روایاتِ تمدّنِ قدیم
علی عباس جلالپوری
باب ۔ ۴۔
بنی اسرائیل:
۔۔ بنی اسرائیل کو شروع شروع میں عبرانی کہتے تھے۔
ہیکلِ سلیمان:
۔۔ شاہ دائود کی وفات پر جناب سلیمان تخت پر بیٹھے اور سر پر تاج رکھتے ہی بھائیوں کے قتل کا حکم دیا۔ جناب سلیمان کی عہدِ حکومت بنی اسرائیل کی تاریخ کا سب سے درخشاں زمانہ سمجھا جاتا ہے۔ ۔۔۔ چناچہ اپنی سلطنت کو مضبوط کرنے کے لئے جناب سلیمان نے مصر اور کنعان کے سلاطین کی بیٹیوں سے نکاح کیا اور اس طرح انھیں حلیف بنا لیا۔ جب اِس طرف سے اطمینان ہوگیا تو اُنہوں نے ہیکل کی تعمیر پر کمر باندھی۔ ۔۔۔ ہیکل کی عمارت سات برس میں ہوئی تو جناب سلیمان نے اِس خوشی میں بائیس ہزار بیل اور ایک لاکھ بیس ہزار بھیڑیں بھینٹ چڑھائیں۔ 86-87
اسرائیل (یھودیوں) کی تباہی:
۔۔ سلیمان کی موت کی بعد ان کی سلطنت دو حصوں میں بٹ گئی: اسرائیل اور یہوداہ۔ اُن کے بیٹوں رجعام اور یربعام کے درمیان خانہ جنگی چھڑگئی۔ مصر کے فرعون شیشاک نے اِس پھوٹ کا فائدہ اٹھانے کے لئے یروشلم پر چڑھائی کی اور مقدس اور شاہی محل کے خزانوں کو لوٹ کھسوٹ کرلے گیا۔ اسرائیل کے بادشاہ افی اب نے صیدانی شہزادی ایزبل سے شادی کی جس نے اپنے معبود بعل کے لئے مندر تعمیر کرایا اور اس کے مذبح پر قربانیاں کرنے لگے۔ اُس کی دیکھا دیکھی رعایا میں بھی بعل پوجا جڑپکڑگئی جس پر خداوندخدا اپنی برگزیدہ اُمت سے ناراض ہوگیا اور اُس کے دھمکی دی "میں یروشلم کو ایسا پُونچھوں گا جیسے آدمی تھالی کو پُونچھتا ہے اور اُسے پونچھ کر اُلٹی رکھ دیتا ہے۔"
پہلے بنی اسرائیل کی باری آئی۔ سارگن شاہ اشور نے 722 ق م میں حملہ کر کے اسرائیل کو برباد کیا اور اُس کی ساری آبادی کو قید کرکے لے گیا پھر پتا نہ چل سکا کہ اسرائیل کے دس قبائل کا کیا حشر ہوا۔ وہ صفحہ تاریخ سے غائب ہوگئے۔
586 ق م میں بنوکد نضر شاہِ بابل نے یہوداہ پر چڑھائی کی اور سخت مزاحمت کے باوجود فتح پائی۔ بابلیوں نے ہیکل سلیمانی اور شاہی محلّات کی اینٹ سے اینٹ بجادی اور سونے چاندی کے ظروف اور شمعدان سمیٹ کر لے گئے۔ بنوکدنضر بھی یہوداہ کی ساری آبادی غلام بنا کر اپنے ساتھ بابل لے گیا جہاں کم و بیش اسّی برس یہودیوں نے اسیری میں بسر کئے۔ ۔۔۔ شہنشاہ خشرشیا نے ایک یہودی لڑکی استرنامی کو جو حسن و جمال میں یگانہ روزگار تھی اپنی ملکہ بنا لیا اور اُس کے ہم قوموں سے لُطف مے کرم کا برتاؤ کرنے لگا۔ انبیاء بابل کے جلاوطنوں کو ہمت دلاتے رہے اور نجات کی بشارت دیتے رہے۔ کوروش کبیر نے یہودیوں کو اپنے وطن واپس جانے کی اجازت دے دی اور مَقدِس سے لُوٹے ہوئے سونے چاندی کے ظروف بھی لوٹادئیے۔ بنی اسرائیل نے وطن واپس آکر ازسرِ نو مقدس تعمیر کیا اور توریت کے مُنتشر اوراق جمع کئے۔ اِس دوران میں یہودیت نے جو شکل و صورت اخیتار کی وہ آج تک باقی و برقرار ہے۔ دو صدیوں تک ایرانی بنی اسرائیل پر عدل و انصاف سے حکومت کرتے رہے۔ سکندر اعظم نے حملے کے بعد یہوداہ یونانیوں کی مُملکتِ شام کا ایک صوبہ بن گئی۔ طویل جدوجہد کے بعد مکابی بھائیوں نے شامی فوج کو شکست دے کر آزادی حاصل کی (165 ق م) کچھ عرصے کے بعد یہودی دو فرقوں میں بٹ گئے۔ فریسی اور صدوقی، جن میں جھگڑا شروع ہوگیا۔ اِس سے فائدہ اُٹھا کر رومہ کے سالار پومپے نے ملک پر قبضہ کرلیا اور ایک یہودی انٹی پیٹر کو گورنر مقرر کردیا۔ انٹی پیٹر، اُس کا بیٹا اور پوتا 39ء ب م تک حکومت کرتے رہے۔ اِس کے بعد یہودیوں نے رومیوں کے خلاف بغاوت کردی۔ رُومی جرنیل ٹائی ٹس نے فوج کشی کرکے یروشلم کو فتح کیا اور ہیکل کو نذرِ آتش کردیا۔ ہزاروں یہودی قتل ہوے اور بقیۃالسیف کو غلاف بنا کر بیچ ڈالا گیا۔ ابتلا کے اس زمانے میں یہودی بھاگ کر دور دراز کے ممالک میں ہجرت کرگئے اور شمالی افریقہ، بحیرہ روم کے ساحلی شہروں، سکندریہ، رومہ، مغربی یورپ اور ایشیا کے شہروں میں بود و باش اختیار کرکے تجارت اور صرافہ سے کسبِ معاش کرنے لگے۔ بیسویں صدی کے آغاز مین صیہونی تحریک نے زور پکڑا اور 1948ء میں برطانیہ کی مدد سے اسرائیل کی ریاست دوبارہ معرضِ وجود میں آگئی۔ 87-89
بعض انبیاء:
۔۔ انبیاء میں بعض گوشہ نشیں عابد تھے جیسے الیجاہ، بعض مُجرّد تھے اور کُچھ شادی شدہ عیال دار تھے۔ اِن میں کئی بنی عوامی اخلاق کے محافظ تھے اور محتسب کا فرض انجام دیتے تھے؛ کچھ خطیب تھے جو اپنی آتش بیانی سے عوام میں آگ لگا دیتے تھے۔ ناتن اور یاہو نے سیاسیات میں عملی حصہ لیا تھا۔ یہ انبیاء پیش گوئی کرنے کے بجائے حالاتِ حاضرہ پر تبصرہ کیا کرتے تھے۔ وہ اُمراء کے جبر و تشدد کے خلاف احتجاج کرتے اور مساکین کی حمایت میں سرگرمی دکھاتے تھے۔ بیض انبیاء مردِ میدان تھے اور سپہ سالاری کے فرائض انجام دیتے تھے۔ 100
۔۔ جناب ابراہام نناوے برس کے تھے جب اُن کا ختنہ ہوا۔ 104
تورات کی کہانی:
