FIKRism

Saturday, February 20, 2010

Rooh-e-Asar_Jalalpuri

ROOH-E-ASAR (Zeitgeist)
Ali Abbas Jalalpuri
1969



ابواب:

۔۱ انتسابِ ارواح
۲۔ زرخیزی کی مت
۳۔ اصلاحِ مذاہبِ قدیم
۴۔ آزادی فکر و نظر
۵۔ عالمی شہریت کا تصور
۶۔ عہدِ علم کلام
۷۔ نشاۃ الثانیہ
۸۔ صنعتی انقلاب اور مغربی سامراج
۹۔ صدی رواں اور زوالِ مغرب
۱۰۔ رُوحِ عصرِ حاضر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تت و اقتباس:

۱۔ انتسابِ ارواح
۔۔۔ حجری زمانے کا انسان
۔۔۔ روح کی دریافت
۔۔۔ آگ کی ایجاد
۔۔۔ ٹوٹم، ٹیبو

دنیا کو سورج سے جدا ہوئے ۲ ارب سال گذر گئے۔
Ice age: 5 lac years ago. Last ice age: 5000-25000 years ago.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۲۔ زرخیزی کی مت
۔۔۔ زرخیزی کی ایجاد
۔۔۔ تہذیب و تمدن
۔۔۔ خدا، مذہب
۔۔۔ دیومالا، توہمات
۔۔۔ مقدس عصمت فروشی سے عصمت فروشی
۔۔۔ تیوہار، کارنیولس
۔۔۔ خون کی قربانی
۔۔۔ جنسی بے راہ روی (آزادی)
۔۔۔ لنگ یونی
۔۔۔ سائنس اورمذہب جادوگری کی گود میں
۔۔۔ شادی، نکاح
۔۔۔ غلامی، بردہ فروشی
۔۔۔ ذاتی ملکیت

اقتباسات:

۔۔ سر آرتھر کیتھہ لکھتے ہیں: قدیم سُمیریوں کے نسلی آثار کا کھوج مشرق کی جانب افغانستان اور بلوچستان سے لے کر وادی سندھ تک کے باشندوں میں لگایا جاسکتا ہے جو میوپوٹیمیا سے ڈیڑھ ہزار میل کی مسافت پر واقع ہے۔ ہڑپہ اور مہنجوڈرو کی کھدائی میں ایک ترقی یافتہ تمدّن کے آثار دریافت کئے گئے ہیں۔ ان مقامات سے جو اشیاء کھود کر نکالی گئی ہیں ان میں وہ چَوکور مُہریں خاص طور سے دلچسپی کا باعث ہیں جو ساخت، ہئیت اور نقوش کے لحاظ سے اُن مُہروں سے ملتی جلتی ہیں جو سُمیریا میں پائی گئی تھیں۔۔ 25-26

۔۔ دجلہ، فرات، نیل، سندھ، اور ینگ سی کیانگ کے کناروں پر کی زمین زرخیز تھی۔ 26

۔۔ سامی روایات کی وساطت سے یہ اساطیر بعد میں آنے والی آریائی اقوام یونانیوں، ایرانیوں، اور ہندیوں میں مقبول و مروج ہوئے۔ 38

۔۔ بابل کی سرزمین بیک وقت سحروسیمیا اور علم ہئیت اور ریاضی کا گہوارہ سمجھی جاتی تھی۔
اہلِ بابل کو صائبین بھی کہتے ہیں۔ 47-48

۔۔ مصر میں فرعون اخناتن ۔۔۔ نے تاریخ عالم میں پہلی مرتبہ بُت پرستی اور مجسمہ سازی کے خلاف آواز بلند کی اور آتن کے مجسمے بنانے سے منع کیا۔ 48-49

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۳۔ اصلاحِ مذاہبِ قدیم
(چہٹی صدی قبل مسیح)
۔۔۔ جب بیک وقت میں پوری دنیا میں عظیم مفکر پیدا ہوتے ہیں:
چین میں کنفیوشس
ایران میں زردشت
ہندوستان میں گوتم بدھ
اسرائیل میں یسعیاہ کا گمنام نبی
بحیرہ روم میں طالیس ملیطی

