FIKRism

Monday, January 24, 2011

IKIK-Excerpts-04-Sir Syed

سرسید احمد خاں
۔۔ وہ سُنیوں اور شیعوں کی مذہبی کتابوں سے قطعاً مایوس ہوچکے تھے اور مُعتزلہ کے انداز استدلال کے مداح و معترف تھے۔ اُنھیں اس بات کا دلی افسوس تھا کہ مُعتزلہ کی کتب ناپید ہوچکی ہیں۔
انھوں نے دور عباسیہ کے معتزلہ کی طرح ایک جدید علم کلام کی ضرورت محسوس کی۔۔۔
چناچہ جدید علم کلام میں انھوں نے معتزلہ کی پیروی میں عقل کو وحی و الہام کی صداقت کا معیار ٹھرایا اور کہا کہ کوئی سچا مذہب عقل سے مافوق نہیں ہوسکتا۔ فرماتے ہیں:
۔"خواہ یہ تسلیم کرو کہ انسان مذہب یعنی خدا کے لئے پیدا ہوا ہے خواہ یہ کہو کہ مذہب انسان کے لئے بنایا گیا ہے، دونوں حالتوں میں ضرور ہے کہ انسان میں بہ نسبت دیگر حیوانات کے کوئی ایسی چیز ہوکہ وہ اُس بار کے اٹھانے کا مکلّف ہو اور انسان میں وہ شے کیا ہے؟ عقل ہے اس لئے ضرور ہے کہ مذہب اس کو دیا جائے وہ عقل انسانی کے مافوق نہ ہو۔ (مجھ کو افسوس ہے کہ تم ہرگز نہیں سمجھتے کہ عقل انسانی اور عقلِ شخصی میں کیا فرق ہے) اگر وہ عقل انسانی کے مافوق ہے تو انسان اس کا مکلّف نہیں ہوسکتا۔ بلکہ اس کی مثال ایسی ہوگی جیسے کہ بیل یا گدھے کو امرونہی کا مکلّف قرار دیا جائے"۔ 51

شیعہ غالب:۔
۔۔ سر سید احمد خاں معتزلی العقیدہ ہونے سے پہلے وہابیت سے متاثر ہوئے تھے۔ جب انھوں نے ہوش سنبھالا تو دِلّی میں حضرات اہل حدیث یا غیرمقلدین اور مقلدین کے درمیان مناظرے اور ہنگامے برپا تھے۔ تقلید کے وجوب و عدم نے شعراء اور اُدباء کو بھی متاثر کیا تھا۔ چناچہ مومن خاں پر وہابیت غالب تھی اور غالب شیعہ ہونے کے باوجود دنیائے شعر و لغت کے وہابی سمجھے جاتے تھے۔ 52


۔۔ انھوں (سرسید) نے مذہب اسلام کو نیچر کے قوانین کے مطابق ثابت کرنے کے لئے عقلی استدلال سے کام لینا شروع کیا۔ اُن کا معرکہ آرا استدلال یہ تھا کہ خدا کے فعل یا نیچر (ورک آف گاڈ) Work of God
اور خدا کے قول یعنی قرآن (ورڈ آف گاڈ) Word of God
میں تضاد یا تناقص نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا قرآن میں جو واقعات بیان ہوئے ہیں وہ طبعی قوانین کے عین مطابق ہیں۔ اس نطریے کو بنیاد و فکر قرار دے کر اُنھوں نے تفسیر احمدی لکھنا شروع کی۔ 53


سر سید کے رد عمل کی پیداوار شبلی و کلام
۔۔ شیخ محمد اکرام صاحب نے 'موجِ کوثر' میںبجا طور پر اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ مولانا شبلی نعمانی اور مولانا ابوالکلام آزاد سر سید کی تحریک کے ردّ عمل کی پیداوار ہیں۔
۔۔ قدیم علم کلام سے جدید علم کلام کے عناصر جمع کرنے کی بڑی وجہ یہ تھی کہ سر سید احمد خاں کے برعکس شبلی نعمانی عصر جدید کے سیاسی اور علمی تقاضوں کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھتے تھے۔ شبلی نعمانی اور سرسیداحمدخاں کے زاویہ نظر اختلاف ایک دلچسپ واقع سے بخوبی ثابت ہوجاتا ہے۔ ایک دن شبلی نعمانی نے تقریر کرتے ہوئے کہا "دوسرے قوموں کی ترقی یہ ہے کہ آگے بڑھتے جائیں آگے بڑھتے جائیں لیکن مسلمانوں کی ترقی یہ ہے کہ وہ پیچھے ہٹتے جائیں یہاں تک کہ صحابہ کی صف میںجاکر مل جائیں"۔ یہ بات سر سید احمد خاں کو ناگوار گزری اور اُنھوں نے پرزور الفاظ میں اس کی تردید کی۔ 56-57

۔۔ ہمارے زمانے میں اقبال نے جدید سائنس اور فلسفے کی روشنی میں اسلامی عقائد و شعائر کی نئے سرے سے ترجمانی کی ہے لیکن وہ سرسید کی طرح عقل کو معیارِ صداقت نہیں مانتے اور نہ ابن سینا اور فارابی کی طرح اُسے نفس ناطقہ کہہ کر باعثِ شرف انسانی خیال کرتے ہیں۔ ان کا شمار شبلی نعمانی اور مولانا ابوالکلام آزاد اور ان کے ہنواؤں کے زمرے میں کیا جا سکتا ہے جنھوںنے سر سید احمد خاں کے مقابلے میں جوابی احیائی تحریک کا آغاز کیا تھا۔ 60


No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...