FIKRism

Thursday, February 11, 2010

Tareekh aur Nisabi Kutub-Excerpts

تاریخ اور نصابی کتب
ڈاکٹر مبارک علی

اقتباسات


۔۔ ایک طویل عرصہ تک تعلیم کو نہ مشرق میں زیادہ اہمیت دی جاتی تھی اور نہ مغرب میں۔ اس کے مقابلہ میں زیادہ اہمیت فوجی تربیت کی تھی اور ایک فوجی تعلیم یافتہ سے زیادہ معاشرہ میں باعزت سمجھا جاتا تھا کیونکہ اس کے پاس وہ طاقت اور قوت ہوتی تھی کہ جو سب کو نظر آتی تھی۔ اس کے مقابلہ میں ایک تعلیم یافتہ اپنی دانشورانہ صلاحیت و طاقت کو ذہن بدلنے کے استعمال کرتا تھا۔ چونکہ اس کے اثرات فوراً نظر نہیں آتے تھے، اس لیے اس کی عزت بھی نہ تھی۔ لہذا ریاست کو تعلیم سے بہت زیادہ دلچسپی نہیں تھی، سوائے اس کے کہ اسے انتظامیہ اور حساب کتاب کے لءے تعلیم یافتہ لوگوں کی ضرورت ہوتی تھی۔ اس وجہ سے تعلیم ذمہ داری مذہبی اداروں نے لےلی تھی۔ یورپ میں چرچ نے اپنے اسکول کھول رکھے تھے، جبکہ مسلمان معاشرہ میں مسجدوں مدرسوں یا انفرادی طور پر علماء تعلیم دیا کرتے تھے۔ ص۔ 17

۔۔ ریاست نے تعلیم کو اپنی سرپرستی میں لے لیا تو اس نے اسے اپنے مقاصد اور مفادات کے لیے استعمال کیا۔ نصاب کے ذریعہ طالب علموں میں قوم پرستی، حب الوطنی، قومی ہیروز اور قوم کے لیے قربانی کے جذبات کو ابھارا گیا۔ اب ریاست نصاب کو تیار کرتی تھی اور یہ نصاب لازمی طور پر اسکولوں اور کالجوں میں پڑھایا جاتا تھا۔ مضامین میں سب سے زیادہ مضمون جس کے بارے میں ریاست بڑی حساس تھی وہ تاریخ کا مضمون تھا۔ ریاست تاریخ کو اس انداز سے پڑھانا چاہتی تھی کہ جو اس کے امیج کو بڑھائے۔ 19

۔۔ تاریخ کی نصاب کی کتابوں میں جن موضوعات پر زیادہ زور دیا گیا ان میں نوآبادیات کے خلاف قومی تحریکیں، کارکنوں کی قربانیاں، اور بالاخر ملک کی آزادی۔ جب تاریخ کا یہ ورژن نصاب میں پڑھایا گیا تو اس سے سیاستدانوں کے ایک خاص طبقہ کو فائدہ ہوا۔ انہوں نے اور بعد میں ان کے خاندانوں نے اس بنیاد پر اقتدار پر قبضہ رکھا کہ انہوں نے تحریک آزادی میں حصہ لیا تھا ور بے پناہ قربانیا دی تھیں۔ 20

۔۔ برصغیر ہندوستان کی تاریخ نویسی میں 1930 کی دہائی میں فرقہ واریت داخل ہوگئی تھی، اور تاریخ کو مسلمان اور ہندو نقطہ نظر سے لکھا جانے لگا تھا۔ 23

۔۔ چونکہ وادی سندھ کی تہذیب میں گھوڑوں کا وجود نہیں تھا، اور اسی بنیاد پر اس میں اور رگ وید کے عہد میں فرق تھا، اب تحریروں کی دریافت کے بعد ثابت کیا گیا کہ وادی سندھ میں نہ صرف یہ کہ گھوڑے تھے، بلکہ گھوڑوں کا پورا سازوسامان بھی تھا۔ اپنے اس دعویٰ کے ثبوت میں راجہ رام نے ایک مہر کو پیش کیا کہ جس پر گھوڑا بنا ہوا تھا۔
اس پر کافی لوگوں نے اعراضات کیے۔ اور یہ ثابت کیا کہ در حقیقت مہر پر بیل کی شبیہ تھی۔ جے کمپیوٹر کے ذریعہ تبدیل کر کے گھوڑا بنایا گیا ہے۔ لہذا اس کو ماہرین نے فوراً پلٹ ڈائون ہارس کا نام دیا کیونکہ بیسویں صدی کی ابتداء میں پِلٹ ڈائون مین کا ایک فراڈ کیا گیا تھا اور دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ بند اور انسان کے ارتقاء کی گمشدہ کڑی ہے۔ 37

