FIKRism

Saturday, April 17, 2010

Tareekh-e-Sindh

تاریخ سندھ
حصہ اول
اعجاز الحق قدوسی
اشاعت بار دوم: فروری 1976
ناشر: مرکزی اردو بورڈ، لاہور




اقتباسات:


سندھ
۔۔ تیرہ سو سال پہلے سندھ کا اطلاق جس علاقے پر ہوتا تھا وہ بہت لمبا اور چوڑا تھا۔ اسلام سے پہلے راجا داہر کی حکومت کے زمانے میں جس ملک کو سندھ کے نام سے موسوم کرتے تھے، وہ سمت مغرب میں مکران تک، جنوب میں بحر عرب اور گجرات تک، مشرق میں موجودہ مالوہ کے وسط اور راجپوتانے تک اور شمال میں ملتان سے گزر کر جنوبی پنجاب کے اندر تک وسیع تھا اور عرب مورخین اسی سارے علاقے کو سندھ کہتے تھے۔
پہر یہ ملک اتنا قدیم ہے کہ اس کے متعلق یہ بھی نہیں بیان کیا جا سکتا کہ کب سے ہے اور اس کے نام میں کیا تبدیلیاں ہوئیں۔ صرف تاریخ سے اتنا پتا چلتا ہے کہ آج سے ہزاروں سال پہلے جب آریہ اس ملک میں آئے تو اُنھوں نے اس کا نام 'سندھو' رکھا، کیونکہ وہ اپنی زبان میں دریا کو 'سندھو' کہتے تھے۔ ابتداء وہ اس ملک کو سندھو کہتے رہے، مگر آہستہ آہستہ وہ اسے سندھ کہنے لگے۔ یہ نام اس قدر مقبول ہوا کہ ہزاروں سال گزر جانے پر بھی اس کا نام سندھ ہی ہے۔ کہتے ہیں کہ شروع میں آریوں نے سندھ کے ادھر جتنے ملک فتح کیے، انھوں نے سب کا نام سندھ ہی رکھا۔ یہاں تک کہ پنجاب کی سرحد سے آگے بڑھ گئے، مگر نام میں کوئی تبدیلی نہ ہوئی۔ جب گنگا تک پہنچ کر رک گئے تو اُس کا نام آریہ ورت رکھا، مگر ہندوستان سے باہر اس نام کو شہرت حاصل نہ ہوئی۔
ایرانیوں نے اپنے لہجے میں سندھ کو ہند کر ڈالا اور یونانیوں نے 'ھ' کو اس کے قریب المخرج حرف ہمزہ سے بدل کر اند کر دیا، رومن میں یہ لفظ اند سے اندیا ہو گیا اور انگریزی زبان میں چونکہ 'دال' نہیں اس لیے وہ انڈیا بن گیا۔ page- 1-2


قبل از اسلام
۔۔ اسلام سے پہلے سندھ میں جو راجا حکومت کرتے تھے وہ رائے کہلاتے تھے، جناب سرور کائنات صلی اللھ علیہ وآلہ وسلم کی ہجرت سے پہلے یہاں رائے حکومت تھی اور حکومت ایک سو سینتیس سال تک رہی۔ اس حکومت کے پانچ راجا گزرے ہیں جو عقیدتاً بدھ مذہب کے پیرو تھے،
اُن کے نام یہ ہیں:
۱۔ رائے ڈیوانچ
۲۔ رائے سیھرس
۳۔ رائے ساہ سی
۴۔ رائے سیھرس ثانی
۵۔ رائے ساہ سی ثانی
Page. 4


نجومیوں کی پیشنگوئی اور بہن بھائی کی شادی:
۔۔ الور کے برہمنوں اور نجومیوں کا ایک وفد بھی راجا داہر سے ملا اور واپسی کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے نجومیوں نے کہا، مہاراج کو خدا سلامت رکھے، ہم نے آپ کا اور آپ کے بھائی بہن کا زائچہ بنایا ہے۔ آپ دونوں بھائیوں کے زائچے میں کسی قسم کی خرابی نظر نہیں آتی لیکن آپ کی بہن مائین رانی کے زائچے سے معلوم ہوتا ہے کہ جو بھی اس سے شادی کرے گا، وہ سندھ کے تاج و تخت کا مالک ہوگا اور ہمیں اس کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ مائین رانی سندھ سے باہر نہیں جائے گی۔ 43

