FIKRism

Wednesday, July 14, 2010

Jinsiyati Mutale - Excerpts

جنسیاتی مطالعے
علی عباس جلالپوری



اقتباسات:

پیش لفظ

۔۔ ہندوؤں کے ہاں لِنگ شیو دیوتا کی اور یونی شکتی دیوی کی علامتیں ہیں۔ وہ لنگ یونی کے اتصال کو پُرش پرکرتی کے وصال کے مماثل خیال کرتے ہیں۔ 10

۔۔ شیخ نفزاوی مقاربت کو محض بچے پیدا کرنے کا وسیلہ ہی نہیں سمجھتا بلکہ اسے صحت مند تفریح کا ذریع بھی مانتا ہے۔ 11

۔۔ اٹھارویں صدی کو یورپ میں جنسی بےراہ روی کا زمانہ کہا جاتا ہے۔ یہ بے راہ روی اس رد عمل کی انتہائی صورت تھی۔ جو ازمنہ وسطیٰ اور تحریک اصلاح کلیسیا کی رہبانیت کے خلاف ہوا تھا۔ 12


باب۔ ۱۔۔ بلوغت اور اوائلِ شباب

۔۔ جنسی زندگی کا آغاز پیدائش کے وقت ہوجاتا ہے۔ 16

۔۔ قدیم زمانے میں موسمی اور فصلی تہواروں اور میلوں پر جنسی مواصلت کی آزادی دی جاتی تھی۔ جس سے 'بہار کا بخار' اتر جایا کرتا تھا۔ 19

۔۔ ماضی میں سلاطین اور اُمراء کے بعض گھرانوں میں نوخیز لڑکوں کو جلق سے بچانے کے لئے انہیں بالغ ہونے پر لونڈیاں دی جاتی تھیں۔ مہدی جوان ہوا تو اس کے باپ منصور نے اسے ایک کنیز محیاۃ عطا کی تھی۔ لیو ٹالسٹائے لکھتا ہے کہ اس کا بھائی نکولس سولہ برس کا ہوا تو اس کے باپ نے نکولس کو ایک لونڈی دی تھی تاکہ وہ بے راہ روی سے محفوظ رہے۔ اس لونڈی کے بطن سے نکولس کا ایک بیٹا بھی پیدا ہوا تھا۔ جدید تمدن میں جنسی خواہش کو بھڑکانے کے سامان تو بہت ہیں لیکن اِس کی آسودگی کے وسائل کم ہیں۔ نوخیز عامیانہ گیت سُن سُن کر اور ہوس پرور فلمیں دیکھ دیکھ کر از خود رفتہ ہوجاتے ہیں اور نفسانی ہیجان سے نجات پانے کے لئے خودکاری سے رجوع لاتے ہیں۔ کِنسے کی رپورٹ کے مطابق امریکہ میں 93 فی صد لڑکیاں پندرہ برس کی عمر میں خودکاری کرتی ہیں البتہ جنسی مواصلت مُیسر آنے پر اسے ترک کردیتی ہیں۔ کلاسز کی تحقیق یہ ہے کہ ناروے سویڈن میں دو تہائی لڑکیاں سولہ برس کی عمر میں خودکاری کرتی ہیں اور اکثر و پیشتر لڑکے جلق لگاتے لیں۔ 22

۔۔ (جلق) اس کی کثرت و مداومت جسمانی و نفسیاتی صحت کو تباہ کردیتی ہے۔ اِس سے لڑکوں کو زیادہ نقصان پہنچتا ہے کیوں کہ مادہ منوّیہ کا بکثرت اِخراج اُن کے اعصاب کو مضمحل اور توانائی کو ختم کردیتا ہے۔
ڈاکٹر میری سٹوپس لکھتی ہیں
"مردانہ کمزوری، سُرعتِ انزال وغیرہ کا ایک اہم سبب جلق ہے۔ اکثر نوخیز لڑکے لڑکیاں جلق لگاتے ہیں۔ مذی کے اخراج سے مرد کا عضوِخاص دخول میں کوئی دقّت محسوس نہیں کرتا لیکن ہاتھ یا کسی دوسری شے کی رگڑ سے حشفے اور عضوِمخصوص کی رگوں کو نقصان پہنچتا ہے اور وہ پوری طرح نشونما نہیں پاسکتا جس سے آدمی مقاربت کے قابل نہیں رہتا۔ کبھی کبھار جلق لگانے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن نوخیزی کے دوران میں کثرت و تواتر سے جلق لگانا تباہ کُن ہے۔ جلق کے ساتھ گناہ کی اُلجھن وابستہ ہوجاتی ہے جو اکثر اوقات سُرعتِ انزال کا باعث ہوتی ہے مجلوق کو احساسِ گناہ سے نجات دِلانا ضروری ہے۔ جو لوگ کبھی کبھار جلق لگاتے ہیں اُن کی صحت پر کوئی ناخوشگوار اثر نہیں پڑتا۔" 23

۔۔ بارہ تیرہ برس کی عمر میں کثرت و تواتر سے جلق لگائی جائے تو اعضائے تناسل کی نشونما رُک جاتی ہے۔ 24