۔۔ مورخوں نے عام طور سے آریا حملوں کو کئی نقطہائے نظر سے سمجھا ہے، ان میں سے کچھ تو وادی سندھ کی تہذیب اور اس کے شہروں کے زوال کا سبب انہیں حملوں کو قرار دیتے ہیں، اگرچہ آثار قدیمہ کی شہادتوں نے اب اس تھیوری کو غلط ثابت کردیا ہے۔ لیکن بہرحال یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مسلسل حملوں اور ہجرت کر کے آنے والے اپنے ساتھ زبانوں اور مختلف کلچروں کو لائے کہ جن کے ملاپ سے آگے چل کر آریہ کلچر ارتقاء پذیر ہوا۔ 40

۔۔ "کچھہ مفکرین کے مطابق جن معاشروں کا کوئی نمایاں مذہب ہوتا ہے، وہ معاشرے میں اس مذہب کو معاشرتی علوم میں ترجیح دیتے ہیں۔ مثلاً پاکستان کے معاشرتی علوم کے نصاب میں اسلام اور دو قومی نظریہ کو فوقیت حاصل ہے۔ جن معاشروں میں کوئی نمایاں مذہب نہیں ہوتا ہے وہ اخلاقی قدروں کو معاشرتی علوم کے ذریعے پھیلاتے ہیں۔ مثلاً تائیوان، کوریا، سنگاپور وغیرہ۔ اس طرح جن ممالک میں سوشلزم کا نظریہ حاوی ہو وہ سوشلزم کی قدروں کو نصاب میں نمایاں حیثیت دیتے ہیں۔ مثلا روس اور چین کے نصاب میں سوشلزم نمایان نظر آتا ہے۔ جو معاشرے خود کو سیکولر تصور کرتے ہیں، وہاں معاشرتی علوم میں شہریت کی تعلیم اہم کردار ادا کرتی ہے۔ مقصد ہوتا ہے کہ لوگوں کو اچھا شہری بنایا جائے مثلا امریکہ میں شہریت کی تعلیم کا بہت رواج ہے۔ جن معاشروں میں جمہوری اور روشن خیال قدریں اہم ہیں ان ملکوں میں معاشرتی علوم جمہوریت اور روشن خیالی کی قدروں کو فروغ دیتے ہیں۔ اسی طرح جن ممالک میں جنگ، فوج، قومیت اور نسل کے نظریات گہرے ہوجائیں، ان کی تعلیم میں یہ قدریں کثرت سے نظر آتی ہیں۔" ۔ 41
(روبینہ سہگل ۔ قومیت، تعلیم اور شناخت۔ 1997)

۔۔ نصاب کی کتابوں کی ان تحریروں سے نوجوان نسلوں کے ذہن میں یہ بٹھادیا گیا ہے کہ پاکستان اسلام کے لیے بنایا گیا تھا، ۔ 46

۔۔ اگرچہ تاریخی طور پر یہ ثابت ہے کہ آریاؤں نے انڈس کو سندھو نام دیا، جو کہ بعد میں ایرانیوں کے ذریعہ یہ "ہند" بن گیا۔ عرب برصغیر کو السندھ و الہند کے نام سے پکارتے تھے۔ اب یہ بھی ثابت ہوگیا ہے کہ آریا کسی ایک نسل کا نام نہیں تھا۔ بلکہ یہ مختلف گروپوں کا نام تھا کہ جو "انڈو۔آرین" زبان بولتے تھے۔ یہ ہندوستان میں گروہوں کی شکل میں مختلف اوقات میں آئے۔ 51

