FIKRism

Sunday, February 13, 2011

KZMARKA - Gan - Zaati Milkiyat

خاندان، ذاتی ملکیت اور ریاست کا آغاز
فریڈرک انگلز



اقتباسات: حصہ ۲
۔(شرح و نقد)۔


امریکی انڈین
امریکہ انڈینوں کی بہت بڑی اکثریت کبھی بھی قبائلی منزل سے آگے نہیں بڑھ سکی۔

ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں ہمیں اس وفاق کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ صورت ایروکواس لوگوں میں ملتی ہے۔ ان کا ابتدائی وطن مسی سیپی کے مغرب میں تھا، جہاں غالباً وہ عظیم ڈکوٹا نامی نسل کا حصہ تھے۔ وہاں سے نکل کر وہ بہت دنوں تک گھومتے پھرتے رہے اور پھر اس علاقے میں آبسے جو آج کل نیویارک کی ریاست ہے۔ وہ پانچ قبیلوں میں بٹے ہوئے تھے۔ سینیکا، کایوگا، اوننڈگا، اونیڈا اور موہاوک۔ وہ مچھلی، شکار کیے ہوئے جانور اور بہت ہی بھدے قسم کی باغبانی کی پیداوار پر گزربسر کرتے تھے۔ وہ ایسے گاؤں میں رہتے تھے۔ جو زیادہ تر باڑوں سے گھرے ہوتے تھے ان کی تعداد کبھی بھی بیس ہزار سے زیادہ نہیں ہوئی۔ 97


گن
گروٹ ہی نہیں بلکہ نیبور، مومسن اور قدیم کلاسیکی عہد کے سب سے پہلے کے مورخ بھی گن کے مسئلے کو حل کرنے میں ناکام رہے۔ یہ صحیح ہے کہ انہوں نے اس کی بعض نمایاں خصوصیات کا پتہ لگالیا تھا مگر گن کو وہ ہمیشہ خاندانوں کا ایک گروہ سمجھا کیے اور انہوں نے ایسی صورت حال پیدا کردی جس میں ان کے لیے گن کی نوعیت اور اس کی ابتداء کو سمجھنا ناممکن ہوگیا۔ گن کے دستور کے تحت خاندان کبھی بھی تنظیم کی اکائی نہیں رہا اور یہ ممکن بھی نہیں تھا کیونکہ شوہراور بیوی لازمی طور پر مختلف گنوں میں ہوتے تھے۔ گن بحیثیت مجموعی فریٹری (برادری) اور فریٹری قبیلے کے اندر تھی مگر جہاں تک خاندان کا تعلق ہے وہ آدھا شوہر کے گن میں اور آدھا بیوی کے گن میں بٹا ہوا تھا۔ 105


گن کا ایک مشترک مورثِ اعلٰی کی نسل سے ہونا، ایک ایسی پہیلی اور گتھی ہے جس سے 'تعلیم یافتہ کم نظروں' کا دماغ چکرا گیا ہے۔ (مارکس)۔ 106


اس نظام کی وجہ سے علم محفوظ رہا کہ گن کے سب لوگوں میں آپس میں کیا رشتہ ہے۔ یہ ان کے لیے بڑی اہم بات تھی جس کو وہ اپنے ابتدائی بچپن کے زمانے سے ہی سیکھ لیتے تھے۔ 106-107


قبیلوں، فریٹریوں اور گنوں کی اس باقاعدہ اور مفصل تقسیم کو دیکھ کر یہی خیال ہوتا ہے کہ اس نظام کی تشکیل تو خود بخود ہوئی تھی مگر بعد میں اس میں سوچ سمجھ کر اور باقاعدہ دخل اندازی کی گئی۔

۔[ہاں جب انسان کے پاس 'سوچ سمجھ' آگئی تو وہ اسے یقیناً استعمال بھی کرنے لگا!]۔


ریاستِ ایتھنز
ریاست کا ارتقا کیونکہ ہوا، نئے اداروں کے قائم ہونے کی وجہ سے کیونکر گن دستور کے کچھ ادارے بدل گئے اور کچھ مٹ گئے اور آخر میں کس طرح سارے پرانے اداروں کی جتہ پر صحیح معنی میں سکاری حکام آگئے اور دوسری طرف "ہتھار بند عوام" کی جگہ، جو خود اپنے گنوں، فریٹریوں اور قبیلوں کے ذریعے اپنی حفاظت کیا کرتے تھے، ہتھیار بند" سرکاری طاقت" (پولیس) قائم ہوئی جو ان حکام کے اشاروں پر چلا کرتی تھی اور اسی باعث جس سے عوام کے خلاف بھی کام لیا جا سکتا تھا۔ یہ تمام باتیں خاص کر اپنے ابتدائی دور میں جتنی صفائی کے ساتھ ایتھنز میں دیکھی جاسکتی ہیں، اتنی صفائی کے ساتھ اور کہیں نہیں دیکھی جاسکتیں۔ 113


امریکہ کے انڈین ترقی کی جس منزل تک پہنچے تھے، ایتھنز کے باشندے اس سے ایک قدم آگے بڑھ گئے۔ 114