۔۔ علمائے مغرب کے خیال میں تورات 1500 ق م میں لکھی گئی تھی۔ عہدنامہ قدیم کے پہلے پانچ صحیفوں کو یہودی تورات یا قانون کہتے ہیں۔ یہ پانچ صحیفے ہیں: پیدائش، خروج، احبار، گنتی اور استشناء۔ موجودہ عہد نامے میں انتالیس کتابیں ہیں۔ اِن کے علاوہ جو صحیفے ہیں انہیں اصلاح یافتہ کلیسیا نے جعلی قرار دیا ہے۔ زبور جناب داؤد سے منسوب ہے لیکن فی الاصل یہ ایامِ اسیری میں لکھی گئی تھی۔ یہی کیفیت کتابِ ایّوب کی ہے جس میں گہری قنوطیت پائی جاتی ہے۔ ظاہراً یہ بھی قید بابل کی یادگار ہے جب بنی اسرائیل کو اپنی بدبختی اور زبوں حالی کا تلخ احساس تھا۔ ۔۔ تورات کا ایک نسخہ ہیکل میں رہتا تھا جہاں پر ساتویں برس اسے پڑھ کر لوگوں کو سُنایا جاتا تھا۔ ہیکل کئی بار لُٹا اور برباد ہوا اور اس کے ساتھ تورات کے اوراق بھی پریشاں اور منتشر ہوتے رہے۔ قید بابل سے رہائی کے بعد یہودی احبار نے بڑی کاوش سے ادھر اُدھر سے اوراق جمع کر کے ازسرِ نو تورات مرتب کی۔ اس بنا پر بعض علماء کہتے ہیں کہ تورات میں بہت کُچھ تحریف ہوئی ہے اور اس کے بعض حصے الحاقی ہیں۔ مسلمانوں میں امام بخاری اور سر سید احمد تحریف کے قائل نہیں ہیں۔ دوسری مشہور کتاب تالمد ہے جسے روایات اور احادیث کا مجموعہ سمجھا جا سکتا ہے۔ 106-107
۔۔ قدیم چینیوں کی طرح یہودی اعادہ شباب کے لئے کمسن لڑکیوں سے نکاح کیا کرتے تھے۔۔۔ اس کو 'نسخہ داؤد' یا 'شونمیت کا مَت' کہتے ہیں۔
۔ متعہ کا رواج تھا اور حقِ خلوت دے کر مباشرت کرنا جائز تھا۔
۔ بنی اسرائیل نے عصمت فروشی، لواطت اور فحاشی کو خلافِ قانون قرار دیا۔ 118-120
_____________________________-
علی عباس جلالپوری
باب ۔ ۴۔
بنی اسرائیل:
۔۔ بنی اسرائیل کو شروع شروع میں عبرانی کہتے تھے۔
ہیکلِ سلیمان:
۔۔ شاہ دائود کی وفات پر جناب سلیمان تخت پر بیٹھے اور سر پر تاج رکھتے ہی بھائیوں کے قتل کا حکم دیا۔ جناب سلیمان کی عہدِ حکومت بنی اسرائیل کی تاریخ کا سب سے درخشاں زمانہ سمجھا جاتا ہے۔ ۔۔۔ چناچہ اپنی سلطنت کو مضبوط کرنے کے لئے جناب سلیمان نے مصر اور کنعان کے سلاطین کی بیٹیوں سے نکاح کیا اور اس طرح انھیں حلیف بنا لیا۔ جب اِس طرف سے اطمینان ہوگیا تو اُنہوں نے ہیکل کی تعمیر پر کمر باندھی۔ ۔۔۔ ہیکل کی عمارت سات برس میں ہوئی تو جناب سلیمان نے اِس خوشی میں بائیس ہزار بیل اور ایک لاکھ بیس ہزار بھیڑیں بھینٹ چڑھائیں۔ 86-87
اسرائیل (یھودیوں) کی تباہی:
۔۔ سلیمان کی موت کی بعد ان کی سلطنت دو حصوں میں بٹ گئی: اسرائیل اور یہوداہ۔ اُن کے بیٹوں رجعام اور یربعام کے درمیان خانہ جنگی چھڑگئی۔ مصر کے فرعون شیشاک نے اِس پھوٹ کا فائدہ اٹھانے کے لئے یروشلم پر چڑھائی کی اور مقدس اور شاہی محل کے خزانوں کو لوٹ کھسوٹ کرلے گیا۔ اسرائیل کے بادشاہ افی اب نے صیدانی شہزادی ایزبل سے شادی کی جس نے اپنے معبود بعل کے لئے مندر تعمیر کرایا اور اس کے مذبح پر قربانیاں کرنے لگے۔ اُس کی دیکھا دیکھی رعایا میں بھی بعل پوجا جڑپکڑگئی جس پر خداوندخدا اپنی برگزیدہ اُمت سے ناراض ہوگیا اور اُس کے دھمکی دی "میں یروشلم کو ایسا پُونچھوں گا جیسے آدمی تھالی کو پُونچھتا ہے اور اُسے پونچھ کر اُلٹی رکھ دیتا ہے۔"