۔۔ اگر ہندوستان ایک ہندو ریاست میں تبدیل ہوجاتا ہے تو پاکستان اور ہندوستان دونوں دو متضاد نظریات کی بنیاد پر ایک دوسرے کی مخالفت اور زیادہ کریں گے۔ اور یہ خط مستقل طور پر تصادم اور کشمکش کا شکار ہوجائے گا۔ یہ صورت حال دونوں ملکوں میں فاشسٹ اور آمرانہ حکومتوں کو مستحکم کرے گی۔ 52

۔۔ تاریخ یہ ثابت کرتی ہے کہ ایسے تمام دعوے کہ جو نسلی خالصیت پر مبنی ہیں وہ سب غلط ہیں، کیونکہ تاریخی عمل میں نسلیں اور مختلف جماعتیں اس طرح آپس میں خلط ملط ہوگئی ہیں کہ اب کوئی خالص نسل باقی نہیں رہی ہے۔ اور نہ یہ ممکن رہا ہے کہ کوئی نسل اپنے اندر سے ان عناصر کو نکال کر خود کو پاک کرے کہ جو اسکا حصہ بن چکے ہیں۔ 52

۔۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ ان دونوں ملکوں کی نصاب کی کتابوں میں ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو بالکل نہیں دیا جاتا ہے۔ مثلاً پاکستان کی کتابوں میں قوم پرست مسلمانوں کے بارے میں قطعی خاموشی ہے کہ جنہوں نے متحدہ ہندوستان کے لیے جدوجہد کی۔ نہ ہی جمیعتہ علماء ہند کا کوئی تذکرہ ہے کہ جنہوں نے کانگرس کی سیاست کی حمایت کی۔ ہندوستان کی نصاب کی کتابوں میں یہ ذکر نہیں کہ آخر مسلمانوں میں ایک علیحدہ قوم ہونے کا احساس کیوں ہوا؟ اور آخر کیوں انہوں نے علیحدگی کا فیصلہ کیا؟ نتیجہ یہ ہے کہ نصاب کی کتابوں کے یہ دو متضاد نظریات دونوں ملکوں میں ایسی نسلوں کو پیدا کر رہے ہیں کہ جو ابتداء ہی سے متعصب و نفرت کا شکار ہوجاتی ہیں۔ 72

۔۔ حکمراں طبقے، چاہے کسی ملک کے ہوں، وہ نصاب کی کتابوں کے بارے میں بڑے حساس ہوتے ہیں، ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ان کا نظریہ اور نقطہ نظر طالب علموں کے ذہنوں میں بٹھادیا جائے۔
اس نقطہ نظر کے تحت جب تاریخ کی نصاب کی کتابیں تیار کی جاتی ہیں، تو ان کا بنیادی مقصد تاریخ پڑھانا یا تاریخ کے بارے میں معلومات فراہم کرنا نہیں ہوتا ہے، بلکہ اس کے ذریعہ سے طالب علم کی شخصیت اور ذہن کو متاثر بنانا ہوتا ہے۔
نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ طالب علم میں تاریخ کا صحیح شعور پیدا ہونے کے بجائے، ایک غلط اور جھوٹا شعور پیدا ہوتا ہے، چوہ اس قابل نہیں ہوتا ہے کہ تاریخی عمل کو سمجھہ سکے، یا تاریخی قوتوں کے بارے میں آگہی حاصل کرسکے، بلکہ اسے یہ احساس ہوتا ہے کہ تاریخی عمل خودبخود جاری و ساری ہے یا عظیم شخصیتیں اس کو بنانے و بگاڑنے میں مصروف ہیں۔ تاریخی عمل میں معاشی، سیاسی، سماجی اور دوسرے عوامل کو نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ 76

۔۔ جب امریکی تاریخ میں "تھینکس گیونگ" کو بطور تہوار منانے کا ذکر ہوتا ہے تو یہ واقعہ مقامی باشندوں کے لیے باعث دلچسپی اور باعث فخر نہیں ہوتا ہے۔ بلکہ اس کے پس منظر میں وہ یورپی تسلط اور اپنی غلامی کو دیکھتے ہیں۔ 78