بدہیمن وزیر کی رائے:
آپ (داہر) اپنی بہن سے شادی کر کے اس کو اپنے ساتھ تخت نشین کر لیں، لیکن ازدواجی تعلقات سے کنارہ کش رہیں۔ اس طرح وہ آپ کی بیوی بھی کہلائے گی اور سندھ کا تاج و تخت بھی آپ کے پاس رہے گا۔ 44

داہر کی اپنی بہن سے شادی:
داہر نے پھر پانچسو سرداروں کو بلایا اور انہیں سمجھا بجھا کار کہا کہ میرے اور مائیں کے درمیان گٹھ بندھن کی رسم ادا کر دی جائے۔۔۔ اس طرح رسماً میری رانی اور میں یہاں کا راجا رہوں گا۔ لیکن ہم میں میاں بیوی کے تعلقات قائم نہ ہوں گے۔ ۔۔ شادی کی رسم باقاعدہ برہنوں نے ادا کی اور دونوں کی شادی ہوگئی۔ 45-46


ہندوستان میں اسلام کی آمد:
۔۔ ہندوستان میں اسلام محمد بن قاسم کے حملے سے بہت پہلے داخل ہوچکا تھا۔ ہندوستان میں اسلام کا سب سے پہلا مرکز جسے قرار دیا جا سکتا ہے، وہ جنوبی ہند میں ملابار ہے۔ سرور کائنات صلی اللھ علی وآلہ وسلم کی بعثت کے زمانے میں ملابار میں بودھ مذہب، برہمنی مذہب اور عیسائی و یہودی پائے جاتے تھے۔ لیکن ان میں باہمی مذہبی تعصب نہ تھا۔ 56


شق القمر:
ملابار کے راجا نے جس کا نام زمورن یا سامری تھا، اُس نے شق القمر کا معجزہ ملابار میں اپنی آنکھ سے دیکھا تھا۔ جس وقت یہ واقعہ پیش آیا تو اس نے حکم دیا کہ اس کا اندراج روزنامچے کے سرکارے رجسٹر میں کرلیا جائے۔ پھر اُسے عرب کے لوگوں سے معلوم ہوا کہ عرب میں ایک رسول پیدا ہوئے ہیں جنھوں نے یہ معجزہ دکھایا ہے۔ راجا نے فوراً ہی اسلام قبول کر لیا اور تخت سلطنت اپنے الیعہد کے سپرد کرکے کشتی میں سوار ہوکر ملک عرب کی طرف روانہ ہوا تا کہ رسول صلی اللھ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہو۔ لیکن اُس نے راستے ہی میں وفات پائی اور یمن کے ساحل پر مدفون ہوا۔ 56


۔۔ خلیفہ ثانی کے زمانے میں مکران تک مسلمانوں کا قبضہ ہو چکا تھا۔ جس وقت مسلمانوں نے مکران کو فتح کیا تو ایرانیوں کے ساتھ مل کر سندھیوں نے بھی مسلمانوں کا مقابلہ کیا۔ 59
[جب مسلمان ایران کی تاخت و تاز میں مصروف تھے، اس وقت ایران اور سندھ میں صلح تھا اور سندھی ایرانیوں سے مل کر مسلمانوں کا مقابلہ کرتے تھے، ایران کی فتح کے بعد عربوں کے لیے یہ ایک ٹھوس وجہ بنی کہ سندھ پر چڑھائی کی جائے۔]


سرزمین سندھ پر پہلی نماز جمعہ:
۔۔ متواتر کوچ کرتے ہوئے جمعہ کے دن 92ھ کو محمد بن قاسم دیبل پہنچے۔ سرزمین سندھ پر سب سے پہلے یہیں نماز جمعہ ادا کی گئی۔ 94