پہلے بنی اسرائیل کی باری آئی۔ سارگن شاہ اشور نے 722 ق م میں حملہ کر کے اسرائیل کو برباد کیا اور اُس کی ساری آبادی کو قید کرکے لے گیا پھر پتا نہ چل سکا کہ اسرائیل کے دس قبائل کا کیا حشر ہوا۔ وہ صفحہ تاریخ سے غائب ہوگئے۔
586 ق م میں بنوکد نضر شاہِ بابل نے یہوداہ پر چڑھائی کی اور سخت مزاحمت کے باوجود فتح پائی۔ بابلیوں نے ہیکل سلیمانی اور شاہی محلّات کی اینٹ سے اینٹ بجادی اور سونے چاندی کے ظروف اور شمعدان سمیٹ کر لے گئے۔ بنوکدنضر بھی یہوداہ کی ساری آبادی غلام بنا کر اپنے ساتھ بابل لے گیا جہاں کم و بیش اسّی برس یہودیوں نے اسیری میں بسر کئے۔ ۔۔۔ شہنشاہ خشرشیا نے ایک یہودی لڑکی استرنامی کو جو حسن و جمال میں یگانہ روزگار تھی اپنی ملکہ بنا لیا اور اُس کے ہم قوموں سے لُطف مے کرم کا برتاؤ کرنے لگا۔ انبیاء بابل کے جلاوطنوں کو ہمت دلاتے رہے اور نجات کی بشارت دیتے رہے۔ کوروش کبیر نے یہودیوں کو اپنے وطن واپس جانے کی اجازت دے دی اور مَقدِس سے لُوٹے ہوئے سونے چاندی کے ظروف بھی لوٹادئیے۔ بنی اسرائیل نے وطن واپس آکر ازسرِ نو مقدس تعمیر کیا اور توریت کے مُنتشر اوراق جمع کئے۔ اِس دوران میں یہودیت نے جو شکل و صورت اخیتار کی وہ آج تک باقی و برقرار ہے۔ دو صدیوں تک ایرانی بنی اسرائیل پر عدل و انصاف سے حکومت کرتے رہے۔ سکندر اعظم نے حملے کے بعد یہوداہ یونانیوں کی مُملکتِ شام کا ایک صوبہ بن گئی۔ طویل جدوجہد کے بعد مکابی بھائیوں نے شامی فوج کو شکست دے کر آزادی حاصل کی (165 ق م) کچھ عرصے کے بعد یہودی دو فرقوں میں بٹ گئے۔ فریسی اور صدوقی، جن میں جھگڑا شروع ہوگیا۔ اِس سے فائدہ اُٹھا کر رومہ کے سالار پومپے نے ملک پر قبضہ کرلیا اور ایک یہودی انٹی پیٹر کو گورنر مقرر کردیا۔ انٹی پیٹر، اُس کا بیٹا اور پوتا 39ء ب م تک حکومت کرتے رہے۔ اِس کے بعد یہودیوں نے رومیوں کے خلاف بغاوت کردی۔ رُومی جرنیل ٹائی ٹس نے فوج کشی کرکے یروشلم کو فتح کیا اور ہیکل کو نذرِ آتش کردیا۔ ہزاروں یہودی قتل ہوے اور بقیۃالسیف کو غلاف بنا کر بیچ ڈالا گیا۔ ابتلا کے اس زمانے میں یہودی بھاگ کر دور دراز کے ممالک میں ہجرت کرگئے اور شمالی افریقہ، بحیرہ روم کے ساحلی شہروں، سکندریہ، رومہ، مغربی یورپ اور ایشیا کے شہروں میں بود و باش اختیار کرکے تجارت اور صرافہ سے کسبِ معاش کرنے لگے۔ بیسویں صدی کے آغاز مین صیہونی تحریک نے زور پکڑا اور 1948ء میں برطانیہ کی مدد سے اسرائیل کی ریاست دوبارہ معرضِ وجود میں آگئی۔ 87-89
