FIKRism

Wednesday, December 28, 2011

Ryasat by Aflatoon

RYASAT
by Aflatoon
380 BC


Urdu translation of REPUBLIC by PLATO


English pdf version.
www.idph.net/conteudos/ebooks/republic.pdf

http://en.wikipedia.org/wiki/The_Republic_(Plato)



ریاست
افلاطون

پہلی کتاب – 
 [عدل و ظلم]

دوسری کتاب – 
 [تعلیم طفلان]

تیسری کتاب – 
 [تعلیم نوجوان]

چوتھی کتاب  – 
[حکمت، شجاعت، عفت و عدل]

پانچویں کتاب – 
[عورت، خاندان، علم و قیاس]

چھٹی کتاب – 
[فیلسوف و فلسفہ]

ساتویں کتاب  
[Geometry, Math, Philosophy, Astronomy, Metaphysics]

آٹھویں کتاب – 
[ریاستوں کے اقسام]

نویں کتاب – 
[Autocracy, Dictatorship, Tyranny]

دسویں کتاب – 
[نقل کی نقل، شاعری، روح]



۔[کتابوں کو موضوعات میں نے اپنے حساب سے دیئے ہیں ورنہ اصل کتاب میں موجود نہیں۔]۔


اقتباسات:۔

اقتباساتِ از مقدمہ  مترجم ڈاکٹر ذاکر حسین۔ 1966


واقعے کے مقابلے میں خیال اور موجود کے سامنے موہوم کے لئے کوئی عجلت سے آمادہ عمل کیسے ہو؟
چناچہ جوانی میں افلاطون نے عملی سیاست میں کوئی حصہ نہیں لیا۔ 6



جس زندگی کے ساز کو کسی دوسری زندگی کا مضراب نہیں چھیڑتا اس کے نغمے خاموش ہی رہتے ہیں۔ 7



افلاطون امراء اور اشراف میں سے تھا۔ اس لئے جمہوری نظام حکومت سے چنداں لگاو نہ رکھتا بلکہ اس سے متنفر ہی تھا۔ ادھر ایک غریب کا بیٹا – سقراط – خاندانی اثرات سے نہیں بلکہ عقلاً و اعتقاداً جمہوریت کا مخالف تھا۔ 7


روایت ہے کہ [افلاطون] نے سقراط سے ملنے کے بعد اپنی شاعری کا سارا دفتر سپردِ آتش کردیا۔ 7



کسی مخصوص گروہ یا طبقے کے اغراض پر ریاست کی بنیاد رکھنے کی بجائے اس کی اساس تعلیم و اخلاق پر ہونا چاہئے۔ 8



۔۔۔ پھر غلام کی حیثیت سے بیج دیا گیا۔ 9



اکادمی
۔388 ق م میں اثینہ لوٹا ہے تو غالباً یہ تہییہ کر کے کہ عملی سیاست کو خیرباد کہے اور اپنے جماعتی و سیاسی مقاصد کو پورا کرنے کے لئے درس اور علمی تحقیق سے کام لے۔ چناچہ اس نے اپنی مشہور تعلیم گاہ 'اکادمی' قائم کی۔
تعلیم کا کوئی معاوضہ یہاں نہ لیا جاتا تھا۔
یہ سلسلہ کوئی 900 سال تک چلتا رہا حتیٰ کہ 529ء میں شہنشاہ جسٹی نین نے اسے ختم کردیا۔



یہ کتاب جو فلاطون کے شجر علم کا پختہ ثمر ہے تم تک دو ناموں سے پہنچی ہے: "ریاست" اور "تحقیق عدل۔" ان ناموں سے یہ سمجھ لینا کہ یہ سیاست یا قانون پر ایک تصنیف ہے غلط ہوگا۔ سچ یہ ہے کہ اس میں انسان کی پوری زندگی پر نظر ڈالی گئی۔ البتہ زیادہ توجہ انسانی زندگی کے عملی پہلو پر ہے۔ اس لئے کتاب کا زیادہ حصہ اخلاقی اور سیاسی مسائل سے پر معلوم ہوتا ہے۔ لیکن یہ نہیں ہے کہ فکر و خیال کی دنیا کو یک قلم نظر انداز کر دیا گیا ہو۔ فلسفہ کی بلندیاں دیکھنی ہوں تو عین خیر میں سب چیزوں کے اتحاد کا جلوہ بھی اس کتاب میں دکھائی دیتا ہے۔ 12



ریاست کی تیاری میں افلاطون نے دس سال سے زیادہ صرف کئے۔ 13



افلاطون کے نزدیک انسان محض انفرادی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ اپنی تمام صلاحیتوں کو درجہ کمال تک پہنچانے کے لئے کسی جماعت، کسی ریاست کا رکنیت کا محتاج ہوتا ہے۔ اچھا آدمی اچھی ریاست میں ہی پیدا ہوسکتا ہے۔ 13




عادل شخص بمقابلہ ظالم شخص
عادل شخص ظالم سے زیادہ قوی دانشمند اور زیادہ خوشحال ہوتا ہے۔ زیادہ دانشمند اس لئے کہ وہ ہر ایک سے جا و بے جا مقابلہ اور مسابقت میں وقت ضائع نہیں کرتا۔ اس کا مقصد خوبی و کمال حاصل کرنا ہے نہ کہ کسی دوسرے سے بڑھ جانا۔ زیادہ قوی اس لئے کہ غیر عادل ظالم لوگوں کے کسی گروہ کو بھی قوت حاصل کرنی ہو تو وہ ایک دوسرے سے عدل و انصاف ہی سے پیش آنے پر مجبور ہوتے ہیں، ورنہ ساری قوت منتشر ہوجاتی ہے۔ زیادہ خوشحال یوں کہ ہر چیز کا ایک مخصوص وظیفہ ہوتا ہے جسے بس وہی انجام دے سکتی ہے اور کوئی دوسری چیز اس خوبی سے ادا نہیں کر سکتی۔ ہر چیز کا کمال یہی ہے کہ وہ اپنے مخصوص وظیفے کو بہ احسن وجوہ پورا کرے۔ جس طرح آنکھ کا کمال اچھی طرح دیکھنا اور کان کا کمال اچھی طرح سننا ہے اسی طرح روح انسانی کا مخصوص کمال اچھی زندگی "حیات طیبہ" ہے۔



جس طرح انسانی روح تین عناصر سے مرکب ہے یعنی عنصر اشتہائی، عنصر جری اور عنصر عقلی، اس طرح ریاست بھی تین طبقوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ افلاطون سب سے پست عنصر یعنی عنصر اشتہائی سے شروع کرتا ہے۔ 16



چناچہ افلاطون نے اپنے نظام تعلیم میں سپارٹا اور اثینہ دونوں کی خوبیوں کو یکجا کردیا۔ 20



وہ اپنے نصاب میں پانچ مضمون رکھتا ہے۔ علم الحساب، علم الاشکال، ہئیت، موسیقی، فلسفہ۔



ان چاروں مضامین کے مطالعے کے لئے فلاطون نے 10 سال کا زمانہ تجویز کیا ہے یعنی 20 سال سے 30 سال تک کی عمر۔ گویا 18 برس کی عمر میں ابتدائی تعلیم ختم کرکے دوسال خالص فوجی تعلیم ہو اور اس کے اختتام پر جو لوگ اس اعلیٰ تعلیم کے اہل نظر آئیں انہیں اس نصاب کے مطابق تعلیم دی جائے۔ اس نصاب کی تکمیل کے بعد 5 سال فلسفے کی تعلیم کے لئے رکھے گئے ہیں۔ فلسفہ کا یہ نصاب صرف ان کے لئے ہے جنہوں نے گزشتہ دس سال میں ریاضیاتی مضامین کے باہمی ربط و تعلق کا سب سے قوی اور واضح احساس ظاہر کیا ہو۔ اس لئے کہ ریاضی محسوس سے غیر محسوس تک پہنچنے کا وسیلہ ہے اور فلسفہ دنیائے فکر و عالم اعیان کے علم اور اس علم سے بالاخر عین خیر تک پہنچنے کا وسیلہ ہے اور فلسفہ حقیقت محض یعنی عین خیر کا علم ہے کہ یہی غایت وجود بھی ہے اوعر مقصود علم بھی اور فلسفی وہ ہے جو حقیقت اشیاء سے آشنا ہوجائے اور عین خیر کا ادراک رکھتا ہو۔ 23



فلسفی کا ایک مقصد اگر عین خیر کا علم حاصل کرنا ہے تو دوسرا اس علم کی روشنی میں نوع انسانی کو سدھارنا بھی ہے۔ اگر اس علم سے اپنی ذہنی تکمیل اور سیرت شخصی کی بہترین تشکیل ہوتی ہے تو پھر اس سے ہئیت اجتماعی کے فلاح و بہبود کی سبیل نکلنی چاہئے۔ کامل مفکر کا صاحب عمل ہونا بھی ضروری ہے۔ 24



جو سب آزمائشوں میں پورے اتریں وہ ریاست کے فلسفی حکمران یا محافظ بنیں۔ 35 سے 50 سال کی عمر تک یہ ریاست کی خدمت کریں اور حکومت کے وہ تمام کام انجام دیں جو زیادہ معمر بزرگوں سے مخصوص نہیں ہیں۔ اس زمانہ خدمت میں بھی برابر ان کی آزمائش ہوتی رہے۔ وہ جو ان آزمائشوں میں پورے اتریں انہیں سب سے بڑے اعزاز اور سب سے زیادہ ذمہ داری کے کام تفویض کئے جائیں۔ 24



اشتراک- Socialism افلاطون کی 
اشتراک املاک کے ساتھ ساتھ فلاطون نے اشتراکِ ازواج کی بھی حمایت کی ہے اور اس تجویز پر "ریاست" میں کافی بحث ہے۔ 25

افلاطون کے نزدیک اس نظامِ اشتراک کی حیثیت اصولی نہیں بلکہ فرعی ہے۔ افلاطون جانتا تھا اور ارسطو اور اس کے آئندہ معتقدین کی یک طرفہ تنقید اور نکتہ چینی سے پہلے جانتا تھا کہ ریاست ذہن انسانی کی ایک خارجی تشکیل ہے۔ اس لئے اس کی حقیقی اصلاح ذہن ہی کی اصلاح ہے۔ 27
افلاطون کی تجاویز کو ذرا سطحی نظر سے دیکھنے والے اس کے نظام معیشت کو جدید اشتراکی نظام سے ملا دیتے ہیں، جو صحیح نہیں۔ فلاطون کے اشتراک کو جدید اشتراک سے دور کی نسبت بھی نہیں ہے۔ اشتراک جدید پوری ہئیت اجتماعی کے لئے ایک تجویز ہے اور فلاطون کا اشتراک ریاست کے صرف ایک مخصوص طبقے کے لئے۔ جدید اشتراک دولت آفرینی کا سارا کام ریاست کے سپرد کرنا چاہتا ہے۔ فلاطون کے نظام میں دولت آفرینی بدستور افراد ہی کے سپرد ہے اور اس مجوزہ نظام کا براہ راست کوئی اثر کسی دوکاندار، مزدور یا کسان پر نہیں پڑتا۔ جدید اشتراک ہر ایک سے دولت آفرینی کا کام لے کر دولت کو بڑھانا اور پھر اس دولت کو سب میں برابر تقسیم کرنا چاہتا ہے۔ فلاطون کے اشتراک میں وہ طبقہ جس کے لئے یہ نظام تجویز کیا گیا ہے دولت آفرینی میں حصہ ہی نہیں لے سکتا۔ جدید اشتراک کے پیش نظر ایک معاشی مسئلہ ہے۔ فلاطون کے سامنے ایک اخلاقی مہم ہے۔ جدید اشتراک سیاسی اور معاشی قوت کا حامل جمہور کو بنانا چاہتا ہے، فلاطون کا اشتراک تزکیہ سیاست کی خاطر اپنے حکمران طبقے کو معاشی زندگی سے بالکل بے تعلق کرنا چاہتا ہے۔ جدید اشتراک دولت کا اشتاک ہے، فلاطون کا اشتراک ترک دولت کا اشتراک۔ 27-28



اقتباسات اس کتاب

جس شخص کی طبیعیت میں انبساط و سکون ہے اس کے لئے عمر کی زیادتی کوئی بار نہیں۔ لیکن جن طبیعتوں کی افتاد اس کے برعکس ہے ان کے لئے جوانی بھی ایسی ہی بوجھل ہوتی ہے جیسے بڑھاپا۔ 32


دولت اس سکون قلب کے حاصل کرنے میں بڑی حد تک مدد کرتی ہے اور اگر مقابلہ کیا جائے تو میرے نزدیک دولت کا یہ فائدہ [کہ اس سے انسان کو عدل کرنے میں مدد ملتی ہے] دوسروں فائدوں سے کہیں زیادہ وقیع ہے۔ 34


یعنی کسی چیز کا اچھا محافظ اس کا شاطر چور بھی ہوتا ہے۔ 39


شطرنج
لیکن فرض کیجئے شطرنج کھیلنے میں آپ کو کسی شریک کی ضرورت ہو تو اس کھیل کا ماہر آپ کے لئے زیادہ مفید ہوگا یا ایک عادل اور منصف شخص۔
۔ یقیناً اس کھیل کا ماہر زیادہ مفید ہوگا۔ 37
[کیا شطرنج اُس زمانے میں تھی؟۔]


پارلیمارکس: صرف جرح پر اکتفا نہ کیجئے۔ خود بھی تو کچھ فرمائیے۔ کسی کی بات کو رد کردینا بہت آسان ہے، لیکن خود کچھ کہنا مشکل۔ 43


لیکن حقیقت یہ ہے کہ کسی فن کا ماہر جب تک کہ ہو ماہر کے لقب کا مستحق ہے غلطی کا مرتکب نہیں ہوسکتا جہاں اس سے غلطی سرزد ہوئی وہ ماہر کہلانے کا اہل نہیں رہا۔ 49


تھریسی میکس: لوگ جو بے ایمانی کی مذمت کرتے ہیں اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہ خود اس سے محفوظ رہیں۔ نہ اس وجہ سے کہ وہ اس کے ارتکاب سے پرہیز کرنا چاہتے ہیں۔ 54


