بھی بدتر سمجھتے ہیں۔ 115

۔۔ "اسلام کے علاوہ کسی نظریے یا ادارے کو ایسی حیرت ناک ترقی نصیب نہیں ہوئی جتنی کہ اشتمالیت کو ہوئی۔ (برٹرنڈرسل)۔ 118


خرد افروزی:
۔۔۔ انسائیکلوپیڈیا کی اشاعت
۔۔۔ علم عام لوگوں میں عام ہونا

۔۔ انسان فطرتاً نیک ہے، صرف وہم پرستی اور تعصب نے اسے برائی پر آمادہ کر رکھا ہے۔ " (کندور)۔ 122

۔۔ سائنس کی روزافزوں ترقی و ترویج کے باعث ۱۸ویں صدی عیسوی میں یورپ میں تحریکِ خردافروزی بارآور ہوئی۔ تاریخ فلسفہ اس کوانلائٹمینٹ کہا گیا۔ 120

۔۔ والٹیر پہلا مورخ ہے جس نے تاریخ عالم پر قلم اٹھایا اور یورپ کے علاوہ ہندوستان، چین، جاپان وغیرہ کے تاریخی حالات قلم بند کئے۔ 121

۔۔ مغربی ممالک میں نئی رُوح بیدار کرنے اور جدید نظریات کی اشاعت کرنے والوں میں والٹیر اور منتسکو پیش پیش تھے۔ ان کی تحریروں کے باعث عقل ودانش کا احترام اور انسانی حقوق کی پاسداری کا احساس، جوجدید دور کی فلسفیانہ تحریکوں کی خصوصیات ہیں، اٹھارہویں صدی میں ہر کہیں مقبول ہوئے اور انسان دوستی، مروّت، فطری حقوق اور مساوات و اخوت جیسی تراکیب زبان زد عوام ہوگئیں۔ 122

رومانیت
۔۔ رومانیت اپنے وسیع مفہوم میں اس ردِعمل کی نمائندگی کرتی ہے جو اٹھارہویں صدی کے اواخر میں خردافروزی کے خلاف ہوا تھا۔ 129

۔۔ بائرن سچ کہاتا ہے ۔ دیوانگی اور کجروی کو حسین پیرائے میں بیان کرنا ہی رومانیت ہے۔ 130

۔۔ فرانس کے ایک نقاد لوئی ری نید نے رومانیت پر محاکمہ کرتے ہوئے کہا ہے: "رومانیت میں عقلیت کی بجائے جبلت، قانون کے بجائے نراج، معاشرے کی بجائے نیچر، اخلاقی و فنی انضباط کی بجائے انفرادیت، جذباتی ہیجان اور تخیل کی بےراہ روی کو اخیتار کیا گیا ہے۔ " 131

۔۔ فردیت کو انفرادیت سے مخلوط نہ کیا جائےاس کا مطلب ہے فرد کا اجتماعی موثرات و عوامل سے قطع نظر کرکے اپنے ہی من میں حقائق کو تلاش کرنے کی کوشش کرنا اور اپنی ہی ذات کو صداقت کا معیار سمجھنے لگنا۔ 131

۔۔ اخلاقیات کا بنیادی تعلق معاشرتی زندگی سے ہے کیونکہ معاشرے سے بے تعلق ہوکر خیر و شر میں تمیز کرنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ رومانی مثالی فرد سے مثالی جماعت کی جستجو کا آغاز کرتے ہیں۔ حالنکہ مثالی فرد کی جستجو کا آغاز مثالی جماعت سے ہونا چاہئے۔ 132-133

رومانیت پسند:

روسو، ولیم ورڈزورتھہ، کارلائل، کولرج، شیلی، کِیٹس، لیمارتن، وکٹرہیوگو، دی ہتسے، الگزنڈر ڈوما، تھوریو، کانٹ، فشٹے، شوپنہائر، شیلنگ، شلائر ماخر، ڈی ایچ لارینس،
جرمن مثالیت پسندوں کی طرح اور اُن کی تقلید میں بعد کے مفکرین برگساں، ولیم جیمز، ایوکن وغیرہ بھی وجدان اور ارادے کو عقل سے زیادہ اہم سمجھتے ہیں۔


حقیقت پسندی:
[عام زندگی میں جھانکنا، اور عام معاشرتی مسائل کو پیش کرنا]
وقت گزرنے کے ساتھہ حقیقت نگاری فطرت نگاری (نیچرلزم) اور فطرت نگاری اظہاریت (ایکسپریشنزم) کی طرف مُڑ گئی۔


رمزیّت:
[رمزیت، رومانیت، مسلک لاشعور، موجودیت، دادا وغیرہ کم و بیش ہم معنی ہیں]

