FIKRism

Friday, July 16, 2010

Ravayat-e-Falsafa - Excerps

RAVAYAT-E-FALSAFA روایاتِ فلسفہ
Ali Abbas Jalalpuri علی عباس جلالپوری
1969


اقتباسات:

افلاطون و ارسطو:
۔۔ افلاطون اور ارسطو بلاشبہ عظیم فلاسفہ تھے لیکن اُن کے نظریات کی مقبولیت سے سائنس کی ترقی رک گئی۔ ارسطو نے مقصد اور غایت کو سائنس کا اساسی اصول قرار دے کر علمی تحقیق کو ضرر پہچایا۔ 9


یونانی فلسفی:
۔۔ برٹرنڈرسل نے اُس دور کے یونانیوں کے متعلق کہا ہے کہ ان کا ذہن و فکر قیاسی تھا اسقرائی نہیں تھا۔ 10


عیسائیت بزورِ شمشیر:
۔۔ شہنشاہ قسطنطین نے عیسائی مذہب کی اشاعت بزورِ شمشیر کی اور وقت کے گزرنے کے ساتھ مغربی اقوام پر ہر کہیں کلیسائے روم کا تسلط قائم ہوگیا۔ ۔۔۔ عیسائیت کی ہمہ گیر اشاعت سے مغرب پر عہدِ جاہلیت کی تاریکیاں چھا گئیں۔ کم و بیش آٹھ صدیوں تک ان تاریکیوں کے کہرے ہر کہیں محیط رہے۔ 13


باب۔ ۲

Heliocentric:
۔۔ فیثاغورس کے پیروؤں نے اور خاص طور سے ارسطارکس نے یہ خیال پیش کیا تھا کہ آفتاب مرکز ہے اور زمین دوسرے سیاروں کی طرح ان کے گرد گھومتی ہے۔ 15


۔۔ کوپرنیکس، گلیلیو، کپلر اور نیوٹن جدید سائنس کے بانی ہیں۔ ان کے انکشافات نے کائنات سے متعلق انسانی نقطہ نظر کو یکسر بدل دیا۔ جادو اور توہم کا طلسم ٹوٹ گیا۔ 16


فکر
۔۔ "فکر محض ترقی یافتہ حسّیات کا ایک سلسلہ ہے۔" طامس ہابس۔ 17


۔۔ ہر شخص اپنا زمان و مکان اپنے ساتھ لیے پھرتا ہے۔ 22


۔۔ فیثاغورس کے پیرو روح کو جسم کے زندان سے رہائی دلانے کے لیے فلسفے کا مطالعہ کیا کرتے تھے۔ 26


۔۔ فکر حِس سے افضل ہے اور معقولات محسوسات کی بہ نسبت زیادہ حقیقی ہیں۔ ۔۔
۔۔ فکر حواس سے برتر ہے اور وجدان مشاہدے سے افضل ہے۔
(فیثاغورس) ۔ 27-28


عقل بمقابلہ حواس:
۔۔ ہمارے حواس فریب نظر کا باعث ہوتے ہیں۔ صداقت صرف عقل میں ہے منطقی استدلال میں ہے۔ یہی نظریہ بعد میں مثالیت کا خیال غالب بن گیا کہ "صداقت عقلی استدلال میں ہے حواس میں نہیں ہے۔" مادیت پسندی کا اصل اصول یہ ہے کہ حواس کا عالم ہی حقیقی عالم ہے۔ مثالیت کی رو سے حواس کا عالم صرف ظواہر کا عالم ہے۔ 28-29


سقراط:
۔۔ سقراط بت پرستی کا مخالف تھا ۔۔
وہ ایک خدا کو مانتا تھا ۔۔
سقراط کا دعویٰ تھا کہ ایک خفیہ باطنی آواز اُسے بُرے کاموں سے منع کرتی ہے اور ہدایت دیتی ہے۔ 32