بہترین برائ حکومت
چناچہ حکومت کرنے کی ترغیب دینے کے لئے اجرت یا معاوضے کے تین طریقے رکھے گئے ہیں۔ اولً مال و زر، دوسرے عزت اور تیسرے انکار کی صورت میں سزا۔
گلاکن: ۔۔۔ سزا کس طرح معاوضہ کا کام دے سکتی ہے؟
ارسطو: آپ تو اسی چیز کو نہ سمجھے جو بہترین آدمیوں کو حکومت کرنے پر آمادہ کرتی ہے۔ ۔۔۔
اس لئے ان کو حکومت کے کام پر لگانے کے لئے بس ایک ہی ذریعہ ہے وہ یہ کہ اس سے گریز کرنے کی صورت میں انہین سزا کا خوف ہو۔ اور اس سے زیادہ سخت زیادہ اور کیا سزا ہوسکتی ہے کہ اگر تم خود حکومت نہیں کرتے تو اپنے سے برے اور نالائق آدمیوں کے محکوم بنو۔
یہی خوف ان قابل لوگوں کو حکومت کے عہدے قبول کرنے پر مجبور کرتا ہے یعنی انہیں ضرورت مجبور کرتی ہے نہ کہ فائدہ اور نفع کی خواہش۔ 57-58


عالم ہ جاہل
اس طرح عمومی حیثیت سے علم اور جہل کے متعلق غور کیجیئے ایک حقیقی عالم غالباً کبھی دوسرے عالم سے قول اور فعل میں اختلاف نہ کرے گا۔ وہ ہمیشہ اپنے مثل سے متفق ہوگا۔
۔ اور جاہل کیا کرے گا؟ وہ تو عالم اور جاہل دونوں کی ایک سے مخالفت کرے گا۔ 62


عادل شخص ظالم کے مقابلے میں بہتر، عاقل تر اور قوی تر ہوتا ہے، ہم یہ بھی بتلا چکے ہیں کہ ظالم اور غیر منصف لوگوں میں اشتراک عمل کی قوت مفقود ہوجاتی ہے۔ 66


انسانی اور خدائی نگاہ سے پوشیدہ رہ کر۔۔۔
ایدیمینتس: آپ کہیں نہ پائیں گے کہ کسی شخص نے بھی ان صفتوں کی حقیقی ماہیت پر بحث کی ہو یا یہ بتلایا ہو کہ انسانی اور خدائی نگاہ سے پوشیدہ رہ کر بھی یہ صفتیں [عدل بلاہ بلاہ] انسانی روح پر کیا کیا اثر پیدا کرتی ہیں۔ 82


تاجر
بازار میں ایسے لوگ موجود ہوں گے جو لوگوں کی ضرورتوں سے واقف ہوتے ہیں اور خرید و فروخت کا کام اپنے ذمے لے لیتے ہیں۔ اچھی ریاستوں میں یہ کام عماماً ان لوگوں کے سپرد ہوتا ہے جو جسمانی حیثیت سے بہت کمزور اور کسی دوسرے کام کے لائق نہیں ہوتے۔ ان کا کام صرف یہ ہوتا ہے کہ بازار میں موجود رہیں۔ اگر کوئی بیچنے والا آئے تو جنس لے کر اسے نقد دے دیں اور اگر خریدنے والا آئے تو نقد لے کر جنس فراہم کردیں۔ 89


یوں تفریح ہی تفریح میں تو آدمی تاش اور شطرنج تک کا ماہر نہیں ہوسکتا۔ 93


کتا
کتا کسی اجنبی شخص کو دیکھتا ہے تو غصہ کرتا ہے اور جب کسی جان پہچان والے کو دیکھتا ہے تو خوشی کا اظہار کرتا ہے۔ حالانکہ نہ پہلے سے اسے کبھی کوئی نقصان پہنچا ہے اور نہ دوسرے سے کوئی فائدہ۔ تم نے اس عجیب و غریب صفت پر شاید کبھی غور نہیں کیا؟
سوچو تو سہی کتے کا یہ قدرتی وصف کس قدر عجیب ہے۔ کتا گویا ایک حقیقی فلسفی ہو! 96

اور آپ یہ بھی اچھی طرح جانتے ہوں گے کہ ہر کام کا آغاز ہی اس کا سب سے اہم حصہ ہوتا ہے۔ خصوصاً بچوں اور دوسری نازک چیزوں کے معاملے میں کہ اسی زمانے میں سیرت بنتی ہے۔ اور جو اثر ڈالنے ہوں بہت آسانی سے ڈالے جاسکتے ہیں۔ 98

[افلاطون کہتا ہے خدا اچھائی کا خالق برائی کا نہیں]
گویا عوام کے خیال کے خلاف ہماری رائے یہ ہے کہ خدا، اگر وہ عبارت ہے خیر و برکت سے، تو وہ ہر چیز کا خالق نہین ہوسکتا۔ وہ صرف چند چیزوں کا تخلیق کا تو سبب ضرور ہے لیکن اکثر کا نہیں۔ اس لئے کہ انسانی زندگی میں اچھائیاں کم ہیں اور برائیوں سے تو وہ بھری پڑی ہے۔ ان برائیوں کی تخلیق کا سبب کہیں اور تلاش کرنا چاہئے کیونکہ خدا کے ساتھ تو صرف خیر و برکت کی تخلیق منسوب کی جاسکتی ہے۔ 101

۔۔۔ تو پھر یہ ناممکن ہے کہ خدا اپنی شکل متغیر کرے۔ اس سے بہتر اور خوب تر شکل کا خیال تک فہم ور ادراک سے باہر ہے اس لئے یہ ماننا پڑے گا کہ خدا اپنی اصلی شکل پر ہمیشہ قائم رہے۔ 104

یا یہ کہ اگر بازپرس نہ ہو تو جبر اور ناانصافی میں بہت فائدہ ہے اور عدل اور انصاف میں چاہے دوسروں کا فائدہ ہو لیکن اپنی ذات کا نقصان ہی ہے۔ 117

ہم تو دلیل کے ساتھ ہیں، جہاں لے چلے گی وہیں جائیں گے۔ 120

لیکن بہرحال میرا عقیدہ ہے کہ جسم اپنی خوبی سے روح کی ترقی نہیں دیتا بلکہ اس کے برعکس ایک صالح روح اپنی خوبی سے حتی الامکان جسم کی ترقی کا باعث ہوتی ہے۔ 134


گلاکن: کیا بہترین منصف وہی لوگ نہیں ہوتے جو ہر قسم کی اخلاقی طبیعتوں سے آشنا ہوں؟141


منصف
لیکن منصف کا حال بالکل اس سے الگ ہے۔ یہ دماغ کا علاج دماغ سے کرتا ہے، اس لئے اس کی تربیت ہرگز برے اور شریر دماغوں کے ساتھ نہ ہونی چاہئے۔ ۔۔۔
اسی وجہ سے تو منصف کو جوان نہیں ہونا چاہئے۔۔۔ 142


البتہ ایک صالح طبیعت، جسے زمانے نے تعلیم دی ہو، نیکی اور بدی دونوں کا علم حاصل کرسکتی ہے۔ میری رائے میں عقل اور عرفان نیکوں کا حصہ ہے بدوں کا نہیں۔ 143


یہ موسیقی دان جو ورزش کرے گا اس کا مقصد اپنی طبیعت کا عنصر شجاع کو تحریک دینا ہوگا نہ کہ طاقت بڑھانا۔ وہ عام پہلوانوں کی طرح ورزس اور غذا کو محض اپنے رگ پٹھے درست کرنے کا ذریعہ نہیں بنائے گا۔ 143


اعتدال
محض ورزش کرنے والا پہلوان بہت کچھ وحشی ہوجاتا ہے اور صرف موسیقی پر توجہ کرنے والا نرمی اور رقت قلب میں جائز حد سے آگے چلا جاتا ہے۔
لیکن دراصل یہ درشتی اور وحشت طبیعت کی اس کیفیت سے پیدا ہوتی ہے جس کی اگر صحیح تربیت ہو تو شجاعت اور جرات پیدا ہو۔ لیکن جب اس پر ضرورت سے زیادہ زور دیا جاتا ہے تو یہی سختی اور وحشت پیدا کرتی ہے۔ 144

اور چونکہ انسانی فطرت دو اصول سے مرکب ہے، یعنی جری اور فلسفیانہ، اس لئے میں تو کہوں گا کہ کسی دیوتا نے ان دونوں اصولوں کے مقابل [اور بالواسطہ روح اور جسم کی مطابقت سے] انسان کو دو فن عطا کئے ہیں تاکہ ان دو اصولوں کو آلات موسیقی کے تاروں کی طرح ڈھیلا کرکے اور کس کر ضروری تناسب پیدا کرلے۔ 146


میرا مطلب بس اتنا ہے کہ بعض لوگوں میں ترغیب سے تبدیلی پیدا ہوتی ہے اور بعض میں بھول سے۔ اول الذکر کے عقائد کو دلیل چرا لیتی ہے اور موخر الذکر کے عقائد کو زمانہ۔
۔۔ رہا جبر۔ تو جبر سے ان لوگوں میں تبدیلی پیدا ہوتی ہے جنہیں کسی دکھ یا رنج کی شدت اپنی رائے تبدیل کرنے پر مجبور کرے۔
۔۔ اور دھوکا انہیں ہوتا ہے جن کے خیالات عیش کے نرم یا خوف کے سخت اثر سے تبدیل ہوجاتے ہیں۔ 149


میں نے جو کچھ کہا یہ ایک عام بیان ہے اور میں اس کے پوری طرح صحیح ہونے کا مدعی نہیں ہوں۔ 150


اور یہ خصائص نوعی عموماً ان کی اولاد میں بھی قائم رہیں گے۔ مگر چونکہ اصل سب کی ایک ہے، اس لئے کبھی کبھی ایسا بھی ہوگا کہ سونے والے والدین کے "سیمیں" بچہ ہو یا "سیمیں" والدین کے "زریں" اولاد ہو۔ 151


ٹیکس برائ 'مددگار محافظ'
انہیں شہریوں سے ایک مقررہ شرح تنخواہ کے وصول کرنے کا معاہدہ کرانا چاہئے تاکہ ان [مددگار محافظ] کے سالانہ اکراجات کی کفالت ہوسکے۔


۔۔۔ کہ وہ پھر آنکھیں نہ رہیں
اچھا آپ غور کیجئے کہ اگر ہم کسی مورت کو رنگ رہے ہوں اور کوئی ژشخص ہمارے پاس آئے اور لگے ہمیں الزام دینے کہ تم سب سے خوبصورت حصے پر سب سے خوشنما رنگ نہیں لگاتے چنانچہ دیکھو آنکھیں جسم کیا حسین ترین حصہ ہیں لیکن تم نے بجائے خوشنما ارغوانی رنگ کے انہیں کالا رنگ دیا ہے تو کیا ایسے آدمی کے لئے یہ جواب کافی نہ ہوگا، کہ بھائی ہم آنکھوں کو اتنا خوبصورت نہیں بنانا چاہتے کہ وہ پھر آنکھیں نہ رہیں۔156


مثلاً اگر جوتے بنانے والا اپنے کام میں ہوشیار نہیں نااہل ہے اور جس فن سے واقف نہیں اس کا مدعی ہے تو یہ ریاست کے لئے کوئی خطرے کے بات نہیں۔۔۔ لیکن اگر قانون اور ریاست کے محافظ صرف ظاہر میں محافظ ہوں اور حقیقت کچھ نہ ہو تو سرے سے پوری کی پوری ریاست کی تباہی کا باعث ہوں گے۔157


شہر نہ تو بہت چھوٹا ہو نہ دیکھنے میں بہت بڑا۔ بلکہ اس کی امتیازی خصوصیت اس کی وحدت اور اس کا کافی بالذات ہونا ہے۔ 160


دوستوں میں تمام چیزیں مشترک ہوتی ہیں۔
مثلاً مرد اور عورت کا تعلق، شادی بیاہ، اور توالد و تناسل، جن سب میں جہاں تک ہوسکے اس مقولے کا خیال رکھنا چاہئے کہ "دوستوں میں تمام چیزیں مشترک ہوتی ہیں۔" 161


جو نظام ہم نے مرتب کیا ہے اس سے کوئی کامل اور شاندار نتیجہ ضرور نکلے گا، خواہ یہ نتیجہ اچھا ہو یا برا۔ 163


ریاست کی چار صفتیں
یہ ریاست عاقل و حکیم، باہمت و شجاع، ضابط نفس و عفیف اور منصف و عادل ہوگی [کہ اچھائی انہیں چار صفتوں سے عبارت ہے۔] 167


ہماری ریاست میں ہر فرد کا کوئی ایک کام ہونا چاہئے جس کے لئے اس میں بہترین صلاحیت ہو۔
اور ہم نے اکثر لوگوں کو یہ کہتے بھی سنا "خود اپنے کام سے کام رکھنا اور دوسروں کے معاملوں میں مداخلت نہ کرنا عدل ہے" بلکہ خود ہم نے یہی بات بارہا کہی ہے۔ 175


فرد سے ریاست
فرد ہی سے تو یہ چیزیں ریاست میں پہنچتی ہیں۔ ورنہ اور کون ذریعہ ہوسکتا ہے؟ مثلاً غصہ یا شجاعت کی صفت لیجئے۔ یہ خیال کس درجہ تمسخر انگیز ہوگا کہ یہ صفت جب ریاست میں پائی جاتی ہے تو ان افراد سے حاصل نہیں ہوتی جن میں یہ واقعاً موجود ہوتی ہے۔ 179


ہم دیکھتے ہیں کہ چھوٹے چھوٹے بچوں میں نفس لوامہ تو پیدائش کے وقت سے ہی موجود ہوتا ہے، لیکن ان میں سے اکثر کو عقل کا استعمال کافی دیر میں آتا ہے اور بعض کو کبھی آتا ہی نہیں۔ 187


لیکن عدل کا انسان کے ظاہر سے سروکار نہیں باطن سے ہے کہ یہی انسان کی اصلی اور اس کے حقیقی اعانت ہے۔ 191


جو صحیح ہے وہ صحت کا باعث بھی ہوتا ہے، جو مریض ہے وہ مرض پیدا کرتا ہے۔ 192


شاہی اور اشرافیہ
ریاست کی پانچ قسمیں ہیں اور روح کی بھی پانچ ہیں۔
پہلی قسم تو وہ ہے جس کا بیان ہم لوگ کر رہے تھے اور اس کے دو نام ہیں۔ شاہی اور اشرافیہ: شاہی، اگر ایک ممتاز آدمی حکومت کرے اور اشرافیہ، اگر بہت سے ممتاز آدمی حکومت کریں۔ 194