۔۔۔ اور تقدیر کی ایجاد / دریافت

اقتباسات:

۔۔ یہ محض تاریخی اتفاق نہیں ہے کہ بانی فلسفہ طالیس ملیطی نے بھی چھٹی صدی قبل مسیح کا ہی زمانہ پایا۔ 69

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۴۔ آزادی فکر و نظر
(چھٹی صدی سے دوسری صدی قبل مسیح کا دور)
(طالیس ملیطی سے ارسطو تک کا دور)

۔۔۔ ایرانی یلغار نے 'علم' کو یونان کی طرف دھکیل دیا۔
۔۔۔ اوہام و خرافات سے چھٹکارا
۔۔۔ سائنس کا آغاز
۔۔۔ دیوتاوؤں کا مافوق الفطر ہئیت سے انسانی ہئیت میں آنا/اترنا

اقباسات:

۔۔ تاریخ کی ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ ایرانیوں کی فاتحانہ یلغار سے خائف ہوکر ملیطس اور دوسرے ساحلی شہروں کے باشندے بھاگ کر یونان میں جا بسے اور اپنے ساتھ فلسفہ اور سائنس بھی لیتے گئے نتیجتہً طالیس اور اس کے شاگردوں کے افکار ایشیا کی سرزمین میں جڑ بہ پکڑ سکے اور مغرب میں جاکر بارآور ہوئے۔ 71

۔۔ بعض صداقتیں اور قدریں ایسی بھی ہیں جو انسان کی حسّیات سے ماوراء اور مستقل بالذّات ہیں۔ (سقراط) ۔ 74

۔۔ رفتہ فتہ فلسے کی دو متوازی و متخالف روایات کی تشکیل عمل میں آئی جن میں آج بھی نزاع و کشمش جاری ہے۔ ایک طرف روحانیت، باطینیت، عرفان اور مثالیت کی روایات ہے جو فیثاغورس، زینوفینس، پامنی دیس اور افلاطون سے شروع ہوکر فِشٹے، شوپنہار، ہیگل، بریڈلے، کروچے اور ایوکن پر منتہی ہوتی ہے۔ اور دوسری طرف مادیّت کی روایت جو طالیس اور دیماقیطس سے شروع ہوکر ابیقورس، لکریشیس، ہابس، دیدرو، بیل ہنتسمکو، ہیگل، فوئرباخ اور کارل مارکس کے افکار میں کارفرما ہے۔ ارسطو اور کانٹ کا شمار ان فلاسفہ میں ہوتا ہے جو ان دونون روایات میں مطابقت اور مفاہمت کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ 74

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۵۔ عالمی شہریت کا تصور
200 BC to 500 AD

۔۔۔ عالمی شہریت، بین الاقوامیت ، شہنشاہیت
۔۔۔ رواقیت، ابیقوریت

اقتباس:
۔۔ رواقیت کا بانی زینو تھا جو طالیس ملیطی کی طرح فنیقی النسل ایشیائی تھا۔ 81


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۶۔ عہدِ علم کلام
500 AD to 1500 AD

۔۔۔ علم کلام
(عقل و نقل کی تطبیق کو علم کلام کہتے ہیں)
۔۔۔ اینٹی علم کلام
(ابن رشد، ابن خلدون)

اقتباسات:

۔۔ ارسطو کی منطق، افلاطون کی اشراق، فلاطینوس کے عرفان، بقراط کی طب، آریابھٹ اور بطلیموس کی ہئیت نے عربوں کو خاص طور سے متاثر کیا۔ فلاسفہ و منطق کے ذوق نے اہلِ علم کو از سرِ نو اپنے مذہبی اعتقادات کا جائزہ لینے کی تحریک کی۔ اور معتزلہ نے جنہیں اس دور کے مفکرین مین شمار کیا جاتا ہے، عقائد مین غور و فکر کرنے کی ابتداء کی اور علمِ کلام کی ترویج کا باعث ہوئے۔ رفتہ رفتہ اعتزال سے فلسفہ کی جانت گریز ہوا۔ چناچہ یعقوب اسحاق الکندی جو مسلمانوں میں ارسطا طالیسی فلسفہ کا بانی سمجھا جاتا ہے معتزلی العقیدہ ہی تھا۔ 88