۔۔ جب ہوس کی آگ بھڑک اٹھتی ہے تو محرمات بھی اس کی زد میں آجاتی ہیں۔ 47

۔۔ صنعتی انقلاب کے شیوع اور تعیلم و تربیت کے رواج سے صورتِ حالات بدلتی جا رہی ہے۔ نوجوانوں کو تعیلم و تربیت کے مراحل طے کرنے کے لئے کئے برس درکار ہوتے ہیں۔ اور بسا اوقات تیس بتیس برس کی عمر تک شادی کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ تیرہ چودہ برس کی عمر کا لڑکا لڑکی بالغ ہوجاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہو کہ چودہ پندرہ برس تک وہ تجرّد کی زندگی گذارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ یہی وہ طویل وقفہ ہے جس میں وہ گوناگوں اُلجھنوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس دوران میں اکثر نوجوان خودکاری سے رجوع لاتے ہیں جس سے اُن کی صحت پر ناخوشگوار اثر پڑتا ہے یا کسبیوں کے پاس جاتے ہیں جو اور زیادہ خطرناک ہے۔ 48

۔۔ ان مشکلات پر قابو پانے کے لئے اضلاع متحدہ امریکہ میں "رفاقت کی شادی" کا چرچا ہوا۔ جج لنڈسے نے یہ تجویز پیش کی کہ نوجوان لڑکے لڑکیاں چند سالوں تک نکاح کے بغیر میاں بیوی بن کر رہیں تا کہ وہ طویل تجرد کے احساسِ جرم، جنسی محرومی اور بے راہ روی سے محفوظ رہ سکیں۔
تاریخ تمدن میں رفاقت کی شادی کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ وحشی اقوام میں اس کا رواج قدیم زمانے سے موجود ہے۔ ۔۔۔ 49

۔۔ شہری بچے ایک ایسی فضا میں جنم لیتے ہیں ار پروان چڑھتے ہیں جو فطرتی نہیں ہوتی۔ اس لئے زندگی کے بنیادی حقائق سے بے خبر رہتے ہیں۔ جنسی تعلیم کی ضرورت شہری بچوں کو ہوتی ہے۔ دیہاتی بچے حیوانات کو جفتی کرتے ہوئے دیکھتے رہتے ہیں اور روزمرہ کے مشاہدے سے جان جاتے ہیں کہ جنسی فعل اور پیدائش کا عمل کیا ہوتا ہے۔ 51



باب۔ ۲ ۔۔ حُسن و جمال

۔۔ عورت کے جسم کے بعض اعضاء زیادہ پرکشش ہوتے ہیں۔ اور خاص طور سے جنسی خواہش کی ترغیب کا باعث ہوتے ہیں۔ انہیں نفس پرور Erogenous اعضاء کہا جاتا ہے۔ عُلمائے جنسیات کے خیال میں گھنیری زلفیں، نرگسی آنکھیں، بھرے بھرے سرخ ہونٹ، اُبھری ہوئی چھاتیاں اور کُولہے اور بدن کی خوشبو خاص طور پر نفس پرور ہوتی ہیں۔ 57

۔۔ فردوسی کہتا ہے کہ جب ایک رات کوزال اپنی محبوبہ رودابہ سے ملنے گیا تو اِس نے اپنے سر کے بال کھول کر شہر پناہ کے نیچے لٹکا دئیے اور کہا انہیں پکڑ کر اوپر آجاؤ۔ 57

۔۔ جنسی خبطیوں میں چھاتیوں اور سُرنیوں کے خبطیوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ ایک پرشباب گد بدی عورت سامنے آجائے تو مردوں کی نگاہیں اُس کی اُبھری ہوئی چھاتیوں پر جم کر رہ جاتی ہیں اور وہ پیٹھ پھیر کر گذرئے تو اُس کے بھرے بھرے کولہوں کا تموّج جذبِ توجہ کا باعث ہوتا ہے۔ 61

۔۔ افریقہ میں ہر کہیں موٹی تازی عورت کو خوبصورت سمجھا جاتا ہے کیوں کہ حبشیوں کے یہان حُسن اور فربہی لازم و ملزوم ہیں۔ 62

۔۔ اُونچی ایڑی جوتا پہننے میں بھی یہی مصلحت ہے کہ اس سے چلتے وقت سرنیوں میں پرکشش حرکت ہوتی ہے۔
عورتیں جانتی ہیں کہ ان کے سُرنیوں میں مردوں کے لئے بڑی جاذبیت ہوتی ہے اس لئے وہ انہیں مٹکا مٹکا کر راستہ چلتی ہیں۔ 63

۔۔ مائکل انجلو کہتا ہے "باعصمت عورت کا چہرہ بدکار عورت کے چہرے سے زیادہ شگفتہ و شاداب ہوتا ہے۔" 67
[یہ بات مردوں پر بھی لاحق ہوتی ہے۔ ابڑو]

۔۔ عربوں کے خیال میں حسین لوگ فیاض ہوتے ہیں۔
اُطلبو الحاجات عند حسان الوجوہ
(اپنی حاجات خوبصورت لوگوں سے طلب کرو۔ 67



