وادئ سندھ اور تہذیبیں
سرمورٹیمروھیلر
اشاعت: ستمبر2003
موہن جو دڑو
۔۔ در حقیقت یہ باقاعدہ شہری منصوبہ بندی کی اب تک ظاہر ہونے والی سب سے پرانی مثال ہے۔ 12
۔۔ قدیم ایشیا میں یہ طرز کا سب سے مکمل نمونہ ہے۔ سارے شہر سے یہ عیاں ہے کہ اس کے عروج کے وقت وہاں خوشحال متوسط طبقہ آباد تھا اور بلدیاتی نظام بڑے جوش و خروش سے چلایا جاتا تھا۔ 12
۔۔عام طور سے یہاں بادشاہ اور مذہبی پیشواؤں کی جس ملی جلی طرزِ حکومت کا اندازہ ہوتا ہے۔ 11
۔۔ سرکاری غلہ گودام موجود تھے اس گودام کی حیثیت ایک جدید قومی بینک جیسی تصور کی جاسکتی ہے۔ 11
۔۔ اناج کے گوداموں کے فرشوں کا کل رقبہ کوئی ۹ ہزار مربع فٹ تھا۔ 14
۔۔ موہن جو داڑو میں صفائی کے اعلٰی انتظامیات پر آج بھی دنیا کے بہت سے حصوں میں رشک کیا جاسکتا ہے۔ 28
۔۔ (صابن؟) مٹی کے بنی تکونے ڈھیلے غالباً جسمانی صفائی کے کام آتے تھے۔ 29
۔۔ پچھلے چار ہزار برسوں میں ان علاقوں پر وقتاً فوقتاً جو حملے ہوئے ہوں گے وہ یقیناً ایسے لوگوں نے کیے ہوں گے جو جسمانی ساخت کے لحاظ سے ان لوگوں سے ملتے جلتے یا پھر یہ حملےاتنے چھوٹے پیمانے پر ہوئے کہ ان کی وجہ سے جسمانی خصوصیات میں کوئی نمایاں تبدیلی نہ ہوسکی۔ بہتات لمبے والوں کی
dolichocehalic
تھی۔
[اس اعتبار سے یہ 'حملے' بیرونی نہیں تھے بلکہ ان کے آپس میں لڑائیوں اور پھڈوں کی وجہ تھے۔ ابڑو]
۔۔ بظاہر یہ قبرستان عام شہریوں کا تھا۔ اس میں کوئی 60 ڈھانچے ملے ہیں۔ ڈھانچے اس طرح قبرستان میں دفنائے گئے ہیں کہ ان کا سر شمال کی جانب تھا اورہر ایک کے ساتھ اوسطاً 15 یا 20 مٹی کے برتن دبائے گئے تھے جن سے سندھ کے تمدن کے بختہ دور کا پتہ چلتا ہے۔ 33
۔۔ بالغان قد میں پانچ فٹ پانچ انچ سے پانچ فٹ آٹھہ انچ تک کے ہوتے تھے۔ 34
لوگوں کا اوسط عرصہ حیات کم تھا۔ (20-40 سال)
۔۔ بیشتر مہروں پر کچھ تصویری تحریر
(Pictograghic Script)
بھی ہے لیکن غیر معمولی کاوشوں کے باوجود ابھی تک اس تحریر کو پڑھا نہیں جا سکا ہے۔ یہ تصویری تحریریں میسوپوٹیمیا اور مصر کی تصویری تحریروں سے اتنی ہی مختلف ہیں جتنی یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا ہیں۔ یہ ایک دلچسپ بات ہے کہ ایک محدود وقت اور علاقے کے اندر ارتقا پانے والی تین عظیم تہذیبوں نے تین قطعاً مختلف اسالیبِ تحریر کی تخلیق کی۔ 36
۔۔ ۔۔۔ ان مہروں کے مکمل مقصد کا صرف موہن جو داڑو میں 1200 سے زیادہ ایسی مہریں ملی ہیں لیکن ان کے مقصد و مصرف کی یقینی طور سے تب تک کوئی تعین نہیں کیا جا سکتا جب تک ان پر کندا تحریر کو سمجھ نہیں لیا جاتا۔ ۔۔۔ ان میں سے کچھ پر لوگوں کے ذاتی نام کندہ ہیں۔ ایک دشواری یہ ہے کہ ایک ہی تحریر والی ایک سے زائد مہریں بہت کم پائی گئی ہیں۔ لیکن اس سے کم از کم یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی مذہبی یا بیانیہ نوعیت کی تحریر نہیں تھی۔ ۔۔۔ برتنوں یا ٹھیکریوں پر بھی یہی تحریر کندہ پائی گئی ہے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ ہوگا کہ سندھ کی آبادی خاصی حد تک خواندہ تھی۔ 37