۔۔ اسی بنا پر البیرونی کی "الآثار" کے ایڈیٹر نے کہا ہے کہ اگر مسلمانوں میں اشعری اور غزالی نہ ہوتے تہ آج تک ان میں سینکڑوں گلیلیو اور نیوٹن پیدا ہوچکے ہوتے۔
مسلمانوں میں معتزلہ کی آزادی فکر کی تحریک کو متوکل عباسی اور اس کے حاشیہ نشین فقہا نے کچل دیا تھا۔ ابوالحسن اشعری نے معتزلہ کے نظریہ قدر و اختیار کی تردید کے جوش میں قانونِ سبب و مسبب ہی سے انکار کردیا جس سے علمی تحقیق کو ناقابلِ بیان صدمہ پہنچا کیونکہ یہی قانون سائنٹیفک تحقیق کا سنگ بنیاد سمجھا جاسکتا ہے۔ اس کے ساتھ غزالی نے باطینہ اور صوفیہ کے عقائد کو اسلامی تعلیمات میں ممزوج کردیا۔ 89

۔۔ قدیم یونانی تجربات کے قائل نہیں تھے صرف قیاسی استدلال سے علمی نتائج اخذ کرتے تھے۔ 89

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۷۔ نشاۃ الثانیہ
(1500 – 1800)

۔۔۔ یورپ (اٹلی) میں علمی یونان کا احیاء
۔۔۔ سائنس
۔۔۔ کلیسیا، مذہب کا تنزل
۔۔۔ کوپرنیکس، گلیلیو، نیوٹن، کیپلر، دیسلیس، ڈیکارٹ، فرانسس بیکن، پیٹراک، یوکاکیو، مائکل انجلو، رفائیل، تاتیان، والیس کیتھ، کلاد لورین، دا ونچی، شیکسپیر، ایرسمیس، موور، مینٹس، کولمبس، واسکوڈیگاما، ماجیلین، والٹر پیل
۔۔۔ چھاپے خانے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۸۔ صنعتی انقلاب اور مغربی سامراج
(1800- 1900... )
(عروجِ مغرب)

۔۔ اس انقلاب کا آغاز کم و بیش 1730 میں انگلستان مین ہوا جب آرک رائٹ نے سُوت کاتنے کی کل ایجاد کی جو آبی قوت سے چلتی تھی۔
1782 میں جیمز واٹ نے دخانی انجن ایجاد کیا۔
1829 میں لِورپول اور مانچیسٹر کے درمیان ریل کی پٹڑی بچھائی گئی۔
1838 میں پہلی دخانی جہاز "گریٹ ویسٹرن" نے بحراوقیانوس کو عبور کیا۔
1842 میں سموئیل مورس نے تار برقی ایجاد کی۔ ۔۔۔ 111

اس دور کی چند خاص چیزیں:

۔۔۔ صنعت
۔۔۔ نوآبادیات
۔۔۔ مشنری عیسائیت
۔۔۔ اشتراکیت


اقتباسات:

۔۔ "زرعی انقلاب کے بعد صنعتی انقلاب تاریخ عالم میں سب سے بڑا سنگ میل سمجھا جا سکتا ہے۔" 119

۔۔ نظام کلیسا، قانونِ فوجداری، اور سلطنت کے نظم و نسق کے ساتھ سامراج بھی اہلِ مغرب کو رومہ سے ورثے میں ملا تھا۔ 113