برہمن آباد / بہمن آباد
۔۔ (حاشیہ 183-184)
چچ نامہ میں اس شہر کے نام کا رسم الخط برہمن آباد ہے، اس نام کے آخری لفظ "آباد" سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ اصل میں ایرانی نام ہے، تاریخی نقطہ نظر سے خیال ہوتا ہے کہ یہ شہر غالباً ایران کے بادشاہ بہمن اردشیر کے حکم سے تعمیر کیا گیا تھا، اس لحاظ سے اس کا اصل نام "بہمن آباد" تھا۔ بہمن اردشیر نے اپنی وسیع مملکت میں تین شہر اس نام سے آباد کیے تھے، ایک بہمن آباد خراسان میں تھا جو رے اور نیشاپور کے درمیان میں تھا، دوسرا سواد عراق میں تھا، جس کو پہلے "ابیذ اردشیر" کا نام دیا گیا، مگر بعد میں وہ "بہمنیا" کہلانے لگا، اور خود مورخ طبری کے زمانے (۸۷۸۔ ۹۳۲ء) میں موجود تھا (طبری جلد ۱ ص ۶۸۷)

چونکہ سندھ کو بھی اردشیر نے فتح کرکے اپنی مملکت میں شامل کر لیا تھا، اور اُس کے دور حکومت میں سندھ میں یکے بعد دیگرے اس کے گورنر یہاں مقرر ہوتے رہے (حمزہ اصفہانی سنی ملوک الارض والابنیاء، ص ۱۲۔ ۱۳) اسی لیے سندھ میں بھی اُس کے نام سے یہ شہر آباد ہوا ہوگا، ہمارے اس خیال کی تصدیق "مجمل التواریخ" سے بھی ہوتی ہے۔ مجمل التواریخ میں ہے کہ بہمن اردشیر نے اس طرف (سندھ میں) بھی شہر تعمیر کرائے تھے، ایک تو ترکوں اور ہندووں کی سرحد ظاہر کرنے کے لیے قندابیل (گنداوا) اور دوسرا بدھیہ کے علاقے میں بہنب آباد، جو اب منصورہ کے نام سے مشہور ہے (مجمل التواریخ ص ۱۱۷۔ ۱۱۸)

غالباً اس شہر کے آباد ہونے کے طویل عرصے کے بعد، جب سندھ میں برہمن برسر اقتدار آئے تو انھون نے بہمن آباد کا نام بدل کر برہمن آباد رکھا، برہمنوں کا سندھ پر قبضہ چونکہ تعصب سے خالی نہ تھا، اس لے ہندوستان کے برہمن راجا "قضند" نے اپنے بھائی "سامید" کو سندھ پر لشکر کشی کے لیے مقرر کیا ، اور بہمن آباد مین آتشکدے کی جگہ بتکدہ تعمیر کروایا (مجمل التواریخ ص ۱۱۹) اس شہر کے نام کی تبدیلی یا تو اس برہمنی تعصب کی بنا پر ہوئی، یا برہمنوں کے طویل تسلط کی وجہ سے اس شہر کانام برہمن آباد پڑا۔۔۔

گیارہویں صدی کے شروع میں بھی اس شہر کا نام "بہمنوا" لکھا ہوا ملتا ہے، جس سے اس شہر کے نام کے متعلق ایرانی نام ہونے کی اور بھی تائید ہوتی ہے، البیرونی نے یہ بھی لکھا ہے کہ "برہمن آباد" در حقیقت "بہمنوا" ہے (کتاب الہند)

چچن نامہ سے ظاہر ہے کہ برہمن آباد رائے گھرانے کی حکومت زے زمانے میں لوہانی پرگنے کا مرکزی شہر اور وہاں کے حاکم اگھم کا دارالسلطنت تھا۔
۔۔۔
برہمن آباد نئے تعمیر شدہ شہر منصورہ سے دو فرسنگ کے فاصلے پر تھا، دوسرے یہ کہ اس کے مشرق جانب "جلوالی" نامی نہر بہتی تھی، محکمہ آثار قدیمہ کی طرف سے ۱۹۲۰۔ ۱۹۲۲ء میں جو کھدائی ہوئی تھی اس سے یہ امر یقینی طور پر ثابت ہوچکا ہے کہ شہداد پور سے تقریباً ۸ میل جنوب مشرق کی طرف نہر جمڑاو کے قریب مشرق کی طرف دلور کا مشہور ٹیلہ اور وسیع کھنڈرات درحقیقت عرب دور کے مشہور شہر منصورہ کے کھنڈرات ہیں۔ ۔۔۔
قدیم برہمن آباد کو اس شہر منصورہ کے کھنڈرات سے کوئی دو فرسنگ فاصلے پر تلاش کرنا چاہئے۔
منصورہ سے شمال مشرق کی طرف "جراری" نامی بستی ہے، جس کانام نہر قدیم جلوالی کی ایک یادگار ہے۔
183-187