۔۔ میسوپوٹیمیا والے مجسمے اُلو کی طرح گھورتے
(Owl Like Staring)
دکھائے گئے ہیں۔ اس لحاظ سے سندھ کی تہذیب کے مجسمے ان سے بہت مختلف ہیں کیونکہ ان میں غوروفکر کی محویت نظر آتی ہے۔
دراصل دونوں خطوں کی مجسمہ سازی میں کوئی چیز نمایاں طور سے مشترک نہیں۔ 37-38
۔۔ یہ امر قبلِ غور ہے کہ بیلوں کے مجسمے ہیں گایوں کے نہیں ہیں، مرغیوں کے ہیں مرغوں کے نہیں ہیں، ظاہر ہے کہ بوجھہ ڈھونے والے بیل اور انڈے دینے والی مرغی کو ترجیح حاصل تھی۔ 38
۔۔ سندھ کی تہذیب اس بات کی مثال مہیا کرتی ہے کہ گہنوں اور طلسمی تعویذوں (یا ان کے نمونوں) کا ایک سے دوسری تہذیب میں تبادلہ ہوتا رہتا تھا لیکن ساتھ ہی ساتھ تکنیکی طور پر بنیادی آزادروی بھی تھی۔ یہ مثال بالکل واضح ہے مگر اس کی مثال نہیں ہے۔ 40-41
۔۔ سندھ کی تہذیب کے مٹی کے برتنوں سے عام تاثر یہ ہوتا ہے کہ بڑی کاریگری سے ساتھ انہیں بڑے پیمانے پر تیار کیا جاتا تھا۔ 41
[کیا بڑے پیمانے پر تیار کرنے کا مقصد انہیں بیچنا یا درآمد کرنا ہوتا تھا؟ یا فارغ وقت میں یہ ان کے محبوب مشاغل میں سے تھا؟۔۔ ابڑو]
۔۔! سندھ کی وادی کی تہذیب ایسی نہیں تھی کہ وادی کے اندر یا کہیں اور دوسرے تمدنوں کو فوراً ہی اپنے اندر سمیٹ کر جذب کرے۔ 44
۔۔ سب سے پہلے اس بات پر زور دینا ہوگا کہ کسی تجسس پسند ذہن کے لیے وادئ سندھ پرکشش بھی ہے اور اسے عقدہ کشائی کے لیے للکارتی بھی ہے۔ اُس وقت میں یہ کچھ حد تک دلدلی جنگلوں کا علاقہ تھا جہاں آزارکن درندے بستے تھے۔ ان ہی درندوں کی شبیہیں سندھ کی مہروں کی زینت بنیں۔ اس وادی کے میدان دور دور تک زرخیز تھے۔ ۔۔۔
ذہنی طور پر اس تہذیب کے بانیوں کو ایک بڑی برتری حاصل تھی۔ ان سے کچھ ہی پہلے دو عظیم دریائی تہذیبیں وجود میں آچکی تھیں۔ میسوپوٹیمیا اور مصر میں۔ مادی اعتبار سے ان دونوں میں سے کوئی بھی تہذیب اس کی جنم داتا یا فوری منبع نہیں سمجھی جاسکتی، سندھ کی تہذیب کے اپنے انفرادی اسالیب ہوتے تھے اور طرزِتحریر، اس کی نوعیت جداگانہ تھی اور یہ مغرب کی محض نوآبادی نییں تھی، ۔۔۔ 47-48، 65
۔۔ متعدد ٹیڑھے میڑھے مجسموں سے ظاہر ہوتا ہے کہ موہن جو داڑو میں پکائی مٹی کی مورتیاں بنانے والے مزاحیہ طبیعت کے تھے۔ 64 (تصویر)