۔۔ سامراجیوں اور تاجروں نے سترہوین صدی سے مذہبی تبلیغ کی اہمیت کو محسوس کر لیا تھا۔ چناچہ سینکڑوں مشنری ادارے قائم کئے گئے اور مشنری عیسائیت کی تبلیغ کے لئے جوق در جوق مشرقی ممالک کو جانے لگے۔ یہ سلسلہ ابھی تک ختم نہیں ہوا۔ عیسائیت کی اشاعت سے اہل مغرب کا مقصد یہ تھا کہ دیسیوں نے عیسائیت قبول کر لی تو وہ اپنے مغربی آقائوں کو اپنا ہم مذہب سمجھہ کر ان کی معاشی لوٹ کھسوٹ کے خلاف احتجاج نہیں کرےگے۔ اس طرح اہل مغرب نے مذہب کے نام پر اقتصادی تسلط برقرار رکھنے کی کوشش کی۔ جنوبی افریقہ کے ایک قبائلی سردار نے کہا تھا: "جب سفید آدمی آیا تو اُس کے پاس بائبل تھی اور ہمارے پاس اراضی۔ اب اُس کے پاس اراضی ہے اور ہمارے پاس بائبل۔" 114

۔۔ اہل مغرب زبان سے انسانی برادری اور انسانیت عالیہ کا دم بھرتے ہیں۔ لیکن مشرق کی "رنگ دار" اقوام کو جانور سے بھی بدتر سمجھتے ہیں۔ 115

۔۔ "اسلام کے علاوہ کسی نظریے یا ادارے کو ایسی حیرت ناک ترقی نصیب نہیں ہوئی جتنی کہ اشتمالیت کو ہوئی۔ (برٹرنڈرسل)۔ 118


خرد افروزی:
۔۔۔ انسائیکلوپیڈیا کی اشاعت
۔۔۔ علم عام لوگوں میں عام ہونا

۔۔ انسان فطرتاً نیک ہے، صرف وہم پرستی اور تعصب نے اسے برائی پر آمادہ کر رکھا ہے۔ " (کندور)۔ 122

۔۔ سائنس کی روزافزوں ترقی و ترویج کے باعث ۱۸ویں صدی عیسوی میں یورپ میں تحریکِ خردافروزی بارآور ہوئی۔ تاریخ فلسفہ اس کوانلائٹمینٹ کہا گیا۔ 120

۔۔ والٹیر پہلا مورخ ہے جس نے تاریخ عالم پر قلم اٹھایا اور یورپ کے علاوہ ہندوستان، چین، جاپان وغیرہ کے تاریخی حالات قلم بند کئے۔ 121

۔۔ مغربی ممالک میں نئی رُوح بیدار کرنے اور جدید نظریات کی اشاعت کرنے والوں میں والٹیر اور منتسکو پیش پیش تھے۔ ان کی تحریروں کے باعث عقل ودانش کا احترام اور انسانی حقوق کی پاسداری کا احساس، جوجدید دور کی فلسفیانہ تحریکوں کی خصوصیات ہیں، اٹھارہویں صدی میں ہر کہیں مقبول ہوئے اور انسان دوستی، مروّت، فطری حقوق اور مساوات و اخوت جیسی تراکیب زبان زد عوام ہوگئیں۔ 122

رومانیت
۔۔ رومانیت اپنے وسیع مفہوم میں اس ردِعمل کی نمائندگی کرتی ہے جو اٹھارہویں صدی کے اواخر میں خردافروزی کے خلاف ہوا تھا۔ 129

۔۔ بائرن سچ کہاتا ہے ۔ دیوانگی اور کجروی کو حسین پیرائے میں بیان کرنا ہی رومانیت ہے۔ 130

۔۔ فرانس کے ایک نقاد لوئی ری نید نے رومانیت پر محاکمہ کرتے ہوئے کہا ہے: "رومانیت میں عقلیت کی بجائے جبلت، قانون کے بجائے نراج، معاشرے کی بجائے نیچر، اخلاقی و فنی انضباط کی بجائے انفرادیت، جذباتی ہیجان اور تخیل کی بےراہ روی کو اخیتار کیا گیا ہے۔ " 131