۔۔ ہیلن کیلر ایک انقلابی سوشلسٹ تھی جس نے 1909 میں میساچوسٹ کی سوشلسٹ پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔ 80

۔۔ امریکہ کی دریافت کے بارے میں اب تک جو تحقیق ہوئی ہے ، اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس نئے براعظم کو دریافت کرنے کا سہرا کولمبس کے سر نہیں ہے، کیونکہ اس سے پہلے لوگ یہاں جا چکے تھے، کولمبس اس سلسلہ کی یہ آخری کڑی ضرور ہے۔82-83

۔۔ 1813 تک امریکن کی اصطلاح مقامی لوگوں کے لیے استعمال ہوتی تھی، مگر جب وہ عملی زندگی سے دور ہو گئے تو یہ اصطلاح ان کے بجائے اب یورپی لوگوں کے لیے استعمال ہونے لگی۔ 92

۔۔ جب تاریخ کی نصاب کی کتابیں ان پیچیدگیوں سے گزریں تو تاریخ واقعات کا ایک جال بن جاتی ہے کہ جس کا سرا پانا ناممکن ہوتا ہے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی قوم یا گروپ اپنی غلطی ماننے پر تیار ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو یہ تاریخ امن کے بجائے مزید فسادات پیدا کرے گی۔ کیونکہ جب تک یہ یقین نہ ہوجائے کہ حملہ آور کون ہوتا ہے؟ لوگوں کو کیوں قتل کیا جاتا ہے؟ اور کیا قتل عام صحیح ہے یا غلط؟ نفرت اور عداوت کیوں ہوتی ہے اور اس سے کون فائدہ اٹھاتا ہے؟ جب تک ان سوالات کے جوابات نہ دیئے جائیں اور ان کے جوابات سے ذہن مطمئن نہ ہو، اس وقت تاریخ نفرت، دشمنی اور تعصب کو سہارا دیتی رہے گی۔ 119

۔۔ (اقلیت)
مثلاً اگر پاکستانی معاشرے کی صورت حال کو دیکھیں تو ہماری تاریخ کی نصاب کی کتابوں میں ہندوؤں، عیسائیوں اور سکھوں کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں۔ ہمارے طالب علم اس سے قطعی ناواقف ہیں کہ ہولی، دیوالی یا دسہرے کے تہوار کیا ہوتے ہیں۔ ہندو مذہب کیا ہے؟ بدھ مت و جین مت کیا ہیں؟ اور قدیم ہندوستان کی تاریخ کیا ہے؟ تاریخ سے یہ بے خبری ہمارے طالم علموں میں تعصب و نفرت کو پیدا کیرنے کا باعث ہوتی ہے۔ 121

۔۔ غیر یورپی اقوام کے ہاں خاص طور سے زمین کے معاملہ میں کسی نجی جائیداد کا تصور نہیں ہے۔ اس کے برعکس یورپ میں زمین کی نجی جائیداد کا قانون رومی اور جرمنی کے قبائل میں موجود تھا کہ جہاں سے یہ یورپ کو بطور ورثہ ملا۔ نجی جائیداد کے اس ادارہ نے انفرادیت کو پیدا کیا۔ یہ دونوں خصوصیات دوسری تہذیبوں میں موجود نہیں ہیں۔ 148

۔۔ امریکہ جہ کہ اس وقت ایک اہم معاشی قوت ہے ۔ اس نے امداد کی اپنی علیحدہ سے ایجنسیاں بنا رکھی ہیں کہ جو ترقی پذیر ملکوں میں کام کر رہی ہیں۔ یہ کوئی مذاق کی یا ہنسنے والی بات نہیں ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد، اب اس نظریہ پر یقین کرلیا گیا ہے کہ جنگ کے خاتمہ سے ڈویلپمنٹ کا عہد شروع ہوگیا ہے اور یہ امیر قوموں کی ذمہ داری ہے کہ وہ غریب اقوام کو خوش حال بنانے میں حصہ لیں۔۔۔۔۔ یہ ایک نئی قسم کا پھیلاؤ اور نفوذ کا نظریہ ہے۔ 154

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...