عورتوں اور بچوں کا اشتراک

مجھے اس کا ڈر نہیں کہ لوگ مجھ پر ہنسیں گے، یہ ڈر تو سراسر طفلانہ ہے۔ بلکہ اندیشہ یہ ہے کہ جہاں اپنے قدم پر پورے اعتماد کی ضرورت ہے وہیں پائوں لغزش نہ کھائے۔۔ 197

میرا مفہوم ایک سوال کی شکل میں رکھا جا سکتا ہے۔ یعنی کیا کتوں میں نر مادہ کی تفریق ہوتی ہے؟ یا وہ سب کے سب شکار، نگہبانی اور دوسرے فرائض یکساں انجام دیتے ہیں؟ یا ایسا ہوتا ہے کہ ہم صرف نر کتوں کو گلے کی نگہداشت کے لئے چھوڑ دیں اور کتیوں کو یہ سمجھ کر گھر پر پڑا رہنے دیں کہ بچے دینا اور انہیں دودھ پلانا ان کے لئے بس کافی محنت ہے؟
گلاکن: نہیں، وہ تو سب یکساں ان کاموں میں شریک ہوتے ہیں، صرف اتنا فرق ہوتا ہے کہ نر زیادہ مضبوط ہوتے ہیں اور مادہ ذرا کمزور۔
سقراط: اچھا بتاو کہ اگر جانوروں کو ایک سی تربیت اور ایک سی غذا نہ دی جائے تو کیا وہ دونوں ایک ہی کام کر سکتے ہیں۔
گلاکن: نہیں۔
سقراط: چناچہ اگر عورتوں اور مردوں کے فرائض ایک سے ہیں تو ان کی تعلیم اور پرورش بھی ایک سی ہونی چاہئے۔ 198-199


برہنہگی
لیکن جب تجربے نے بتلا دیا کہ سب چیزوں کا کھلا رکھنا انہیں چھپانے سے بہتر ہے اور ظاہر میں آنکھ پر جو مضحکہ خیز اثر اس منظر کا ہوتا تھا جب وہ عقل کے بہتر اصولوں کے سامنے غائب ہوگیا تو اس شخص کی بے وقوفی کھل گئی جو حماقت اور برائی کے علاوہ کسی اور چیز کو اپنے طعن اور تمسخر کا نشانہ بناتا اور حسن کے اندازے کے لئے خیر اور خوبی کے علاوہ کوئی اور معیار مقرر کرتا ہے۔ 200


مناظرہ
آدمی سمجھتا ہے کہ معقول دلیل دے رہا ہے۔ لیکن سچ یہ ہے کہ مناظرے میں مشغول ہوتا ہے۔ اور صرف اس لئے کہ تقسیم اور تعریف نہ کرسکنے کی وجہ سے وہ اپنی گفتگو کے موضوع سے ہی واقف نہیں ہوتا، مناظرے اور مباحثے کی خاطر محض لفظی داو پیچ میں پھنسا رہتا ہے اور اصل مسئلے پر کوئی معقول تحقیق نہیں کرتا۔ 201-202


تو انتظام ریاست کے اعتبار سے کوئی ایسی خاص قابلیت نہیں جو عورت میں بحیثیت عورت کے، اور مرد میں بہ حیثیت مر کے موجود ہوتی ہو۔ قدرت کی دین دونوں میں یکساں بٹتی ہے۔ جو مرد کے شغل ہیں وہی سب عورت کے بھی شغل ہیں۔ ہاں، سب میں عورت مرد سے کمتر درجہ رکھتی ہے۔ 204


گلاکن: جی بڑی زبردست موج تھی جس سے آپ بچ نکلے۔
سقراط: لیکن ابھی اس سے بھی زور کی ایک اور آ رہی ہے، اسے دیکھئے گا تو پہلی کو بھول جائیے گا۔
گلاکن: اچھا تو چلئے، دیکھوں۔
سقراط: جو قانون ابھی گزرا اس کا اور سب پچھلے قانونوں کا ماحصل یہ ہے کہ "ہمارے محافظوں کی بیویاں مشترک ہوں، بچے مشترک ہوں، ماں باپ بچوں کو نہ پہچانیں، نہ بچے اپنے ماں باپ کو۔" 207


کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ ہم کچھ تہوار مقرر کردیں، ان موقعوں پر دولہا دلہن یکجا ہو سکیں، قربانیاں کی جائیں، شاعر شادی کی نظمیں پڑھیں۔ رہی شادیوں کی تعداد، سو اسے تمام تر حکام کے اختیار تمیزی پر چھوڑنا چاہئے کہ ان کے پیش نظر ریاست کی اوسط آبادی برقرار رکھنے کا مقصد ہوگا۔۔۔۔
اور افسر جن کا یہ کام ہے خواہ مرد ہوں یا عورت، کیونکہ افسر تو مرد بھی ہوسکتے ہیں اور عورتیں بھی۔۔
تو افسر جن کا یہ کام ہو اچھے والدین کے بچے باڑے میں لے جائیں گے اور انہیں آیائوں کے سپرد کردیں گے، یہ آیائیں علیحدہ مکانوں میں رہا کریں گی۔ کم درجے والے لوگوں کی اولاد یا اچھوں کی وہ اولاد جو اتفاق سے بگڑ گئی ہو انہیں کسی مخفی نامعلوم مقام پر ڈال دیا جائے گا۔ اور سچ تو یہ ہے کہ یہ اسی کے مستحق بھی ہیں۔
گلاکن: جی ہاں، اگر نسل کو خالص رکھنا ہے تو محافظوں کہ یہی کرنا ہوگا۔
سقراط: پھر یہی افسر بچوں کی پرورش کا انتظام کریں گے۔ جب ماوں کا دودھ بھر آئے گا تو انہیں باڑے میں داخل کریں گے لیکن اس بات کا خاص خیال رکھا جائے گا کہ کوئی ماں اپنے بچے کو نہ پہچان سکے۔ 211-212

گلاکن: اور اس مدت میں آپ عمر کے کون سے سال شامل کریں گے؟
افلاطون/سقراط: عورت بیس برس کی عمر سے ریاست کے لئے بچے پیدا کرنا شروع کرسکتی اور چالیس سال کی عمر تک اس کام کو جاری رکھ سکتی ہے۔ مرد اپنا کام پچیس سال کی عمر سے شروع کرسکتا ہے، یعنی اس وقت کے گزرنے کے بعد جب نبض حیات کی رفتار سب سے زیادہ تیز ہوتی ہے اور اسے پچپن سال کی عمر تک جاری رکھ سکتا ہے۔


50-50
اور جہاں کوئی مشترک احساس نہیں بلکہ صرف شخصی حس ہو تو ریاست غیر منتظم اور منتشر ہوتی ہے، یعنی جب شہر میں ایک واقعہ پر آدھی دنیا تو خوشیاں مناتی ہو اور دوسری آدھی غم میں ڈوبی ہو۔ 214


گویا ہمارے شہر میں عورتوں اور بچوں کا مشترک ہونا ریاست کے لئے سب سے بڑی خوبی کا باعث ہے۔ 217

محافظوں کے پاس مکان، زمین، یا اور کسی قسم کا املاک نہ ہونی چاہئے۔ ان کی تنخواہ بس غذا ہو جو انہیں دوسرے شہریوں سے ملے۔ ان کا کوئی خانگی اور ذاتی خرچ نہ ہو۔ تاکہ یہ حقیقی محافظ کی خصوصیتیں قائم رکھ سکیں۔ 217
ان کے پاس چونکہ اپنے بدن کے سوا کوئی چیز نہ ہوگی جسے یہ "اپنا" کہہ سکیں۔ 217



فلسفی بادشاہ
شہروں کو بلکہ نوع انسانی کو مصیبتوں سے اس وقت تک نجات نصیب نہ ہوگی جب تک دنیا میں فلسفی بادشاہ نہ ہوں یا بادشاہوں اور شہزادوں میں فلسفے کی روح اور فلسفے کی قوت نہ آجائے۔ 230


علم و قیاس
علم کا موضوع یا میدان تحقیق وجود ہے، اور علم ماہیت وجود کے جاننے کا نام
اور قیاس گویا ایک رائے رکھنے کو کہتے ہیں۔ 237


فلسفیانہ دماغ ہمیشہ ایسے علم سے انس رکھیں گے جو انہیں اشیاء کی اس ازلی ماہیت سے آگاہ کرے جو کون و فساد سے متغیر نہ ہو۔
وہ کل کے کل وجود حقیقی سے محبت کرتے ہیں۔ اور کوئی حصہ بڑا ہو یا چھوٹا، کم قابلِ عزت ہو یا زیادہ، وہ اسے ترک کرنے کے لئے راضی نہیں۔ 243


تو علاوہ دوسری صفتوں کے ہمیں ایسے دماغ کی تلاش کرنی چاہئے جو اپنے اندر فطرتاً حسن تناسب اور شرافت رکھتا ہو اور خود بخود تمام اشیاء کے وجود حقیقی کی طرف حرکت کرے۔ 246


اور یہ بھی درست نہیں کہ اس علم [فلسفہ] کو اپنے مخالفوں سے ہی شدید ترین اور پائدار نقصان پہنچتا ہے بلکہ خود اپنے نام نہاد پیرووں سے،۔۔ 250


اسی طرح جب ناقابل تربیت لوگ فلسفے کی طرف بڑھتے، اور اس سے اپنا رشتہ جوڑتے ہیں جو مرتبے میں ان سے بالاتر ہے تو اس سے کس قسم کے افکار و آرا کے پیدا ہونے کا احتمال ہے؟ کیا یہ محض سافسطائی مغالطے نہ ہوگے جو بس سامعہ فریب ہوں لیکن ان میں نہ کوئی اصلیت ہو نہ حقیقی حکمت سے قرب، نہ اس کے شایان شان۔ 259


رہا خود میرا سا معاملہ یعنی دلیل باطن، تو اس کا ذکر بھی چنداں ضروری نہیں، کونکہ ایسا خبردار کرنے والا اگر کسی کو عطا گیا گیا بھی تو بہت شاذ۔ ہاں تو جو لوگ [حقیقی فلفسفیوں کے] اس چھوٹے سے گروہ سے تعلق رکھتے ہیں انہوں نے اس کا مزہ چکھا ہے اور اس کی شیرینی اور برکت سے واقف ہیں۔ انہوں نے انبوہ کے جنون کو بھی خوب دیکھا ہے۔ یہ جانتے ہیں کہ سیاست دانوں میں کوئی بھی ایماندار نہیں۔ نہ ان میں عدل و انصاف کا کوئی ایسا حامی ہے کہ اس کے ساتھ معرکہ آرا ہو کر یہ اپنی نجات حاصل کرسکیں۔ 259


تم جانتے ہی ہو کہ تمام بڑی کوششوں میں کچھ خطرہ ضرور ہوتا ہے، عام قول ہے "جو کٹھن سو اچھا۔" 261

البتہ میں تو اپنے بس بھر کوشش کئے ہی جائوں گا حتٰی کہ یا تو تھریسی میکس اور دوسرے لوگوں کو قائل کرلوں یا کوئی ایسی بات کروں جو اس دن ان کے کام آئے جب وہ دوبارہ زندہ ہوں اور اسی قسم کی گفتگو ایک دوسرے عالم میں کرے ہوں۔ 262


اور کیا تم بھی میری طرح یہ نہیں سمجھتے کہ عوام میں فلسفے کے خلاف جو شدید احساس پایا جاتا ہے اس کی ابتداء ہوتی ہے دراصل ان نام نہاد فلسفیوں سے جو بن بلائے آ کودتے ہیں اور ہمیشہ لوگوں کو برا کہتے ہیں اور ان پر نکتہ چینی اور ان کی عیب جوئی کرتے اور اشیاء کے بجائے اشخاص کو اپنی گفتگو کا موضوع بناتے ہیں۔ 264


اور اس طرح نظام الٰہی سے ربط ضبط رکھنے والا فلسفی خود بھی، جہاں تک انسانی فطرت اجازت دیتی ہے، منظم اور الٰہی ہوجاتا ہے۔ البتہ اور ہر چیز کی طرح اس میں بھی تھوڑی سی کمی ضرور ہوگی۔ 265


ہاں، میرے دوست، میں اس وقت صاف صاف کہتے جھجکتا تھا۔ لیکن اب میں صاف کہنے کی جرات کرتا ہوں کہ کامل محافظ کے لئے لازم ہے کہ وہ فلسفی ہو۔ 269


کوئی تم سمجھتے ہو کہ تمام دوسری چیزوں پر قبضہ ہمارے لئے کوئی بھی قیمت رکھ سکتا ہے، اگر ہمارے قبضے میں خیر نہ ہو۔ یا تمام دوسری چیزوں کا علم ہمارے لئے کوئی قدر رکھ سکتا ہے اگر ہمیں حسن و خیر کا علم نہ ہو۔ 272


بصیرتِ روح
تم یہ تو جانتے ہی ہو کہ اگر ایک شخص اپنی آنکھیں ایسی چیزوں کی طرف پھیرے جن پر دن کی روشنی نہ پڑی ہو بلکہ صرف چاند تاروں کی تو اس کی آنکھیں دھندلا دھندلا دیکھیں گی اور تقریباً اندھی ہوں گی، ان میں نظر کی تیزی اور صفائی نہ ہوگی۔
لیکن جب انہیں ایسی چیزوں کی طرف پھیرا جائے جن پر آفتاب چمک رہا ہو تو پھر ان میں بصارت ہوگی اور وہ صاف صاف دیکھ سکیں گی۔
تو روح کی مثال بھی آنکھ کی سی ہے جب وہ ادھر نظر اٹھاتی ہے جہاں حقیقت اور وجود مطلق اپنی روشنی ڈال رہے ہیں تو وہ دیکھتی ہے اور سمجھتی ہے اور اپنے فہم سے جگمگا اٹھتی ہے۔ لیکن جب اس کا رخ کون و فساد کے بھکبھکے کی طرف ہوتا ہے تو پھر یہ محض ظن و رائے رکھتی ہے اور پھرتی ہے ادھر ادھر ٹامک ٹوئیاں مارتی، کبھی ایک رائے رکھتی ہے کبھی دوسری اور معلوم ہوتا ہے کہ اس میں کوئی فہم نہیں۔ 277