۔۔ رواقئین انہی کلبیوں کے جانشین تھے۔ 34


افلاطون کا فلسفہ:
۔۔ افلاطون کے فلسفے کو سمجھنے کے لیے اس کے نظریہ امثال کو ذہن نشین کرلینا ضروری ہے۔ یہ امثال یا عیون وہی ہیں جنہیں سقراط نے تجریدات فکری یا کسی شے کی تعریف کا نام دیا تھا۔ یہ نظریہ حقیقت اور ظاہر یا حس اور عقل کے امتیاز سے پیدا ہوتا تھا۔ جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں سب سے پہلے پارمی نائڈیس نے کہا تھا کہ صداقت عقلِ استدلالی میں ہے اور عالمِ حواس محض فریب نظر ہے۔ ہیریقلیتس اور دیماقریطس بھی عقلیت پسند تھے سوفسطائی آئے تو انہوں نے اس فرق کو مٹا کر رکھ دیا اور کہا کہ علم صرف حواس ہی سے حاصل ہوسکتا ہے۔ سقراط اور افلاطون نے کہا کہ علم تجریداتِ فکری سے حاصل ہوتا ہے یا دوسرے الفاظ میں عقلِ استدلالی ہی سے میسر آسکتا ہے۔ افلاطون نے کہا کہ یہ تجریداتِ فکری صرف تفّکر کا ایک قانون نہیں ہیں بلکہ مستقل بالذات مابعدالطبیعاتی حقائق بھی ہیں۔ اس نے ان حقائق کو امثال کا نام دیا اور کہا کہ کائنات کی حقیقتِ مطلقہ انہی امثال پر مشتمل ہے۔ یاد رہے کہ یہ دعویٰ کہ حقیقت مطلقہ عقلیاتی ہے تمام مثالیت پسندی کے مرکزی اصولوں میں سے ہے۔ افلاطون کہتا ہے کہ فلاسفہ صرف حقیقی امثال میں دلچسپی لیتے ہیں فرد یا شے سے اعتنا نہیں کرتے افلاطون نے ان امثال کا ایک ایسا عالم بسایا ہے جو مادی دنیا سے ماوراء ہے اور بےشمار امثال پر مشتمل ہے۔ عالمِ مادی میں جتنی اشیاء بھی دکھائی دیتی ہیں وہ انہی امثال کے سائے یا عکس ہیں۔ دوسرے الفاظ میں عالمِ امثال حقیقی ہے اور عالمِ ظواہر غیر حقیقی ہے۔


۔۔ ہندی آریائوں کی طرح سپارٹا میں بھی نیوگ کا رواج تھا۔ عورتوں کو اجازت تھی کہ وہ اپنے خاوند سے زیادہ طاقت ور مردوں سے اولاد پیدا کریں۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں مادرزاد برہنہ کھیلوں اور ناچوں میں حصہ لیتے تھے۔ ہم جنسی محبت کا رواج تھا۔ بعد میں اسے "افلاطونی محبت" کا نام دیا گیا نوخیز لڑکوں کی تربیت کا کام ان کے عشاق کے سپرد تھا جنہیں معّلم کہا جاتا تھا۔ 42


افلاطون ۔ روح:
۔۔ افلاطون کے خیال میں روح انسانی کے دو حصے ہیں ارفع حصہ عقلِ استدلالی ہے جو امثال کا ادراک کرتی ہے اور ناقابلِ تحلیل و غیر متّغیر ہے اور غیر فانی ہے۔ روح کا غیر عقلیاتی حصہ فانی ہے اور دو حصوں میں منقسم ہے اعلٰی اور اسفل، اعلٰی حصے میں شجاعت، جود و سخا اور دوسرے محاسنِ اخلاق ہیں۔ اسفل حصہ شہوات کا مرکز ہے۔ انسان کو حیوان سے نفس ناطقہ یا عقلِ استدلالی ہی ممتاز کرتی ہے۔ 44-45


