روایاتِ تمدّنِ قدیم
علی عباس جلالپوری
باب ۷۔
ہند
۔۔ جدید تحقیق کے مطابق برصغیر میں قدیم پتھر کے زمانے کا انسان موجود تھا جس کے متعلق کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ کہاں سے آیا تھا اور کس نسل سے تعلق رکھتا تھا۔ مغربی پنجاب میں وادی سواں سے پتھر کے بنے ہوئے آلات ملے ہیں جو اس بات کی شہادت دعتے ہیں کہ آج سے کم و بیش پانچ لاکھ برس پہلے انسان اس علاقے میں بود و باش رکھتا تھا۔ اس کے بعد بیرونِ ملک سے کچھ وحشی قبائل خوراک کی تلاش میں ملک میں داخل ہوئے جو بڑی مشرقی حبشی شاخ سے تعلق رکھتے تھے اور جنہیں آسٹریلائڈ کہا جاتا ہے۔ ان کے بعد بحیرہ روم کی نسل کے کچھ لوگ شمال مغربی درّوں سے وارد ہوئے۔ آسٹریلائڈ اور بحیرہ روم کی نسل کے اختلاط سے دراوڑی نسل معرضِ وجود میں آئی۔ 184
سندھ یا ہند:
۔۔ ایرانیوں نے اپنے لہجے میں سندھو کو ہندھو اور سندھ کو ہند کہنا شروع کیا جو یونانیوں اور رومیوں کا انڈیا بن گیا۔ سندھی اپنے ملک کو سندھ ہی کہتے رہے جب کہ سندھ غیر ملکیوں نے اس کے دو حصے کر ڈالے: سندھ اور ہند۔ عربوں کی آمد تک یہی تقسیم قائم تھی۔ 187
۔۔ رگ وید میں وجودِ مطلق کا مبہم سا تصور موجود ہے جسے پرجاپتی، ایکم پُرش اور نذایکم (وہ ایک) کہا گیا ہے۔ 191
برہسپتی کہتا ہے:
۔۔ برہسپتی کہتا ہے "جب تک جیو سُکھ سے جیو، کوئی انسان موت کے اختیار سے باہر نہیں ہے، جسم مٹی میں مِل جائے تو آّواگون یا سنسارچکر کیسے ممکن ہوسکتا ہے، جس طرح ہوسکے آنند سے رہو، دنیا سے حسب مرضی لطف اٹھاؤ، یہی حقیقی دُنیا ہے۔ پرلوک (دوسری دنیا) کچھ بھی نہیں ہے جو لوگ دُکھ سے مِلے ہوئے سُکھ کو ترک کردیتے ہیں وہ جاہل ہیں جس طرح غلّہ کا طالب دانہ نکال کر بھُوسہ الگ پھینک دیتا ہے اِسی طرح داناؤں کو چاہیے کہ سُکھ کو لیں اور دُکھ کو چھوڑ دیں کیونکہ جو شخص اِس جہاں کے سُکھ کو چھوڑ کر فرضی سُورگ (بہشت) کا خواب دیکھتا رہتا ہے وہ احمق ہے۔ پرلوک کے حصول کے لئے مکّار برہمنوں کی بنائی ہوئی رسوم ادا کرنے والے نادان ہیں۔ جب برہمن کہتے کہ دیوتا پر بھینٹ کیا ہوا جانور سِیدھا بہشت کو جاتا ہے تو وہ اپنے والدین کی قربانی کیوں نہیں دیتے کہ وہ سیدھے بہشت کو چلے جائیں۔"
196-197
بتوں کی پوجا:
۔۔ ہندو اہلِ علم کے خیال میں بُت پرستی کا رواج جَینیوں سے ہوا تھا جو اپنے اَرہنتوں کے بت بنا کر پوجتے تھے۔ سن 79 (ب م) ۔۔۔ 198
بُدھ کی تعلیمات:
۔۔ بُدھ کی چار صداقتیں مشہور ہیں۔
۱۔ زندگی دُکھ ہے۔
۲۔ اس دُکھ کے چند اسباب ہیں۔