۔۔ رمزیت پسند داخلیت کے شیدائی تھے اور رومانیوں کی طرح اپنے ہی نفس کی گہرائیوں کو کھنگالنے کی دعوت دیتے تھے۔
رمزیت، رومانیت، باطینیت میں قدر مشترک یہ ہے کہ خارجی ماحول اور عمرانی گردو پیش سے رشتہ منقطع کرکے ایک شخص اپنے نفس میں صداقت خیر یا حسن کی جستجو کرتا ہے۔ 149

؛۔۔ راقم کا خیال ہے کے خیال میں جمالیاتی قدر کہیں خارج سے فن پارے میں داخل نہیں ہوتی۔ اس کا تشخص بہرصورت موضوع اور ماحول کے تاثرِباہم پر منحصر ہے۔ یہ کہنا غلط اندیشی ہے کہ فن آپ اپنا معیار ہے جس طرح صداقت اور خیر کا معیار معاشرہ یا ماحول میعّّن کرتا ہے، اس طرح حُسن کا معیار بھی معاشرہ اور ماحول ہی معیّن کرےگا۔ معیار بہرحال خارج میں ہوگا ورنہ وہ معیار نہیں رہےگا۔ (جلالپوری)۔ 148

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۹۔ صدی رواں اور زوالِ مغرب
(زوالِ مغرب)

۔۔ دوسری جنگ عالمگیر کے خاتمے پر ۔۔ کرہ ارض دو واضح حلقوں میں تقسیم ہوگیا۔ ایک طرف سرمایہ دار اور دوسری طرف اشتمالیت پسند۔
سرمایہ دار کا سرخیل امریکہ ہےاور اشتمالیوں کے سربراہ روسی۔ چین (ہیں)۔ 155

۔۔ ہیروڈوٹس کے الفاظ ہیں "مشرق و مغرب کی نزاع و پیکار ازلی و ابدی ہے۔"
مشرق و مغرب کی اس تاریخی کشمکش اور جنگ و جدال کا آغاز محاصرہ ٹرائے سے ہوا تھا۔ جب یونانیوں نے ایشیا کے ایک ایسے شہر کو تباہ و برباد کردیا جو تجارت میں اُن کا حریفِ غالب ثابت ہورہا تھا۔ ۔۔۔ 158

۔۔ یورپ کا تمدن اپنی معراج کمال کو پہنچ کر تنزل پذیر ہوچکا ہے۔ 162

نفسیات
۔۔ انیسویں صدی کے آخر میں نفسیات نے ایک مستقل شعبہ علم کی صورت اختیار کرلی۔ اس سے پہلے اسے فلسفہ کی ایک شاخ سمجھا جاتا تھا۔ علوم کی ترقی کے ساتھ جمالیات، اخلاقیات، سیاسیات، اور نفسیات کو جنہیں قدماء فلسفے کی شاخیں سمجھتے تھے فلسفے سے الگ کرکے مدّون کیا گیا۔ فلسفے کے بقول ول ڈیوراں شاہ لیئر کی طرح اس کی بیٹیوں نے گھر سے نکال دیا اور اس کی میراث آپس مین تقسیم کرلی۔ 172

مسلک لاشعور
۔۔ پہلی عالمگیر جنگ میں مردوں اور عورتوں کو آزادانہ میل ملاپ کے موقع ملتے رہے جس سے اخلاقی راہ روی مغربی معاشرے کی ایک مستقل روایت بن گئی۔ جنسی تعلقات میں ہر قسم کے تکلف و عار کو بالائے طاق رکھ دیا گیا۔ اس پر فرائڈ کے نظریات نے نوجوانوں کے ہاتھوں میں علمی سند ہاتھ آگئی اور اظہارِ ذات کی دُھن ہر کس وناکس پر سوار ہوگئی۔
۔۔ ظاہر ہے کہ جس معاشرے میں جنسی آسودگی ہی کو زندگی کا مقصدِ واحد بنالیا جائے، وہاں نہ اعلٰی ادب و فن کی تخلیق ممکن ہے اور نہ عورت کا وقیع مقام برقرار رہ سکتا ہے۔ ۔۔ علاوہ ازیں اس معاشرے میں جہاں عورت کو محض جنسی آسودگی کا ایک وسیلہ سمجھہ لیا جائے فتوّت اور جوانمردی نہیں پنپ سکتی۔ اس پر ستم یہ ہوا کہ مغرب کی عورت اظہارِ ذات کے شوق میں خود اپنے حقیقی مرتبہ سے غافل ہوگئی ہے اور آزادی حاصل کرتے کرتے اپنے جذبہ ہوا و ہوس کی اسیر ہو کر رہ گئی ہے۔ 179

لاحاصلیت
[یعنی زندگی بے مطلب، بے کار، بے مصرت، بے معنی، اور بے حاصل ہے۔ انسان پہلے بڑے جوش و خروش سے 'بناتا' ہے پھر غصے میں آکر سب 'تباہ' کر دیتا ہے۔]