محمد بن قاسم کا ماتم:
سندھیوں نے محمد بن قاسم کی وفات کی خبر سن کر بڑا ماتم کیا، اور وہ اُن کے اخلاق و اوصاف کو یاد کر کے روئے، اور شہر کیرج میں ان کی یاد تازہ رکھنے کے لیے اُنھوں نے محمد بن قاسم کا ایک اسٹیچو بنا کر نصب کیا۔ 224-225


۔۔ [محمد بن قاسم کو خلیفہ سلیمان بن عبدالملک کے حکم سے کچے چمڑے میں بند کر کے لے جایا جانا من گھڑت قصہ ہے، عرب مورخین نے اس کا تذکرہ نہیں کیا۔ صفحہ۔ 228-229]


مربی و محسن: حجاج یوسف:
۔۔ محمد بن قاسم کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ انھوں نے ہر منزل و موقع پر اپنے مربی و محسن حجاج بن یوسف سے مشورہ لیا، حجاج بن یوسف اگرچہ تاریخ اسلام کی ایک بدنام شخصیت ہے لیکن سندھ کے معاملے میں اس کی ہداہت و مشوروں کو پڑھ کر اس کے تدبر، ہوشمندی اور اس کے اعلیٰ سیاستدان ہونے کا اعتراف کرنا پڑتا ہے۔ 230


سندھ اور عمر بن عبدالعزیز:
۔۔ سندھ میں جس قدر اسلام حضرت عمر بن عبدالعزیز کے زمانے میں پھیلا، اس کی مثال کسی دوسرے خلیفہ کے زمانے میں نہیں ملتی۔ 239


نفس ذکیہ، عبداللھ الاشتر:
۔۔ 144 ھ خلافت کے بارے میں اہلبیت و غیر اہلبیت کی نزاع جو بنی امیہ کے عہد سے چلی آرہی تھی، اس سیاسی کشمکش نے شدت اختیار کی، اور حسنی سادات میں سے عبداللھ بن حسن مثنیُ بن حسن بن علی بن ابی طالب کے صاحبزادوں میں محمد نے جو "نفس ذکیہ" کے لقب سے مشھور تھے، اور ان کے بھائی ابراہیم نے عباسی حکومت کے خلاف کھڑے ہوئے۔ 260-261

نفس ذکیہ نے انے بھائیوں اور صاحبزادوں کو اپنا نمائمندہ بنا کر مختلف ممالک میں بھیجا تھا تاکہ وہ علوی حکومت کے قیام کے لیے جدوجہد کریں۔
اس سلسلے میں 144 ھ (761-762ء) میں سندھ میں انھوں نے اپنے صاحبزادہ عبداللھ بن محمد کو جو عبداللھ الاشتر کے نام سے مشھور تھے روانہ کیا۔ 262

سندھ میں شیعیت کی ابتداء: ندوی
جب عبداللھ الاشتر کے قیام کی خبر عام ہوئی تو اُن کے بھی خواہ بھی اطراف سے آکر اُن کے گرد جمع ہونے لگے، عباللھ الاشتر اپنا وقت سیر و شکار میں گزارتے اور زیدیہ فرقے کے عقاید کی تبلیغ کرتے تھے، مولانا ابوظفر ندوی کا خیال ہے کہ سندھ میں شیعیت کی ابتدا اُسی وقت سے ہوئی۔


حساب ہندی:
۔۔ اسی کے زمانے میں(151ھ) ایک سندھی وفد جس میں بڑے بڑے علماء شامل تھے منصور کے دربار میں باریاب ہوا، غالباً ہندوستان کے علماء کا عربوں سے یہ پہلا ربط تھا، اس وفد میں سنسکرت کا ایک بہت بڑا عالم بھی تھا جس نے سدہانت کو خلیفہ کے سامنے پیش کیا، پھر خلیفہ کے فرمان پر ابراہیم فراری ریاضی دان نے اس کا ترجمہ عربی میں کیا۔

یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ عربوں نے ۹ تک کے حسابی رقم (ہند سے) کے لکھنے کا طریقہ ہندووں سے سیکھا، اس لیے اہل عرب اس کو حساب ہندی یا ارقام ہندیہ کہتے ہیں۔ 267


سندھ کا بہترین عرب دور حکومت:
۔۔ عرب دور کے گورنروں میں جنید (105-111ھ) کے بعد اس کی (دائود بن یزید) (184-205ھ) کی مثال نہیں ملتی۔ اس کے دور حکومت کو بہترین دور حکومت کہا جاتا ہے۔۔277


قرآن کا پہلا سندھی ترجمہ:
۔۔ اسی کے زمانے میں ( عبداللھ بن عمر بن عبد العزیز ہباری ۔ 279ھ!) ایک ہندو نے جس کا نام مہروک تھا، عبداللھ بن عمر ہباری سے درخواست کی کہ سندھی زبان میں مذہب اسلام کی تعلیم لکھ کر بھیج دے، اس زمانے میں منصورہ میں عراق کا ایک عالم رہتا تھا، جس کی پرورش منصورہ میں ہوئی تھی، وہ بہت ذہین، سمجھدار اور شاعر تھا، اور یہاں کی مختلف زبانیں جانتا تھا، عبداللھ بن عمر ہباری نے راجا کی خواہش کا ذکر اس سے کیا، اُس نے اُن کی زبان میں ایک قصیدہ تیار کر کے راجا کو بھیج دیا، راجا نے اُس قصیدے کو سنا تو بہت پسند کیا، اور عبداللھ سے درخواست کی کہ اس شاعر کو اس کے دربار میں بھیج دیا جائے، چناچہ عبداللھ نےاس کو بھجوا دیا، وہ راجا کے دربار میں تین برس رہا اور اس کی خواہش سے اس عالم نے قرآن مجید کا ترجمہ سندھی زبان میں کیا، راجا روزانہ ترجمہ سنتا تھا اور اس سے بے حد متاثر ہوتا تھا، قرآن مجید کا یہ پہلا ترجمہ تھا جو سب سے پہلے سندھی زبان میں ہوا، اس عالم کا یہ بھی بیان ہے کہ راجا نے چھ سو من سونا اسے تین دفعہ دیا۔ 285-286


تین فرقے؛ قرامطہ، اسماعیلیہ، ملاحدہ:
۔۔ (حاشیہ) حضرت امام جعفر صادق کی وفات کے بعد شیعوں میں دو فرقے ہوگئے تھے، ایک نے امام جعفر صادق کے صاحبزادے، حضرت موسیٰ کاظم کو امام اور اُن کا جانشین تسلیم کیا، دوسرے فرقے نے امام جعفر صادق کے صاحبزادے حضرت اسماعیل کو ان کا امام و جانشین مانا، حضرت اسماعیل کے انتقال کے بعد ان کے صاحبزادے حضرت امام محمد امام قرار پائے، پھر حضرت احمدوفی ان کے جانشین ہوئے، اُن کے قائم حضرت محمد تقی الحبیب ہوئے، ان کے جانشین حسن الرضی ہوئے، اُن کے خلیفہ عبداللھ المہدی ہوئے جنھوں نے افریقہ میں حکومت فاطمیہ کی بنیاد رکھی، اس فرقے کو اسماعیلیہ کہتے ہیں ۔ (مولف)۔۔ 288-289

(حاشیہ) قرمطی فرقے کا بانی حمدان نامی عرف قرمط تھا جو 278ھ اطراف کوفے کے ایک مقام نہرین میں ظاہر ہوا۔ وہ صرف سات ائمہ کا قائل تھا، 300ھ کے لگ بھگ قرامطہ بحرین یعنی ساحل خلیج فارس سے فلسطین تک اور بصرہ سے مکہ معظمہ تک چھا گئے۔ 303

حقیقت یہ ہے کہ تین فرقوں کے نام اس طرح گڑبڑ ہوگئے ہیں کہ یہ گتھی الجھی ہوئی نظر آتی ہے۔ یہ تینوں فرقے قرامطہ، اسماعیلیہ، اور ملاحدہ ہیں۔ اگرچہ یہ تینوں اسماعیلی شیعیت ہی کی قسمیں ہیں لیکن ان میں تھوڑا تھوڑا فرق ہے اور ان تینوں فرقوں کی پیدائش کی تاریخ بھی الگ الگ ہے۔ سب سے پہلے قرمطی تیسری صدی ہجری کے آخر میں بحرین، خلیج فارس اور عراق میں ظاہر ہوئے۔ فرقہ اسماعیلیہ 356ھ میں پیدا ہوا، اور 356ھ میں یہ مصر آئے۔ ملاحدہ جن کو باطنیہ بھی کہتے ہیں جس کا سر گروہ حسن بن صباح تھا 483ھ کے بعد خراسان میں ظاہر ہوا۔