۔۔ فردیت کو انفرادیت سے مخلوط نہ کیا جائےاس کا مطلب ہے فرد کا اجتماعی موثرات و عوامل سے قطع نظر کرکے اپنے ہی من میں حقائق کو تلاش کرنے کی کوشش کرنا اور اپنی ہی ذات کو صداقت کا معیار سمجھنے لگنا۔ 131

۔۔ اخلاقیات کا بنیادی تعلق معاشرتی زندگی سے ہے کیونکہ معاشرے سے بے تعلق ہوکر خیر و شر میں تمیز کرنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ رومانی مثالی فرد سے مثالی جماعت کی جستجو کا آغاز کرتے ہیں۔ حالنکہ مثالی فرد کی جستجو کا آغاز مثالی جماعت سے ہونا چاہئے۔ 132-133

رومانیت پسند:

روسو، ولیم ورڈزورتھہ، کارلائل، کولرج، شیلی، کِیٹس، لیمارتن، وکٹرہیوگو، دی ہتسے، الگزنڈر ڈوما، تھوریو، کانٹ، فشٹے، شوپنہائر، شیلنگ، شلائر ماخر، ڈی ایچ لارینس،
جرمن مثالیت پسندوں کی طرح اور اُن کی تقلید میں بعد کے مفکرین برگساں، ولیم جیمز، ایوکن وغیرہ بھی وجدان اور ارادے کو عقل سے زیادہ اہم سمجھتے ہیں۔


حقیقت پسندی:
[عام زندگی میں جھانکنا، اور عام معاشرتی مسائل کو پیش کرنا]
وقت گزرنے کے ساتھہ حقیقت نگاری فطرت نگاری (نیچرلزم) اور فطرت نگاری اظہاریت (ایکسپریشنزم) کی طرف مُڑ گئی۔


رمزیّت:
[رمزیت، رومانیت، مسلک لاشعور، موجودیت، دادا وغیرہ کم و بیش ہم معنی ہیں]

۔۔ رمزیت پسند داخلیت کے شیدائی تھے اور رومانیوں کی طرح اپنے ہی نفس کی گہرائیوں کو کھنگالنے کی دعوت دیتے تھے۔
رمزیت، رومانیت، باطینیت میں قدر مشترک یہ ہے کہ خارجی ماحول اور عمرانی گردو پیش سے رشتہ منقطع کرکے ایک شخص اپنے نفس میں صداقت خیر یا حسن کی جستجو کرتا ہے۔ 149

؛۔۔ راقم کا خیال ہے کے خیال میں جمالیاتی قدر کہیں خارج سے فن پارے میں داخل نہیں ہوتی۔ اس کا تشخص بہرصورت موضوع اور ماحول کے تاثرِباہم پر منحصر ہے۔ یہ کہنا غلط اندیشی ہے کہ فن آپ اپنا معیار ہے جس طرح صداقت اور خیر کا معیار معاشرہ یا ماحول میعّّن کرتا ہے، اس طرح حُسن کا معیار بھی معاشرہ اور ماحول ہی معیّن کرےگا۔ معیار بہرحال خارج میں ہوگا ورنہ وہ معیار نہیں رہےگا۔ (جلالپوری)۔ 148

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۹۔ صدی رواں اور زوالِ مغرب
(زوالِ مغرب)

۔۔ دوسری جنگ عالمگیر کے خاتمے پر ۔۔ کرہ ارض دو واضح حلقوں میں تقسیم ہوگیا۔ ایک طرف سرمایہ دار اور دوسری طرف اشتمالیت پسند۔
سرمایہ دار کا سرخیل امریکہ ہےاور اشتمالیوں کے سربراہ روسی۔ چین (ہیں)۔ 155

۔۔ ہیروڈوٹس کے الفاظ ہیں "مشرق و مغرب کی نزاع و پیکار ازلی و ابدی ہے۔"
مشرق و مغرب کی اس تاریخی کشمکش اور جنگ و جدال کا آغاز محاصرہ ٹرائے سے ہوا تھا۔ جب یونانیوں نے ایشیا کے ایک ایسے شہر کو تباہ و برباد کردیا جو تجارت میں اُن کا حریفِ غالب ثابت ہورہا تھا۔ ۔۔۔ 158