۔۔ کوکتو اپنی کتاب "افیون" مین لکھتا ہے:
"نوجوان ایشیا اب چرس نہیں پیتا کیونکہ اس کا دادا پیتا تھا۔ نوجوان یورپ جرس پیتا ہے کیونکہ اس کا دادا نہیں پیتا تھا۔ چونکہ نوجوان ایشیا یورپ کی نقالی کر رہا ہے اس لئے ہماری وساطت سے ہی یہ افیون اپنے اصلی وطن واپس جائے گا۔"۔ 186

۔۔ انہیں اس بدیہی حقیقت کا احساس نہیں ہوتا کہ معنویّت اور مسرت فرد کے ذہن و قلب کی گہرائیوں سے فوّارے کے پانی کی طرح اُچھل کر نمودار نہیں ہوتی بلکہ ایثار و قربانی اور اجتماعی فرائض کی ادائیگی سے زندگی میں معنویت پیدا ہوتی ہے۔ 191

۔۔ لیکن جدید آرٹ میں توافق کی کسے پرواہ ہے، تناسب و توافق کلاسیکی آرٹ سے مخصوص تھا۔ 199

_____________________________
Summurised by: abro, abroazhar@gmail.com

Khirdnama Jalalpuri

Khirdnama Jalalpuri
Ali Abbas Jalalpuri
July 1989



‘Khirdnama Jalalpuri’ Jalalpuri ki Khaas Terms ki ‘Dictionary’ Hy. In terms ko bunyadi tor per 3 catogries main baanta ja sakta hy, 1. ek wo jo jin ki maani seedhi seedhi lughati hy. 2. ek wo jin ki maane shayad dictionaries main na mile per encyclopedias man mil jaye, aur jin ke definiation urfe aam main her jaga ek hi mashhoor ho. 3. 3rd catogry khalisan ‘Jalalpuri’ hy, kuch terms, jin ko jalalpuri ne apni fikr o samjah se pesh kiya. Ya un per jalalpuri ki apne fikr o bayan.

Ye baat bhi yaad rakhni chahiye ke Khirdnama ki taqreeban saari terms Jalalpuri ki doosri Kitabon main bhi apne moqe o mahal se aati rehti hyn, aur kam o besh wahan bhi Jalalpuri unki wazahat karte rehte hyn.

Esa lagta hy Jalalpuri ne apne sub jamashuda terms k ko yakja kar ke akhir main ek Kitabi Shakal dedi!
.
abro

Khirdnama Jalalpuri Excerpts

خردنامہ جلالپوری
علی عباس جلالپوری

اقتباسات و غورطلب الفاظات و اصطلاحات

۔۔ اعداد ۔ 43

۔۔ آفتاب (نماز) ۔ 44

۔۔ آگ ۔ 48

۔۔ آواگواں ۔ 53

۔۔ ایٹم ۔ 56

۔۔ ایجابیّت ۔ 57

۔۔ بابل ۔ 59-60
جو تجارت کی وجہ سے دو ہزار سال تک میٹروپولیٹین سٹی Metropolitian City رہا اور ان کے دیومالائی قصے، حمورابی علم، ہیئت و نجوم، ارضیات، کہانت اور سحر سلیمیا کی اشاعت متمدن اقوام میں ہوئی۔

۔۔ بدوییت ۔ 62
روسو، ٹالسٹائے، جارج برنارڈ شا، اقبال اور سوترے نسسن بدوییت پسند ہیں۔

۔۔ بردہ فروشی ۔ 63
ڈنمارک نے 1792ء میں غلامی کو خلاف قانون قرار دیا۔ اُس کی تقلید کرتے ہوئے انگلستان نے بھی 1807ء میں بردہ فروشی اور غلامی کا انسداد کر کے اس پرانی لعنت کا خاتمہ کردیا۔

۔۔ برہنگی ۔ 63

۔۔ بھوت ۔ 67
بھوت ویران جگہوں میں بسیرا کرتے ہیں اور روشنی، خوشبو، ہلدی، حِنا، حرمل، لوہے،آگ، نمک اور فیروزے سے دور بھاگتے ہیں۔

۔۔ بیاہ کی رسمیں ۔ 68
دنیا بھر کی اقوام میں بیاہ کی رسمیں دُلہا دلہن کو نظرِبد اور خبیث ارواح کی کارستانی سے محفوظ رکھنے کے لئے وضع کی گئی ہیں۔

۔۔ بے معنویّت ۔ 72

۔۔ پوجا ۔ 79

۔۔ پیدائش ۔ 80-81
افلاطون نے ایک قصے کا حوالہ دیا ہے جس میں لکھا ہے کہ ابتدا میں ایک ہی متنفس تھا جس کے دو ٹکڑے کر کے نر اور مادہ پیدا کئے گئے۔ اُس کے خیال میں جنسی کشش کا راز اِس بات میں ہے کہ یہ دونوں ٹکڑے دوبارہ ایک دوسرے میں ضم ہونے کے لئے بے قرار رہتے ہیں۔

