FIKRism

Friday, July 23, 2010

AFM - Excerpts

Aam Fikri Mughalte
Ali Abbas Jalalpuri
1973


عام فکری مغالطے
علی عباس جلالپوری


۔۔ اس طرح اشاعت اسلام کی مثال ہمارے سامنے ہے جب اسلام کی اشاعت روم، ایران اور ہند میں ہوئی تو اس کی تعلیمات ان اقوام کے ذہن و قلب میں بارنہ پاسکیں کیوں کہ یہ اقوام صدیوں سے ایسی روایات و رسوم کی پابند تھیں جو آریائی مزاج عقلی سے مخصوص ہیں اور جن کے لیے اسلام کی سامی تعلیمات اجنبی تھیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام کے پردے میں حلول، تناسخ، تجسم، سریان، وجودیت، اوتار وغیرہ کے افکار و روایات برابر پنپتے رہے اور رفتہ رفتہ اس حد تک سرایت کر گئے کہ آج ان کو اصل مذہب سے جدا کرنا ناممکن ہوگیا ہے۔ 40


۔۔ از منہ وسطیٰ کے اواخر میں اسمائیوں اور حقیقت پرستوں کے درمیان وہ تاریخی نزاع شروع ہوئی جس نے بعد میں فلسفے اور سائنس کو مذہب سے جدا کردیا اور نئے دور کا آغاز ہوا۔ 47


۔۔ فختے، شیلنگ، شوپنہائر اور نٹشے کے خیال میں ارادہ اور جبلت ہمارے لیے جو نصب العین معین کرتے ہیں عقل ان کے حصول کے لیے محض وسائل فراہم کرتی ہے۔ 55


۔۔ زندگی اس قدر مختصر ہے کہ کوئی شخص بیک وقت دولت اور تہذیب نفس کے حصول پر قادر نہیں ہوسکتا۔ اس لیے آغازِ شباب ہی سے ان دو میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ 90


۔۔ افلاطون۔۔ فیثاغورس کی طرح کہتا ہے کہ ارواح عالمِ مادی سے آنے سے پہلے اپنے ستاروں میں مقیم تھیں۔ 97


۔۔ فیثاغورس اور نواشراقی افکار کی اشاعت کی باعث مذہب اسلام سیکڑوں فرقوں میں منقسم ہوگیا اور نسخ ارواح، سریان، امتزاج، تجسیم، حلول اور اوتار کے نواشراقی آریائی افکار اسلامی تعلیمات میں نفوذ کرگئے۔ مسلمانوں کے فلسفے اور علمِ کلام کی طرح تصوف بھی انہی افکار کی اشاعت سے صورت پذیر ہوا تھا۔ 102


۔۔ غزالی نے تصوف کو شریعت میں ممزوج کردیا۔ جس سے اہلِ ظاہر نے بھی اس کی مخالفت ترک کردی۔ بارہویں صدی عیسوی میں صوفیہ کے معروف حلقے قادریہ، سہروردیہ، مولویہ، چشتیہ، نقش بندیہ وغیرہ قائم ہوگئے۔ 113


۔۔ مسلم صوفیوں نے عشقِ حقیقی کے اظہار کے لیے عشق مجازی کا پیرایہ بیان اختیار کیا اور کہا کہ انسان کے حسن و جمال میں بھی محبوب حقیقی کا حسن جلوہ گر ہے۔ اس لیے کسی حسین شخص سے عشق کرنا گویا بالواسطہ محبوب حقیقی سے ہی محبت کرنا ہے۔ عشق مجازی ضروری مرحلہ ہے جسے طے کیے بغیر کوئی سالِک عشق حقیقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتا۔ 123


۔۔ چناچہ ایسے ماحول میں جہاں عورتیں برہنہ ہوں اور جہاں جنسی ملاپ پر کوئی روک ٹوک نہ ہو عشق و محبت کا جذبہ نہیں پنپ سکتا۔ 126


۔۔ رومیوں کے دورِ اقتدار میں فرانس اور ہسپانیہ کی مقامی بولیوں میں جنگ وجدال، شجاعت و حماست اور عشق ناکام کے جو قصے بیان کیے جاتے تھے وہ رومان کہلانے لگے۔ رومانی عشق کی اصلاح انہی قصوں سے یادگار ہے۔ 127