ان تینوں فرقوں میں سے ملتان میں برسوں اقتدار آیا وہ اسماعیلی شیعہ تھے۔۔ 303


سمہ اور لاکھا قومیں:( قریب: 366ھ) (976-977ء)
۔۔ سمہ اور لاکھا قومیں وحشی قومیں تھیں جو لوٹ مار کا بازار گرم رکھتی تھیں۔


سندھ میں عربوں کے بسائے شہر:
۔۔ سندھ میں عربوں نے جو شہر آباد کیے افسوس کہ آج ان میں سے کوئی بھی موجود نہیں۔ 310
دیبل، منصورہ، بیضاء، جندرور


سکھر
۔۔ عربوں نے اپنے زمانہ حکومت میں سندھ میں رفاہ عام کے متعلق بھی خاصے کام انجام دیے، دریائے سندھ پر عربوں نے عوام کی آمد و رفت کے لیے ایک پل تعمیر کیا، جس کا نام انھوں نے سکرالمید رکھا تھا، جو سکھر کے پاس تھا۔ 313


سندھ میں اردو زبان کی ابتدا: (محمود غزنوی، 413ھ)
۔۔ سندھ میں عربوں کی فتوحات کے بعد سندھی زبان میں بہت سے عربی الفاظ شامل ہوئے۔ اس کے علاوہ آبلہ، سیراف اور شیراز کے جتنے بھی تاجر سندھ آتے تھے اُن کی زبان فارسی تھی۔ اس لیے ملتان، مکران اور منصورہ میں فارسی زبان تجارتی تعلقات کی وجہ سے کچھ نہ کچھ رائج تھی۔ منصورہ، ملتان اور مکران میں تجارتی کاروبار کے لیے فارسی زبان استعمال ہوتی تھی۔ عربوں میں یہ بھی رواج تھا کہ وہ جس ملک میں رہتے وہاں کی زبان کو عربی حروف میں لکھتے تھے۔ غزنوی حکومت کا قبضہ سندھ میں 552ھ (1186-1187ء) تک رہا۔ غزنوی فوجوں میں افغان، ترکی، بلوچی، ایرانی اور ہندی سپاہی تھے۔ ان سب کے میل جول سے ایک نئی زبان نے جنم لیا۔ قیاس چاہتا ہے کہ یہ نئی زبان اردو زبان کی ابتدائی شکل ہوگی۔ اس کے علاوہ غزنوی دور کے شاعر حکیم سنائی، مسعود سعد سلیمان کے اشعار میں بھی ہییں بعض ہندی الفاظ ملتے ہیں۔ سلطان محمود غزنوی نے اپنی سلطنت میں جو ہندووں کی ریاستیں باقی رکھی تھیں ان ریاستوں میں جو سلطان نے سکہ جاری کیا تھا اس سکے پر عبارت ہندی تھی۔۔ 330-331


سندھ کی پہلی تاریخ : چچ نامہ:
۔۔ ناصر الدین قباچہ ہی کے زمانے میں علی بن حامد بن ابوبکر کوفی کو عربی میں لکھی ہوئی ایک تاریخ "منھاج المسالک" (تاریخ سندھ و ہند) الور اور بھکر کے ایک خستہ حال خاندان کے ایک بزرگ قاضی اسماعیل بن علی بن محمد طائی کے ذریعے سے ملی۔ قاضی صاحب موصوف الور کے قاضی موسیٰ بن یعقوب کے پڑپوتے تھے۔ قاضی موسیٰ محمد بن قاسم کے ساتھ سندھ تشریف لائے تھے جنھیں فتح الور کے بعد محمد بن قاسم نے الور کا قاضی مقرر کیا تھا۔ اُن کی اولاد میں پشت با پشت تاک مسلسل الور اور بھکر کی قضاوت چلی آتی رہے۔