۔۔ تاریخی ارتقاء ۔ 82-84
آدمی یہ سمجھتا ہے کہ اُس نے اپنے خیالات فلسفہ کے مدارسِ فکر، اخلاقی اصول، مذہبی عقائد، جماعتی تعصبات اور فنی ذوق کو منطقی استدلال سے یہ ارتقا بخشا ہے۔ یہ اُس کی بھول ہے۔ فی الاصل بنیادی معاشی عوامل اس کے خیالات کا رخ و رجحان متعین کرتے ہیں۔ ای طرح کارل مارکس بھی تاریخی عمل میں جبریت کا قائل ہے۔ اس کے خیال میں افراد خواہ کتنے ہی قابل اور ذہین ہوں تاریخ کا رُخ کو موڑ نہیں سکتے۔ ۔۔۔ البتہ اس جبر میں رہ کر وہ حالات کو بدلنے پر قدرت رکھتا ہے۔

۔۔ ثنویّت ۔ 106
(دوئی ۔ خیر و شر)

۔۔ جادو ۔ 108

۔۔ جپسی ۔ 110
ان کی زبان رومتی ہے جو سندھی پنجابی سی ملتی جلتی ہے۔

۔۔ جبر و اختیار ۔ 111

۔۔ جدلیاتی مادیت ۔ 112

۔۔ جمہوریت ۔۔ 119

۔۔ حسب نسب ۔ 135
حسب جو ورثے میں ملے نسب جو ذاتی خوبیوں پر مشتمل ہو۔

۔۔ دیو مالا ۔ 152
تقابلی دیومالا کے مطالعے سے مفہوم ہوتا ہے کہ پیدائش، تکوین، عالمگیرسیلاب، دوزخ، جنت، شجرحیات، زمین دوز مملکت وغیرہ کی روایات تمام اقوام میں کم و بیش ایک ہی شکل و صورت میں موجود رہی ہیں۔ مثلاً۔ عبرانیوں کا نوح، ہندوستان کا مہانوود اور یونانیوں کا دیوکلین ہے جس نے اپنی کشتی میں جانداروں کو سیلاب سے بچایا۔

۔۔ ذات پات ۔ 159
آریا فاتحین نے ذات پات کی تفریق ورن (رنگ) کی بِنا پر کی تھی تاکہ وہ مُلکیوں پر اپنی برتری قائم رکھ سکیں۔

۔۔ رجائیّت ۔ 161
رَجعت پسند۔ وہ شخص جو یہ جان کر بھی کہ اُس کا معاشرے کا نظام بدل رہا ہے تبدیلی کی مخالفت پر کمر بستہ ہوجاتا ہے۔ 162

۔۔ سرخ
اس رنگ کا لباس نفسیاتی خواہشوں کو بھڑکا دیتا ہے اور یہ سچ بھی ہے۔ 164

۔۔ روزہ ۔ 165
عاشور کا روزہ یہودیوں سے ماخوذ ہے جو فرعوں کی قید سے رہائی کی تقریب منانے کے لئے روزہ رکھتے تھے۔

۔۔ رومانیّت ۔ 166

۔۔ زروات؟ (زمان) ۔ 170

۔۔ سامراج ۔ 174
امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک اس بنا پر اشتراکیوں کے دشمن ہیں کہ جہاں کہیں اشتراکی انقلاب برپا ہوتا ہے وہ ملک سامراجیوں کے استحصال اور سامراج سے آزاد ہوجاتا ہے۔

۔۔ سائنس ۔ 174

۔۔ ستارے ۔ 177

۔۔ شطرنج ۔ 185

۔۔ صائبیت ۔ 189

۔۔ ضمیر ۔ 192

۔۔ طِب ۔ 193

۔۔ علامِ صغیر ۔ 196

۔۔ کرسمس ۔ 209

۔۔ کلام ۔ 210

۔۔ کوربستان ۔ 214

۔۔ لاہُوت ۔ 220

۔۔ مادیت پسندی ۔ 221

۔۔ مانویت ۔ 224

۔۔ مثالیت پسندی ۔ 225

۔۔ مجوسیت ۔ 227

۔۔ مزدکیت ۔ 228

۔۔ مذہب ۔ 228

۔۔ مشائی ۔ 231

۔۔ ملامتی ۔ 234

۔۔ موجودیت پسندی ۔ 235

۔۔ نفسیاتی صحت مندی ۔ 243
(خودشناسی)

۔۔ نواشراقیت ۔ 244

۔۔ وحدت الوجود ۔ 247

۔۔ ہڑپائی تمدن ۔ 250

_________________________
Khirdnama Online @ Sajan Lahore

Thursday, February 11, 2010

Tareekh aur Nisabi Kutub-View

TAREEKH AUR NISABI KUTUB
DR. MUBARK ALI
2003


Comments:

Is Kitab Ka Asal Roe Sukhn Ye Hy Ke Tareekh Ko Hamesha Mukhtalf Qaum Aur Firqon Ne Apne Mafad Ke Khatir Barha Kar Ya Ghatha Kar Pesh Kiya, Phr Is Ko Nisaab Main Shamil Kar Kar Talib-E-Ilm Aur Nayi Nasal Ko Hamesha Galat Persepective Dikhaya Gaya, Jis Ki Waja Se Her Ane Wali Nayi Nasal Ne Galat Tarekh Parhi, Galat Parkha Aur Us Se Galat Nateeje Akhaz Kiye, Jis Ki Waja Se Log Muta’assib, Firqewariyat, Zaat Paat, Rang Nasal, Main Parwan Charhte Gaye.