سیدبالطبع و عبدبالطبع:
۔۔ (ارسطو) کے خیال میں آدمی دو قسم کے ہوتے ہیں سید بالطبع اور عبدبالطبع۔ سید بالطبع پیدائشی سردار ہوتے ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں زمام حکومت دینا ضروری ہے کیوں کہ سیدبالطبع حوصلہ مندی ۔ بلند نظری ۔ شہامت ۔ استقامت سے بہرہ یاب ہوتے ہیں۔ اس بات کا فیصلہ کہ کون سا طالبِ علم سیدبالطبع ہے اور کون سا عبدبالطبع مکتب میں ہوتا ہے۔ 53


۔۔ خارجی اشیاء کا علم ضروری ہے کہ ذہن کے وسیلے سے ہو نہ کہ حسیات کے واسطے سے۔ (ڈیکارٹ)۔ 58


فشٹے کی بیوی:
۔۔ میڈم دی سٹیل نے فشٹے کی موضوعی مثالیت کا ذکر کرتے ہوئے ایک دفعہ مزاحاً کہا تھا "اس بات کا تو فشٹے کو بھی شبہ ہوا ہوگا کہ اس کی بیوی محض اس کے ذہن کی پیداوار نہیں۔" 68


اقبال کا فشٹے:
۔۔ ہمارے ہاں اقبال نے فشٹے کے نظریہ خودی کو اسلامی قالب میں ڈھال کر پیش کیا ہے۔ مثنوی اسرار رموز میں خودی پر جو بحث موجود ہے وہ فشٹے سے ماخوذ ہے۔ 68


۔۔ اس طرح علم ہئیت کی ترقی کے ساتھ مثالیاتی مابعدالطبیعاتی فرسودہ ہوچکی ہے لیکن اخلاقی مثالیت بلاشبہ باقی و برقرار ہے۔
سائنس خواہ کتنی ہی ترقی کرجائے قدریں اور نصب العین اس کے دائرہ تحقیق سے خارج ہی رہیں گے ۔۔۔ (جلالپوری)۔ 77


باب۔ ۳

۔۔ جہاں اہلِ یونان نے ان ممالک (کلدانیہ، بابل، مصر، ایران و ہند) سے علم ہئیت کے اصول اور مساحت و ہندسے کے مبادیات سیکھے تھے وہاں سحر و سیمیائے بابل ۔ نیر نجات کلدانیہ اور عرفان ہند و ایران کی تحصیل بھی کی تھی۔ 78


سکندر اور علمِ کلام:
۔۔ سکندر اعظم فلسفے کا شیدائی تھا اور ارسطو کا شاگرد تھا لیکن وہم پرستی کی یہ حالت تھی کہ کلدانی فال گیروں اور کاہنوں کی ایک جماعت اپنے ساتھ رکھتا تھا اور ہر مہم کے آغاز مین ان سے استصواب کرتا تھا۔ یونان کی عقلیت اور مشرق کے تصوّف و عرفان کے امتزاج کا نتیجہ یہ ہوا کہ جہاں اہلِ مغرب کو متصوفانہ افکار نے متاثر کیا وہاں اہلِ مشرق نے بھی اپنے مذہبی عقاید کی تاویل کر کے انہیں فلسفیانہ بظریات پر ڈھالنے کی کوشش شروع کی جس سے علمِ کلام کی داغ بیل ڈالی گئی۔ 78


علمِ کلام کا ابوالآباء:
۔۔ فلو یہودی ۳۰ ق۔م سے لے کر ۵۰ ق۔ م تک سکندریہ میں مقیم رہا۔
۔۔ اس نے فلسفہ و مذہب یا عقل و نقل کی تطبیق کی کوشش کی۔ اس کی پیروی میں بعد میں عیسائی اور مسلمان متکلمین نے بھی اپنے اپنے مذہبی اصولوں کی تاویلیں کر کے ان کی توثیق فلسفہ یونان کے مہمات مسائل سے کی تھی۔ اس طرح فلو یہودی کو علم کلام کا ابوالآباء سمجھا جا سکتا ہے۔


