حضرت علی کی پیشن گوئیاں
آغا گل
2010
جائزہ
یہ کتاب نہج البلاغہ کو ماخذ بناتے ہوئے مولا علی کی پیشن گوئیوں پر ہے،
جس کا زیادہ تر حصہ بنی امیہ اور اس کے بعد میں آنے والے حکمرانوں، فتنوں، فسادات پر مبنی ہے۔
چند اقتابسات:
۔۔ مسجد نبوی میں چند علماء امیرالمومنی سے سوال کر رہے ہیں کہ:
وہ کونسی چیز ہے جس کے بارے میں خدا بھی نہیں جانتا، وہ کیا چیز ہے جو خدا کے لئے نہیں اور وہ کیا چیز ہے جو خدا کے پاس نہیں؟
اور امیرالمومنین جواب دیتے ہیں۔
"وہ چیز جو خدا نہیں جانتا تو اے گروہ تمہارا یہ کہنا ہے کہ حضرت عیسیٰ خدا کے بیٹے ہیں، حالانکہ خدا نہیں جانتا کہ اس کو کوئی بیٹا ہے، اور جو چیز خدا کے لئے نہیں تو اس کے لئے کوئی شریک نہیں، اور وہ چیز جو خدا کے پاس نہیں تو خدا کے پاس نہ ظلم ہے نا عاجزی۔"
اسی طرح ایک یہودی عالم جو اسلامی تعلیمات سے بھی کسی حد تک آگاہ تھا امیرالمومنین کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے سوالات کو تہ در تہ پردوں میں چھپا کر کہا:
"تمام اشیاء کی اصل کیا ہے؟ فرمایا،"تمام اشیاء کی اصل پانی ہے جیسا کہ ارشادِ الٰہی ہے کہ ہم نے ہر چیز کو پانی سے پیدا کیا ہے۔"
پھر سوال ہوا۔
"جمادات کونسی ہیں جنہوں نے کلام کیا۔"
جوام دیا
"وہ زمین و آسمان ہیں جن کے متعلق ارشادِ خداوندِ عالم ہے کہ زمین و آسمان نے کہا کہ ہم دونوں مطیع و فرمانبردار بن کر حاضر ہیں۔" پھر سوال کیا۔
"وہ کون سی چیز ہیں جو گھٹتی بڑھتی ہیں مگر کوئی دیکھ نہیں پاتا؟" جواب دیا۔
"وہ دن اور رات ہیں۔"
پھر نہایت عجیب و غریب سوال کیا گیا۔
وہ کو سا پانی ہے جو نہ زمین کا ہے اور نہ آسمان کا؟
امیرالمونین نے فوراً جواب دیا:
"یہ پانی ان دوڑتے ہوئے گھوڑوں کا پسینہ ہے جنہیں حضرت سلیمان نے بلقیس کے پاس بھیجا تھا۔" علماء نے ورطہ حیرت میں ڈالنے والا سوال کیا "وہ کون سی چیز ہے جو بے جان ہوتے ہوئے بھی سانس لیتی ہے۔؟"
باب العلم نے فرمایا "وہ صبح ہے جس کے متعلق خداوند عالم نے فرمایا ہے": قسم ہے صبح کی جبکہ وہ سانس لے"۔ علماء پوری تیاری کے ساتھ آئے تھے دیافت کیا " وہ کون سے قبر ہے جو اپنی امانت لئے پھرتی تھی" ایک لمحے میں جواب ملا۔" وہ قبر شکم ماہی ہے جو سمندر میں جناب یونس کو لئے پھرتی تھی۔" 25-26
۔۔ ابنِ جوزی نے ایک دن منبر پر یہی دعویٰ کیا تو ایک خاتون نے دریافت کیا کہ:
"اس روایت کے متعلق کیا خیال ہے کہ امیرالمومنین کو جب سلمان کی وفات کی خبر ملی تو ایک ہی رات میں مدائن پہنچ گئے اور ان کی تجہیز و تکفین کی۔"
ابن جوزی نے تسلیم کیا۔"ہاں درست ہے۔"