Haqeeat ye hy ke ILM hamesha Mazhab, Ryasat, Qaum aur Mukhtalif Groohon ke haathon Muqeed raha hy, jis main Tareekh bara ehm kirdar ada krti hy, kion k Tareekh ke zariye aqwaam apne jabr, zulm, tasallut ka SAHIH jawaz talash karti hyn, bulke bana dalti hyn! Aur doosron per us zulm ko unhien ke liye mufeed qarar deti hyn—us main se kitna mufeed hy aur kitna gair-mufeed, is chez ko parakhne k lye to dobara tareekh ko sahih tanazir se dekhne ki zaroorat paregi!

۔۔ تاریخ کو بلکہ ہر علم کو نیوٹرل، سیکولر، آزاد، غیرمتعصب، بنانے کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے انسانوں کے دماغ کو آزاد کر دیا جائے۔ پر اس خوبی کو پیدا کرنا یا پیدا ہونا ہر انسان کے بس کی بات نہیں ہے! ہر انسان کسی نہ کسی تہذیب، ثقافت، زبان، نسل، مذہب، زمین، سے وابستہ ہوتا ہے، پلس میں مختلف ذرائع علومات ہر انسان کو اپنی ان خصوصیات پر فخر کرنے کی ترویج دیتے ہیں۔ پھر انسان کے لیے یہ مشکل ہے کہ اپنی ان "انفرادی خصوصیات" کو ہٹا کر "عام" صف میں کھڑا کرے، جب کہ ہر انسان سائیکی طور پر اپنے آپ کو سب سے پہلے عام میں سے خاص بنان چاہتا ہے، اپنی ایک مخصوص شناخت واضح کر کرنا چاہتا ہے۔
پر یہ مسئلہ بہت آسانی سے حل ہوسکتا ہے اگرانسان سے کہا جائے کے تمہے اپنی "مخصوصیات" سے انکار کرنے کو نہیں کہا جا رہا صرف اتنا کہا جارہا ہے کہ حقیقت کو اپنی صحیح شکل میں قبول کرو۔ تو صرف اس بات کو بروئے کار لانے پر چیزیں کافی حد تک حل ہوسکتی ہیں۔
یعنی سب سے پہلے حقیقت کو صحیح شکل میں قبول کرنا ہے چاہے وہ میرے خلاف ئی کیوں نہ ہو!

حالانکہ وقت گزرنے کے ساتھہ ساتھہ روشن فکری اور تنگ نظری دونوں ہی اپنی جگہ پر پروان چڑھ رہی ہیں۔

۔۔۔ ابڑو

Tareekh aur Nisabi Kutub-Excerpts

تاریخ اور نصابی کتب
ڈاکٹر مبارک علی

اقتباسات


۔۔ ایک طویل عرصہ تک تعلیم کو نہ مشرق میں زیادہ اہمیت دی جاتی تھی اور نہ مغرب میں۔ اس کے مقابلہ میں زیادہ اہمیت فوجی تربیت کی تھی اور ایک فوجی تعلیم یافتہ سے زیادہ معاشرہ میں باعزت سمجھا جاتا تھا کیونکہ اس کے پاس وہ طاقت اور قوت ہوتی تھی کہ جو سب کو نظر آتی تھی۔ اس کے مقابلہ میں ایک تعلیم یافتہ اپنی دانشورانہ صلاحیت و طاقت کو ذہن بدلنے کے استعمال کرتا تھا۔ چونکہ اس کے اثرات فوراً نظر نہیں آتے تھے، اس لیے اس کی عزت بھی نہ تھی۔ لہذا ریاست کو تعلیم سے بہت زیادہ دلچسپی نہیں تھی، سوائے اس کے کہ اسے انتظامیہ اور حساب کتاب کے لءے تعلیم یافتہ لوگوں کی ضرورت ہوتی تھی۔ اس وجہ سے تعلیم ذمہ داری مذہبی اداروں نے لےلی تھی۔ یورپ میں چرچ نے اپنے اسکول کھول رکھے تھے، جبکہ مسلمان معاشرہ میں مسجدوں مدرسوں یا انفرادی طور پر علماء تعلیم دیا کرتے تھے۔ ص۔ 17