باب۔ ۳۔۔ حدیثِ عشق

۔۔ افلاطون نے کہا تھا کہ کائنات کی جملہ اشیاء حُسنِ ازل کی جانب کشش محسوس کرتی ہیں۔ اسی کشش کو اُس نے عشق کا نام دیا۔ افلاطون کے نظریہ عشق سے بحث کرتے ہوئے فلاطینوس نے کہا کہ انسانی روح عالم ہست و بود میں آکر مادے کی اسیر ہوگئی ہے اور اپنے مبدء کے فراق میں تڑپتی رہتی ہے۔ 69

۔۔ انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ وہ اپنے محبوب کی آواز سنے، اسے دیکھے، اسے چُھوئے اور گلے سے لگائے۔
تکلف بر طرف لبِ تشنہ بوس و کنار رستم
ز راہم بازچیں دامِ نوازش ہائے پنہاں را ۔ غالب
70

۔۔ یاد رہے کہ رومانی عشق ایسے معاشرے میں پنپ سکتا ہے جس میں مردوں عورتوں کو آزادانہ میل ملاپ کے مواقع نہ ملیں۔ اس تفریق سے دونوں ایک دوسرے کی ذات میں کشش نامعلوم محسوس کرتے ہیں۔ 74

۔۔ افلاطونی یا ہم جنسی عشق کی روایت یونانی الاصل ہے۔ قدمائے یونان کے یہاں عشق صادقِ خالصتاً ہم جنسی ہوتا ہے۔ 75

۔۔ فطرت نے انسان کو تنہا رہنے کے لئے پیدا نہیں کیا کیوں کہ بنی نوع انسان فریقِ ثانی کے بغیر حیاتیاتی تقاضے پورے نہیں کر سکتے۔ 81

۔۔ جذبہ عشق عقل و خرد ہی کا پرورہ ہے۔ 83
۔۔ انسان مہذب معاشرے کا فرد ہونے کی حیثیت سے عشق کا اہل ہوا ہے۔ وحشی قبائل کے افراد جو تہذیب و تمدن کے برکات اور اخلاقی قدروں سے ناآشنا ہیں عشق کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ 82



باب۔ ۴۔۔ شادی

۔۔ تاریخ تمدن میں یہ تصور (شادی) زرعی انقلاب کے بعد رونما ہوا تھا۔ 84

۔۔ زرعی انقلاب کے بعد مرد کو عورت پر سیادت حاصل ہوگئی اور پدری نظام معاشرہ معرضِ وجود میں آیا۔ 85

۔۔ راجہ داہر والی سندھ نے اپنی سگی بہن رانی بائی سے بیاہ رچایا تھا۔ 88

۔۔ گوتم بُدھ نے رشتے کے چھٹے درجے تک شادی کو ممنوع قرار دیا تھا۔ 89

۔۔ ادریسی کہتا ہے بلہرا کے ملک میں بیاہی ہوئی عورتوں اور منسوبہ لڑکیوں کے سِوا جملہ عورتوں سے عارضی تمتع کی اجازت تھی۔ 89

۔۔ ماقبل اسلام کے عربوں میں سادی کی مندرجہ ذیل قسمیں رائج تھیں۔
نکاح الاستبضاغ:۔ خاوند اپنی بیوی سے کہتا کہ حیض سے پاک ہو کر فلاں سردار کے پاس جانا اور اس سے صحبت کرنا۔ اُس کا مقصد یہ ہوتا یہ کسی شجاع اور نجیب کا نطفہ لیا جائے۔ ان ایام میں وہ خود اپنی بیوی سے الگ رہتا تھا۔
نکاح المُتعہ :۔ یعنی ایک مدتِ مقررہ کے لئے عورت سے شادی کرنا۔ مقررہ مدت کے بعد دونوں میں جدائی ہوجاتی تھی۔
نکاح البدل :۔ دو اشخاص اپنی بیویاں بدل لیتے تھے۔
نکاح الشغار:۔ ایک دوسرے کی بیٹیوں، بھتیجیوں وغیرہ کا تبادلہ کر کے نکاح کرلیتے تھے۔
نکاح کی اِن مختلف صورتوں میں اسلام نے نکاح المتعہ کو برقرار رکھا۔ جناب رسالت مآب اور شیخ اول کے زمانے میں صحابہ مُتعہ کرتے رہے۔ بعض اوقات مُٹھی بھر جو کے عوض مُتعہ ہوجاتا تھا۔ شیخِ ثانی نے اسے ممنوع قرار دیا لیکن صحابہ کبار اور تابعین بدستور مُتعہ کے قائل رہے۔ (حوالہ: موطا امام مالک)۔ 90-91

۔۔ ایک رومن عورت نے جہیز کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا "عجیب بات ہے کہ ہمیں اپنا آقا بھی خریدنا پڑتا ہے۔ "۔ 93

۔۔ پنجاب کے دیہات میں بھی "تن بخشائی" کی شادی کا ذکر کبھی کبھار سننے میں آتا ہے۔ 95

۔۔ خوشگوار شادی سے زیادہ پُرمسرت زندگی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ یہ مسرت جن خوش نصیبوں کو ارزانی ہوتی ہے ہو اِسی دنیا میں اپنی جنت بسا لیتے ہیں۔ 98-99