۔۔ موہن جو داڑو میں وقتاً فوقتاً سیلاب آنے کی وجہ خواہ کچھ بھی ہو مگر ان سیلابوں سے زمین اور عمارتوں کی حالت برابر خستہ ہوتی گئی۔ اس عمل سے یقیناً یہ سیلاب وہاں کے باسندوں کے حوصلے پست کرنے میں معاون ہوئے۔ ۔۔۔ موہن جو داڑو کےانجام کے بارے میں ایک بات بالکل عیاں ہے۔ اپنے خاتمے سےپیشتر یہ شہر دھیرے دھیرے مرتا رہا تھا۔ 79
۔۔ تہذیب سندھ کے بہت سے مقامات پر پائے گئے منکے اور زیورات سے مغرب کی قدیم تہذیبوں کے ساتھ تعلقات کا صاف پتہ چلتا ہے۔ 84 (تصویر)
۔۔ تہذیب سندھ کے مٹی کے برتن اکثر بہت نفیس قسم کے ہوتے ہیں اور بیشتر چاک پر بنے ہیں۔ 85 (تصویر)
۔۔!!! برسوں پہلے میں نے قیاس پیش کیا تھا کہ برصغیر کے شمال مغرب پر یلغار کرنے والے آریہ لوگ اس تہذیب کی آخری تباہی کا باعث تھے۔ یہ ثابت نہیں کیا جاسکتا اور بالکل غلط بھی ہوسکتا ہے۔ 97
۔۔ جن کروڑوں لوگوں نے اس جنس (چاول) کو اپنی خوراک کا سب سے بڑا حصہ بنایا ہے ان کی جسمانی اور ذہنی ساخت پر اس کے اثر کو جتنی بھی اہمیت دی جائے کم ہے ۔۔۔ مذہب کے اِکادُکا ناطوں یا کچھ عام معیاروں کے باوجود گیہوں کھانے والے پنجابی کسان اور چاول کھانے والے بنگالی کسان کے درمیان اختلافات نمایاں ہیں۔ 108
۔۔ ٹیکسلا (بھیر ٹیلا سکاپ) پے پائی گئی بہت سی اشیاء میں فارس والوں، یونانیوں اور پارتھینیوں کا غیر ملکی تاثر عیاں ہے۔ 127 (تصویر)
۔۔ ہیروڈوٹس نے تھوڑے عرصے بعد (486 ق م) "انڈیا" کو سلطنتِ فارس کا سب سے آخری اور خوشحال صوبہ بیان کیا ہے۔ 137
۔۔ چناچہ اس سرحدی علاقے (ٹیکسلا، پشکلاوتی) میں چھٹی صدی قبل مسیح کے بعد کے حصے میں یا اس سے بھی پہلے لوہے کا ستعمال ہونے لگا تھا۔ 140
۔۔ تب 327 ق م میں سکندر اعظم کی آمد ہوئی، وسطی ایشیا میں اس کی مداخلت صرف چند مہینوں کا واقعہ تھا لیکن اس کے سیاسی اور تمدنی نتائج بہت عظیم تھے۔ اس کے بعد کے واقعات انقلابانہ نوعیت کے تھے سیاسی طور پر اس سے شمال میں اتنے بڑے پیمانے پر ہندوستانی قومی بیداری عمل میں آئی جس کی پہلے کوئی مثال نہ تھی۔
نقطہ آغاز 330 ق م سمجھا جاسکتا ہے جب آخری دارا کو فاتح کی حدِشنوائی کے اندر قتل کیا گیا تھا اور(اصطخر پولس) کےاس کے محل کو جلا دیا گیا تھا ۔ فارس کے عظیم بادشاہوں کا دور ختم ہو چکا تھا۔ سکندر نے انسانیت اور ذاتی مفاد کے مخلوط مقاصد کے زیرِاثر فارس کے مفتوحہ شہروں کی حفاظت کرنے اور اپنے آپ کو خودساختہ وارث مقرر کرکے اکائمینی حکومت کو دوام بخشنے کی خواہ کتنی ہی کوشش کی مگر وہ زمانے کی رَو کو پلٹ ہی نہیں سکتا تھا۔
سلطنتِ موریہ
اس کے بعد جو کچھ ہو اس کا نقشہ کھینچنا مشکل نہیں ہے۔ سکندر پنجاب سے مغرب کی طرف لوٹ گیا ور 323 ق م میں بابل میں مر گیا۔ ادھر اس کے مشرقی وارث سلوکس کے مقابلے میں ہندوستانی قومیت حیران کن حد تک بیدار ہوگئی۔ اس قومیت کا فائدہ گنگا کنارے کی ایک چھوٹی سی ریاست مگدھ کا حکمران چندرگپت تھا۔ جو مریہ خاندان کا پہلا راجہ تھا۔ 142-143