پہر اس نے پوچھا کہ:
"اس روایت کے متعلق کیا کہتے ہو کہ خلیفہ ثالث تین دن تک دفن نہ ہوسکے حالانکہ امیرالمومنین مدینہ ہی میں تشریف فرما تھے۔"
کہا "ہاں یہ بھی درست ہے" اس نے پھر پوچھا:
"ان میں امیرالمومنین کا کون سا اقدام درست تھا اور کون سا غلط۔" یہ سن کر ابن جوزی کے پاس جواب نہ رہا۔
خاتون نے اگلا سوال کیا۔
"اے ابن جوزی! کیا میں پوچھ سکتی ہوں کہ ام المومنین (عائشہ) کا (جنگِ جمل کے لئے) نکلنا کس ذیل میں آتا ہے۔ "اس کے بعد ابن جوزی کے لئے جواب کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ 28-29
۔۔ البتہ جن کا علم محسوسات کی حد سے آگے نہیں بڑھتا اور ان کے علم و ادراک کا وسیلہ صرف ظاہری حواس ہوا کرتے ہیں وہ عرفان و حقیقت کی راہوں سے ناآشنا ہونے کی وجہ سے اس نوعیت کے علم الغیب سے انکار کردیتے ہیں۔ 38
۔۔ اسلام میں تخت پر بیٹھنے کی گنجائش نہین تھی لیکن امیر معاویہ نے تخت پر بیٹھنے کی رسم شروع کی۔ یہ ایرانی و رومی شہنشاہوں کا شعار تھا۔ تخت و تاج نہ کبھی رسول خدا نے استعمال کیا تھا نہ خلفاء راشدین نے مگر بعد میں تخت کا دستور ہوا۔ حکمرانوں کا تخت اور عوام کا تختہ! ۔ 74
۔۔ یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ امیرالمومنین کے بعد دنیائے اسلام پر بنی امیہ کے دو گھرانوں نے حکومت کی۔ ان کا پہلا گھرانہ آلِ سفیان اور دوسرا گھرانہ آلِ مروان کہلاتا تھا۔ آلِ سفیان کے پہلے حکران حضرت معاویہ بن ابوسفیان تھے جو ۴۱ ہجری میں برسرِ اقتدار آئے اور ۵۹ ہجری تک حکومت کی۔ اس کے بعد ان کا بیٹا یزید ۶۰ ہجری میں تخت نشین ہوا اور ۶۴ ہجری میں موت سے ہمکنار ہوا۔ پھر اس کا بیٹا امیر معاویہ بن یزید تختِ حکومت پر متمکن ہوا مگر یہ چالیس دن بعد خلافت سے دستبردار ہوگیا۔ اس کی دستبرداری کے ساتھ آلِ ابوسفیان کی سیادت و قیادت ختم ہوگئی اور حکومت و سلطنت مروان کے ہاتھ میں چلی گئی۔
مروان کل نو مہینے حکومت کر سکا اس کے بعد اس کے آل اولاد نے ۶۵ ہجری سے ۱۳۲ ہجری تک حکومت کی۔ پھر حکومت مروان بن محمد کے ہاتھ سے نکل کر آلِ ابوسفیان اور آلِ مروان کے مشترکہ دشمن بنی عباس کے گھر منتقل ہوگئی۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ آلِ ابوسفیان کے پہلے حکران کا نام بھی امیر معاویہ تھا اور ان کے آخری حکمران کا نام بھی امیر معاویہ تھا۔ آلِ مروان کے پہلے حکمران کا بھی مروان نام تھا اور آخری حکمران کا نام بھی مروان تھا۔