۔۔ یورپ کا تمدن اپنی معراج کمال کو پہنچ کر تنزل پذیر ہوچکا ہے۔ 162

نفسیات
۔۔ انیسویں صدی کے آخر میں نفسیات نے ایک مستقل شعبہ علم کی صورت اختیار کرلی۔ اس سے پہلے اسے فلسفہ کی ایک شاخ سمجھا جاتا تھا۔ علوم کی ترقی کے ساتھ جمالیات، اخلاقیات، سیاسیات، اور نفسیات کو جنہیں قدماء فلسفے کی شاخیں سمجھتے تھے فلسفے سے الگ کرکے مدّون کیا گیا۔ فلسفے کے بقول ول ڈیوراں شاہ لیئر کی طرح اس کی بیٹیوں نے گھر سے نکال دیا اور اس کی میراث آپس مین تقسیم کرلی۔ 172

مسلک لاشعور
۔۔ پہلی عالمگیر جنگ میں مردوں اور عورتوں کو آزادانہ میل ملاپ کے موقع ملتے رہے جس سے اخلاقی راہ روی مغربی معاشرے کی ایک مستقل روایت بن گئی۔ جنسی تعلقات میں ہر قسم کے تکلف و عار کو بالائے طاق رکھ دیا گیا۔ اس پر فرائڈ کے نظریات نے نوجوانوں کے ہاتھوں میں علمی سند ہاتھ آگئی اور اظہارِ ذات کی دُھن ہر کس وناکس پر سوار ہوگئی۔
۔۔ ظاہر ہے کہ جس معاشرے میں جنسی آسودگی ہی کو زندگی کا مقصدِ واحد بنالیا جائے، وہاں نہ اعلٰی ادب و فن کی تخلیق ممکن ہے اور نہ عورت کا وقیع مقام برقرار رہ سکتا ہے۔ ۔۔ علاوہ ازیں اس معاشرے میں جہاں عورت کو محض جنسی آسودگی کا ایک وسیلہ سمجھہ لیا جائے فتوّت اور جوانمردی نہیں پنپ سکتی۔ اس پر ستم یہ ہوا کہ مغرب کی عورت اظہارِ ذات کے شوق میں خود اپنے حقیقی مرتبہ سے غافل ہوگئی ہے اور آزادی حاصل کرتے کرتے اپنے جذبہ ہوا و ہوس کی اسیر ہو کر رہ گئی ہے۔ 179

لاحاصلیت
[یعنی زندگی بے مطلب، بے کار، بے مصرت، بے معنی، اور بے حاصل ہے۔ انسان پہلے بڑے جوش و خروش سے 'بناتا' ہے پھر غصے میں آکر سب 'تباہ' کر دیتا ہے۔]

۔۔ کوکتو اپنی کتاب "افیون" مین لکھتا ہے:
"نوجوان ایشیا اب چرس نہیں پیتا کیونکہ اس کا دادا پیتا تھا۔ نوجوان یورپ جرس پیتا ہے کیونکہ اس کا دادا نہیں پیتا تھا۔ چونکہ نوجوان ایشیا یورپ کی نقالی کر رہا ہے اس لئے ہماری وساطت سے ہی یہ افیون اپنے اصلی وطن واپس جائے گا۔"۔ 186

۔۔ انہیں اس بدیہی حقیقت کا احساس نہیں ہوتا کہ معنویّت اور مسرت فرد کے ذہن و قلب کی گہرائیوں سے فوّارے کے پانی کی طرح اُچھل کر نمودار نہیں ہوتی بلکہ ایثار و قربانی اور اجتماعی فرائض کی ادائیگی سے زندگی میں معنویت پیدا ہوتی ہے۔ 191

۔۔ لیکن جدید آرٹ میں توافق کی کسے پرواہ ہے، تناسب و توافق کلاسیکی آرٹ سے مخصوص تھا۔ 199

_____________________________
Summurised by: abro, abroazhar@gmail.com

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...