۔۔ چندر گپت (موریا) کے پوتے اشوک اعظم نے بودھ مذہب اختیار کرنے کےبعد تیسری صدی ق م کے وسط میں (یادگار ستون) نصب کروائے تھے۔ 159
۔۔ پہییہ جسے شیروں نے اٹھایا ہوتا تھا شہنشاہی حکومت کی ایک علامت تھی۔ بعد میں اسے بدھ نے بودھ دھرم چکر کے روپ میں اپنا لیا۔ 160 (تصویر۔ 150۔ یہ اشوک نے قریب 250 ق م میں نصب کروایا اور اب یہ جمہوریہ ہند کا سرکاری نشان ہے۔)
۔۔ سلطنت فارس کے زوال اور سکندر کے یہاں سے گزرنے کے بعد کی صدی نے برصغیر کے تمدن پر جتنا اثر ڈالا شاید اس سے زیادہ اثر ویسے ہی کسی اور عہد نے نہیں ڈالا ہوگا۔ یوں تو ان واقعات کے ظہور پذیر ہونے سے پیشتر ہی شمالی ہند میں گنگا کے شہروں میں تہذیب کے بہت سے مادی عناصر موجود تھے، لیکن اس کے بعد ہی کے دور میں چندرگپت اور اشوک کی قوی ذہانت نے، جس پر اشوک کے معاملے میں ہندوستانی روحانیت کا شدید تسلط تھا، نئے دھاگوں کو جمع کر کے ان کا ایسا تانابانا بُنا کہ ایک طرح کے قومی انداز کی تخلیق ہوئی، اس عمل کا نتیجہ ہے کہ 2000 برس کے بعد ایک بڑے حصے میں ایک یکجہتی تہذیب وجود میں آئی۔ 162-163
مشرق، وسطی و جنوبی ہندوستان
۔۔ اس بات پر زیادہ بحث کرنے کی ضرورت نہیں کہ وسطی ہند میں تہذیب اچانک طور پر ظہور میں آئی۔ ۔۔۔ یہ عمل پانچویں صدی قبل مسیح کی ابتدا تک ظہور پذیر ہوچکا تھا۔ 169
اشاعت: ستمبر2003
موہن جو دڑو
۔۔ در حقیقت یہ باقاعدہ شہری منصوبہ بندی کی اب تک ظاہر ہونے والی سب سے پرانی مثال ہے۔ 12
۔۔ قدیم ایشیا میں یہ طرز کا سب سے مکمل نمونہ ہے۔ سارے شہر سے یہ عیاں ہے کہ اس کے عروج کے وقت وہاں خوشحال متوسط طبقہ آباد تھا اور بلدیاتی نظام بڑے جوش و خروش سے چلایا جاتا تھا۔ 12
۔۔عام طور سے یہاں بادشاہ اور مذہبی پیشواؤں کی جس ملی جلی طرزِ حکومت کا اندازہ ہوتا ہے۔ 11
۔۔ سرکاری غلہ گودام موجود تھے اس گودام کی حیثیت ایک جدید قومی بینک جیسی تصور کی جاسکتی ہے۔ 11
۔۔ اناج کے گوداموں کے فرشوں کا کل رقبہ کوئی ۹ ہزار مربع فٹ تھا۔ 14
۔۔ موہن جو داڑو میں صفائی کے اعلٰی انتظامیات پر آج بھی دنیا کے بہت سے حصوں میں رشک کیا جاسکتا ہے۔ 28
۔۔ (صابن؟) مٹی کے بنی تکونے ڈھیلے غالباً جسمانی صفائی کے کام آتے تھے۔ 29
۔۔ پچھلے چار ہزار برسوں میں ان علاقوں پر وقتاً فوقتاً جو حملے ہوئے ہوں گے وہ یقیناً ایسے لوگوں نے کیے ہوں گے جو جسمانی ساخت کے لحاظ سے ان لوگوں سے ملتے جلتے یا پھر یہ حملےاتنے چھوٹے پیمانے پر ہوئے کہ ان کی وجہ سے جسمانی خصوصیات میں کوئی نمایاں تبدیلی نہ ہوسکی۔ بہتات لمبے والوں کی
dolichocehalic
تھی۔
[اس اعتبار سے یہ 'حملے' بیرونی نہیں تھے بلکہ ان کے آپس میں لڑائیوں اور پھڈوں کی وجہ تھے۔ ابڑو]