ہاں ہاں۔ اور اگر کچھ مبالغہ ہے تو اس کا الزام تمہارے ہی سر ہے کہ تم نے مجھے اپنے تخیلات بیان کرنے پر مجبور کیا۔ 278


کیا تم تسلیم نہ کرو گے کہ اس تقسیم کے ہر دو ٹکڑوں میں صداقت کے مختلف درجے ہیں اور نقل کو اصل سے وہی نسبت ہے جو رائے کے حلقے کو علم کے حلقے سے۔ 279


اب ضرورت ہے کہ ان چار تقسیموں کے مطابق روح میں چار صلاحیتیں یا قوتیں ہوں۔ اعلٰی ترین کی مرادف عقل، دوسری کا مرادف فہم، تیسری کا عقیدہ اور آخری کے مرادف سایوں کا ادراک۔ 281


اور تمہیں اس پر بھی تعجب نہ کرنا چاہئے کہ جن لوگوں کی اس مسعود منظر تک رسائی ہوجاتی ہے وہ پھر انسانی معاملوں کی بستی پر نہیں اترنا چاہتے، ان کی روحیں تو عالم بالا کی طرف رواں دواں چلی جاتی ہیں اور وہیں قیام کرنا چاہتی ہیں اور اگر ہماری تمثیل قابل اعتماد ہے تو ان کی یہ خواہش بالکل قدرتی ہے۔ 286


لیکن اگر میرا خیال درست ہے تو پھر بعض ان فاضل معلموں کا یہ خیال غلط ہونا چاہئے کہ جیسے کوئی اندھی آنکھوں میں روشنی داخل کرے، یہ روح میں وہ علم ٹھونس سکتے ہیں جو اس سے پہلے سے موجود نہیں ہوتا۔
حالانکہ ہماری دلیل یہ بتلاتی ہے کہ سیکھنے کی قوت اور صلاحیت روح میں پہلے سے موجود ہوتی ہے اور جس طرح آنکھ تاریکی سے روشنی کی طرف بلا پورے جسم کے مڑے ہوئے اپنا رخ نہیں کرسکتی اسی طرح انسان کا علم کا آلہ بھی کل روح کی حرکت سے ہی شہود سے وجود کی طرف پھر سکتا اور رفتہ رفتہ وجود، اور وجود میں روشن ترین اور بہترین وجود، یعنی بالفاظ دیگر، خیر، کے نظارے کی تاب لاسکتا ہے۔ 287


یہ اپنی چڑھائی اور پرواز وہاں تک جاری رکھیں، کہ 'خیر' تک پہنچ جائیں۔ لیکن جب اس بلندی پر چڑھ جائیں اور کافی دیکھ چکیں تو ہم انہیں وہ نہ کرنے دیں گے جو یہ آج کل کرتے ہیں۔
یعنی یہ لوگ اسی عالم بالا میں رہ جاتے ہیں۔ اس کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔ انہیں پھر غار کے قیدیوں میں اتارنا چاہئے اور انہیں پھر ان کے مشقتوں اور ان کے انعاموں میں حصہ لینا چاہئے خواہ یہ لینے کے لائق ہوں یا نہ ہوں۔ 288


حالانکہ سچ یہ ہے کہ جس ریاست کے حاکم حکومت سے سب سے زیادہ بچنا چاہیں اسی پر سب سے اچھی اور خاموشی کے ساتھ حکومت ہوتی ہے اور جس میں حاکم حکومت کرنے کے سب سے زیادہ شائق ہوتے ہیں اسی کی حکومت سب سے بری ہوتی ہے۔ 290


ضد۔
جن آثار کے ساتھ ساتھ ان کی ضد بھی ہو وہ فکر کو متوجہ کرتے ہیں اور جن کے ساتھ نہ ہو وہ نہیں کرتے۔ 296


Math Master
اور تم نے کبھی یہ بھی دیکھا ہے کہ جن لوگوں میں حساب کا فطری ملکہ ہوتا ہے وہ دوسری قسم کے علم میں بھی عام طور پر تیز ہوتے ہیں۔ 298

علم اور جاننا۔
ان لوگوں ک پیش نظر بس اس کی علمی حیثیت ہوتی ہے، یہ ہمیشہ نہایت تنگ نظر اور مضحکہ خیز انداز سے مربع کرنے، وسعت دینے، وضع کرنے، یا اسی قسم کی اور باتوں کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔ یہ ہندسے کی ضرورتوں کو روزانہ زندگی کی ضرورتوں جے خلط ملط کردیتے ہیں حالانکہ اس ساری حکمت کا اصلی مقصد علم اور جاننا ہے۔



میں تسلیم کرتا ہوں کہ اس بات کا یقین بڑا دشوار ہے کہ ہر انسان میں ایک روحانی آنکھ ہوتی ہے کہ جب یہ دوسرے مشاغل سے دھندلی پڑ جاتی یا ضائع ہوجاتی ہے تو پھر یہ علم اسے دوبارہ روشن کرتے ہیں۔ اور یہ آنکھ دس ہزار جسمانی آنکھوں سے زیادہ بیش قیمت ہے کہ بس اسی کے ذریعے صداقت کا دیکھنا ممکن ہوتا ہے۔ 301


Astronomy
گلاکن: ہئیت روح کو اوپر دیکھنے پر مجبور کرتی ہے اور ہمیں اس دنیا سے ایک دوسرے عالم کی طرف لے جاتی ہے۔
سقراط/افلاطون: ہاں سوائے میرے ہر کسی کو۔ اور ہر کسی کے لئے ممکن ہے یہ بات واضح ہو لیکن میرے لئے تو نہیں۔ ۔۔۔ جو لوگ ہئیت کو فلسفے کا بلند درجہ دیتے ہیں وہ ہم سے بلندی کی طرف نہیں دکھواتے بلکہ پستی کی طرف۔
میں یہ کہنے کی جرات کر سکتا ہوں کہ اگر کوئی شخص اپنا سر پیچھے ڈال کر چھت کی تصویریں کو دیکھتا ہو تو آپ کے نزدیک اس وقت بھی اس کی آنکھیں نہیں بلکہ اس کا دماغ ادراک کرتا رہتا ہے۔ اور کیا عجب ہے کہ آپ ہی صحیح ہوں اور میں ممکن ہے کہ بس ایک سادہ لوح بے وقوف ہوں۔ لیکن میری رائے میں صرف وہی علم روح کو نظر کی بلندی عطا کرتا ہے جو حقیقی وجود اور غیر مرئی کا علم ہو۔ اور یوں چاہے انسان منہ پھاڑ کر آسمان کو گھورے یا جھک جھک کر زمین پر نظر ڈالے تاکہ کسی حسی خاصے کا علم حاصل کرلے تو میں تو ہر دو حال میں اس کا منکر ہوں کہ وہ کچھ سیکھ سکتا ہے۔ کیونکہ اس قسم کی کوئی چیز حکمت کا موضوع نہیں۔ اس کی روح کی نگاہ پستی کی جانب ہے بلندی کی طرف نہیں۔ خواہ اس کے علم کی راہ، خشکی کے ذریعے ہو خواہ تری کے، چاہے وہ پانی پر تیرا تیرا پھرے، یا خالی زمین پر اپنی پیٹھ لگائے لیٹا ہو۔ 303


منطق
لہٰذا منطق اور صرف منطق براہ راست اصل اول تک جاتی ہے اور صرف یہی وہ علم ہے جو اپنی بنیاد کو محفوظ کرنے کے لئے مفروضوں سے درگزر کرتا ہے۔ 308


آج کل یہ غلطی کی جاتی ہے کہ جو لوگ فلسفے کا مطالعہ کرتے ہیں ان کا کوئی پیشہ نہیں ہوتا۔ 311


حالانکہ جس طرح وہ بڈھا ہوکر زیادہ دوڑ نہیں سکتا ویسے ہی زیادہ سیکھ بھی نہیں سکتا۔ ہر غیر معمولی ریاضت کا وقت شباب ہی ہے۔ 313



جبری علم
کیونکہ آزاد آدمی کو کسی قسم کے علم کی تحصیل میں غلام نہ ہونا چاہئے۔ جسمانی ورزش اگر لازمی بھی ہو تو جسم کو نقصان نہیں پہنچاتی لیکن جو علم جبری طور پر حاصل کیا گیا ہو وہ دماغ پر تسلط نہیں پاتا۔313


فلسفے کا تلامذہ باضابطہ اور مستقل ہونے چاہئیں نہ کہ آج کل کی طرح ہر اتفاق سے ذرا سی رغبت رکھنے والا یا ہر فضولی ٹانگ اڑانے والا۔۔ 317


یعنی ریاست میں حقیقی فلسفی بادشاہ پیدا ہوں اور ایک یا کئی ایسے بادشاہ اس موجودہ دنیا کے اعزازوں کو حقیر اور بے وقعت جان جکر ٹھکرادیں، حق اور حق سے پیدا ہونے والی عزت کو سب چیزوں سے اونچا سمجھیں، اور عدل کو سب سے اعلٰی اور سب سے ضروری چیز خیال کریں، کہ یہ اسی کے کار پرداز ہیں اور اپنے شہر کو منظم کرنے میں اسی کے اصولوں کو بلند کرنے والے ہیں۔ 319


ایک غریبوں کی ریاست اور ایک امیروں کی، یہ دونوں ایک جگہ رہتی اور ہمیشہ ایک دوسرے کے خلاف سازش کرتی رہتی ہیں۔ 331

غریبوں کی حکومت
اور جب غریب لوگ اپنے مخالفوں پر فتح پاتے ہیں، کچھ کو قتل اور کچھ کو جلاوطن کرچکتے ہیں، اور باقی بچے کھچوں کو آزادی اور اقتدار کا مساوی حصہ دے دیتے ہیں تو اس وقت جمہوریت وجود میں آتی ہے۔ یہ حکومت کی وہ قسم ہے جس میں حاکم اور عہدہ دار عموماً قرعہ اندازی سے منتخب کئے جاتے ہیں۔ 338


یہ جمہوریت کس شان سے ہمارے ان تمام لطیف تصورات کو پائوں تلے روندتی ہے اور ان مشاغل کی طرف ایک آن دھیان نہیں کرتی جن سے مدبر بنتا ہے بلکہ ہر اس شخص کو عزت بخش دیتی ہے جو جمہور کا دوست ہونے کا مدعی ہو۔ 340


یہ کہاوت سچ ہے کہ کتیاں بھی وہی حیثیت رکھتی ہیں جو ان کی مالکہ عورتیں اور گھوڑے اور گدھے احرار کے تمام حقوق و اعزاز کے ساتھ چلنے کا انداز رکھتے ہیں۔ اگر کوئی ان کے راستے میں آجائے اور ان کے لئے سڑک صاف نہ چھوڑے تو یہ اسی کے اوپر سے گذر جائیں۔ الغرض تمام چیزیں، آزادی کی بہتات سے ہیں کہ پھٹی پڑتی ہیں۔ 348


آزادی کی ریادتی سے خواہ ریاست میں ہو یا افراد میں، غلامی کی زیادتی ہی پیدا ہوتی ہے۔ 349


اولاً تو آزادی کی وجہ سے جمہوریت میں دولت شاہی سے بھی زیادہ نکھٹو پیدا ہوتے ہیں۔ 350

چناچہ جمہوریت میں کم ہ بیش ہر چیز کا انتظام و انصرام نکھٹووں کے ہاتھ ہی میں ہوتا ہے۔ 350


تیسرا طبقہ عام لوگوں کا ہوتا ہے۔ اس میں وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے ہاتھ سے کام کرتے ہیں، یہ نہ سیاست جانتے ہیں، نہ کھانے کو ان کے پاس بہت ہوتا ہے۔ جب اکٹھا ہوجائے تو یہی طبقہ جمہوریت میں سب سے بڑا اور سب سے طاقتور ہوتا ہے۔
اید: یہ سچ ہے۔ لیکن یہ انبوہ مشکل ہی سے اکٹھا ہونے پر آمادہ ہوتا ہے، ہاں سوائے اس کے کہ اسے بھی کچھ شہد ملے۔
سقراط: تو کیا انہیں حصہ ملتا نہیں؟ کیا ان کے قائد مالداروں سے ان کی جائدادیں چھین کر عوام میں تقسیم نہیں کرتے؟ ہاں، یہ خیال ضرور رکھتے ہیں کہ اس کا بڑا حصہ خود اپنے لئے محفوظ کرلیں۔ 351



لیکن جس شخص کی نبض صحت اور اعتدال پر ہے وہ سونے سے پہلے اپنے عقلی قویٰ کو بیدار کرلیتا ہے اور شریف خیالات اور مسائل سے ان کی سیری کرکے اپنے وجود کو دھیان میں مجتمع کرلیتا ہے، یہ اپنی اشتہائوں کو بھوکا نہیں مارتا بلکہ انہیں تسکین دیتا ہے لیکن نہ بہت زیادہ نہ بہت کم یعنی اتنی کہ یہ چپکے سے سوجائیں اور یہ یا ان کا حظ و کرب اس کے اونچے اصولوں کے کام میں مخل نہ ہو۔ 360



۔[جابر] اسے دوسروں کا آقا بننا پڑتا ہے جبکہ یہ خود اپنا آقا نہیں۔ 371


[ریاستیں] کل پانچ ہیں یعنی۔ ۱۔ شاہی و اشرافیہ ۲۔ حکومت امتیازی ۳۔ دولت شاہی ۴۔ جمہوریت، ۵۔ اور جابریت یا استبداد۔ 372


لیکن وجود حقیقی کے علم میں جو لذت ہے اس سے صرف فلسفی ہی آشنا ہوتا ہے۔ 376


بے اعتدال اور بے عفت آدمی پر ہمیشہ سے اسی لئے تو لعنت رہی ہے کہ اس کے اندر اس سوسرے راکشس کو بڑی آزادی ہوتی ہے۔ 388


اور اس سے بھی اسے بھلا کیا نفع ہوگا کہ اس کی ناانصافی پکڑی نہ جائے اور وہ اس کی سزا سے بچا رہے؟ جو پکڑا نہیں جاتا وہ تو اور بھی بدتر ہوتا جاتا ہے اور جو سزا پالیتا ہے اس کی طبیعیت کا وحشی حصہ تو پھر بھی خاموش ہوکر انسانیت کی طرف مائل ہوجاتا ہے۔