۔۔ مرورِ زمانہ سے جب فلسفہ محض شرح و ترجمانی تک محدود ہوکر رہ گیا۔ ۔۔ 81

9 کا عدد:
۔۔ 9 کا عدد فیثاغورس کے مسلک میں مقدس و کامل سمجھا جاتا تھا اس لیے بطور تبرک و تفاول یہ ترتیب علم میں آئی۔ (فرفوریوس نے فلاطینوس کے ۵۴ رسائل کو چھ چھ کی "اینڈز'۔ لغوی معنی: نو۔۔ میں تقسیم کیا۔) ۔۔ 83


نظریہ تجلی: Emanation
۔۔ فلاطینوس کے فلسفے کا سنگ بنیاد تجلی کا تصور ہے۔ اس کا عقیدہ تھ اکہ ذات احد سے بتدریج عقل ۔ روح ۔ روح انسانی اور مادہ کا نزول ہوتا ہے۔
۔۔ نظریہ تجلی کی وضاحت کرتے ہوئے فلاطینوس نے آفتاب کی تمثیل سے کام لیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ذاتِ احد سے عقل اور روح کا بہاؤ ایسے ہوتا ہے جعسے آفتاب سے نور چھلک پڑتا ہے لیکن جس طرح نور کے انعکاس سے سرچشمہ آفتاب متاثر نہیں ہوتا ایسے ہی عقل کے بہاؤ سے ذاتِ احد اثر پذیر نہیں ہوتی۔ 85


افلاطون کی توحید:
۔۔ افلاطون ذات احد کو اس کائنات سے اس قدربے تعلق اور ماوراء سمجھتا تھا کہ اس کے لیے 'ایک' کا لفظ استعمال کرنا بھی نامناسب خیال کرتا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ 'ایک' کا تصور 'اکثریت' کے تصور کے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔ یعنی صرف 'ایک' کہہ دینے سے کثرت لازم آجاتی ہے۔ 87


۔۔ فیثاغورس اور ایمپی دکلیس نے تو اس بات کا دعویٰ کیا تھا کہ انہیں اپنے گذشتہ جنموں کے حالات بخوبی یاد ہیں۔ 88


تعّمق و تفکّر عمل کے ساتھ:
۔۔ برٹرنڈرسل کا یہ خیال صحیح ہے کہ تعّمق و تفکر سے عمل کو تحریک و تقّویت ہونی چاہیے لیکن اس خیال کا اظہار یوں بھی کیا جا سکتا ہے کہ عمل تعمق و تفکر سے عاری ہو تو وہ انسان کو اپنے منصب سے گرا کر وحوش کی سطح پر لے آتا ہے۔ اس دور کی مغربی تہذیب کا المیّہ یہی ہے کہ مغرب میں صرف عمل ہی عمل رہ گیا ہے۔ اہلِ مغرب ایک نہ ختم ہونے والی دوڑ دھوپ میں منہمک ہیں اور ادھر اُدھر دیکھے بغیر دیوانہ وار آگے آگے بھاگے جا رہے ہیں۔ 92


باب ۴:

کونت کا 'ذہنی ارتقاء':
۔۔ کونت کا تاریخی نظریہ یہ ہے کہ ذہن انسانی تین ارتقائی مراحل سے گزرا ہے۔ پہلا مرحلہ مذہب کا تھا جس میں واقعات کی توجیہہ کسی یزدانی قوت کے حوالے سے کی جاتی تھی۔ دوسرا مرحلہ مابعدالطبیعات کا تھا جس میں واقعات کی توجیہ مختلف قوتوں کی نسبت سے کی گئی۔ تیسرا اور آخری مرحلہ سائنس یا ایجابیت کا ہے کہ اب واقعات کی تشریح و توجیہہ سلسلۃ سبب و مسبب سے کی جاری ہے۔ یہی انسانی عقل و خرد کی معراج ہے۔ 98