۳۔ اس دُکھ کو دور کیا جا سکتا ہے۔
۴۔ اس دکھ سے نجات پانے کا ایک راستہ موجود ہے۔۔
اصطلاح میں اُنہیں دُکھ، دُکھ سمودایا، دُکھ نرودھ اور دکھ نرودھ مارگ کہتے ہیں۔ ۔۔ 199
شوپنہائر بُدھ کا پیرو:
۔۔ ۔۔۔ عورت دشمنی کی جھلک ہمیں گوتم بُدھ کی ایک مدّاح جرمن فلسفی شوپنہائر میں بھی دکھائی دیتے ہے۔
۔۔ شوپنہائر جسے اندھا ارادہ کہا ہے وہ گوتم کے ہاں کرم ہے جو انسان پر مسلّط ہے۔ ۔۔ 199
9 تک گنتی:
۔۔ اہلِ عرب کا اپنا بیان ہے کہ انہوں نے نو تک حسابی رقم لکھنے کا طریقہ اہل ہند سے سیکھا تھا۔ 217
شطرنج کے موجد:
۔۔ عربوں نے فراخدلی سے ہندؤوں کی علمیت اور ذہانت کا اعتراف کیا ہے۔
جاحظ لکھتا ہے۔
"لیکن ہندوستان کے باسندے، تو ہم نے اُن کو پالیا ہے کہ وہ جوتش اور حساب میں بڑھے ہوئے ہیں اور اُن کا ایک خاص ہندی خط ہے اور طِب میں بھی وہ آگے ہیں اور طب کے بعض عجیب بھید اُن کو معلوم ہیں اور سخت بیماریوں کی دوائیں خاص طور پر ان کے پاس ہیں، پھر مجسمے بنانا، رنگوں سے تصویر کھینچنا اور تعمیر میں اُن کو کمال حاصل ہے، پھر شطرنج کے وہ موجد ہیں جو ذہانت اور سوچ کا بہترین کھیل ہے۔" ۔ 218
شطرنج۔
۔۔ شطرنج ہندوؤں کی عظیم ایجاد ہے۔ روایت ہے کہ ششہ برہمن نے پانچویں صدی (ب م) میں اسے ایک راجہ کے لئے ایجاد کیا تھا۔ اس کا اصل نام چترنگ یا چترنگم (چار انگ یعنی ہندی فوج کے چار حصے: پیدل، سوار، ہاتھی، رتھ)۔ شطرنج اور چوسر میں ہندوؤں نے جبر اور قدر کے مسئلے کو پیش کیا ہے۔ شطرنج قدر و اختیار کا کھیل ہے یعنی انسان جتنی قابلیت رکھے گا اور جتنی کوشش کرے گا اُسی کے مطابق اُسے ثمرہ ملے گا۔ چوسر سراسر جبر پر مبنی ہے یعنی انسان مجبور محض ہے کیا پتہ پوبارہ پڑیں یا چار کانے آجائیں۔ 218
ستوپا:
۔۔ ستوپا بزرگوں کے تبرکّات دفن کرنے کے لئے تعمیر کئے جاتے تھے۔
ستوپا کے ارد گرد کٹہڑا بنایا جاتا تھا۔ 219
۔۔ دوسری اقوام میں شادی پر رومانوی محبت کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ ہندوستان میں شادی کے بعد رومانوی محبت کا آغاز ہوتا تھا۔ 225
۔۔ راجپوت، جاٹ اور گوجر ہُنوں، سیتھوں اور باختریوں کی اولاد سے ہیں۔ 232
۔۔ بعض ہندو اپنے دانتوں پر سونا چڑہوالیتے ہیں تاکہ سوُرگ کا راستہ کھل جائے۔ 236
۔۔ ہندووں کے اصل کارنامے تحقیقی ہیں۔ اُنہوں نے ایرانیوں اور عربوں کی وساطت سے دنیا کو ہندسوں کُسورِ اعشاریہ، شطرنج اور جاتک کہانیوں سے روشناس کرایا تھا۔ ان کی یہ قابل فخر دین تمدن عالم کا قیمتی حصہ بن چکی ہے۔ 242
______________________________-
علی عباس جلالپوری