۔۔ بظاہر یہ قبرستان عام شہریوں کا تھا۔ اس میں کوئی 60 ڈھانچے ملے ہیں۔ ڈھانچے اس طرح قبرستان میں دفنائے گئے ہیں کہ ان کا سر شمال کی جانب تھا اورہر ایک کے ساتھ اوسطاً 15 یا 20 مٹی کے برتن دبائے گئے تھے جن سے سندھ کے تمدن کے بختہ دور کا پتہ چلتا ہے۔ 33
۔۔ بالغان قد میں پانچ فٹ پانچ انچ سے پانچ فٹ آٹھہ انچ تک کے ہوتے تھے۔ 34
لوگوں کا اوسط عرصہ حیات کم تھا۔ (20-40 سال)
۔۔ بیشتر مہروں پر کچھ تصویری تحریر
(Pictograghic Script)
بھی ہے لیکن غیر معمولی کاوشوں کے باوجود ابھی تک اس تحریر کو پڑھا نہیں جا سکا ہے۔ یہ تصویری تحریریں میسوپوٹیمیا اور مصر کی تصویری تحریروں سے اتنی ہی مختلف ہیں جتنی یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا ہیں۔ یہ ایک دلچسپ بات ہے کہ ایک محدود وقت اور علاقے کے اندر ارتقا پانے والی تین عظیم تہذیبوں نے تین قطعاً مختلف اسالیبِ تحریر کی تخلیق کی۔ 36
۔۔ ۔۔۔ ان مہروں کے مکمل مقصد کا صرف موہن جو داڑو میں 1200 سے زیادہ ایسی مہریں ملی ہیں لیکن ان کے مقصد و مصرف کی یقینی طور سے تب تک کوئی تعین نہیں کیا جا سکتا جب تک ان پر کندا تحریر کو سمجھ نہیں لیا جاتا۔ ۔۔۔ ان میں سے کچھ پر لوگوں کے ذاتی نام کندہ ہیں۔ ایک دشواری یہ ہے کہ ایک ہی تحریر والی ایک سے زائد مہریں بہت کم پائی گئی ہیں۔ لیکن اس سے کم از کم یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی مذہبی یا بیانیہ نوعیت کی تحریر نہیں تھی۔ ۔۔۔ برتنوں یا ٹھیکریوں پر بھی یہی تحریر کندہ پائی گئی ہے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ ہوگا کہ سندھ کی آبادی خاصی حد تک خواندہ تھی۔ 37
۔۔ میسوپوٹیمیا والے مجسمے اُلو کی طرح گھورتے
(Owl Like Staring)
دکھائے گئے ہیں۔ اس لحاظ سے سندھ کی تہذیب کے مجسمے ان سے بہت مختلف ہیں کیونکہ ان میں غوروفکر کی محویت نظر آتی ہے۔
دراصل دونوں خطوں کی مجسمہ سازی میں کوئی چیز نمایاں طور سے مشترک نہیں۔ 37-38
۔۔ یہ امر قبلِ غور ہے کہ بیلوں کے مجسمے ہیں گایوں کے نہیں ہیں، مرغیوں کے ہیں مرغوں کے نہیں ہیں، ظاہر ہے کہ بوجھہ ڈھونے والے بیل اور انڈے دینے والی مرغی کو ترجیح حاصل تھی۔ 38
۔۔ سندھ کی تہذیب اس بات کی مثال مہیا کرتی ہے کہ گہنوں اور طلسمی تعویذوں (یا ان کے نمونوں) کا ایک سے دوسری تہذیب میں تبادلہ ہوتا رہتا تھا لیکن ساتھ ہی ساتھ تکنیکی طور پر بنیادی آزادروی بھی تھی۔ یہ مثال بالکل واضح ہے مگر اس کی مثال نہیں ہے۔ 40-41
۔۔ سندھ کی تہذیب کے مٹی کے برتنوں سے عام تاثر یہ ہوتا ہے کہ بڑی کاریگری سے ساتھ انہیں بڑے پیمانے پر تیار کیا جاتا تھا۔ 41
[کیا بڑے پیمانے پر تیار کرنے کا مقصد انہیں بیچنا یا درآمد کرنا ہوتا تھا؟ یا فارغ وقت میں یہ ان کے محبوب مشاغل میں سے تھا؟۔۔ ابڑو]