۔۔ ریاست نے تعلیم کو اپنی سرپرستی میں لے لیا تو اس نے اسے اپنے مقاصد اور مفادات کے لیے استعمال کیا۔ نصاب کے ذریعہ طالب علموں میں قوم پرستی، حب الوطنی، قومی ہیروز اور قوم کے لیے قربانی کے جذبات کو ابھارا گیا۔ اب ریاست نصاب کو تیار کرتی تھی اور یہ نصاب لازمی طور پر اسکولوں اور کالجوں میں پڑھایا جاتا تھا۔ مضامین میں سب سے زیادہ مضمون جس کے بارے میں ریاست بڑی حساس تھی وہ تاریخ کا مضمون تھا۔ ریاست تاریخ کو اس انداز سے پڑھانا چاہتی تھی کہ جو اس کے امیج کو بڑھائے۔ 19

۔۔ تاریخ کی نصاب کی کتابوں میں جن موضوعات پر زیادہ زور دیا گیا ان میں نوآبادیات کے خلاف قومی تحریکیں، کارکنوں کی قربانیاں، اور بالاخر ملک کی آزادی۔ جب تاریخ کا یہ ورژن نصاب میں پڑھایا گیا تو اس سے سیاستدانوں کے ایک خاص طبقہ کو فائدہ ہوا۔ انہوں نے اور بعد میں ان کے خاندانوں نے اس بنیاد پر اقتدار پر قبضہ رکھا کہ انہوں نے تحریک آزادی میں حصہ لیا تھا ور بے پناہ قربانیا دی تھیں۔ 20

۔۔ برصغیر ہندوستان کی تاریخ نویسی میں 1930 کی دہائی میں فرقہ واریت داخل ہوگئی تھی، اور تاریخ کو مسلمان اور ہندو نقطہ نظر سے لکھا جانے لگا تھا۔ 23

۔۔ چونکہ وادی سندھ کی تہذیب میں گھوڑوں کا وجود نہیں تھا، اور اسی بنیاد پر اس میں اور رگ وید کے عہد میں فرق تھا، اب تحریروں کی دریافت کے بعد ثابت کیا گیا کہ وادی سندھ میں نہ صرف یہ کہ گھوڑے تھے، بلکہ گھوڑوں کا پورا سازوسامان بھی تھا۔ اپنے اس دعویٰ کے ثبوت میں راجہ رام نے ایک مہر کو پیش کیا کہ جس پر گھوڑا بنا ہوا تھا۔
اس پر کافی لوگوں نے اعراضات کیے۔ اور یہ ثابت کیا کہ در حقیقت مہر پر بیل کی شبیہ تھی۔ جے کمپیوٹر کے ذریعہ تبدیل کر کے گھوڑا بنایا گیا ہے۔ لہذا اس کو ماہرین نے فوراً پلٹ ڈائون ہارس کا نام دیا کیونکہ بیسویں صدی کی ابتداء میں پِلٹ ڈائون مین کا ایک فراڈ کیا گیا تھا اور دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ بند اور انسان کے ارتقاء کی گمشدہ کڑی ہے۔ 37

۔۔ مورخوں نے عام طور سے آریا حملوں کو کئی نقطہائے نظر سے سمجھا ہے، ان میں سے کچھ تو وادی سندھ کی تہذیب اور اس کے شہروں کے زوال کا سبب انہیں حملوں کو قرار دیتے ہیں، اگرچہ آثار قدیمہ کی شہادتوں نے اب اس تھیوری کو غلط ثابت کردیا ہے۔ لیکن بہرحال یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مسلسل حملوں اور ہجرت کر کے آنے والے اپنے ساتھ زبانوں اور مختلف کلچروں کو لائے کہ جن کے ملاپ سے آگے چل کر آریہ کلچر ارتقاء پذیر ہوا۔ 40

۔۔ "کچھہ مفکرین کے مطابق جن معاشروں کا کوئی نمایاں مذہب ہوتا ہے، وہ معاشرے میں اس مذہب کو معاشرتی علوم میں ترجیح دیتے ہیں۔ مثلاً پاکستان کے معاشرتی علوم کے نصاب میں اسلام اور دو قومی نظریہ کو فوقیت حاصل ہے۔ جن معاشروں میں کوئی نمایاں مذہب نہیں ہوتا ہے وہ اخلاقی قدروں کو معاشرتی علوم کے ذریعے پھیلاتے ہیں۔ مثلاً تائیوان، کوریا، سنگاپور وغیرہ۔ اس طرح جن ممالک میں سوشلزم کا نظریہ حاوی ہو وہ سوشلزم کی قدروں کو نصاب میں نمایاں حیثیت دیتے ہیں۔ مثلا روس اور چین کے نصاب میں سوشلزم نمایان نظر آتا ہے۔ جو معاشرے خود کو سیکولر تصور کرتے ہیں، وہاں معاشرتی علوم میں شہریت کی تعلیم اہم کردار ادا کرتی ہے۔ مقصد ہوتا ہے کہ لوگوں کو اچھا شہری بنایا جائے مثلا امریکہ میں شہریت کی تعلیم کا بہت رواج ہے۔ جن معاشروں میں جمہوری اور روشن خیال قدریں اہم ہیں ان ملکوں میں معاشرتی علوم جمہوریت اور روشن خیالی کی قدروں کو فروغ دیتے ہیں۔ اسی طرح جن ممالک میں جنگ، فوج، قومیت اور نسل کے نظریات گہرے ہوجائیں، ان کی تعلیم میں یہ قدریں کثرت سے نظر آتی ہیں۔" ۔ 41
(روبینہ سہگل ۔ قومیت، تعلیم اور شناخت۔ 1997)