ایتھنز کے طبقات
تھیستئیس کی طرف ایک اور بات منسوب کی جاتی ہے اور وہ یہ کہ اس نے تمام لوگوں کو گن، فریٹری او رقبیلے کے فرق کو بھلا کر، تین طبقوں میں تقسیم کردیا: یوپٹیریڈیز یعنی امراء اور شرفا کا طبقہ، جیوموروئی یعنی زمین کی کاشت کرنے والے لوگ اور ڈیمی ارجی یعنی دستکار۔ سرکاری عہدیدار بننے کا حق صرف امرا اور شرفا کو دیا گیا۔ 114



پہلے جب لوگوں کی زندگی کے حالات گن دستور کے مطابق تھے، تب اس طرح کا انقلاب ناممکن تھا۔ لیکن اب یہ انقلاب ہوگیا اور کسی کو پتہ بھی نہ چلاا کہ اتنی بڑی تبدیلی کیسے ہوگئی۔ 116


پیداوار بہت محدود دائرے میں ہوتی تھی لیکن پیداوار کرنے والوں کا اپنے پیدا کیے ہوئے مال پر قبضہ ہوتا تھا۔ عہد بربریت کے طریقہ پیداوار کی یہ ایک بڑی خوبی تھی جو تمدن کے آتے ہی ختم ہوگئی اور فطرت کی قوتوں پر انسان کو جو زبردست قدرت حاصل ہوگئی ہے اور انسانوں میں آج جو آزاد تعاون ممکن ہے، اس کی بنیاد پر عہد بربریت کی پیداوار کی اس خصوصیت کو پھر سے حاصل کرنا ہی آنے والی نسلوں کا کام ہے۔ 117

۔[روس کے غریب کسان جنہیں 'کولاک' کہا جاتا ہے، اپنی 'قلیل' زمینوں کے 'مالک' ہوا کرتے تھے، اوپر دیے گئے پہلے جملے کے مصداق، پر روسی کمیونسٹ انقلاب کے بعد ان سے وہ زمینیں جبراً چھین لی گئین اور 'حکم' نہ ماننے کے پاداش میں تیس لاکھ قتل کردیے گئے یا جیلوں میں مرگئے اور ستر لاکھ افلاس کی وجہ سے مرگئے۔۔۔ اینگلز کے الفاظوں میں (کولاک) عہد بربریت کی بہت بڑی خوبی تھے جو تمدن (کمونزم) کے آتے ہی ختم ہوگئے!]۔



زر کی ایجاد
جنسِ تبادلہ کی پیداوار کے ساتھ ساتھ انفرادی کھیتی بھی شروی ہوگئی۔ لوگ الگ الگ اپنے فائدے کے لیے زمین جوتنے لگے۔ اس کے تھوڑے عرصے بعد زمین پر انفرادی ملکیت قائم ہوگئی۔ پھر زر یا روپیہ یعنی وہ چیز آگئی جس کا دوسری سبھی چیزوں کے ساتھ تبادلہ ہوسکتا تھا۔ 117



عوام کو پہلی بار خون کے رشتوں کی بنیاد پر نہیں بلکہ علاقے کے مطابق، بودباش کی مشترک جگہ یعنی ایک ہی جگہ بسے ہوئے ہونے کی بنیاد پر، الگ الگ بانٹ دیا گیا تھا۔ 119


لوگوں کو نہیں بلکہ علاقوں کو تقسیم کیا گیا۔ 122


پولیس
پولیس اتنی ہی پرانی چیز ہے جتنی پرانی ریاست۔
اس طرح اپنی ریاست قائم کرنے کے ساتھ ساتھ ایتھنز کے باشندوں نے اپنی پولیس بھی بنا ڈالی جس کو تیر کمان سے لیس پیدل اور سواروں کا دستہ کہنا غلط نہ ہوگا۔ جنوبی جرمنی اور سوئٹزلینڈ کی زبان میں کہا جائے تو ایتھنز والوں نے اپنی لہنڈجاگر بنا ڈالی تھی۔ اس پولیس کے سپاہی سب غلاموں میں سے تھے۔ ایتھنز کے آزاد شہری پولیس کا کام یتنا نیچ سمجھتے تھے کہ ایک ہتھیار بند غلام کے ہاتھوں تو گرفتار ہونا انہیں پسند تھا مگر یہ پسند نہ تھا کہ خود اس نفرت انگیز کام کو کریں۔ 123-124

۔[۔۔۔ اور اسی طرح لینن و اسٹالن نے بھی اپنی 'ریاست' کی بچا و بقا کے لیے ایک سیکریٹ پولیس تشکیل دی، جس سے 'اینیمل فام' والے جنگلی کتوں کی طرح کام لیا جانے لگا۔ تاکہ کہیں سے بھی 'مخالفت' کی آواز اٹھنے نہ پائے اور (آواز کا اٹھنا تو دور کی بات) صرف پوٹیشل رسک ہی کو وہیں کا وہیں دبا دیا جائے!]۔

_________________________

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...