۔۔ مسرت انسانی اور تہذیب و تمدن کی بقا اور ارتقا کے لئے شادی نہایت ضروری ہے۔ اس کے بغیر بچوں کو پیار اور شفقت کا وہ ماحول نہیں مل سکتا۔ 99

۔۔ جنسی فاقہ زدہ عورت کا ذہنی توازن قائم نہیں رہ سکتا۔ وہ (بقراط) کہتا ہے کہ عورت کے جسم کا اہم ترین عضو ہسٹیر (رحم) ہے۔ فمِ رحم مرد کے عضوِ کے اتصال سے محروم رہے تو عورت خللِ ذہن میں مبتلا ہوجاتی ہے۔ اِسی حالت کو ہسٹیریا کہتے ہیں۔ 119

۔۔ زہّاد، فلاسفہ، فنکار اور عیاش شادی کے قابل نہیں ہوتے۔(ہیویلاک) ۔۔۔ 128



باب۔ ۵۔۔ ہم جِنسّیت

۔۔ [مصری، فینیقی (کنعان، فلسطین، لبنان)، جاپانی، یونانی، ایرانی سودومی Sodomy (ہم جنسیّت) میں مبتلا تھے]
[یہودیت، عیسایئت، اسلام، مجوسی، ہندو میں سودومی اور ہم جنسی اختلاط کی سخت ممانعت کی گئی]

۔۔ یونان کے دیوتا بھی ہم جنسی تھے۔ خداوندخدا زُیس کا گینی میڈ سے، اپالو کاہیاسنتھ سے اورہرکولیز کا ہائی لیز سے معاشقہ مشہور ہے۔ 134
ارسطو ہرمیاس پر فدا تھا۔ 137
۔۔ چناچہ ہم جنسیت یونانیوں کی تعلیم و تربیت کا جزوِلازم بن گئی۔ 134
۔۔ عورتوں کا ہم جنسی محبت کی روایت بھی یونانِ قدیم سے یادگار ہے۔ 137

۔۔ مذہب کے زوال کے ساتھ مذہبی اخلاق سے بھی روگردانی کی گئی اور مرورِزمانہ سے یورپ اور دنیائے اسلام میں بھی ہم جنسیت رواج پاگئی۔ 140

۔۔ صوفیوں میں عشقِ ہم جنسی وبا کی صورت اختیار کر گیا حتٰی کہ سدومیّت کو علّت المسشائخ کہنے لگے۔ 143

۔۔ مرورِزمانہ سے مسلمان میں امرد پرستی اس قدر عام ہوگئی کہ غیر مذاہب کے لوگ اسے اسلام کا جزو سمجھنے لگے۔ البیرونی کے بقول کابل کے ہندو راجہ نے اسلام قبول کیا تو یہ شرط لگائی کہ وہ نہ گائے کا گوشت کھائے گا اور نہ لونڈوں سے عشق بازی کرے گا۔ سلطان محمود غزنوی کا معاشقہ اپنے غلام ایاز سے مشہور ہے۔ 144-145

۔۔ چارلس نئیپر نے سندھ کو فتح کیا تو اُسے بتایا گیا کہ کراچی میں اَمردوں کے قحبہ خانے ہیں جن کی سرپرستی برملا کی جاتی ہے۔ اِس بات کی تحقیق کے لئے رچرڈبرٹن کو مامور کیا گیا جو سندھی زبان جانتا تھا۔ اُس نے بھیس بدل کر اپنا نام مرزا عبدالد بوشہری رکھا اور مرزا محمد حسین شیرازی کو ساتھ لے کر اِن قحبہ خانوں کا کھوج لگایا۔ رچرڈبرٹن کے بقول قبائلی علاقے اور افغانستان سے جو قافلے ہندوستان کو آتے تھے اُن میں نوخیز امردوں کو زنانہ لباس پہنا کر قافلے والے اپنے ساتھ لاتے تھے۔ اِنہیں کوچی سفری کہتے تھے۔ یاد رہے کہ عالم جنسیات میں ہم جنسی عشق اور سدومیت پر تحقیقِ علمی کی اولیت رچرڈبرٹن ہی کو دی جاتی ہے۔ اُس نے ہم جنسیت کی توجیہہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ میلان اُن اقوام میں پایا جاتا ہے جن کے معاشرے میں مردوں اور عورتوں کو میل جول کی آزادی نہیں ہوتی نیزفوجیوں کی لشکر گاہوں، سکولوں اور کالجوں کی اقامت گاہوں، جیلوں اور سمندری جہازوں میں سدومیت عام ہوتی ہے کیوں کہ اِن میںصنفِ مخالف سے اِختلاط کے مواقع کم ملتے ہیں۔ یہ بات ایک حد تک درست ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ فی زمانہ ہمہ گیر جنسی آزادی کے باوجود مغربی ممالک میں ہر کہیں ہم جنسیت اور سدومیت کا رواج عام ہو رہا ہے۔ 150