۔۔ جدید مغربی معاشرہ میں عورت بظاہر آزاد ہوچکی ہے لیکن اس کا مقام پہلے سے بھی پست تر ہوگیا ہے۔ صنعتی انقلاب نے بے شک اسے مرد کی صدیوں کی غلامی سے آزاد کردیا ہے لیکن اسی آزادی نے اسے ہوس کاری کی زنجیروں میں جکڑ دیا ہے اور وہ نہیں جانتی کہ ہوس کی یہ غلامی مرد کی غلامی سے کہیں بدتر ہے۔


۔۔ اہلِ تحقیق کے خیال میں عہدنامہ قدیم کے احکام عشرہ ضابطہ حمورابی سے ہی ماخذ ہیں۔ 141


۔۔ سگمنڈ فرائڈ نے اپنی کتاب "موسیٰ اور وحدانیت" میں کہتا ہے کہ جناب موسیٰ نے وحدانیت کا تصور مصر کے فرعون اخناتن سے مستعار لیا تھا۔ جو بت پرستی کا سخت مخالف تھا اور روح آفتاب (آتن) کے سوا کسی دوسرے دیوتا کی پوجا نہیں کرتا تھا۔ 142


۔۔ لی یوٹانگ لکھتا ہے:
"جیسا کہ سینٹیانا نے کہا ہے تاویل کاری اور استدلال نے مذہب کو روبہ تنزل کیا۔ اس کے الفاظ ہیں، بدقسمتی سے مدت ہوئی کہ مذہب وہ دانش نہیں رہا۔ جس کا اظہار تخیل میں کیا گیا ہو بلکہ وہ توہم بن گیا جس پر استدلال اور تاویل کے پردے پڑچکے ہیں۔ مذہب کے زوال کے اسباب ہیں: علم وفضل کی نمائش، فرقہ بندی، نظریات، تاویل کاری۔ جب ہم اپنے عقائد کی عذر خواہی کرتے ہیں، ان کی تاویل کرتے ہیں اور اپنے آپ کو برسرِحق سمجھنے میں غلو کرتے ہیں تو ہماری مذہبیت کو ضعف آجاتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ہر اہل مذہب بالآخر اپنے آپ کو حق و صداقت کا اجارہ دار سمجھنے لگتا ہے۔ جتنا ہم اپنےآپ کو حق بجانب قرار دیتے ہیں اتنے ہی تنگ نظر بھی ہوجاتے ہیں۔ جیسا کہ مذہب کے تمام فرقوں کے حالات سے ظاہر ہے۔ یہی چیز ہے جس نے اہل مذہب میں بدترین قسم کا تعصب، کم سوادی اور خودغرضی پیدا کی ہے۔ اس قسم کا مذہب انسان میں انتہائی درجے کی خودغرضی پیدا کرتا ہے جو نہ صرف اسے وسعت مشرب سے محروم کر دیتی ہے بلکہ اس کے اور خدا کے درمیان سودے بازی کو رواج دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مذہب کے بعض متشدد پیرو حد درجے کے خودغرض بھی ہوتے ہیں۔ اپنے آپ کو حق بجانب قرار دینے کا جذبہ رفتہ رفتہ انسان کے ان تمام عمدہ جذبات کا خاتمہ کردیتا ہے جن سے مذہب کی ابتدا ہوئی تھی۔" 144-145


۔۔ وحدانیت کی رو سے اخلاقی قدریں ازلی و ابدی ہیں اور انسان میں نیک و بد کی تمیز پیدائشی طور پر موجود ہے جسے عرف عام میں ضمیر کہا جاتا ہے۔ 148


۔۔ یاد رہے کہ جب کھشتری آپس کی طویل جنگوں میں لڑبھڑ کر ختم ہوگئے تو برہمنوں نے ہنوں اور سیتھیوں کی اولاد کو شدھ کر کے ان کا نام راجپوت رکھا۔ 189


۔۔ اسلام میں کلیسیا روم کی قسم کا کوئی ادارہ نہیں تھا۔ نہ برہمنوں اور پروہتوں کی طرح پیشہ ور مقتدیان مذہب کا کوئی وجود تھا۔ کوئی بھی پڑھا لکھا مسلمان رسوم عبادت انجام دے سکتا تھا۔ لیکن بنوامیہ کے برسر اقتدار آجانے سے یہ صورت حالات بدل گئی۔ ۔۔ 191
________________

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...