مصور بھی پلنگ کا خالق ہوسکتا ہے؟
ہاں، لیکن اصلی اور حقیقی پلنگ کا نہیں۔ 394

اور المیہ نگار شاعر بھی چونکہ نقال ہے اس لئے دوسرے نقالوں کی طرح یہ بھی بادشاہ اور صداقت سے بہ مراتب سہ گانہ دور ہے؟
گلاکن: معلوم تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ 396


خود ہومر کے مقلد اور معتقد اس کے مدعی نہیں کہ وہ قانون بنانے والا تھا۔ 398


یہ کہ تین فن ہیں جن کا ہر چیز سے واسطہ ہے، ایک وہ جو اسے استعمال کرتا ہے، دوسرا وہ جو بناتا ہے، تیسرا وہ جو اس کی نقل کرتا ہے۔ 401


نقالی کو اس چیز سے واسطہ ہے جو حقیقت سے تین درجے دوری پر ہوتی ہے۔ 403


شاعری کی حقیقت وہی ہے جو ہم نے بیان کی لہٰذا اس کے ذریعے سے حق تک پہنچنے کی کوئی خاص توقع نہیں کی جاسکتی۔ 411


یہ تین بیسی اور دس سال کا زمانہ ازل کے مقابلے میں تو نہایت ہی چھوٹی سی چیز ہے۔ 412


یہ تین بیسی اور دس سال کا زمانہ ازل کے مقابلے میں تو نہایت ہی چھوٹی سی چیز ہے۔ 412


___________________________________________________________

Tuesday, December 20, 2011

21 Dec 2012 - Dunya jo Khatmo

21 Dec 2012 … DUNYA JO KHATMO

[Language: Sindhi]








MAYA TEHZEEB



Ajj 21 Dec ahe, scientifically Winter Solstice Day yani saal jo uho deenh jadahain (northern hemisphere main) deenh sbh khan nandho ain raat sub khan waddi theendi aahe.
Ajj khan theek hik sal poe 21 12 2012 te Dunya jo subh kha purano calander Mayan Calander khatam thayar waro ahe. Maya tehzeeb Mexico main taqreebn 2000BC khan 500 AD tain rahandi hui ain Astronomy man pehnjo mit paar hui. Unhan jo thayal calander jhenh khe “Mesoamerican Long Count calendar” chawanda ahin, 5125 salan tain halando ahe. Ain in calander ja 5125 sal 21 Dec 2012 te poora thayar wara ahin. Ain Maya tehzeeb je mutabiq jadahin unhan jo hik calander pooro theendo ahe ta Dunya khatam thi weendi ahe. Ain Maya Tehzeeb je mutabiq he ehre qism jo pehriyon waqiyo na ahe Maya tehzeeb je mutabiq ehra waqiya pehriyan bhi 4 dafa thi chukka ahin Ain he 5on chakar hondo jo dunya kenh wadde disaster jo munh disandi.
Maya tehzeeb je mutabiq eho hik dor jo ikhtitam ta hik bbe dor ji shurwat ahe, in je nateeje main dunya ain dunya je rahakun ji zindagi bilkul badalji weendi, jeke energies and taqaton subhi hayatiyat te asar andaz thayn thyon unhan main waddi tabdeeli achi weendi…
Hik mystery eha bhi ahe ta Maya Calender jeko theek 11 August 3114BC khan shuru tho thiye, jadahin Maya tehzeeb paar chhike chhike 2000BC sal purani ahe ta poe ho pehnjo hee calander paar khan hazaren saal agg khan shuru chho kayo?




NOSTRADAMUS


 
Maya tehzeeb akeli nahe jhenh Dunya je Khatam thayar jo tareekhon dinyon hujan, kuch bya b wada wada scholars guzrya ahin jin pehnjon pehnjon pehnje ilm san Dunya je Ikhtitam jo Dates dinyon. Unhan man hik French Nostradamus ahe. Jeko 16ven Sadi jo Ghaib-dan ho… kai marhun je mutabiq WTC ji tabah kari ji peshen gui Nostradamus 100ven saal agg pehnje kitab Propheicies main kare chuko ho.
Nostradamus je peshengoiyin mutabiq bhi Dunya 2012 main khatam thayar wari ahe.



ISAAC NEWTON


 
Dunya jahan khe Gravitaion ja Laws sa waquf karair waro Newton pehnje hisab san Dunya je Khatam thayar ji tareekh 2160 AD. Calculate kayi ahe.


GALACTIC ALIGNMENT


 
Ilme Falkiyat je mutabiq her 26,000 salan khan poe asan jo Sijj asan ji galaxy Milky Way ji bilkul Center jee seedh main achi wendo ahe. Ain Sij jo Milky Way je center j bilkul seedh main achar astronomically hik wadde khatre jo sabab barji saghe tho.
Ain Ehe 26,000 sal 2012 main poora thayar wara ahin. Kujh marhun je nazdeek Maya Tehzeeb bhi inhi Galactic Alignment khe made-nazar rakhi hi Dunya je khatam thayar ji tareekh 2012 muyyan kai hui.



SOLAR MINIMUM SOLAR MAXIMUM


 
Jiyan asan ji Dunya/Earth mukhtalif seasons ma guzrandi ahe … eyan ee asan jo Sij bhi 2 waddin muasmun ma guzrando ahe. Jhen khe Solar Minimum ain Solar Maximum chawanda ahi. In ma her hik jo dor 11 11 sal jo theendo ahe. Solar Minimum 11 sala dor main Sij jon activities sard hondiyon ahin, jadahin the Solar Maximum waran 11 salan main Sij bilkul garam-joshi me hondo ahe, un te activities tez thi wendiyon ahin. Sij ja Tofan, yani Solar Storms ya Solar Flares jeke Solar Minimum ware dor main Hafte main 1-2 nikranda ahin ta Solar Maximum ware dor mai Hik Deenh main 2-3 theenda ahin.
Asan hin waqt Solar Minimum ware dor ma guzri rahya ahon, Akhri Solar Maximum jo dor 2001 main khatam thyo huyo. Next Solar Maxumum 2012 main shuru theendo.






SOLAR STORMS


 
Sij ja tofan tamam kharnak she Honda ahin. Jiyan ta bhudhayo wayo ehe waqtan fawaqtan Sij man nikranda rahnda ahin jin ma kujh asan ji Dunya de rukh kanda ahin, umooman asan ji Dunya ji Megnetic Field inhan je asar khan asan khe bachaye rakhandi ahe per poe bhi kuch wadan tofanan j asar kha dunya paar khe bachaye nahi saghandi. Sij je tofanan jo dunya te attack ka nayee ghalh naye, ehe arben salan khan dunya te nandha ya wada enda rahya ahin, per je nayee ghalah ahe ta uha eha ta je hin chakar ko wado tofan ayo ta dunya ja naqsho ain insanan jon zindagiyon bilkul mataye chhaddindo. Chho jo hin waqt asan ji dunya bilkul Hi-Tech barji wayi ahe. Ain asan jo her kam Electric and Electronic devices ji madad san payo the. Hik Solar Storm akh chhinbh main khala me mokliyal sabhi satellites, dunya ja computers, mobiles, radios, bijli ghar… nakara tabah o barbad kare chhadindo … ain eho kedo wado nuqsan hondo tawanjh in jo paar andazo lagai sagho tha, eho hik wado Apoclaypic event thi saghe tho.. ain asan wari Stone Age main puhchi weendasin.. na tv kam kandi na telephone na internet na radio na paani ji supply na ka bee ka madad. subh ATM cards and machines nakara barji chukyon hondyon, subh bank accounts main rakhayl ‘electronic pesa’ akh chhinb main 0 barji weenda.. bulke bijli ghar ee tabah thi chukka Honda, jeko fuel bachal hondo unh je istimal kha poe ta dunya ghugh oondah jo shikar barji weendi. Petrol na hujar kare sajjo transport nakara barji wendo. Transport je nakara barjar sa sajji Food Chain disturb theendi..
Eha hik Disaster Film na ahe bulke 2009 ji National Academy of Science ji research report ahe.
Ehre ee qism jo hi Solar Storm 1859 me ayo ho, per khush-qismati sa un time asan wat sabh khan oonchi technology sirf Telegraph ee hue jeka in jo shikar thi.. jhenh khe bad main sahi kayo wayo.
Ehro hik nandho tofan 1989 main Canada je soobe Quebec main ayo ho and sajjo soobo oondhe main gark thi wayo. Ain Canada ji hukumat un khe beehar naye sire san thayo.
Per 1859 waro tofan Quebec tofan khan 10 guna wado ho.
Kujh marhun chawan tha Global Catastrophe jald ee achar wari ahe jadahin ta asa agg me ee in mamle mae OverDue thi chukka ahyon.




EARTH MAGNETIC POLES


 
Sciensdanan je mutabiq Asan ji dunya ja Magnetic Poles kujh hazaren lakhen salan main pehnje position mataeenda ahin. Ice Cores and Deep Sea Geology ji madad san khabar pawe thee ta ajj khan 780,000 sal ag, qutub numa ji sui asan khe Dhakhan (south) taraf isharo kare dikhare han, jadhanin ta unkha 50,000 sal age ha wari Utar (north) taraf isharo kare han. Eho asan je planet jo hik Recurring Pattern ahe jeko khenh b time beehar eyan thee saghe tho, yani South Pole North barji wendo ain North pole South. Ain qutub numa ji sui jeka haare North taraf isharo kandi ahe uha achanak South taraf isharo kandi.
Ehre Phenomenon je thayar san asan ji Dunya ji Magnetic Field disturb thendi ahe, ain jakadahin ehre Ain time te kenh Solar Flare asan de rukh kayo … ta poe akh chhinbh main Dunya hik Saryal Raakh (wangur) barji wendi.
Sciencdanan je mutabiq akhri magnetic reverse 780,000 pehryan thi hui jeka hare ‘average’ khan kafi tapi wayi ahe, in kare in field reversal je mamle main bhi asan wari Overdue barji chukka ahyon, yani ehro amal kenh bhi time thi saghe tho… asan kandhi te bhetha ayhon.




Akhir main kujh beyen nandhin per waddin waqiyan je taraf isharo b kando halje:



 ORDOVICIAN MASS EXTINCTION



  Arben salan je asan ji dunya ji hayati ware dor man, taqreeban 99% species vanish thi chukka ahin, khas tor te 5 wadan Mass Extinctions je waqiyan je kare. Un ma subh kha pehriyon ehre qism jo waqiyo ajj khan 450 million years pehriyan ronuma thyo.
Eho aj tain hik qism ji Mystery ahe te eiyon chho theendo ahe per eha haqiqat ahe ta waqtan fa waqtan kenh sabab je kare duny jo hik wado his achanak naboodi jo shikar barji weendo ahe. In jo hik sabab eho tajweez kayo wayo ahe ta asan jo Solar System her 64 million salan main pehnje Milky Way je madar ka baahar nikri weendo ahe, ain ehri soorat main Galactic Bow Shot (ya Shockwave Bow) ma niktal motmar Cosmic Rays jo shikar barji weendo ahe. Ehri soorat main Dunya main saddi hayatiyat j achanak khatam thayar jo khatro bilkul mumkin ahe.




NEMESIS


 
Nemesis hik dwarf star ahe jeko asan je Sij jo orbit kando ahe. Dwarf hujjan je kare hin sitare khe anya tain dditho na wayo ahe per kujh bbayen mukhtalif sababan je kare he mafrooze joriyo wayo ahe ta eho sitaro hi khas muddat khan poe asan je Sij je bilkul wejho achi wendo ahe ain Catastrophic Events jo sabab barbo ahe.




BETELGEUSE

 
Betelgeuse hik Big News ahe, hee hik marandar sitaro (dying star) ahe, jhen khe Red Giant Star chawanda ahin. Betelgeuse asan ji galaxy main asan kha mahz 600 light years pare ahe jeko astronimcally asan khan gharo pare nahi. Per khas ghalh eha ta hee sitaro pehnji maut ji kandhi te ahe ain hik ticking bomb wangur kenh bhi time phaate saghe tho.
BETELGEUSE Orion Constellation main Located ahe ain asan je Sij khan 20 dafa wadheek waddo ahe.
Sceincdan eho dissi kare heran ahin the Betelgeuse guzrayal 10 salan main 15% Dim thi chuko aa, ain eho tamam gharo Unstable aa, ain pehnji kefiyat tezi sa mataye rahyo ahe.
Astronomers samjhan tha ta Betelguese kenh bhi time Supernova thi saghe tho. Matlab eendar kujh lakhen salan main per barabar bilkul subhare bhi eho phaati saghe tho. Yani Supernova thi saghe tho ain Supernova Kainat je sub kha wadho dhamko samjho wendo ahe (big bang chhade kare), jadahin ko sitaro marando ahe to ho hik wadhe dhamake saan khatam theendo ahe jhen khe Supernova chawanda ahin. Supernova main Sitare je bbidheen poles maa Naqabile-e-Yaqeen tez rafter san roshni nikrandi ahe,jhen khe Gamma Rays chawanda ahin. Jekadain in Gamma Rays asan ji taraf rukh kayo ta ghat main ghat nuqsan bhi eho theendo ta asan jo sajjo Atmosphere sedondan main ghaaib thee wendo, ain jekadahin ko atmosphere na rahando ta Her Saah waro mintan main mare wendo.…
Jaddahin Betelguesa phaati kare Supernova theendo ta asan khe deenh jo hik byo Sij waangur nazar eendo! Ain in hikre lamhe main Betelguese etri energy release kando jetri asan jo Sij pahnji poori hayati main kando ahe. (munjhi pehnji soch mutabiq eha ghalh matan islami ravayat main budhyal un ghalh taraf isharo na huje ta qayamt deenh sij Olah kha Ubhrando!)



[Note: Matheen saddi maloomat Internet ain mukhtalif Science Documentaries ta warti wayi ahe. Ddinnal titles khe search kare haqaaiq khe trace kare saghje tho.]