امیرالمومنین نے فرمایا "میں قسم کھاتا ہوں اور پھر قسم کھاتا ہوں کہ میرے بعد بنی امیہ خلافت کو اس طرح پھینک دیں گے جس طرح سینہ کے بلغم کو تھوک دیا جاتا ہے اور پھر جب تک دن رات کا چکر چلتا رہے گا ان کو حکومت کا مزہ چکھنا نصیب نہ ہوگا۔" 116
۔۔ خلفاء میں سے دو حضرات نام علی ہوا۔ ایک تو علی مرتضیٰؑ کا اور دوسرا علی بن معتمند کا [270ھ]
۔۔ امیرالمومنین نے فرمایا "میں بھی جانتا ہوں کہ تیرے ساتھ (کوفہ) جو ستمگر بھی ظلم و جور کا ارادہ کرے گا خدا اسے ضرور کسی نہ کسی بلا میں مبتلا کردے گا کیا کسی قاتل کو اس پر مسلط کردےگا۔" (نہج البلاغہ)
[کوفہ پر زیادتیاں کرنے والوں کا حشر کیا ہوا ۔۔ صفحہ 180]
۔۔ محدثین لکھتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل نے دس لاکھ حدیثیں روایت کی ہیں جن میں ڈیڑھ لاکھ اسناد کے ساتھ ہیں۔ ان دس لاکھ میں سے امام موصوف نے پچاس ہزار کو صحیح بتایا ہے۔ ۔۔۔ آپ نے اپنی مسند میں چالیس ہزار احادیث جمع کی ہیں۔ امام مسلم نے تین لاکھ احادیث سے کل چار ہزار احادیث کو مستخرج کیا ہے۔ امام بخاری کے پاس چھ لاکھ احادیث تھیں جن میں سے نو ہزار دو سو ان کی شرائط کے مطابق تھیں۔
روایت کی اس کثرت سے بآسانی معلوم ہوسکتا ہے کہ وضع احادیث میں اس وقت کس قدر مبالغہ سے کام لیا جاتا تھا۔ ایک ایک شخص کے پاس تین تین لاکھ احادیث کا ذخیرہ موجود رہتا تھا۔ 204-205
امیرالمومنین نے فرمایا "اگر صحیح تفسیر و تشریح کی جائے تو اس سے زیادہ بے قیمت کوئی چیز نہ ہوگی اور اگر اس کے مطالب و معانی میں تغیر و تبدل کیا جائے تو اس سے زیادہ مقبول اور انمول شے کوئی نہ ہوگی۔" (نہج البلاغہ)
۔۔ بنی امیہ کے دورِ حکومت میں علماء کا ایک ایسا طبقہ وجود میں آگیا تھا جو حسویہ کہلایا تھا۔ اس طبقہ نے حضرت معاویہ کے اقدام کو قرآن کے رو سے جائز قرار دیتے ہوئے یہ فتویٰ دیا کہ اسلام میں باغی گروہ سے جنگ درست نہ تھی۔ ۔۔۔۔ اس گروہ کے چالیس شیوخ نے یزید بن عبدالملک کے سامنے شہادت دی کہ خلفاء سے قیامت کے دن نہ حساب لیا جائے گا اور نہ ان کو ان کے جرائم کی سزا ملے گی۔ گویا حکرانوں کے لئے عیش و عشرت کے دروازے کھل گئے۔
یزید کے دور میں نظریہ جبر کا عقیدہ اتنا مضبوط ہوگیا تھا کہ حکمران بڑی جرات سے گناہ کبیرہ کے مرتکب ہوتے ہوئے بھی کہتے کہ "خدا کی مرضی یہی تھی۔ اگر وہ نہ چاہتا تو ہم ہرگز ایسا نہ کرسکتے۔"
اموی حکومت کو سیاست نے اس عقیدہ کا خالق بنایا تھا کہ انسان مجبور محض ہے۔ 205-208
امیرالمومنین نے فرمایا "شہروں میں نیکی سے زیادہ بری شے کوئی نہ ہوگی اور برائی سے زیادہ بہتر کوئی اچھا نہ ہوگی۔ (نہج البلاغہ)۔