۔۔ عورت کی آزادی سے مغرب میں ایک خاموش نفسیاتی انقلاب آرہا ہے۔ مردوں میں زنانہ پن پیدا ہونے لگا ہے اور عورتوں میں مردانہ خصوصیات اُبھر رہی ہیں۔ نییجۃآ مغربی فضا ہم جنسی میلان کے پنپنے کے لئے زیادہ سازگار ہوگئی ہے۔ 151-152



باب۔ ۶۔۔ قحبگی

۔۔ ایتھینز کے نوجوان تربیت کے لئے یا تو فلاسفہ کے پاس جاتے تھے اور یا کسبیوں کے یہاں بیٹھتے تھے۔ 163

۔۔ کسبیاں عموماً کنیزیں ہوتی تھیں جن سے اُن کے آقا پیشہ کراتے تھے۔ 163

۔۔ یہ مشہور تھا کہ آدمی جب تک رنڈی کی صحبت میں نہ بیٹھے انسان نہیں بنتا۔ 169

۔۔ بیلی ڈانس خالصتاً قدیم مصری ناچ ہے، ۔۔۔ آج کل بیروت اس ناچ کا بڑا مرکز ہے۔ 170

۔۔ پیرس کو قدیم بابل کی طرح 'گناہ کا شہر' کہا جاتا ہے۔ یہاں کے لوگوں کے بقول کامیو دوہی مشاغل ہیں، اخبار پڑھنا اور زنا کرنا۔ 171

۔۔ ایک کسبی نے بتایا کہ ان کے نوّے فی صد سرپرست جنسی کجرویوں میں مبتلا ہوتے ہیں اور پچاس فی صد سدومی ہوتے ہیں۔ ایک کسبی نے کہا "میں ان معزز حضرات کو خوب جانتی ہوں جو خلوت میں درندوں کا روپ دھار لیتے ہیں۔" 172

۔۔ آج کل کی فلمیں اداکارائیں یونانِ قدیم کی ہٹیرا کی جانشینیں ہیں ۔ ان کے حُسن و جمال کا شہرہ ایسے اچھوتے اورنفسیاتی انداز میں کیا جاتا ہے کہ اِن کی ذات کے گِرد کششِ نامعلوم کا ہالہ بن جاتا ہے اور لوگ ان کی اداؤں پر بے تحاشا دولت لُٹا دیتے ہیں۔ (سمون دوبوا)۔ 173



باب۔ ۷۔۔ جنس اور ادب و فن

[جو مرد نہیں آرٹسٹ نہیں۔]
۔۔ جو فنکار اور ادباء جنسی لحاظ سے کوتاہ ہمت اور سردم مہر ہوں اُن کی فنّی و ادبی تخلیقات بھی سوزگداز سے عاری ہوتی ہیں۔
شاعری، تمثیل نگاری، موسیقی، مُصوّری اور بُت تراشی میں جنسی محرکات و عومل شروع سے کارفرما رہے ہیں۔ 183

۔۔ موسیقی اور رقص بھی جنسی جبلت کے اظہار کی صورتیں ہیں۔ 184

۔۔ لکھنو کی ریختی کی تہ میں زنانہ پن ہے جو اِس معاشرے کی زوال پذیری کی علامت بھی ہے اور پیداوار بھی ہے۔ 188

۔۔ ایش بی کہتا ہے کہ کسی عہد کے اخلاقی محاسن کو بھی اُس زمانے کے معائب کے بغیر سمجھا ہیں جا سکتا۔ 192



باب۔ ۸۔۔ بردہ فروشی

۔۔ جیسا کہ معلومِ عوام ہے بردہ فروشی کا انسداد 19ویں صدی میں کیا گیا۔ 198
اس سے پہلے دس ہزار بروسوں تک غلاموں اور لونڈیوں کی خرید و فروخت کا بازار گرم رہا۔ 198

۔۔ بنو امیہ کے زمانے میں مدینہ النبی ناچ گانے کا بہت بڑا مرکز بن گیا۔ ۔۔۔ بنوعباس کے دورِحکومت میں بھی کنیزوں کو ناچ گانے کی تربیت دلانے کے لئے مدینہ بھیجا جاتا تھا۔ 201

۔۔ سندھ کی عورتیں کمر کی نزاکت اور زلفِ دراز کے لئے ممتاز ہیں۔ (ابن بتلان) 204

۔۔ سفّاح اور امین کے سوا تمام خلفائے بنوعباس کنیزوں کے بطن سےتھے۔
ہارون الرشید ایک ایرانی لونڈی خیزراں کا بیٹا تھا۔
تاریخ کا سب سے بڑا حرم خسروپرویز کا تھا۔ جس کی کنیزوں کی تعداد بارہ ہزار تھی۔ 206

۔۔ 19ویں صدی اہلِ مغرب نے بردہ فروشی کو خلافِ قانون قرار دیا۔ 210



باب۔ ۹۔۔ جنس اور مذہب

۔۔ مصری لِنگ کو حیات نَو کا ضامن سمجھتے تھے اور اعزّہ کی قبروں پر اَنکھہ ۔۔ دستہ دار صلیب جو لنگ یونی کے اتصال کی علامت تھی ۔۔ رکھتے تھے تاکہ مُردے پھر سے زندہ ہوجائیں۔ آج کل بھی کلیسیائے روم کے پیرو اپنے عزیزوں کی قبروں پر اسی مقصد کے لئے صلیب رکھتے ہیں۔ 212