تعلیم و تربیت ۔۔ خیالات ۔۔ کردار:
۔۔ تعلیم و تربیت سے انسان کے خیالات کو بدلا جا سکتا ہے اور خیالات کے بدلے جانے سے کردار بھی بدل جاتے ہے۔ (اسٹوارٹ)۔ 99

۔۔ "جو کام نہیں کرے گا نہیں کھائے گا۔" 100
(Stuart Mill)



۔۔ چونکہ عقاید و نظریات کی افادیت ایک عہد سے دوسرے عہد تک بدلتی رہتی ہے اس لیے معروضی یا ازلی صداقتیں کا کوئی وجود نہیں ہے۔ (ولیم جیمز)۔ 101


۔۔ منطقی ایجابیت پسند تسلیم کرتے ہیں کہ عقلِ انسانی بعض اہم مسائل اور عقدوں کا کوئی شافی و کافی حل نہیں کر سکی۔۔ 105


باب: ۵


فلسفیوں کا خدا:
۔۔ چناچہ فشٹے نے مطلق خودی، ہیگل نے عین مطلق، اور شوپنہائر نے آفاقی ارادے کو حقیقت قرار دیا۔ 108


ارادہ:
۔۔ "ارادہ آقا ہے عقل اس کی لونڈی ہے۔" (شوپنہائر) ۔۔ 106

["میں نے ارادوں کے ٹوٹنے، نیّتوں کے بدلنے، اور ہمّتوں کے پست ہوجانے سے خدا کو پہچانا"، امام علی علیہ السلام]


۔۔ زردشت کے خیال میں ہر ہزار برس کے بعد ایک نیا ہادی پیدا ہوتا ہے۔ 115


۔۔ اہلِ علم ارتقاء کے اصولوں کا اطلاق کائنات کی تاریخ پرکرنے لگے۔ 122


۔۔ حقیقت نفس الامر کا وجود ہے اگرچہ اُسے جانا نہیں جا سکتا۔ یہی خیال کانٹ کا بھی تھا۔
کانٹ ہی کی طرح وہ (ہربرٹ سپنسر) اِس بات کا قائل ہے کہ علم محض تجربے سے حاصل نہیں ہوتا بلکہ بعض صداقتیں اٹل بھی ہیں۔ 123


۔۔ جبلت کی بہترین صورت کو اس (برگساں) نے وجدان کا نام دیا ہے۔ 126


۔۔ خرد دشمن عقل کو ناقص ثابت کرنے کے لیے عقل ہی سے استدلال بھی کرتے ہیں۔ (سی۔ ای۔ ایم۔ جوڈ) 127


۔۔ ہمارا علم اضافی صداقتوں کے راستے ہی سے صداقت مطلق تک پہنچتا ہے۔ (لینن) 147


۔۔ "عقل و خرد کا احاطہ کار محدود ہے اور سائنس انسانی فطرت سے متعلق ہمیں کچھ نہیں بتا سکتی۔" ۔ 176
(Martin Heidegger).


۔۔ جس شخص کو اس حقیقت کا شعور ہوجائے کہ اُسے زندگی بطور فرصت مستعار کے ملی ہے وہ سوچنے لگتا ہے کہ اس فرصت کو کیسے گزارے۔ 189


آزادی:
۔۔ ہائنے مان نے سچ کہا ہے کہ حقیقی آزادی خاص اخلاقی حدود میں رہ کر دوسرے لوگوں کے علایق کی روشنی میں اپنے کیس فعل کی ذمے داری قبول کرنے کا نام ہے۔ 193


۔۔ سارتر کا اجنبیت (بیگانگی) کا تصور فردیت ہی کا پروردہ ہے۔ ( نہ کہ میکانکی معاشرہ کا)۔ 194
______________

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...