اقبال کا علمِ کلام
علی عباس جلالپوری
جنوری ۱۹۷۱
اقتباسات
اقبال ایک متکلم
-- اقبال ایک عظیم شاعر ہیں ۔۔۔ جہاں تکک اُن کے فکر و نظر کا تعلق ہے وہ ایک متکلم ہیں کیونکہ اُنھوں نے بھی مشاہیر متکلمین اشعری، غزالی، رازی وغیرہ کی طرح مذہب کی تطبیق معاصرِعلمی انکشافات سے کرنے کی کوشش کی ہے۔ 11
طبیعیات کے بعد
- ارسطو کی موت کے بعد جب اس کے رسائل ترتیب دیئے گئے تو ایک رسالہ ایسا بھی ملا جس کا کوئی عنوان نہ تھا اور جس میں کائنات کے عللِ اولیہ سے بحث کی گئی تھی چناچہ اسے طبیعیات کے رسالے کے بعد رکھا گیا اور اس طرحھ اس کانام مابعدالطبیعیات پڑگیا۔ 14
-- جب عقلی استدلال اور فلسفیانہ تدبر کو چند مخصوص مذہبی عقاید کی تصدیق و توثیق کے لئے وقف کردیا جائے تو وہ فلسفہ نہیں رہتا بلکہ علم کلام کہلاتا ہے۔ 15
فکرِاقبال
-- اپنے خطبات میں اقبال نے جدید علمی رجحانات و انکشافات کی روشنی میں الٰہیات اسلامیہ کو از سرِنو مرتب کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس لحاط سے وہ غزالی اور رازی کی طرح ایک متکلم کا فرض انجام دے رہے ہیں۔ غزالی اور رازی نے قدیم فلسفہ نوفلاطونیت اور اسلامی عقاید میں مفاہمت کرنے کی کوشش کی تھی۔ اقبال نے جدید سائنس اور مذہبی مسلمات کی تطبیق کی سعی کی ہے۔ اس کے ساتھ وہ کہتے ہیں کہ "فلسفیانہ تفکر میں قطعیت کا کوئی وجود نہیں ہے"۔
اس سے انکا مقصد ایک خدشے کی پیش قیاسی کرنا ہے اور وہ یہ ہے کہ ممکن ہے کبھی مستقبل میں طبیعیات کی دنیا میں کوئی ایسا انکشاف کیا جائے جو ان نظریات کو باطل قرار دے جن پر انھوں نے تشکیل جدید الہیات اسلامیہ میں تاویلات و توجیہات کی عمارت اٹہائی ہے تو اس سے یہ لازم نہیں آئےگا کہ تطبیق کا جو کام اُنھوں نے انجام دیا ہے لوگ اسے ہی حرف آخر سمجھتے رہیں۔
آخری فقرے میں فرماتے ہیں "ہمارا فرض یہ ہے کہ علومِ انسانی کی ترقی پر نظر رکھیں اور ان کے متعلق آزادانہ اور ناقدانہ رویہ اختیار کریں۔" اس آزادانہ اور ناقدانہ رویہ کا مطلب یہ ہے کہ جب کبھی نئے نئے علمی انکشافات ہوں تو ان سے ایسے نظریات اخذ نہ کئے جائیں جو مذہبی مسلمات کے منافی ہوں۔ آزادی سے ان کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ علومِ جدیدہ کےنتائج و افکار سے کوئی ایسا نظریہ بھی مرتب کیا جاسکتا ہے جو مذہبی عقاید کی نفی و ابطال کا باعث ہوسکے۔ 16
افکارِمسلماں
-- سید سلیمان ندوی نے حیاتِ شبلی میں لکھا ہے کہ متکلمین اسلام کا فرض اولین یہ ہے کہ افکار جدیدہ کو مسلمان کریں۔ فرماتے ہیں:
"امام غزالی کا اصلی کارنامہ یہ ہے کہ اُنہوں نے یونانی تراجم کو براہ راست درس میں داخل نہیں کیا بلکہ ان علوم کو پڑھ کر انھون نے خود یا دوسرے مسلمانوںنے ان علوم پر اپنی اسلامی طرز کی جو کتابیں لکھیں ان کو علماء کے درس میں رکھا۔ اس کا تنیجہ یہ ہوا کہ پہلے ان علوم کو مسلمان بنایا پھر اُن کو مسلمانوں میں رواج دیا۔۔۔" 17٫
علم کلام کا آغاز و ارتقاء
علم کلام کا آغاز
-- سکندرِاعظم کے سپاھی مشرق کی مہموں سے واپس لوٹے تو وہ مشرق کے سیم و زر کے خزانوں کے ساتھ تصوف و عرفان کے اصول و تعلیمات بھی اپنی ساتھ لائے تھے اس طرح ہلینی دور میں یونان کے فلسفے اور مشرق کے عرفان میں امتزاج کا آغاز ہوا۔ 23
اسکندریہ
-- اسی شہر (اسکندریہ) میں یونانی عقلیت اور مشرقی عرفان کا امتزاج عمل میں آیا۔ اس شہر میں فیثاغورس کے افکار پر ایک عالمگیر مذہب کی بنیاد رکھنے کی کوشش کی گئی اور فلاطون کے فلسفے کو مذہبی رنگ دے کر اور اس کے مذہبی پہلو پر مشرقی تصوف کا پیوند لگا کر نوافلاطونیت کی بنیاد رکھی گئی۔
سکندریہ میں ہی فلو یہودی نے سب سے پہلے مذہب و فلسفہ کی تطبیق کا آغاز کیا اور یہیں فلاطینوس نے افلاطون کے افکار کی از سر نو ترجمانی کر کے اشراقیتِ جدید تاسیس کی۔ 23
۔ علم کلامScholasticism -
مذہب و فلسفہ کی تطبیق کو ازمنہ وسطیٰ کے عیسائی مدرسیت سکالیسٹیسزم اور مسلمان علمِ کلام کہنے لگے۔ تطبیق کرنے والے کو عیسائی سکولمین اورمسلمان "متکلم" کہنے لگے۔ حاشیہ ۲۳
فلویہودی
-- فِلو کو علم کلام یا عقل و نقل کی تطبیق کا بانی سمجھا جا سکتا ہے۔ بعد میں عیسائی اور مسلمان متکلمین نے اسی کی تقلید میں اپنے اپنے مذہبی مسلمات کی توثیق و تصدیق فلسفہ یونان سے کی۔ 24
پہلا صاحب حال صوفی
-- بایزید بسطامی پہلے صاحبِ حال صوفی کہے جاسکتے ہیں۔ فنا فی اللھ کا نظریہ بھی سب سے پہلے اُنھوں نے پیش کیا تھا۔ 29
کلام کی ابتداء
-- شبلی نعمانی اس ان کے تلامذہ معتزلہ کو علم کلام کا موجد سمجھتے ہیں۔ لیکن یہ تاریخ فلسفہ سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے۔ 'کلام' کی اصطلاح بے شک پہلی صدی ہجری میں بغداد اور بصرہ میں رواج پذیر ہوئی لیکن فلسفہ و مذہب کی تطبیق کا آغاز باقاعدہ طور پراس سے کم و بیش چھ سو سال پہلے سکندریہ میں ہوا تھا۔ 21
No comments:
Post a Comment