۔۔ وہ (حنے) کہتا ہے کہ ہندو پرنام کرتے وقت جس انداز میں دونوں ہاتھہ جوڑتے ہیں اس سے بھی تبرکاً یونی کی شکل بنانا مقصود ہوتا ہے۔ 213
[ماتھے پر بھی لنگ اور یونی جیسی تمثیلاً لکیریں کھیچی جاتی ہیں]

۔۔ زُیس بروقت نئی حسینہ کی تلاش میں سرگرداں رہتا تھا۔ ایک دن وہ فنیقی شہزادی یوروپا کو جب کہ وہ پھول چُن رہی تھی بھگا کر لے گیا۔ یورپ کا نام اِسی شہزادی سے یادگار ہے۔ 221

۔۔ ازلی گناہ کا تصور پال ولی نے پیش کیا تھا۔ اُس کا استدلال تھا کہ آدم کے گناہ کے ساتھ ہی اُس کی تمام اولاد گناہ میں ملوث ہوگئی ہے۔ 226

۔۔ بُدھ نے کہا تھا کہ بچے پیدا کرنا ظلم ہے کیوں کہ وہ پیدا ہوتے ہی جنم چکر میں گرفتار ہوجاتے ہیں اور دُکھہ بھوگتے ہیں۔ 227

۔۔ فرانسس ولی کے پیروؤں نے گناہ کا ایک فلسفہ پیش کیا جس کا مشہور ترجمان روس کا ایک راہب راسپوٹین تھا۔ راسپوٹین نے پہلی عالمگیر جنگ میں نمایاں کردار ادا کیا۔ وہ زارینہ روس کے دل و دماغ پر پوری طرح حاوی تھا۔ لوگ کہتے تھے کہ وہ جرمنوں کا جاسوس ہے۔ وہ گناہ کے راستے نجات کی تبلیغ کرتا تھا۔ اُس کے خیال میں جو لوگ زہد واتّقا کی زندگی بسر کرتے ہیں وہ عام انسانوں سے بالاتر ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ اُس کا استدلال یہ تھا کہ انسان کا تکبر اس کی نجات کے راستے میں حائل ہوتا ہے۔ تکبر پر احساس ندامت ہی سے جو ارتکابِ گناہ کے بعد لاحق ہوتا ہے قابو پایا جا سکتا ہے۔ گناہ عاجزی اور انکساری سکھاتا ہے جو نجات کے لئے ضروری ہے۔ خداوند کے حضور نادم ہونے سے اُس کی رحمت کو تحریک ہوتی ہے اور گناہ کے بغیر ندامت محسوس نہیں ہوتی لہذا حصولِ نجات کے لئے گناہ کرنا ضروری ہے ۔ دوسرے الفاظ میں توبہ خدا کو محبوب ہے، توبہ کے بغیر نجات نہیں ہوسکتی، گناہ کے بغیر توبہ نہیں کی جاسکتی اس لئے گناہ کرنا لازم ہے۔ چناچہ راسپوٹین دن رات گناہ میں غرق رہتا تھا۔ جرمنی کے اشراقی صوفی مائسٹر اکہارٹ کا قول ہے۔
"گناہ کے بغیر روح میں پختگی نہیں آسکتی نہ روحانی اُفق میں وسعت پیدا ہوسکتی ہے اس لئے خدا اُنہیں لوگوں پر گناہ کا بوجھہ رکھتا ہے جنہیں اس نے کسی اعلٰے مقدر کے لئے منتخب کیا ہو۔"

دوستو فسکی نے یہی فلسفہ گناہ اپنے ناولوں میں پیش کیا ہے۔ اُس کا عقیدہ یہ تھا کہ گناہ اور توبہ سے انسان خدا کا قُرب حاصل کرلیتا ہے اور خدا گنہگاروں کو پسندیدگی نگاہوں سے دیکھتا ہے چناچہ اُس کے ناولوں کے کردار گناہ کا ارتکاب اس لئے کرتے ہیں کہ بعد میں اُنہیں پشیمانی کا احساس ہو جو اُن کی روحانی سربلندی کا سبب بن جائے۔

گناہ اور نجات کے بارے میں ہمارے یہاں کے ملامتیّہ سعیدائے سرمد، شاہ حسین، بُلّھے شاہ وغیرہ کا نقطہ نظر بھی یہی تھا۔ 228-229

۔۔ جنسی خواہش کو جتنی سختی سے دبایا جائے یہ اتنی یہ اُبھر آتی ہے۔ 229

باب ۱۰۔۔ جنسی انحرافات

۔۔ عورت اور نپولین میں ایک بات مشترک ہے۔ وہ سمجھتی ہے کہ جہاں سب عورتیں ناکام ہوچکی ہیں وہاں میں کامیاب ہوجاوؤں گی۔ 256