بعض انبیاء:
۔۔ انبیاء میں بعض گوشہ نشیں عابد تھے جیسے الیجاہ، بعض مُجرّد تھے اور کُچھ شادی شدہ عیال دار تھے۔ اِن میں کئی بنی عوامی اخلاق کے محافظ تھے اور محتسب کا فرض انجام دیتے تھے؛ کچھ خطیب تھے جو اپنی آتش بیانی سے عوام میں آگ لگا دیتے تھے۔ ناتن اور یاہو نے سیاسیات میں عملی حصہ لیا تھا۔ یہ انبیاء پیش گوئی کرنے کے بجائے حالاتِ حاضرہ پر تبصرہ کیا کرتے تھے۔ وہ اُمراء کے جبر و تشدد کے خلاف احتجاج کرتے اور مساکین کی حمایت میں سرگرمی دکھاتے تھے۔ بیض انبیاء مردِ میدان تھے اور سپہ سالاری کے فرائض انجام دیتے تھے۔ 100
۔۔ جناب ابراہام نناوے برس کے تھے جب اُن کا ختنہ ہوا۔ 104
تورات کی کہانی:
۔۔ علمائے مغرب کے خیال میں تورات 1500 ق م میں لکھی گئی تھی۔ عہدنامہ قدیم کے پہلے پانچ صحیفوں کو یہودی تورات یا قانون کہتے ہیں۔ یہ پانچ صحیفے ہیں: پیدائش، خروج، احبار، گنتی اور استشناء۔ موجودہ عہد نامے میں انتالیس کتابیں ہیں۔ اِن کے علاوہ جو صحیفے ہیں انہیں اصلاح یافتہ کلیسیا نے جعلی قرار دیا ہے۔ زبور جناب داؤد سے منسوب ہے لیکن فی الاصل یہ ایامِ اسیری میں لکھی گئی تھی۔ یہی کیفیت کتابِ ایّوب کی ہے جس میں گہری قنوطیت پائی جاتی ہے۔ ظاہراً یہ بھی قید بابل کی یادگار ہے جب بنی اسرائیل کو اپنی بدبختی اور زبوں حالی کا تلخ احساس تھا۔ ۔۔ تورات کا ایک نسخہ ہیکل میں رہتا تھا جہاں پر ساتویں برس اسے پڑھ کر لوگوں کو سُنایا جاتا تھا۔ ہیکل کئی بار لُٹا اور برباد ہوا اور اس کے ساتھ تورات کے اوراق بھی پریشاں اور منتشر ہوتے رہے۔ قید بابل سے رہائی کے بعد یہودی احبار نے بڑی کاوش سے ادھر اُدھر سے اوراق جمع کر کے ازسرِ نو تورات مرتب کی۔ اس بنا پر بعض علماء کہتے ہیں کہ تورات میں بہت کُچھ تحریف ہوئی ہے اور اس کے بعض حصے الحاقی ہیں۔ مسلمانوں میں امام بخاری اور سر سید احمد تحریف کے قائل نہیں ہیں۔ دوسری مشہور کتاب تالمد ہے جسے روایات اور احادیث کا مجموعہ سمجھا جا سکتا ہے۔ 106-107
۔۔ قدیم چینیوں کی طرح یہودی اعادہ شباب کے لئے کمسن لڑکیوں سے نکاح کیا کرتے تھے۔۔۔ اس کو 'نسخہ داؤد' یا 'شونمیت کا مَت' کہتے ہیں۔
۔ متعہ کا رواج تھا اور حقِ خلوت دے کر مباشرت کرنا جائز تھا۔
۔ بنی اسرائیل نے عصمت فروشی، لواطت اور فحاشی کو خلافِ قانون قرار دیا۔ 118-120
_____________________________-
No comments:
Post a Comment