AZHAR HUSSAIN ABRO

Tuesday, November 29, 2011

RASOOM-E-AQWAM

RASOOM-E-AQWAM
by Ali Abbas Jalalpuri
1983


رسومِ اقوام

علی عباس جلالپوری
1983

۔مشمولات:۔
۔۱۔ ولادت
۔۲۔ بلوغت
۔۳۔ بیاہ
۔۴۔ طلاق
۔۵۔ موت
۔۶۔ مذہبی رسمیں
۔۷۔ اجداد پرستی
۔۸۔ صائبیت
۔۹۔ لنگ پوجا
۔۱۰۔ ناگ پوجا
۔۱۱۔ قربانی
۔۱۲۔ کھانا پینا
۔۱۳۔ چائے، کافی
۔۱۴۔ پان
۔۱۵۔ تمباکو
۔۱۶۔ منشیات
۔۱۷۔ لباس
۔۱۸۔ وضع قطع، زیبائش
۔۱۹۔ آداب و اطوار
۔۲۰۔ طبقاتِ معاشرہ
۔۲۱۔ تفریحات
۔۲۲۔ تہوار
۔۲۳۔ شاہیت
۔۲۴۔ جرم و سزا
۔۲۵۔ بردہ فروشی
۔۲۶۔ بنج بیوہار
۔۲۷۔ توہمات
۔۲۸۔ عصمت فروشی
۔۲۹۔ سادھو، سنت، فقیر
۔۳۰۔ طب
۔۳۱۔ حمام
۔۳۲۔ ٹے بُو
۔۳۳۔ ضمیمہ


دنیا کی رسم و رواج، خصوصاً سندھ و پنجاب کے رسم و رواج، ان کا سببِ ابتداء اور موجودہ زمانے میں ان کی معدومیت پر چھوٹی سی پر جامع کتاب۔




۔اقتباسات:۔

میری انتوانت
۔۔ نپولین سے پہلے فرانس میں رواج تھا کہ ملکہ برسرِ عام بچہ جنتی تھی۔ وضع حمل کے وقت محل کے دروازے کھول دیئے جاتے اور عورتیں مرد اندر ہجوم کر آتے، ملکہ میری انتوانت نے اِسی عالم میں سیکڑوں لوگوں کے سامنے بچے کو جنم دیا تھا۔ خیال یہ تھا کہ کسی کو یہ شک نہ ہو کہ بچہ بادشاہ کا نہیں ہے کسی دوسرے کا لاکر رکھ دیا ہے۔ 18

رُستم
۔۔ فردوسی شاہنامہ میں لکھتا ہے کہ پیدائش کے وقت رُستم غیر معمولی طور پر فربہ تھا جس سے وضع حمل میں بڑی دقت پیش آئی اور اُس کی ماں درد کی شدت سے نیم جاں ہوگئی۔ آخر خدا خدا کرکے بچہ پیدا ہوا تو اُس کی ماں نے شکر کرتے ہوئے کہا۔ رُستم "یعنی میں نے رہائی پائی۔" زال نے یہی اپنے بچے کا نام رکھ دیا۔ 18-19


بیاہ
۔۔ علم انسان کے طلبہ بتلاتے ہیں کہ شادی بیاہ کا آغاز پدری معاشرے میں ہوا جو زرعی انقلاب کے بعد صورت پذیر ہوا تھا۔ 27


متعہ
۔۔ بعض اوقات اعراب اپنی بیویاں تبدیل کرلیتے تھے۔ اسے نکاح البدل کہتے تھے۔
ایک نکاح المتعہ تھا یعنی مقررہ مدت کیلئے کسی عورت سے نکاح کرنا۔ اس مدت گزرجانے کے بعد جدائی ہوجاتی تھی۔ اسے صیغہ یا نکاح موقت بھی کہتے تھے، متعہ آنحضرت اور شیخ اول کے زمانے میں رائج تھا۔ شیخ ثانی نے اسے ممنوع قرار دیا لیکن کئی اکابر صحابہ اسے جائز سمجھتے رہے۔
مامون رشید نے متعہ کی حِلت کا علان کروایا تھا۔ جلال الدین اکبر نے ایک مالکی فقیہہ سے فتویٰ لے کر ایک ہی دن میں متعدد عورتوں سے مُتعہ کیا تھا۔ فیروز شاہ بہمنی نے متعہ کے جواز پر سنیوں اور شیعوں میں مباحثہ کرایا۔ شیعوں نے متعہ کی حلت کو ثابت کردیا تو فیروز شاہ نے ایک ہی دن میں تین سو جوان عورتوں سے متعہ کرکے اُنہیں اپنے حرم میں داخل کیا۔ شاہان اودھ واجد شاہ وغیرہ کے محلوں میں سیکڑوں ممتوعات رہتی تھیں۔ 31



۔۔ کالدیا میں مرد اپنی ہی برادری میں نکاح نہیں کرسکتا تھا۔ دوسری طرف بعض قبائل اپنی ہی برادری میں نکاح کرنے پر مجبور تھے، جیسا کہ یھودیوں اور برہمنوں میں رواج ہے۔ ہندوستان میں ذات پات کا ادارہ قائم ہوا تو مرد اپنی ہی ذات یا گوت میں شادی کرنے کا پابند ہوگیا۔ یہ پابندی آج بھی باقی و بحال ہے۔ 31


۔۔ ہندووں اور سکھوں میں رواج تھا کہ کسی عورت کو تصرف میں لانا مقصود ہوتا تو اس پر چادر ڈال دیتے تھے۔ 33
راجہ داھر والی سندھ نے اپنی سگی بہن پر چادر ڈال کر اس سے نکاح کیا۔ 34


ہبتہ النفس
۔۔ ارتھ شاستر میں لکھا ہے کہ کوئی شخص کسی عورت کو دشمنوں کے چنگل سے چُھڑائے یا سیلاب وغیرہ کسی آفت سے بچائے تو اُسے اُس عورت کے ساتھ جنسی ملاپ کا حق مل جاتا تھا۔
مصر جدید کے دیہات میں رواج ہے کہ اگر کوئی کنواری کسی نوجوان کو خلوت میں کہہ دے وھبت لک نفسی (میں نے اپنا آپ تمہیں بخش دیا) تو وہ بغیر گواہوں اور خطبہ نکاح کے خلوت میں جاسکتے ہیں۔ اسے ہبتہ النفس (پنجابی میں تن بخشائی) کہتے ہیں۔ اس کے لئے گواہوں کی ضرورت نہیں پڑتی۔ 35


۔۔ چناچہ رنڈی کا معنیٰ کسبی کا بھی ہے اور بیوہ کا بھی۔ 37


۔۔ مصر میں عروسی کی شب کو لیلۃ الدخلہ کہتے ہیں۔ دُلہا دلہن کو ایک چٹائی پر بٹھا دیا جاتا ہے پھر دلہن کا پیراہن آگے پھیلا کر دُلہا دو رکعت نماز یوں ادا کرتا ہے کہ وہ دُلہن کے دامن پر سجدہ کرسکے۔ 49


برصغیر ہندوپاک کے شمالی مغربی علاقے میں بیاہ کی اکثر رسمیں ہندووں مسلمانوں میں مشترک ہیں بلکہ یہ کہنا قرین صحت ہوگا کہ بہت سی رسمیں ہندووں ہی سے لی گئی ہیں۔ 50


۔۔ مجوسیت میں عورت پر عبادت فرض نہیں ہے گویا اُسے نماز کے قابل ہی نہیں سمجھا جاتا۔ 52


۔۔ اسلام سے پہلے عرب اپنی زوجہ کو تین بار جدا جدا طلاقیں دیا کرتے تھے۔ 53


۔۔ ازروئے شریعت کوئی جرّہ (آزاد عورت) اپنے ہی غلام سے نکاح نہیں کرسکتی۔ 54-55


۔۔ جس طرح بعض سُنی فقہا متعہ کو ناجائز سمجھتے ہیں اسی طرح بعض شیعہ علماء حلالہ کے جواز کے قائل نہیں ہیں۔ 55


۔۔ میت کو غسل دیتے وقت سنی نیم گرم اور شیعہ ٹھنڈا پانی استعمال کرتے ہیں۔ 58


عدم آباد
۔۔ قدیم مصری اور یونانی بھی ہندووں کی طرح مُردے کے مُنہ میں کچہ سونا یا کوئی سکّہ رکھ دیا کرتے تھے تاکہ عدم کا دریا عبور کرانے والا ملاح کشتی کاکرایہ وصول کرکے روح کو عدم آباد پہنچا دے۔ 59


گنبد
۔۔ فن تعمیر میں گُنبد تعمیر کرنے کا اسلوب بودھوں کی چھتریوں سے مستعار لیا تھا تھا۔ مسلمانوں کی قُبہ پرستی، مزاروں کی زیارت کو جانے اور وہاں منتیں ماننے اور اُن کے قریب اُگے ہوئے پیڑوؤں پر منت کی دھجیاں اور فیتے لٹکانے کی رسمیں بودھوں سے لی گئی ہیں۔ 59-60


ستی
۔۔ ستی کی رسم کا رگ وید میں کہیں ذکر نہیں ملتا۔ یہ رسم سکیتھیوں کے ساتھ ہندوستان میں آئی، سکیتھی اپنے سردار کی موت پر اُس کی زوجہ کو بھی اُس کی نعش کے ساتھ دفن کرتے تھے۔ راجپوت سکیتھیوں کی اولاد تھے۔ برہمنوں نے اُن کا شجرہ نسب سورج دیوتا اور چاند دیوتا سے ما ملایا۔ 63



اجداد پرستی
۔۔ پُرکھوں کی روحوں کی ضیافت بھی قدیم مذاہب سے یادگار ہے۔ ہندوؤں کا عقیدہ ہے کہ دیوالی پر پُرکھوں کی روحیں اپنے اپنے گھر کا چکر لگاتی ہیں۔ اس لئے اس تہوار پر طرح طرح کے پکوان اور مٹھائیاں بنواکر اُن کی ضیافت کی جاتی ہے۔ برہمن منتر پڑھ کر یہ کھانے روحوں کو پہنچاتے ہیں اور پھر خود شکر سیر ہوکر کھاتے ہیں۔ ایران کے مجوسی ہمسپت سیدیا کے ایام میں کھانے پکوا کر دخموں اور گھروں کی چھتوں پر رکھتے ہیں تاکہ مُردے کی روحیں بھوکی پیاسی نہ لوٹ جائیں۔ مسلمان بھی فاتحہ پر روحوں کی ضیافت کا اہتمام کرتے ہیں۔ قسم قسم کے کھانے دسترخوان پر چُنے جاتے ہیں۔ مُلاجی اور اُن کے شاگرد فاتحہ کا ثواب رُوحوں کہ پہنچاتے ہیں اور کھانے خود کھا کر تن تازہ ہوتے ہیں۔ 71


شماس
۔۔ آفتاب کے پوجاریوں کو شماس کہتے تھے۔ جلال الدین اکبر بھی شماس تھا۔ وہ دن میں چار دفعہ صبح دوپہر شام اور رات کو سورج کی پوجا کرتا تھا۔ 74


صائبین کعبہ کو سورج کی پوجا کا سب سے بڑا مرکز سمجھتے تھے۔۔
کعبہ کی مشرقی دیوار میں ایک سرخی مائل سیاہ پتھر یعنی حجراسود نصب تھا۔۔
یہ پتھر ایک شہاب ثاقب تھا۔ جسے صائبین کے خیال میں سورج دیوتا نے آسمان سے اُن کے لئے بھیجا تھا۔ 75-76


ملتان ۔ مولستھان
۔۔ چاند کا ایک بڑا معبد ملتان ۔۔ اصل مُولستھان یعنی چاند کا مقام ۔۔ میں تھا۔
یہ بت لکڑی سے تراشا گیا تھا جس پر سرخ رنگ کا غلاف منڈھ دیا گیا تھا۔ 77


گاہ
صائیبن سورج کے طلوع و غروب اور اس کی حرکت کے مختلف مراحل کے ساتھ سات نمازیں پڑھتے تھے اور ان میں رکوع و سجود کرتے تھے۔
مجوسیوں کے پانچ نمازیں اُنہیں سے ماخوذ ہیں۔ جنہیں وہ گاہ بھی کہتے ہیں۔ پنج گاہ یا پنج گانہ کے الفاظ پانچ نمازوں کے لئے وضع کئے گئے ہیں۔ 72


۔۔ متھرامت کے پجاری دن میں تین مرتبہ سورج کی عبادت کیا کرتے تھے۔ پہلے پہر مشرق کی جانب مُنہ کرکے، دوپہر کو جنوب کی جانب رُخ کرکے اور شام کو مغرب کا رُخ کرکے رکوع و سجود کیا کرتے تھے۔ 74


جلال الدین اکبر کے لئے ایک زردشتی ایران سے مقدس آگ لایا تھا۔ اس عالم کا نام اردشیر تھا۔ اکبر نے اس آگ کو نورِخداوند سمجھ کر اس کا انتظام شیخ ابوالفضل کے سپرد کیا۔ 75


انصاب ۔ طواف
اسلام کی اشاعت سے پہلے کے عرب جہاں کہیں قیام کرتے وہیں ایک پتھر کھڑا کرلیتے اور اسے دیوتا سمجھ کر اُس کا طواف کرتے اور قربانی کرتے تھے۔ ان پھتروں کا انصاب کہتے تھے۔

طواف سے ایک اور رسم وابستہ ہے۔ ایران اور ترکستان میں کوئی شخص بیمار پڑ جاتا تو غلاموں سے کہتے کہ مریض کے پلنگ کے گرد چکر لگا کر باہر نکل جائیں۔ کہتے تھے باہر جانے والے مرض اپنے ساتھ لے جاتے ہیں اور میرض شفایاب ہوجاتا ہے۔ شاہجہاں بیمار پڑا تو اس کی بیٹی جہاں آراء نے کئی لونڈیوں غلاموں سے کہا کہ بادشاہ کے پلنگ کا چکر لگا کر باہر چلے جائیں۔ گلبدن بیگم لکھتی ہے کہ اُس کا بھائی ہمایوں بیمار پڑگیا۔ اُس کی حالت دگرگوں ہوگئی تو ظہیرالدین بابر نے اضطراب کی حالت میں جناب مولا علی ابن ابی طالب کا تصور کرکے اپنے بیٹے کےپلنگ کا طواف کیا چناچہ ہمایوں شفایاب ہوگیا اوربابر چل بسا۔
یونانی برھنگی کی حالت میں طواف کیا کرتے تھے کیوں کہ ان کے ہاں برھنگی صداقت کی علامت تھی۔
سکندراعظم نے جنگ ٹرائے کے ہیرو اکیلیس کی قبر کا طواف مادر زاد برہنہ ہوکر کیا تھا۔ 79