Terms
جنسی انحرافات : Sexual Perversion/ Sexual Deviation

ایذا کوشی : Sadism
۔۔ فریقِ ثانی کو اذیت دے کر جنسی حظ محسوس کرنا۔

ایذا طلبی : Masochism
۔۔ جسمانی اذیت اٹھا کر نفسانی حظ محسوس کرنا۔

نرگسیّت : Narcissism
۔۔ جو اپنے ہی حُسن و جمال کا عاشق ہو۔

نمائشیّت : Exhibitionism
۔۔ صنف مخالف کے سامنے ستر کھول کر جنسی حظ اُٹھانا۔

ہوس دید : Voyeursim
۔۔ دوسروں کو جنسی ملاپ دیکھہ کر محظوظ ہونا۔
دوسروں کو کپڑے اتارتے ہوئے دیکھنا : Scopophilia
دوسروں کو جنسی ملاپ کرتے ہوئے دیکھنا : Mixoscopy

جنسی عفریت : Satyr
۔۔ جو غیرمعمولی قوت کا مالک اور حددرجے مغلوب الشہوت ہو۔

جنسی چڑیل :
چہرہ عورت کا بدن شیر کا : ابوالہول
ہندو دیو مالا میں : اپسرا
۔۔ ایسی عورت جو ہر اس مرد ک سُپرد کرنے پر اصرار کرتی ہے۔

ایونیّت :
۔۔ عورت جو ہمیشہ مردانہ لباس پہنتی ہے اور اپنی مردانگی کا لوہا منواتی ہے۔

ڈان یوآن :
۔۔ مرد جو عمر بھر عورتیں کے تعاقب میں رہے۔

عشقِ مُحرمات : Incest
۔۔ محرّمات سے جنسی ملاپ کرنا۔

جنسی زدگی : Erotomania
۔۔ ہوا ہوس میں بہہ کر جنسی خواہش کی تسکین ہی کو زندگی کا مقصد سمجھنا۔

جنسی علامت پرستی : Fetichism
۔۔ اعضائے مخصوصہ سے مُنحرف ہوکر عورتوں کے لباس یا اعضاء پر مرکوز ہوجاتی ہے۔ اس نوع کے خبطی عورتوں کی زلفوں، زیرجاموں، چولیوں، جوتوں وغیرہ کو چُرا کر اُنہیں سینت سینت کر رکھتے ہیں۔

مردانہ عورت : Virago

زنانے مرد : Effeminate

جنسی غلامی : Sexual Slavery
۔۔ فریقِ ثانی میں کٹھہ پتلی بن کر رہ جانا۔

عشقِ بُتاں : Pygmalianism
۔۔ مجسمے (تصویر وغیرہ) پر دل و جان سے فدا ہوجانا۔

حیوانیّت : Bestiality
۔۔ جانوروں کے ساتھ سیکس کرنا۔

ہوس نگاری : Erotographomania
۔۔ فحش کلموں یا اعضائے مخصوصہ کو مختلف جگہوں پر کھیچنا۔
جیسے بیت الخلا، وغیرہ میں لنگ و یونی کی اور ان کے اتصال کی تصویریں بنانا۔

فحش گوئی : Coprolalia
۔۔ فحش گالیاں بک کر تسکیں حاصل کرنا۔

لذّتِ سرقہ : Kleptomania
۔۔ عورتیں جو دکانوں سے چھوٹی موٹی چیزیں چُرا کر محظوظ ہوتی ہیں۔

عورت دشمنی : Misogyny
۔۔ عورت ذات سے نفرت کرنا۔
یا تو اس لیے کہ ایک عورت کے ٹھکرانے سے انہوں نے عورت ذات سے ہی نفرت پیدا کرلی۔
یا اس لیے کہ ان کے نزدیک جو مثالی عورت ہے اس کے خاکے اتنے اونچے ہیں کے اس کے علاہ سے عورتیں بے کار ہیں۔

جنسی پاجی : Sexual Degenrates
۔۔ صرف گندی کسبیوں سے ہی جنسی ملاپ کر کے محظوظ ہونا۔

دہن کاری : Cunnilingus, Fellatio
۔۔ یہ انحراف آریائی اقوام سے خاص ہے۔ سامیوں، مُغولوں اور حبشیوں میں اس کا کوئی کھوج نہیں ملتا۔ دہن کاری کا ثبوت یونان، رومہ اور ہندوستان کے قدیم زمانے کے نقوش سے ملتا ہے۔ ۔۔۔ عرب دہن کاری کے ساتھ نفرت کرتے تھے۔ اُن کی گالی تھی اُمصص ببظرالات۔ آج کل اس کا ہر جگہ رواج ہے۔

اِعادہ شباب : Shunamatism
۔۔ بڑھاپے میں دوبارہ اپنے آپ کو جوان کرنے کی ترکیبیں سوچنا۔ اور جوان بننے کے جتن کرنا۔


باب۔ ۱۱۔۔ نئے جنسی زاویے

۔۔ امریکہ اور یورپ کی نئی نسل کا عقیدہ یہ ہے کہ بھوک پیاس اور شہواتی خواہش میں کچھ فرق نہیں ہے۔ بھوک پیاس لگنے پر آدمی کھانے پینے میں کچھ باک محسوس نہیں کرتا اسی طرح جنسی خواہش کی فوری تسکین میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہونا چاہیے۔ ایک لڑکی نے کہا "جنسی ملاپ ایسا ہی ہوتا ہے جیسا کہ "اچھا کھانا"۔ 271