آغا گل
2010
جائزہ
یہ کتاب نہج البلاغہ کو ماخذ بناتے ہوئے مولا علی کی پیشن گوئیوں پر ہے،
جس کا زیادہ تر حصہ بنی امیہ اور اس کے بعد میں آنے والے حکمرانوں، فتنوں، فسادات پر مبنی ہے۔
چند اقتابسات:
۔۔ مسجد نبوی میں چند علماء امیرالمومنی سے سوال کر رہے ہیں کہ:
وہ کونسی چیز ہے جس کے بارے میں خدا بھی نہیں جانتا، وہ کیا چیز ہے جو خدا کے لئے نہیں اور وہ کیا چیز ہے جو خدا کے پاس نہیں؟
اور امیرالمومنین جواب دیتے ہیں۔
"وہ چیز جو خدا نہیں جانتا تو اے گروہ تمہارا یہ کہنا ہے کہ حضرت عیسیٰ خدا کے بیٹے ہیں، حالانکہ خدا نہیں جانتا کہ اس کو کوئی بیٹا ہے، اور جو چیز خدا کے لئے نہیں تو اس کے لئے کوئی شریک نہیں، اور وہ چیز جو خدا کے پاس نہیں تو خدا کے پاس نہ ظلم ہے نا عاجزی۔"
اسی طرح ایک یہودی عالم جو اسلامی تعلیمات سے بھی کسی حد تک آگاہ تھا امیرالمومنین کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے سوالات کو تہ در تہ پردوں میں چھپا کر کہا:
"تمام اشیاء کی اصل کیا ہے؟ فرمایا،"تمام اشیاء کی اصل پانی ہے جیسا کہ ارشادِ الٰہی ہے کہ ہم نے ہر چیز کو پانی سے پیدا کیا ہے۔"
پھر سوال ہوا۔
"جمادات کونسی ہیں جنہوں نے کلام کیا۔"
جوام دیا
"وہ زمین و آسمان ہیں جن کے متعلق ارشادِ خداوندِ عالم ہے کہ زمین و آسمان نے کہا کہ ہم دونوں مطیع و فرمانبردار بن کر حاضر ہیں۔" پھر سوال کیا۔
"وہ کون سی چیز ہیں جو گھٹتی بڑھتی ہیں مگر کوئی دیکھ نہیں پاتا؟" جواب دیا۔
"وہ دن اور رات ہیں۔"
پھر نہایت عجیب و غریب سوال کیا گیا۔
وہ کو سا پانی ہے جو نہ زمین کا ہے اور نہ آسمان کا؟
امیرالمونین نے فوراً جواب دیا:
"یہ پانی ان دوڑتے ہوئے گھوڑوں کا پسینہ ہے جنہیں حضرت سلیمان نے بلقیس کے پاس بھیجا تھا۔" علماء نے ورطہ حیرت میں ڈالنے والا سوال کیا "وہ کون سی چیز ہے جو بے جان ہوتے ہوئے بھی سانس لیتی ہے۔؟"
باب العلم نے فرمایا "وہ صبح ہے جس کے متعلق خداوند عالم نے فرمایا ہے": قسم ہے صبح کی جبکہ وہ سانس لے"۔ علماء پوری تیاری کے ساتھ آئے تھے دیافت کیا " وہ کون سے قبر ہے جو اپنی امانت لئے پھرتی تھی" ایک لمحے میں جواب ملا۔" وہ قبر شکم ماہی ہے جو سمندر میں جناب یونس کو لئے پھرتی تھی۔" 25-26
۔۔ ابنِ جوزی نے ایک دن منبر پر یہی دعویٰ کیا تو ایک خاتون نے دریافت کیا کہ:
"اس روایت کے متعلق کیا خیال ہے کہ امیرالمومنین کو جب سلمان کی وفات کی خبر ملی تو ایک ہی رات میں مدائن پہنچ گئے اور ان کی تجہیز و تکفین کی۔"
ابن جوزی نے تسلیم کیا۔"ہاں درست ہے۔"
پہر اس نے پوچھا کہ:
"اس روایت کے متعلق کیا کہتے ہو کہ خلیفہ ثالث تین دن تک دفن نہ ہوسکے حالانکہ امیرالمومنین مدینہ ہی میں تشریف فرما تھے۔"
کہا "ہاں یہ بھی درست ہے" اس نے پھر پوچھا:
"ان میں امیرالمومنین کا کون سا اقدام درست تھا اور کون سا غلط۔" یہ سن کر ابن جوزی کے پاس جواب نہ رہا۔
خاتون نے اگلا سوال کیا۔
"اے ابن جوزی! کیا میں پوچھ سکتی ہوں کہ ام المومنین (عائشہ) کا (جنگِ جمل کے لئے) نکلنا کس ذیل میں آتا ہے۔ "اس کے بعد ابن جوزی کے لئے جواب کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ 28-29
۔۔ البتہ جن کا علم محسوسات کی حد سے آگے نہیں بڑھتا اور ان کے علم و ادراک کا وسیلہ صرف ظاہری حواس ہوا کرتے ہیں وہ عرفان و حقیقت کی راہوں سے ناآشنا ہونے کی وجہ سے اس نوعیت کے علم الغیب سے انکار کردیتے ہیں۔ 38
۔۔ اسلام میں تخت پر بیٹھنے کی گنجائش نہین تھی لیکن امیر معاویہ نے تخت پر بیٹھنے کی رسم شروع کی۔ یہ ایرانی و رومی شہنشاہوں کا شعار تھا۔ تخت و تاج نہ کبھی رسول خدا نے استعمال کیا تھا نہ خلفاء راشدین نے مگر بعد میں تخت کا دستور ہوا۔ حکمرانوں کا تخت اور عوام کا تختہ! ۔ 74
۔۔ یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ امیرالمومنین کے بعد دنیائے اسلام پر بنی امیہ کے دو گھرانوں نے حکومت کی۔ ان کا پہلا گھرانہ آلِ سفیان اور دوسرا گھرانہ آلِ مروان کہلاتا تھا۔ آلِ سفیان کے پہلے حکران حضرت معاویہ بن ابوسفیان تھے جو ۴۱ ہجری میں برسرِ اقتدار آئے اور ۵۹ ہجری تک حکومت کی۔ اس کے بعد ان کا بیٹا یزید ۶۰ ہجری میں تخت نشین ہوا اور ۶۴ ہجری میں موت سے ہمکنار ہوا۔ پھر اس کا بیٹا امیر معاویہ بن یزید تختِ حکومت پر متمکن ہوا مگر یہ چالیس دن بعد خلافت سے دستبردار ہوگیا۔ اس کی دستبرداری کے ساتھ آلِ ابوسفیان کی سیادت و قیادت ختم ہوگئی اور حکومت و سلطنت مروان کے ہاتھ میں چلی گئی۔
مروان کل نو مہینے حکومت کر سکا اس کے بعد اس کے آل اولاد نے ۶۵ ہجری سے ۱۳۲ ہجری تک حکومت کی۔ پھر حکومت مروان بن محمد کے ہاتھ سے نکل کر آلِ ابوسفیان اور آلِ مروان کے مشترکہ دشمن بنی عباس کے گھر منتقل ہوگئی۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ آلِ ابوسفیان کے پہلے حکران کا نام بھی امیر معاویہ تھا اور ان کے آخری حکمران کا نام بھی امیر معاویہ تھا۔ آلِ مروان کے پہلے حکمران کا بھی مروان نام تھا اور آخری حکمران کا نام بھی مروان تھا۔