باب ۷۔
ہند
۔۔ جدید تحقیق کے مطابق برصغیر میں قدیم پتھر کے زمانے کا انسان موجود تھا جس کے متعلق کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ کہاں سے آیا تھا اور کس نسل سے تعلق رکھتا تھا۔ مغربی پنجاب میں وادی سواں سے پتھر کے بنے ہوئے آلات ملے ہیں جو اس بات کی شہادت دعتے ہیں کہ آج سے کم و بیش پانچ لاکھ برس پہلے انسان اس علاقے میں بود و باش رکھتا تھا۔ اس کے بعد بیرونِ ملک سے کچھ وحشی قبائل خوراک کی تلاش میں ملک میں داخل ہوئے جو بڑی مشرقی حبشی شاخ سے تعلق رکھتے تھے اور جنہیں آسٹریلائڈ کہا جاتا ہے۔ ان کے بعد بحیرہ روم کی نسل کے کچھ لوگ شمال مغربی درّوں سے وارد ہوئے۔ آسٹریلائڈ اور بحیرہ روم کی نسل کے اختلاط سے دراوڑی نسل معرضِ وجود میں آئی۔ 184
سندھ یا ہند:
۔۔ ایرانیوں نے اپنے لہجے میں سندھو کو ہندھو اور سندھ کو ہند کہنا شروع کیا جو یونانیوں اور رومیوں کا انڈیا بن گیا۔ سندھی اپنے ملک کو سندھ ہی کہتے رہے جب کہ سندھ غیر ملکیوں نے اس کے دو حصے کر ڈالے: سندھ اور ہند۔ عربوں کی آمد تک یہی تقسیم قائم تھی۔ 187
۔۔ رگ وید میں وجودِ مطلق کا مبہم سا تصور موجود ہے جسے پرجاپتی، ایکم پُرش اور نذایکم (وہ ایک) کہا گیا ہے۔ 191
برہسپتی کہتا ہے:
۔۔ برہسپتی کہتا ہے "جب تک جیو سُکھ سے جیو، کوئی انسان موت کے اختیار سے باہر نہیں ہے، جسم مٹی میں مِل جائے تو آّواگون یا سنسارچکر کیسے ممکن ہوسکتا ہے، جس طرح ہوسکے آنند سے رہو، دنیا سے حسب مرضی لطف اٹھاؤ، یہی حقیقی دُنیا ہے۔ پرلوک (دوسری دنیا) کچھ بھی نہیں ہے جو لوگ دُکھ سے مِلے ہوئے سُکھ کو ترک کردیتے ہیں وہ جاہل ہیں جس طرح غلّہ کا طالب دانہ نکال کر بھُوسہ الگ پھینک دیتا ہے اِسی طرح داناؤں کو چاہیے کہ سُکھ کو لیں اور دُکھ کو چھوڑ دیں کیونکہ جو شخص اِس جہاں کے سُکھ کو چھوڑ کر فرضی سُورگ (بہشت) کا خواب دیکھتا رہتا ہے وہ احمق ہے۔ پرلوک کے حصول کے لئے مکّار برہمنوں کی بنائی ہوئی رسوم ادا کرنے والے نادان ہیں۔ جب برہمن کہتے کہ دیوتا پر بھینٹ کیا ہوا جانور سِیدھا بہشت کو جاتا ہے تو وہ اپنے والدین کی قربانی کیوں نہیں دیتے کہ وہ سیدھے بہشت کو چلے جائیں۔"
196-197
بتوں کی پوجا:
۔۔ ہندو اہلِ علم کے خیال میں بُت پرستی کا رواج جَینیوں سے ہوا تھا جو اپنے اَرہنتوں کے بت بنا کر پوجتے تھے۔ سن 79 (ب م) ۔۔۔ 198
بُدھ کی تعلیمات:
۔۔ بُدھ کی چار صداقتیں مشہور ہیں۔
۱۔ زندگی دُکھ ہے۔
۲۔ اس دُکھ کے چند اسباب ہیں۔
۳۔ اس دُکھ کو دور کیا جا سکتا ہے۔