۔۔ نصاب کی کتابوں کی ان تحریروں سے نوجوان نسلوں کے ذہن میں یہ بٹھادیا گیا ہے کہ پاکستان اسلام کے لیے بنایا گیا تھا، ۔ 46

۔۔ اگرچہ تاریخی طور پر یہ ثابت ہے کہ آریاؤں نے انڈس کو سندھو نام دیا، جو کہ بعد میں ایرانیوں کے ذریعہ یہ "ہند" بن گیا۔ عرب برصغیر کو السندھ و الہند کے نام سے پکارتے تھے۔ اب یہ بھی ثابت ہوگیا ہے کہ آریا کسی ایک نسل کا نام نہیں تھا۔ بلکہ یہ مختلف گروپوں کا نام تھا کہ جو "انڈو۔آرین" زبان بولتے تھے۔ یہ ہندوستان میں گروہوں کی شکل میں مختلف اوقات میں آئے۔ 51

۔۔ اگر ہندوستان ایک ہندو ریاست میں تبدیل ہوجاتا ہے تو پاکستان اور ہندوستان دونوں دو متضاد نظریات کی بنیاد پر ایک دوسرے کی مخالفت اور زیادہ کریں گے۔ اور یہ خط مستقل طور پر تصادم اور کشمکش کا شکار ہوجائے گا۔ یہ صورت حال دونوں ملکوں میں فاشسٹ اور آمرانہ حکومتوں کو مستحکم کرے گی۔ 52

۔۔ تاریخ یہ ثابت کرتی ہے کہ ایسے تمام دعوے کہ جو نسلی خالصیت پر مبنی ہیں وہ سب غلط ہیں، کیونکہ تاریخی عمل میں نسلیں اور مختلف جماعتیں اس طرح آپس میں خلط ملط ہوگئی ہیں کہ اب کوئی خالص نسل باقی نہیں رہی ہے۔ اور نہ یہ ممکن رہا ہے کہ کوئی نسل اپنے اندر سے ان عناصر کو نکال کر خود کو پاک کرے کہ جو اسکا حصہ بن چکے ہیں۔ 52

۔۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ ان دونوں ملکوں کی نصاب کی کتابوں میں ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو بالکل نہیں دیا جاتا ہے۔ مثلاً پاکستان کی کتابوں میں قوم پرست مسلمانوں کے بارے میں قطعی خاموشی ہے کہ جنہوں نے متحدہ ہندوستان کے لیے جدوجہد کی۔ نہ ہی جمیعتہ علماء ہند کا کوئی تذکرہ ہے کہ جنہوں نے کانگرس کی سیاست کی حمایت کی۔ ہندوستان کی نصاب کی کتابوں میں یہ ذکر نہیں کہ آخر مسلمانوں میں ایک علیحدہ قوم ہونے کا احساس کیوں ہوا؟ اور آخر کیوں انہوں نے علیحدگی کا فیصلہ کیا؟ نتیجہ یہ ہے کہ نصاب کی کتابوں کے یہ دو متضاد نظریات دونوں ملکوں میں ایسی نسلوں کو پیدا کر رہے ہیں کہ جو ابتداء ہی سے متعصب و نفرت کا شکار ہوجاتی ہیں۔ 72

۔۔ حکمراں طبقے، چاہے کسی ملک کے ہوں، وہ نصاب کی کتابوں کے بارے میں بڑے حساس ہوتے ہیں، ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ان کا نظریہ اور نقطہ نظر طالب علموں کے ذہنوں میں بٹھادیا جائے۔
اس نقطہ نظر کے تحت جب تاریخ کی نصاب کی کتابیں تیار کی جاتی ہیں، تو ان کا بنیادی مقصد تاریخ پڑھانا یا تاریخ کے بارے میں معلومات فراہم کرنا نہیں ہوتا ہے، بلکہ اس کے ذریعہ سے طالب علم کی شخصیت اور ذہن کو متاثر بنانا ہوتا ہے۔
نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ طالب علم میں تاریخ کا صحیح شعور پیدا ہونے کے بجائے، ایک غلط اور جھوٹا شعور پیدا ہوتا ہے، چوہ اس قابل نہیں ہوتا ہے کہ تاریخی عمل کو سمجھہ سکے، یا تاریخی قوتوں کے بارے میں آگہی حاصل کرسکے، بلکہ اسے یہ احساس ہوتا ہے کہ تاریخی عمل خودبخود جاری و ساری ہے یا عظیم شخصیتیں اس کو بنانے و بگاڑنے میں مصروف ہیں۔ تاریخی عمل میں معاشی، سیاسی، سماجی اور دوسرے عوامل کو نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ 76