ڈاڑھی مونچھ
۔۔ رومن کیتولک پادری دھرتی دیوی کے پجاریوں کے طرح ڈاڑھی مونچھ کا صفایا کراتے ہیں، سر کے بال گول تھالی کی شکل میں مونڈواتے ہیں، عمر بھر کنوارے رہتے ہیں، رنگ برنگ کے ریشمیں کپڑے پہنتے ہیں۔۔۔ 78-79


ہندوستان۔ عجائب گھر
۔۔ ہندوستان واحد "مہذب" ملک ہے جہاں انسانی شعور کے ارتقاء کے جملہ مراحل ترتیب وار ہمارے سامنے آتے ہیں۔ اس ملک کو قدیم ترین متول، جادو کے ٹونے ٹوٹکوں، دیومالائی ریتوں، اجدادپرستی، بُت پرستی، قبر پرستی، تبرکات پرستی کے ساتھ ساتھ توہمات و خرافات کا عجائب گھر سمجھا جا سکتا ہے جس کی سیر آنے والے وقتوں میں علم انسان اور تقابلی مذہب کے طلبہ کے لئے دلچسپی کا باعث ہوتی رہے گی۔ 83


بت ۔ بُدھ
۔۔ بودھوں نے گوتم بُدھ کے بت تراشنا شروع کئے جیسا کہ گندھارا فنِ سنگ تراشی سے مفہوم ہوتا ہے۔ یاد رہے لفظ بُت بُدھ ہی کی بدلی ہوئی صورت ہے۔ 84



ممنوعہ پھل
۔۔ بنو اسرائیل کے ہاں ناگ خرد و دانش کا نشان بھی تھا جس نے حوا کو شجر ممنوعہ کا پھل کھانے کی ترغیب دی تھی۔ اُن کے خیال میں ممنوعہ پھل کھانا آدم اور حوا کا جنسی مقاربت کرنا ہی تھا۔ 89


گندم
۔۔ گندم اُگانے کا راز سب سے پہلے عورت نے عراق میں دریافت کیا جہان یہ پودا وسطی ایشیا، شمالی افریقہ اور یورپ کو پہنچا۔ باغ عدن کی روایت دوآبہ دجلہ و فرات ہی سے وابستہ ہے۔ 96



چاول
چاول وادی سندھ سے جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک کو گیا۔ دنیا میں سب سے پہلے اسی وادی میں پہلے چاول کی کاشت کی گئی تھی۔ ہڑپا اور موئن جو دڑو کے کھنڈروں سے چاول کے دانے دستیاب ہوئے ہیں۔ 97



گوشت
۔۔ گوشت انسان کی اولین غذائوں میں سے ایک ہے۔ اس کی دو معروف قسمیں ہیں، سُرخ اور سفید، گائے، بیل، بکرے، دنبے، بھیڑ کا گوشت سُرخ کہلاتا ہے۔ سفید گوشت مُرغے، تیتر وغیرہ پرندوں کا ہوتا ہے جو زیادہ زُود ہضم اور مُقوی ہوتا ہے۔ 98


۔۔ برہمن گوشت اور انڈا نہیں کھاتے حتی کہ شلجم سے بھی پرہیز کرتے ہیں کہ اس کا رنگ گوشت جیسا ہوتا ہے۔ 99


بُدھ کی موت
ہندوؤں کے برعکس بودھ شروع سے گوشت کھاتے رہے ہیں۔ خود گوتم بُدھ کی موت سور کا گوشت زیادہ مقدار میں کھالینے سے ہوئی تھی۔ 99


سموسہ
سنبوسہ (سموسہ سندھ سے لیا گیا تھا)۔ 101


چھری کانٹا
۔۔ مغربی ممالک میں ۔۔ چُھری کانٹا کا رواج وسطی زمانے کے یورپ میں ہوا۔ وینس کے ایک حاکم ڈوگے کی بیوی دومی نیکو سلویا نہایت نازک مزاج تھی۔ کھاتے وقت شوربے سے انگلیاں لتھڑنا یا ہاتھ سے گوشت کے قتلے اُٹھانا اُسے ناگوار گذرتا تھا۔ یہ دیکھ کر اُس کے شوہر نے اُس کے لئے سونے کا ایک کانٹا بنوادیا جس سے وہ کھانے میں کام لینے لگی۔ بعد میں فرانس کے امیر مونتاسیر نے کانٹے پر چُھری کا اضافہ کیا اور یہ طریقہ مغرب میں ہر کہیں پھیل گیا۔ 102


۔۔ کھانے سے پہلے دعا مانگنے کی روایت مصری ہے۔ 102


مفت خور
۔۔ عرب مفت خوروں کو طفیلیہ کہتے تھے۔ کوفہ میں ایک شخص طفیل نامی رہتا تھا جو کسی نہ کسی بہانے دعوتوں میں شریک ہوجاتا تھا۔ اُسی کے نام پر مفت خوروں کا طفیل خوار یا طفیلیہ کہنے لگے۔ 104


چائے
۔۔ چین میں قدیم زمانے سے ناشتے کے ساتھ چائے پی جاتی تھی۔ ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی کے اہل کار سترھویں صدی کے اوائل میں چائے کو مغربی ممالک میں لائے۔ اس سے پہلے اہل مغرب ناشتے میں بئیر یا چاکولیٹ پیا کرتے تھے۔ 1645ء میں چائے پینے کا رواج انگلستان بھر میں ہوگیا۔ چین میں چائے اُس پانی کو کہتے ہیں جس میں پتیاں اُبالی جاتی ہیں۔ مغرب میں پتیوں کو چائے کہنے لگے۔
چین اور جاپان میں چائے بغیر شکر اور دودھ کے پی چاتی ہے۔ اس میں دودھ اور شکر ملانے کا رواج ہندوستان میں ہوا۔ 105


پان
۔۔ پان سندھ کے طبیب اسے دربار بنوعباس میں لے گئے جہاں اس میں لونگ کا اضافہ کیا گیا۔ 107


جام جمشید
۔۔ فردوسی کہتا ہے کہ جمشید شاہِ ایران نے شراب کشید کرنے کا طریقہ دریافت کیا اور اس کے پینے کا آداب وضع کئے تھے۔ جامِ جمشید اور جامِ جم کی تلمیح فارسی سے اردو شاعری میں آئی۔ 110


۔۔ سکاٹ لینڈ کی وسکی، روس کی واڈکا، جاپان کی ساکی، انگلستان کی جِن تیز نشہ لاتی ہیں۔ 110


نبیذ
۔۔ عربوں کے ہاں نبیذ پینے کا رواج رہا ہے جو کشمش اور خرما کا غیساندہ ہے۔ ۔۔۔ کہتے ہیں کہ نبیذ حرارت عزیزی کو بحال رکھتی ہے اور بڑھاپے کی کمزوری سے بچاتی ہے۔ عراق کے فقہاء نے نبیذ کی حلت کا فتوی دیا تو اس کے پردے میں شراب نوشی کا رواج عام ہوگیا۔ 111


کپاس
۔۔ کپاس کا پودا سب سے پہلے سندھ میں کاشت کیا گیا۔ موئن جو دڑو اور ہڑپا کپاس بیلنے، سُوت کاتنے اور کپڑا بننے کے مرکز بن گئے۔ ان کا بُنا ہوا سوتی کپڑا عراق کے شہروں کو برآمد کیا جاتا تھا۔ سوتی کپڑا بُننے کی صنعت وادی سندھ ہی سے عراق کو پہنچی تھی۔ 116


۔۔ صلیبی جنگوں سے پہلے عیسائی سلاطین و امراء ننگ دھڑنگ سویا کرتے تھے، شب خوابی کا لباس عربوں کی دیکھا دیکھی اختیار کیا۔ 119


خیاطی در ہند
۔۔ مسلمانوں کی آمد سے پہلے ہندو کمر سے لنگوٹی باندھتے تھے اور ننگے پاؤں ننگے سر رہتے تھے عورتیں ایک بے سلی چادر کمر سے باندھ کر اس کا پلو سر پر ڈال لیتی تھیں۔ اسے ساری کہتے ہیں۔ بابر کی تزک سے معلوم ہوتا ہے کہ ہند میں خیاطی کا ہنر نہیں تھا۔ خیاط مسلمان حملہ آوروں کے ساتھ ایران اور خراسان سے آئے تھے۔ 120


نقاب
۔۔ ایران، خراسان اور ترکستان میں عورتیں چہروں پر نقاب ڈال لیتی تھیں۔ لیکن آنکھیں کُھلی رکھتی تھیں۔ تاجیک عورتیں گھوڑے کی دُم کے بالوں کا نقاب اوڑھتی تھیں جسے رُوبند کہا جاتا تھا۔
پرانے زمانے میں نظر بد سے بچنے کے لئے عورتیں اور خوبصورت مرد نقاب اوڑھا کرتے تھے۔ محمد بن عمرہ کندی شاعر نقاب پہن کر باہر نکلتا تھا۔ امین الرشید نقاب کے بغیر دربار میں نہیں آتا تھا۔ تنجہ اور الجزیرہ کے ملثمین (لثام یا نقاب اوڑھنے والے) کھلے منہ باہر نہیں نکلتے تھے حالاں کہ اُن کی عورتیں کھلے منہ باہر جاتی تھی۔ 120


شلوار
۔۔ شلوار ایران سے آئی، عربوں نے اسے سروال بنالیا، سکھ عورتوں نے سُتھنا کہہ کر اسے اپنا لیا۔ 121


۔۔ انیسویں صدی میں مغربی عورتوں کالباس ٹخنوں تک ہوتا تھا پھر جو گھٹنا شروع ہوا تو بیسویں صدی کے اوائل میں گھٹنوں کے اوپر تک گیا اور اب جنوبی ممالک میں چڈی کی صورت اخیتار کرتا جا رہا ہے۔ 122


۔۔ سکندر اعظم نے تاریخ میں پہلی بار اپنے سپاہیوں کی ڈاڑھیاں مونڈا دیں کہ لڑائی میں ڈاڑھی سے دشمن کے قابو میں نہ آجائیں۔ 124


۔۔ ابن بطوطہ کہتا ہے کہ ہندوستان میں مسلمان عورتیں کان نہیں چھدواتیں جب کہ ہندو عورتیں کان چھدوا کر بالیاں پہنتی ہیں۔ 125


الفیہ
۔۔ کشیدہ قامت عورت (عربوں کی الفیہ یعنی ا کی طرح سیدھی، ایرانیوں کی سروِرواں) جس کے ہاتھ پاؤں چھوٹے چھوٹے اور گداز ہوں خاص طور سے خوبصورت سمجھی جاتی ہے۔ 126


عشق مشک
نپولین کی ملکہ اپنا رومال مُشک میں بسائے رکھتی تھی۔ سیمی رامیس، یزبل، میسالینا، ہیلن، دلائلہ، تائیس، تھیوڈورا، اور کلیوپیٹرا کی بے پناہ جنسی کشش کا راز عطریات ہی میں تھا۔ شیکسپیئر کلوپییٹرا کے بارے میں کہتا ہے کہ وہ اپنا بدن اور لباس اسقدر مُعطر رکھتی تھی کہ ہوائیں بھی اس کے عشق کی مستی میں گرانبار ہوجاتی تھیں۔ فرانس کی ایک حسینہ جبریلے نے شاہ ہنری چہارم کو پسینہ پونچنے کے لئے اپنا مشک میں بسایا ہوا رومال دیا تو وہ اس کے عشق میں دیوانہ ہوگیا۔ ترکستان اور ایران میں غالیہ، ند، مُر، عود، اور عنبر بہت مقبول خوشبوئیں تھیں۔ 128


کاجل
۔۔ ہمارے ہاں عورتیں زیبائیش کے لئے آنکھوں میں کاجل لگاتی ہیں۔ ابتداء میں کاجل بدروحوں کو بھگانے کے لئے لگایا جاتا تھا۔ 129


مساگ
۔۔ پنجابی عورتیں ہونٹوں اور دانتوں پر اخروٹ کے درخت کی چھال ملتی ہیں جسے سندھ میں مُساگ اور پنجچاب میں چھوڈا یا سکڑا کہا جاتا ہے۔ اس سے دانت صاف ہوکر چمکنے لگتے ہیں اور ہونٹوں پر سرخی کالالکھا جم جاتا ہے۔ 129


مصافحہ
۔۔ قدیم زمانے میں ہاتھ اُٹھا کر یا مصافحہ کر کے ملنے سے یہ جتلانا مقصود ہوتا تھا کہ میرے ہاتھ خالی ہیں اور میرے پاس کوئی ہتھیار نہیں ہے جس سے کسی قسم کا خطرہ ہوسکتا ہو۔ یہ رواج اُس دور سے یادگار ہے جس ہر وقت ہر شخص سے جان کا خطرہ لاحق رہتا تھا۔ 130


۔۔ جلال الدین اکبر نے زمین بوس کا رواج دیا یعنی اُس کے سامنے جاکر لوگ زمین چومتے تھے۔ ۔۔۔۔ لکھنو اور دلی میں شرعی سلام علیک ترک کردیا گیا اور ایک دوسرے کو آداب یا تسلیمات کہنے لگے۔ 131


۔۔ چہار زانو نشست کو فرعونی کہا جاتا تھا۔ 132


طبقاتی معاشرہ
۔۔ زرعی انقلاب کے بعد ریاست صورت پذیر ہوئی جس کے ساتھ معاشرہ انسانی مختلف طبقات میں بٹ گیا۔ بادشاہوں اور اُن کے حاشیہ نشینوں نے اقتدار پر قبضہ جمالیا۔ محنت کش کاریگر اور کسان ان کے لئے عیش و عشرت کے سامان فراہم کرنے پر مامور ہوئے۔ اس طرح دو بڑے طبقات معرض وجود میں آگئے۔ سلاطین، اُمراء اور پروھتوں کا طفیل خوار مقتدر طبقہ اور محنت کش عوام جن کا استحصال وہ کرتے تھے۔ قدیم مصر میں فرعون، اُس کے درباریوں اور پروھتوں کا سب سے طاقتور طبقہ تھا۔ اُن کے بعد بتدریج گوالے، سورچرانے والے، تاجر، ملاح اور کسان آتے تھے۔ کنفیوشس نے چین میں جس معاشرے کی طرح ڈالی اۡس میں عالموں کی عظمت قائم کی۔ وہ حکومت کے اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔ ان کے بعد کسان، کاریگر اور تاجر تھے۔ تاجروں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا کیوں کہ کاریگر اور کسان محنت مشقت کر کے روزی کماتے ہیں جب کہ تاجر اجناس اور مصنوعات کا محض تبادلہ کرکے دولت سمیٹ لیتے ہیں۔ ۔۔ عرب تجارت کو شریف تریں پیشہ سمجھتے تھے اور کسانوں کے حقیر جانتے تھے۔ 134