۴۔ اس دکھ سے نجات پانے کا ایک راستہ موجود ہے۔۔
اصطلاح میں اُنہیں دُکھ، دُکھ سمودایا، دُکھ نرودھ اور دکھ نرودھ مارگ کہتے ہیں۔ ۔۔ 199
شوپنہائر بُدھ کا پیرو:
۔۔ ۔۔۔ عورت دشمنی کی جھلک ہمیں گوتم بُدھ کی ایک مدّاح جرمن فلسفی شوپنہائر میں بھی دکھائی دیتے ہے۔
۔۔ شوپنہائر جسے اندھا ارادہ کہا ہے وہ گوتم کے ہاں کرم ہے جو انسان پر مسلّط ہے۔ ۔۔ 199
9 تک گنتی:
۔۔ اہلِ عرب کا اپنا بیان ہے کہ انہوں نے نو تک حسابی رقم لکھنے کا طریقہ اہل ہند سے سیکھا تھا۔ 217
شطرنج کے موجد:
۔۔ عربوں نے فراخدلی سے ہندؤوں کی علمیت اور ذہانت کا اعتراف کیا ہے۔
جاحظ لکھتا ہے۔
"لیکن ہندوستان کے باسندے، تو ہم نے اُن کو پالیا ہے کہ وہ جوتش اور حساب میں بڑھے ہوئے ہیں اور اُن کا ایک خاص ہندی خط ہے اور طِب میں بھی وہ آگے ہیں اور طب کے بعض عجیب بھید اُن کو معلوم ہیں اور سخت بیماریوں کی دوائیں خاص طور پر ان کے پاس ہیں، پھر مجسمے بنانا، رنگوں سے تصویر کھینچنا اور تعمیر میں اُن کو کمال حاصل ہے، پھر شطرنج کے وہ موجد ہیں جو ذہانت اور سوچ کا بہترین کھیل ہے۔" ۔ 218
شطرنج۔
۔۔ شطرنج ہندوؤں کی عظیم ایجاد ہے۔ روایت ہے کہ ششہ برہمن نے پانچویں صدی (ب م) میں اسے ایک راجہ کے لئے ایجاد کیا تھا۔ اس کا اصل نام چترنگ یا چترنگم (چار انگ یعنی ہندی فوج کے چار حصے: پیدل، سوار، ہاتھی، رتھ)۔ شطرنج اور چوسر میں ہندوؤں نے جبر اور قدر کے مسئلے کو پیش کیا ہے۔ شطرنج قدر و اختیار کا کھیل ہے یعنی انسان جتنی قابلیت رکھے گا اور جتنی کوشش کرے گا اُسی کے مطابق اُسے ثمرہ ملے گا۔ چوسر سراسر جبر پر مبنی ہے یعنی انسان مجبور محض ہے کیا پتہ پوبارہ پڑیں یا چار کانے آجائیں۔ 218
ستوپا:
۔۔ ستوپا بزرگوں کے تبرکّات دفن کرنے کے لئے تعمیر کئے جاتے تھے۔
ستوپا کے ارد گرد کٹہڑا بنایا جاتا تھا۔ 219
۔۔ دوسری اقوام میں شادی پر رومانوی محبت کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ ہندوستان میں شادی کے بعد رومانوی محبت کا آغاز ہوتا تھا۔ 225
۔۔ راجپوت، جاٹ اور گوجر ہُنوں، سیتھوں اور باختریوں کی اولاد سے ہیں۔ 232
۔۔ بعض ہندو اپنے دانتوں پر سونا چڑہوالیتے ہیں تاکہ سوُرگ کا راستہ کھل جائے۔ 236
۔۔ ہندووں کے اصل کارنامے تحقیقی ہیں۔ اُنہوں نے ایرانیوں اور عربوں کی وساطت سے دنیا کو ہندسوں کُسورِ اعشاریہ، شطرنج اور جاتک کہانیوں سے روشناس کرایا تھا۔ ان کی یہ قابل فخر دین تمدن عالم کا قیمتی حصہ بن چکی ہے۔ 242
______________________________-
No comments:
Post a Comment