۔۔ جب امریکی تاریخ میں "تھینکس گیونگ" کو بطور تہوار منانے کا ذکر ہوتا ہے تو یہ واقعہ مقامی باشندوں کے لیے باعث دلچسپی اور باعث فخر نہیں ہوتا ہے۔ بلکہ اس کے پس منظر میں وہ یورپی تسلط اور اپنی غلامی کو دیکھتے ہیں۔ 78

۔۔ ہیلن کیلر ایک انقلابی سوشلسٹ تھی جس نے 1909 میں میساچوسٹ کی سوشلسٹ پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔ 80

۔۔ امریکہ کی دریافت کے بارے میں اب تک جو تحقیق ہوئی ہے ، اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس نئے براعظم کو دریافت کرنے کا سہرا کولمبس کے سر نہیں ہے، کیونکہ اس سے پہلے لوگ یہاں جا چکے تھے، کولمبس اس سلسلہ کی یہ آخری کڑی ضرور ہے۔82-83

۔۔ 1813 تک امریکن کی اصطلاح مقامی لوگوں کے لیے استعمال ہوتی تھی، مگر جب وہ عملی زندگی سے دور ہو گئے تو یہ اصطلاح ان کے بجائے اب یورپی لوگوں کے لیے استعمال ہونے لگی۔ 92

۔۔ جب تاریخ کی نصاب کی کتابیں ان پیچیدگیوں سے گزریں تو تاریخ واقعات کا ایک جال بن جاتی ہے کہ جس کا سرا پانا ناممکن ہوتا ہے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی قوم یا گروپ اپنی غلطی ماننے پر تیار ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو یہ تاریخ امن کے بجائے مزید فسادات پیدا کرے گی۔ کیونکہ جب تک یہ یقین نہ ہوجائے کہ حملہ آور کون ہوتا ہے؟ لوگوں کو کیوں قتل کیا جاتا ہے؟ اور کیا قتل عام صحیح ہے یا غلط؟ نفرت اور عداوت کیوں ہوتی ہے اور اس سے کون فائدہ اٹھاتا ہے؟ جب تک ان سوالات کے جوابات نہ دیئے جائیں اور ان کے جوابات سے ذہن مطمئن نہ ہو، اس وقت تاریخ نفرت، دشمنی اور تعصب کو سہارا دیتی رہے گی۔ 119

۔۔ (اقلیت)
مثلاً اگر پاکستانی معاشرے کی صورت حال کو دیکھیں تو ہماری تاریخ کی نصاب کی کتابوں میں ہندوؤں، عیسائیوں اور سکھوں کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں۔ ہمارے طالب علم اس سے قطعی ناواقف ہیں کہ ہولی، دیوالی یا دسہرے کے تہوار کیا ہوتے ہیں۔ ہندو مذہب کیا ہے؟ بدھ مت و جین مت کیا ہیں؟ اور قدیم ہندوستان کی تاریخ کیا ہے؟ تاریخ سے یہ بے خبری ہمارے طالم علموں میں تعصب و نفرت کو پیدا کیرنے کا باعث ہوتی ہے۔ 121

۔۔ غیر یورپی اقوام کے ہاں خاص طور سے زمین کے معاملہ میں کسی نجی جائیداد کا تصور نہیں ہے۔ اس کے برعکس یورپ میں زمین کی نجی جائیداد کا قانون رومی اور جرمنی کے قبائل میں موجود تھا کہ جہاں سے یہ یورپ کو بطور ورثہ ملا۔ نجی جائیداد کے اس ادارہ نے انفرادیت کو پیدا کیا۔ یہ دونوں خصوصیات دوسری تہذیبوں میں موجود نہیں ہیں۔ 148

۔۔ امریکہ جہ کہ اس وقت ایک اہم معاشی قوت ہے ۔ اس نے امداد کی اپنی علیحدہ سے ایجنسیاں بنا رکھی ہیں کہ جو ترقی پذیر ملکوں میں کام کر رہی ہیں۔ یہ کوئی مذاق کی یا ہنسنے والی بات نہیں ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد، اب اس نظریہ پر یقین کرلیا گیا ہے کہ جنگ کے خاتمہ سے ڈویلپمنٹ کا عہد شروع ہوگیا ہے اور یہ امیر قوموں کی ذمہ داری ہے کہ وہ غریب اقوام کو خوش حال بنانے میں حصہ لیں۔۔۔۔۔ یہ ایک نئی قسم کا پھیلاؤ اور نفوذ کا نظریہ ہے۔ 154
Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...