۔۔ لڑکیاں ازالہ بکارت کو بلوغت کی اولین شرط سمجھنے لگی ہیں اور پہلے موقع پر اس سے چھٹکارا پالییتی ہیں۔ ۔۔۔ جاپان میں کسی آزاد مشرب لڑکی کی شادی قدامت پسند نوجوان سے طے پاجائے تو وہ بیس پونڈ دے کر ڈاکٹر سے پلاسٹک کا پردہ بکارت لگوا لیتی ہے۔ 271

۔۔ جنسی آزادی نے روائتی قسم کے رومانی عشق کا خاتمہ کردیا ہے ۔ عشق کو ایک فرسودہ روایت سمجھا جاتا ہے۔ ۔۔۔ عیسائی مذہب کے زوال کے ساتھ یونان اور رومہ کی قدیم جنسی بے راہ روی عود کر آئی ہے۔ 272

۔۔ ماضی میں عورتوں کے باعصمت ہونے کے دو اسباب تھے، نار جہنم کا خوف اور حمل کا ڈر، پہلا خوف مذہب کے ساتھ ختم ہوگیا، دوسرے خوف کا ضبطِ تولید نے اِزالہ کردیا۔ (برٹرنڈرسل)۔ 273

۔۔ ایک نوجوان لڑکی ہیلن نے دوران گفتگو میں لنڈسے سے کہا کہ وہ جو میاں بیوی ایک دسرے سے سچا پیار نہیں کرتے اُن مردوں اور عورتوں کی بہ نسبت زیادہ بداخلاقی کی زندگی گذارتے ہیں جو بغیر نکاح کے مِل کر رہتے ہیں لیکن ایک دوسرے سے پیار کرتے ہیں۔ اُس نے کہا کہ محبت کے بغیر شادی شدہ زندگی ایک ایک قسم کی عصمت فروشی ہے۔ اس میں بیوی قحبہ بن کر رہ جاتی ہے جو مالی مفاد کے خاطر ایسے شوہر کے پاس خلوت میں جاتی ہے جس سے وہ نفرت کر رہی ہوتی ہے۔
274

۔۔ حواس خمسہ کے علاوہ بھی ایک حس ہوتی ہے جسے وہ جنسی حس کہتا ہے یہ حس خود مکتفی ہے۔ (رینے گویاں)۔ 279

۔۔ جنسی آزادی نے نسوانی لباس کو بھی متاثر کیا ہے، عورتیں نیم عُریاں لباس پہننے لگی ہیں۔ وکٹوریہ کے عہد میں ٹخنوں کا دکھانا بھی معیوب تھا۔ اب سکرٹ گھٹتے گھٹتے برگِ انجیر بن کر رہ گئی ہے اور چھاتیوں کو برہنہ رکھنے کا رواج بھی چل نکلا ہے جیسا کہ قدیم ہندوستان، کریٹ اور نشاۃ الثانیہ کے عہد کے فرانس اور اطالیہ میں تھا جب عورتیں رخساروں کے ساتھ برہنہ چھاتیوں پر بھی غازہ لگاتی تھیں۔ کسی زمانے میں لباس کی تراش خراش سے بدن کے نقائص چُھپائے جاتے تھے اب ایسا لباس پہنا جاتا ہے جس سے گدرائے ہوئے بدن کی لطافتیں نکھر کر سامنے آجائیں اور جسم کے دلاآویزاں زاویوں کی زیادہ سے زیادہ نمائش کی جاسکے۔ لباس کے یہ فیشن ایشیا اور افریقہ میں بھی رواج پا رہے ہیں۔ جاپان، تھائی لینڈ، فلپائن، مصر، لبنان وغیرہ میں عورتیں آزادانہ مغربی وضع کا نیم عریاں لباس پہنتی ہیں۔ جن اقوام میں قدامت پسندی کے اثرات باقی ہیں اُن میں بھی عورتیں ایسا تنگ لباس پہننے لگی ہیں کہ جوبن کا جھمکڑا پوری طرح نمایاں ہوجاتا ہے۔ اشتہارباز اور فلم ساز عورت کے جسم کی عریانی کا استحصال کر رہے ہیں۔ اشتہار سگرٹ کا ہو یا سکوٹر کا، صابن کا ہو یا چاکولیٹ کا، اِس میں جازبیّت پیدا کرنے کے لئے نیم عریاں نسوانی جسم کا سہارا لیا جاتا ہے۔ 280

۔۔ نوجوانوں کو عبادت میں شامل ہونے کی ترغیب دِلانے کے لئے گرجاگھروں میں راک اینڈ رول ناچوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ 282

۔۔ آزادی نسواں کو سب سے زیادہ نقصان جنسیت Sexism نے پہنچایا ہے۔ 283

۔۔ عورت فطرتاًً ایذا طلب ہے۔ ۔۔۔ عورت مرد کے ہاتھوں پٹ کر خوشی محسوس کرتی ہے۔ جس عورت کو اس کا شوہر کبھی کبھار دھول دھپا نہ کرے وہ سمجھنے لگتی ہے کہ اب وہ اُس سے پیار نہیں کرتا۔ 285


__________________________

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...