امیرالمومنین نے فرمایا "میں قسم کھاتا ہوں اور پھر قسم کھاتا ہوں کہ میرے بعد بنی امیہ خلافت کو اس طرح پھینک دیں گے جس طرح سینہ کے بلغم کو تھوک دیا جاتا ہے اور پھر جب تک دن رات کا چکر چلتا رہے گا ان کو حکومت کا مزہ چکھنا نصیب نہ ہوگا۔" 116
۔۔ خلفاء میں سے دو حضرات نام علی ہوا۔ ایک تو علی مرتضیٰؑ کا اور دوسرا علی بن معتمند کا [270ھ]
۔۔ امیرالمومنین نے فرمایا "میں بھی جانتا ہوں کہ تیرے ساتھ (کوفہ) جو ستمگر بھی ظلم و جور کا ارادہ کرے گا خدا اسے ضرور کسی نہ کسی بلا میں مبتلا کردے گا کیا کسی قاتل کو اس پر مسلط کردےگا۔" (نہج البلاغہ)
[کوفہ پر زیادتیاں کرنے والوں کا حشر کیا ہوا ۔۔ صفحہ 180]
۔۔ محدثین لکھتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل نے دس لاکھ حدیثیں روایت کی ہیں جن میں ڈیڑھ لاکھ اسناد کے ساتھ ہیں۔ ان دس لاکھ میں سے امام موصوف نے پچاس ہزار کو صحیح بتایا ہے۔ ۔۔۔ آپ نے اپنی مسند میں چالیس ہزار احادیث جمع کی ہیں۔ امام مسلم نے تین لاکھ احادیث سے کل چار ہزار احادیث کو مستخرج کیا ہے۔ امام بخاری کے پاس چھ لاکھ احادیث تھیں جن میں سے نو ہزار دو سو ان کی شرائط کے مطابق تھیں۔
روایت کی اس کثرت سے بآسانی معلوم ہوسکتا ہے کہ وضع احادیث میں اس وقت کس قدر مبالغہ سے کام لیا جاتا تھا۔ ایک ایک شخص کے پاس تین تین لاکھ احادیث کا ذخیرہ موجود رہتا تھا۔ 204-205
امیرالمومنین نے فرمایا "اگر صحیح تفسیر و تشریح کی جائے تو اس سے زیادہ بے قیمت کوئی چیز نہ ہوگی اور اگر اس کے مطالب و معانی میں تغیر و تبدل کیا جائے تو اس سے زیادہ مقبول اور انمول شے کوئی نہ ہوگی۔" (نہج البلاغہ)
۔۔ بنی امیہ کے دورِ حکومت میں علماء کا ایک ایسا طبقہ وجود میں آگیا تھا جو حسویہ کہلایا تھا۔ اس طبقہ نے حضرت معاویہ کے اقدام کو قرآن کے رو سے جائز قرار دیتے ہوئے یہ فتویٰ دیا کہ اسلام میں باغی گروہ سے جنگ درست نہ تھی۔ ۔۔۔۔ اس گروہ کے چالیس شیوخ نے یزید بن عبدالملک کے سامنے شہادت دی کہ خلفاء سے قیامت کے دن نہ حساب لیا جائے گا اور نہ ان کو ان کے جرائم کی سزا ملے گی۔ گویا حکرانوں کے لئے عیش و عشرت کے دروازے کھل گئے۔
یزید کے دور میں نظریہ جبر کا عقیدہ اتنا مضبوط ہوگیا تھا کہ حکمران بڑی جرات سے گناہ کبیرہ کے مرتکب ہوتے ہوئے بھی کہتے کہ "خدا کی مرضی یہی تھی۔ اگر وہ نہ چاہتا تو ہم ہرگز ایسا نہ کرسکتے۔"
اموی حکومت کو سیاست نے اس عقیدہ کا خالق بنایا تھا کہ انسان مجبور محض ہے۔ 205-208
امیرالمومنین نے فرمایا "شہروں میں نیکی سے زیادہ بری شے کوئی نہ ہوگی اور برائی سے زیادہ بہتر کوئی اچھا نہ ہوگی۔ (نہج البلاغہ)۔
No comments:
Post a Comment