عل بن حامد کوفی نے تاریخ منھاج المسالک کا 613ھ (1216ء) میں اُچ ہی میں عربی سے فارسی میں ترجمہ کیا جس کا نام چچ نامہ رکھا۔ یہ سندھ کی پہلی اسلامی تاریخ ہے جس سے ہمیں سندھ میں عربوں کی فتوحات کے متعلق حالات ملتے ہیں۔ 346


۔۔ رضیہ سلطانہ (دختر التمش) 637ھ
صفحہ : 349-350


سندھ : پناھگاہ:
۔۔ تاتاریوں کے حملوں کی وجہ سے خراسان، عراق اور عجم کے علما نے سندھ کو اپنا وطن بنایا۔ بکھر اور سیوھن علوم کے مرکز بنے۔ 363


اردو کا پہلا فقرہ:
۔۔ اردو کا پہلا فقرا جوکہ سندھ میں بولا گیا:
سندھی سلطان فیروز کے ٹھٹھہ سے ناکام گجرات جانے کے بعد اپنی کامیابی کو سندھ کے مشہور بزرگ حضرت پیر پٹھو کی کرامت قرار دیتے ہوئے کہا کرتے تھے:
برکت شیخ پٹھا ، اک موا اک نٹھا

اک موا سے اُن کا اشارہ سلطان محمد تغلق کی طرف تھا، جس نے ٹھٹھہ ہی میں وفات پائی تھی اور اک نٹھا سے ان کا اشارہ سلطان فیروز کی طرف تھا جو ٹھٹھے سے ناکام گجرات کی طرف چلا گیا تھا کہا جاتا ہے کہ نثر میں یہ اردو کا پہلا فقرہ ہے جو سندھ میں بولا گیا۔ صفحہ: 402


تیمور۔ 801ھ (1398ء)
۔۔ تیمور کے قبضے کے بعد اہل سندھ کی حکومت کی ماتحتی کا تعلق ہندوستان کی حکومت سے بالکل ختم ہوگیا، اور اسکے بعد سندھیوں کی ایک خود مختار حکومت کی بنیاد پڑی۔ 411


سمہ!
۔۔ فارسی مورخین نے سمہ کو جمع کی صورت میں سمگان لکھا ہے، بعض لوگوں نے ان کا نام سماس لکھا ہے، اگرچہ اس میں اختلاف ہے کہ یہ شروع میں مسلمان تھے یا بعد میں مسلمان ہوئے، مگر یہ مذہباً مسلمان تھے، ان کا صدر مقام ٹھٹھہ تھا، اور سرکاری لقب جام تھا، ان کا نام ہندی اور عربی ملا ہوتا تھا۔۔ 440-441

تاریخ فرشتہ اور آئین اکبری میں ان کو جام کے لقب کی وجہ سے ایرانی بادشاہ جمشید کی اولاد سے بتایا گیا ہے۔۔ 441


جام سمہ!:
۔۔ سندھ کے زمینداروں کی دو قسمیں تھیں، ایک کو سومرہ اور دوسری کو سمہ کہتے تھے، سمہ اپنے بزرگوں کو جام کے لقب سے یاد کرتے تھے، شاہ محمد تغلق کے آخر عہد میں مسلمانوں کی کوشش اور مدد سے حکومت سومروں کے ہاتھوں سے نکل کر سمہ خاندان کے ہاتھ میں آئی، اس خاندان کے اکثر سردار مسلمان تھے، اور اکثر اوقات شاہاں دہلی کے مطیع اور باجگزار تھے، لیکن کبھی کبھی علم مخالفت بھی بلند کر بیٹھتے تھے، یہ اپنے آپ کو جمشید کی طرف منسوب کرتے تھے، اس لیے یہ اپنے سرداروں کو جام کے لقب سے ملقب کرتے تھے۔

اسلام کے زمانے میں پہلا شخص جو ان میں سے حکومت سندھ پر فائز ہوا وہ جام اُنر تھا۔۔ 443-444
(حوالہ: تاریخ فرشتہ جلد دوم در بیان برخی از احوال سمگان کہ زمیندارن ملک سندھ اند)