۔۔! سندھ کی وادی کی تہذیب ایسی نہیں تھی کہ وادی کے اندر یا کہیں اور دوسرے تمدنوں کو فوراً ہی اپنے اندر سمیٹ کر جذب کرے۔ 44
۔۔ سب سے پہلے اس بات پر زور دینا ہوگا کہ کسی تجسس پسند ذہن کے لیے وادئ سندھ پرکشش بھی ہے اور اسے عقدہ کشائی کے لیے للکارتی بھی ہے۔ اُس وقت میں یہ کچھ حد تک دلدلی جنگلوں کا علاقہ تھا جہاں آزارکن درندے بستے تھے۔ ان ہی درندوں کی شبیہیں سندھ کی مہروں کی زینت بنیں۔ اس وادی کے میدان دور دور تک زرخیز تھے۔ ۔۔۔
ذہنی طور پر اس تہذیب کے بانیوں کو ایک بڑی برتری حاصل تھی۔ ان سے کچھ ہی پہلے دو عظیم دریائی تہذیبیں وجود میں آچکی تھیں۔ میسوپوٹیمیا اور مصر میں۔ مادی اعتبار سے ان دونوں میں سے کوئی بھی تہذیب اس کی جنم داتا یا فوری منبع نہیں سمجھی جاسکتی، سندھ کی تہذیب کے اپنے انفرادی اسالیب ہوتے تھے اور طرزِتحریر، اس کی نوعیت جداگانہ تھی اور یہ مغرب کی محض نوآبادی نییں تھی، ۔۔۔ 47-48، 65
۔۔ متعدد ٹیڑھے میڑھے مجسموں سے ظاہر ہوتا ہے کہ موہن جو داڑو میں پکائی مٹی کی مورتیاں بنانے والے مزاحیہ طبیعت کے تھے۔ 64 (تصویر)
۔۔ موہن جو داڑو میں وقتاً فوقتاً سیلاب آنے کی وجہ خواہ کچھ بھی ہو مگر ان سیلابوں سے زمین اور عمارتوں کی حالت برابر خستہ ہوتی گئی۔ اس عمل سے یقیناً یہ سیلاب وہاں کے باسندوں کے حوصلے پست کرنے میں معاون ہوئے۔ ۔۔۔ موہن جو داڑو کےانجام کے بارے میں ایک بات بالکل عیاں ہے۔ اپنے خاتمے سےپیشتر یہ شہر دھیرے دھیرے مرتا رہا تھا۔ 79
۔۔ تہذیب سندھ کے بہت سے مقامات پر پائے گئے منکے اور زیورات سے مغرب کی قدیم تہذیبوں کے ساتھ تعلقات کا صاف پتہ چلتا ہے۔ 84 (تصویر)
۔۔ تہذیب سندھ کے مٹی کے برتن اکثر بہت نفیس قسم کے ہوتے ہیں اور بیشتر چاک پر بنے ہیں۔ 85 (تصویر)
۔۔!!! برسوں پہلے میں نے قیاس پیش کیا تھا کہ برصغیر کے شمال مغرب پر یلغار کرنے والے آریہ لوگ اس تہذیب کی آخری تباہی کا باعث تھے۔ یہ ثابت نہیں کیا جاسکتا اور بالکل غلط بھی ہوسکتا ہے۔ 97
۔۔ جن کروڑوں لوگوں نے اس جنس (چاول) کو اپنی خوراک کا سب سے بڑا حصہ بنایا ہے ان کی جسمانی اور ذہنی ساخت پر اس کے اثر کو جتنی بھی اہمیت دی جائے کم ہے ۔۔۔ مذہب کے اِکادُکا ناطوں یا کچھ عام معیاروں کے باوجود گیہوں کھانے والے پنجابی کسان اور چاول کھانے والے بنگالی کسان کے درمیان اختلافات نمایاں ہیں۔ 108
۔۔ ٹیکسلا (بھیر ٹیلا سکاپ) پے پائی گئی بہت سی اشیاء میں فارس والوں، یونانیوں اور پارتھینیوں کا غیر ملکی تاثر عیاں ہے۔ 127 (تصویر)
۔۔ ہیروڈوٹس نے تھوڑے عرصے بعد (486 ق م) "انڈیا" کو سلطنتِ فارس کا سب سے آخری اور خوشحال صوبہ بیان کیا ہے۔ 137