۔۔ عربی موسیقی اصلاً عجمی ہے۔ خسروپرویز کے سرباری گویوں بارپد اورنگیسا نے ایرانی موسیقی کو بامِ کمال تک پہنچا دیا۔ نو مسلم عجمیوں نے ایرانی دُھنوں کو عربی اشعار میں منتقل کیا۔ اکابر مغنی سیاط، فلیح، زلزل، ابراہیم موصلی، اسحٰق موصلی، طولیس، زریاب سب عجمی تھے۔ 140


سازینہ یا آرکیسٹرا
۔۔ سازینہ یا آرکیسٹرا سب سے پہلے ہارون الرشید کے عہد میں ترتیب دیا گیا۔ اُس کے سامنے عود، چنگ، صنج اور دف بجانے والی کنیزیں اپنے اپنے ساز لے کر الگ الگ پرلے باندھ کر کھڑی ہوجاتی تھیں اور باری باری یا مل کر اپنے اپنے ساز بجاتی تھیں۔ ۔۔۔
ایک ماہر موسیقار ہاتھ میں قضیب (چھوٹی سی چھڑی) لئے اسے کے اشاروں سے کنیزوں کو ہدایت دیا کرتا تھا۔ جیسا کہ مغرب کے آرکیسٹر میں کنڈکٹر کرتا ہے۔ بعد میں سازینہ کا یہ اسلوب دوسرے ممالک میں بھی رواج پا گیا۔ 141


سرکس کے شیر
۔۔ نواب اور مہاراجے کسی سرکس کا شیر جنگل میں چوڑ دیتے اور صاحب بہادر اُسے مار کر اپنی بہادری کا چرچا کیا کرتے تھے۔ 145


پولو
۔۔ عربوں کے واسطے سے چوگان، یورپ تک پہنچ گیا۔ آج کل اسے پولو کہا جاتا ہے۔ 146


۔۔ فٹ بال اور تاش چین کی دین ہے۔ 146-147


شطرنج
۔۔ شطرنج اصل میں چترانگ (چار پہلو) تھا جو ہندو راجاؤں کی فوج کے چار شعبوں پیدل، پیلا (فیل)، گھڑسواروں اور رتھوں کی رعایت سے ایجاد کیا گیا۔ اس کی ایجاد سندھ کے ایک بودھ سوامی سسّہ سے منسوب ہے۔ نوشیرواں کا وزیر برزویہ اسے ایران لے گیا جہاں سے عربوں نے اسے مغرب تک پہنچادیا۔ بنو عباس شطرنج کھیلا کرتے تھے۔ ہارون رشید نے ہاتھی دانت کا ایک خوبصورت شطرنج شارلیمان شاہِ فرانس کو بھجوایا تھا جو آج بھی پیرس کے ایک عجائب گھر میں محفوظ ہے۔ بعض سلاطین سونے کے جڑواؤ مُہر بنواتے تھے جن میں فیل، گھوڑے، رتھوں اور پیدلوں کی صورتیں بنوائی جاتی تھیں۔
ہندوستان کا منتری ایران جاکر فرزین (مشیر وزیر) بن گیا۔ اہلِ مغرب نے اسے ملکہ بنادیا کیوں کہ ان کے دربار میں ملکہ بادشاہ کے ساتھ تخت پر بیٹھا کرتی تھی اور بڑی صاحبِ اخیتار ہوتی تھی۔ اس کی ایک مثال فرڈینیڈ شاہ ہسپانیہ کی ملکہ ازابیلا پیش کرتی ہے۔ شطرنج کے مُہروں کی چال معین ہے۔ بادشاہ پر کسی مُہرے کی زد پڑے تو کھیلنے والا آواز دیتا ہے "شہ" یا شکست اور بادشاہ کے لئے چال چلنے کا کوئی خانہ نہ رہے تو اسے شہ مات یا مات کہتے ہیں۔ بعض مغل بادشاہ زندہ شطرنج کھیلتے تھے۔ حسین کنیزیں ہتھیاروں سے مُسلح مُہرے بن کر اپنے اپنے خانوں میں کھڑے ہوجاتی تھیں اور تیغ زنی کے جوہر دکھاتی تھیں جب کوئی مُہرہ پٹ جاتا تو اُس کی کنیز بساط سے باہر نکل جاتی تھی۔ شطرنج ایک نہایت پیچیدہ کھیل ہے جس کے عُقدے سُلجھانے پر بہترین دماغوں کا زور صرف ہوتا رہا ہے۔ آج کل روسی عورتیں مرد اس کے بہترین کھلاڑی سمجھے جاتے ہیں۔ اس کھیل پر بڑی بڑی صخیم کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ 147-148



۔۔ ہمارے ہاں کے بچوں اور بچیوں کے پسندیدہ کھیل: گڑے گڑیا کا بیاہ، آنکھ مچولی، چیل جھپٹّا، باگھ بکری، دب دبولی، کِیڑکڑانگا، گلی ڈنڈا، قاضی مُلّا، سِت کُدی، ٹھیکری مار، شاہ شٹاپوُ، ٹہنا تھال، گیڑیاں، چیچو چیچ گھچولیاں وغیرہ۔ 150


نوروز
۔۔ ایک روایت کے مطابق یہ جشن جمشید نے پہلی بار منایا تھا۔ 151


جرمنی کے بعض دیہات میں کرسمس کے بعد چوتھے روز بچے ماں باپ کی پٹائی کرتے ہیں۔ بلغاریہ میں اس روز نوکر اپنے آقا پر حکم چلاتے ہیں۔ اس سے ملتی چلتی ایک رسم ایران میں تھی جسے مردِ گیراں کہتے تھے۔ ایک روز کے لئے عورتوں کے حکومت مردوں پر قائم ہوجاتی تھی اور مرد کو عورت کی ہر فرمائش پورا کرنی پڑتی تھی۔ 153


بسنت
۔۔ ماگھ کی پانچویں کو بسنت یا بہار کی آمد کاتہوار منایا جاتا ہے۔ چاروں طرف گانے بجانے کی آوازیں آتی ہیں، ایک دوسرے پر گلال پھینکتے ہیں۔ پنجاب میں اس روز رنگ برنگ کی پتنگیں اُڑائی جاتی ہیں۔ بچے جوان بوڑھے پتنگ بازی کے مقابلوں میں جوش و خروش سے حصہ لیتے ہیں۔ عورتیں بسنتی جوڑے یعنی سرسوں کے پھولوں کے رنگ کا زرد بلاس پہنتی ہیں۔ 154


بادشاہ
۔۔ بادشاہوں کی اکثریت کم سواد، بے شعور اور برخود غلط احمقوں پر مشتمل تھی۔ وہ اپنے آپ کو زمین پر خدا کا نائب سمجھتے تھے۔ چنگیز خاں کہا کرتا تھا۔ "اُوپر خدا نیچے خان"۔۔۔ 159


۔۔ جلال الدین اکبر صبح سویرے درشن کے جھروکے میں کھڑا ہوتا تھا اور ہزاروں آدمی اُسے دیکھتے ہی سجدے میں گر پڑتے تھے۔ 160


سکندر کے سینگ
۔۔ سکندر اعظم اپنے تاج پر مصر کے دیوتا آمن رع کے مقدس بیل کے سینگوں کا نشان پہنا کرتا تھا۔ 160


عمر قید کی سزا
۔۔ (ارتھ شاستر میں قانون کی ایک شق۔۔) کنواری لڑکی جس کی نسبت کہیں نہ ٹھری ہو اگر اپنی مرضی سے کسی شخص کے ساتھ خلوت میں جاتی تو سزا کے طور پر دونوں کو بیاہ کردیا جاتا تھا گویا عمر قید کی سزا دی جاتی تھی۔ 169

۔۔ رومہ میں چوری کی سزا یہ تھی کہ چور موقع پر پکڑا جاتا تو اسے صاحب خانہ کی غلامی میں دے دیا جاتا تھا۔ 170


گوبھی کا پھول
۔۔ اُنیسویں صدی کے اواخر تک انگلستان میں گوبھی کا پھول یا بھیڑ چرانے کی سزا موت تھی۔ بچوں کو بھی معاف نہیں کیا جاتا تھا۔ 170


۔۔ آٹھویں نویں صدیوں میں برہمنوں نے بودھوں کا استحصال اس بے رحمی سے کرایا کہ بُدھ مت جو ہندوستان کے کونے کونے میں پھیل چکا تھا حرفِ غلط کی طرح مٹادیا گیا۔ بودھوں کے ستوپے اور دیہارے آگ لگا کر خاکستر کردئیے گئے اور بودھوں کو اُونٹتے ہوئے تیل میں پھکوا دیا گیا۔ 170


۔۔ اورنگزیب نے دکن کے شیعہ مملکتوں پر کئی سال حملے جاری رکھے اور انہیں برباد کرکے دم لیا۔ 171


۔۔ مذہبی اختلاف کی بنا پر قتل کرنا زیادہ عبرت ناک ہے کہ اِس جُرم پر قاتل کی ضمیر اُسے پریشان نہیں کرتی۔ 171


۔۔ آقاؤں اور غلاموں کی آویزش بعد میں جاگیرداروں اور مزارعوں کی چپقلش میں بدل گئی۔ 174


مولیٰ/ موالی
۔۔ آزادی خریدنے کے بعد غلام اپنے آقا کا مولیٰ بن جاتا تھا، عرب باپ اور لونڈی ماں کے بیٹے ہجین (دوغلے) کہلاتے تھے جنہیں حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ غلام کو اس کے نام لے کر بلانا معیوب تھا۔ اسے تالی پیٹ کر بلایا کرتے تھے۔ 174-175
مولیٰ کا درجہ حُر اور غلام کے بین بین تھا۔ موالی اپنے آقا کے قبیلے سے وابستہ رہتے تھے۔ 176


۔۔ یونان میں دینار سونے کا اور درہم چاندی کا سکہ تھا۔
درہم کا معنی ہے 'مٹھی بھر' (جَو یا گندم) ایک دینار دس درہم کے برابر تھا۔ 178


روپیہ
۔۔ مُغلوں نے روپیہ (رُوپا بہ معنیٰ چاندی) چلایا جو چالیس دام کے برابر تھا۔
جلال الدین اکبر کے حکم پر ٹنکہ اور مُہر پر تاریخ الف ثبت کرائی گئی۔ اس کا مقصد یہ ظاہر کرنا تھا کہ ایک ہزار سال گذر چکے ہیں اور اسلام کا دور گذر چکا ہے، اب دینِ الٰہی کا دور ہے۔ 179


مرزا کا جنازہ
۔۔ بعض اوقات قرض کی وصولی کے لئے مقروض کا جنازہ روک لیا جاتا تھا۔ جب تک گھر والے قرض ادا نہ کرتے جنازہ اُٹھانے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی جیسا کہ مرزا غالب کی وفات پر ہوا تھا۔ 180


وادی سندھ
۔۔ وادی سندھ میں دنیا بھر میں سب سے پہلے چاول اور کپاس کی فصلیں اُگائی گئیں۔ انہیں کشتیوں مین لدوا کر عراق کو برآمد کیا جاتا تھا۔ موئن جو دڑو اور ہڑپا کے شہروں سے سُمیریا کی کچھ مُہریں دستیاب ہوئی ہیں جو سکّوں کے بطور استعمال کی جاتی تھیں۔ دراوڑوں سے جو باٹ ملے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ لین دین کے کھرے تھے۔ 180


شمن مت
۔۔ شمن (لغوی معنی بزرگ، سیانا) مت میں علاجِ امراض اور غیب کی حال بتلانے کے لئے روحوں سے رجوع لاتے تھے۔ ترکستان اور ملایا میں شمن انسانوں اور روحوں کے مابین ضروری واسطے سمجھے جاتھے تھے۔ شمن ہمیشہ وجد و حال کے عالم میں پیش گوئی کیا کرتا تھا۔ عقیدہ یہ تھا کہ ازخود رفتگی کے عالم میں شمن کی زبان سے روحیں کلام کرتی ہیں۔ اس حالت میں شمن کی روح اپنے بدن سے جُدا ہوکر کسی مُردہ آدمی یا جانور کے قالب میں منتقل کی جاسکتی ہے۔
شمن اور جادوگر میں فرق ہے۔ شمن ہمزاد کی مدد سے بدروحوں کو بھگادیتا ہے جب کہ جادوگر منتروں کے زور سے بدارواح پر قابو پالیتا ہے۔ 185


۔۔ کہتے ہیں جن نمک، لوہے، حرمل، مہندی، اور چمڑے سے دور بھاگتے ہیں۔ تیز روشنی کے قریب بھی نہیں پھٹکتے۔ 186


۔۔ سندھ میں عام کسبی کو رنگیلی کہتے ہیں 189

(کسبیوں کے دھندوں سے) جو محصول لیا جاتا تھا اس سے پولیس والوں کو تنخواہیں دی جاتی تھی۔ 189


۔۔ اُمراء اپنے بیٹوں کو آداب محفل سکھانے کے لئے طبقے کے ڈیروں پر بھیجا کرتے تھے۔ اس ضمن میں یونان کی ہٹیرا، جاپان کی گیشا، ہند کی ویشیا اورلکھنو کی ڈیرہ دار طوائف قابلِ ذکر ہیں۔ 190


۔۔ عیسائی راہبوں اور راہبات کو ایک بات دوسروں بے شرع و بے قید لوگوں سے ممتاز کرتی تھی۔ وہ عمر بھر غسل نہیں کرتے تھے کہ ان کے خیال میں بدن کی صفائی سے نفسانی خواہشات غلبہ پالیتی ہیں۔ وہ جوؤں کو "خدا کے موتی" کہا کرتے تھے۔ 195


۔۔ سندھ سے منکہ، بہلا اور فلبرفل جیسے معالج بنو عباس کے دربار میں باریاب ہوئے اور آیورویدک اور طب یونانی کا امتزاج عمل میں آیا۔ 198

_______________________________________________
Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...