جام نظام الدین ثانی (جام نندہ) (1461-1508ء) (866-914ھ)
۔۔ جام نندہ کے دور میں سندھ کے اندر اطمینان و دلجمعی کی لہر دوڑ گئی، اور اس فرمانروا نے دینی اور دنیوی علوم کو اپنے ملک میں غیر معمولی فروغ دیا۔۔
یہ وہ زمانہ تھا کہ وسط ایشیا میں سخت بد امنی اور طوائف الملوکی پھیلی ہوئی تھی۔ اس لیے وہاں کے علما بھی سندھ کے وطن کو ایک نعمت غیرمترقبہ سمجھ کر آئے۔ 471

سمون کا دور حکومت ۔ سات درویش:
۔۔ سموں کی دور حکومت (1350-1520ء) علم و فضل اور معیاری سندھی زبان کے ارتقا اور سندھی شاعری کی ابتدائی ترقی کے اعتبار سے ایک اہم دور ہے، ان ہی کے زمانے میں، سندھی زبان اور شاعری میں قوت بیان کو ترقی ملی، انھیں کے زمانے میں لسانی سرمائے میں وسعت پیدا ہوئی، انہیں کے زمانے میں سب سے پہلے سات درویشوں کے سندھی کے وہ اشعار ملتے ہیں، جو انہوں نے جام تماچی کے دور میں بطور پیش گوئی کے جنہیں ماموئی یا ساموئی کے اشعار کہا جاتا ہے، کہے ماموئی دراصل لفظ معما کی بگڑی ہوئی صورت ہے، غالباً معمائی سے ماموئی بنایا گیا ہے، یہ پیشین گوئیاں ہر درویش نے اپنے اپنے شعر میں جام تماچی سے ناراض ہوکر سندھ کے مستقبل کے متعلق اس وقت کی تھیں، جب جام تماچی نے انھیں قتل کرنے کا حکم دیا تھا، اُن کے ان اشعار کا ترجمہ ہم ذیل میں درج کرتے ہیں۔

پہلا درویش:
دریائے ھاکڑا بہت زور و شور سے بہے گا
اور اروڑ کا بند ٹوٹ جائے گا اور "بہ"
مچھلی اور "لوڑ" جیسی سوغاتیں سمہ
خاندان سے چلی جائیں گی۔

دوسرا درویش:
ملک میں پیار و محبت کے بادل برس برس
کر آخر ختم ہو جائیں گے، اور بلوچوں
کا بچہ صرف پانچ درم میں بکنے لگے گا۔

تیسرا درویش:
"کارا" اور "کاہارا" کے علاقوں میں آٹھوں
پہر جھگڑا فساد جاری رہے گا، آخر شرم و
حیا کا دیوالہ نکال کر سندھ پھر سے
سر سبز ہوگا۔

چوتھا درویش:
شرم و حیا کا دیوالہ نکل جائے گا، شرم و
حیا کے متعلق کیا پوچھتے ہو، عورتوں
کے دوپٹے نیچے لٹکے ہوئے ہوں گے،
اور کالے بال اوپر کو اُبھرے ہوئے۔

پانچواں درویش:
"لاڑ" کے علاقے سے بغاوت کے شعلے
اٹھیں گے اور اس کا اثر سرے (شمالی سندھ)
پر پڑےگا، اے سندھ! تجھے آخر مشرق
کی طرف سے نقصان پہنچے گا۔

چھٹا درویش:
نیلے اور دبلے گھوڑے شمال کی طرف سے
آئیں گے۔ لہنکا پہننے والی عورتیں راستے
میں تقسیم ہوتی ہوتی نظر آئیں گی، اور
اس کے بعد تاجانی قبیلے کی نوبت بجنے
لگے گی۔

ساتواں درویش:
اے لوگو! اپنی منزل کے بھروسے
پر آباد ہونا کیونکہ (عنقریب) تمھاری
بستیاں کھنڈرات بن جائیں گی اس لیے تم
مکانات تعمیر نہ کرنا

حاشیہ: ان ساتوں درویشوں کے متعلق ایک طویل قصہ مشہور ہے، چونکہ اس کا ہمارے موضوع سے کوئی تعلق نہیں اس لیے ہم نے اسے یہاں نقل نہیں کیا ہے۔
[اس قصہ کے بارے میں اگر کسی کو معلوم ہو تو خدارا مجھے ضرور بتایا جائے: ابڑو]۔

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...