۔۔ چناچہ اس سرحدی علاقے (ٹیکسلا، پشکلاوتی) میں چھٹی صدی قبل مسیح کے بعد کے حصے میں یا اس سے بھی پہلے لوہے کا ستعمال ہونے لگا تھا۔ 140
۔۔ تب 327 ق م میں سکندر اعظم کی آمد ہوئی، وسطی ایشیا میں اس کی مداخلت صرف چند مہینوں کا واقعہ تھا لیکن اس کے سیاسی اور تمدنی نتائج بہت عظیم تھے۔ اس کے بعد کے واقعات انقلابانہ نوعیت کے تھے سیاسی طور پر اس سے شمال میں اتنے بڑے پیمانے پر ہندوستانی قومی بیداری عمل میں آئی جس کی پہلے کوئی مثال نہ تھی۔
نقطہ آغاز 330 ق م سمجھا جاسکتا ہے جب آخری دارا کو فاتح کی حدِشنوائی کے اندر قتل کیا گیا تھا اور(اصطخر پولس) کےاس کے محل کو جلا دیا گیا تھا ۔ فارس کے عظیم بادشاہوں کا دور ختم ہو چکا تھا۔ سکندر نے انسانیت اور ذاتی مفاد کے مخلوط مقاصد کے زیرِاثر فارس کے مفتوحہ شہروں کی حفاظت کرنے اور اپنے آپ کو خودساختہ وارث مقرر کرکے اکائمینی حکومت کو دوام بخشنے کی خواہ کتنی ہی کوشش کی مگر وہ زمانے کی رَو کو پلٹ ہی نہیں سکتا تھا۔
سلطنتِ موریہ
اس کے بعد جو کچھ ہو اس کا نقشہ کھینچنا مشکل نہیں ہے۔ سکندر پنجاب سے مغرب کی طرف لوٹ گیا ور 323 ق م میں بابل میں مر گیا۔ ادھر اس کے مشرقی وارث سلوکس کے مقابلے میں ہندوستانی قومیت حیران کن حد تک بیدار ہوگئی۔ اس قومیت کا فائدہ گنگا کنارے کی ایک چھوٹی سی ریاست مگدھ کا حکمران چندرگپت تھا۔ جو مریہ خاندان کا پہلا راجہ تھا۔ 142-143
۔۔ چندر گپت (موریا) کے پوتے اشوک اعظم نے بودھ مذہب اختیار کرنے کےبعد تیسری صدی ق م کے وسط میں (یادگار ستون) نصب کروائے تھے۔ 159
۔۔ پہییہ جسے شیروں نے اٹھایا ہوتا تھا شہنشاہی حکومت کی ایک علامت تھی۔ بعد میں اسے بدھ نے بودھ دھرم چکر کے روپ میں اپنا لیا۔ 160 (تصویر۔ 150۔ یہ اشوک نے قریب 250 ق م میں نصب کروایا اور اب یہ جمہوریہ ہند کا سرکاری نشان ہے۔)
۔۔ سلطنت فارس کے زوال اور سکندر کے یہاں سے گزرنے کے بعد کی صدی نے برصغیر کے تمدن پر جتنا اثر ڈالا شاید اس سے زیادہ اثر ویسے ہی کسی اور عہد نے نہیں ڈالا ہوگا۔ یوں تو ان واقعات کے ظہور پذیر ہونے سے پیشتر ہی شمالی ہند میں گنگا کے شہروں میں تہذیب کے بہت سے مادی عناصر موجود تھے، لیکن اس کے بعد ہی کے دور میں چندرگپت اور اشوک کی قوی ذہانت نے، جس پر اشوک کے معاملے میں ہندوستانی روحانیت کا شدید تسلط تھا، نئے دھاگوں کو جمع کر کے ان کا ایسا تانابانا بُنا کہ ایک طرح کے قومی انداز کی تخلیق ہوئی، اس عمل کا نتیجہ ہے کہ 2000 برس کے بعد ایک بڑے حصے میں ایک یکجہتی تہذیب وجود میں آئی۔ 162-163
مشرق، وسطی و جنوبی ہندوستان
۔۔ اس بات پر زیادہ بحث کرنے کی ضرورت نہیں کہ وسطی ہند میں تہذیب اچانک طور پر ظہور میں آئی۔ ۔۔۔ یہ عمل پانچویں صدی قبل مسیح کی ابتدا تک ظہور پذیر ہوچکا تھا۔ 169