Ch.5
اقبال اور تقابل عقل و وجدان
۔۔ ارسطو کی وفات کے بعد صدیوں تک سرزمینِ یونان سے کوئی صفِ اول کا فلسفی نہیں اُٹھا۔ رومۃالکبریٰ کے دورِ تسلط میںرواقئین اور ابیقیوریوں نے اپنی کوششیں زیادہ تراخلاق و کردار کی اصلاح تک محدود رکھیں۔ سکندریہ کے بینالاقوامی شہرمیں فلاطینوس نے نواشراقیت کی بنیاد رکھی۔ اُس کا نظریہ بے شک باطنی اور عرفانی ہے لیکن اس نے ہمیشہ عقل و خرد کا احترام ملحوظ رکھا۔۔۔ اسلام میں اخوان الصّفا، فارابی، ابن سینا وغیرہ کے افکار پر نواشراقیت کا رنگ غالب ہے، فلاسفہ اسلام نے عقل کو نفسِ ناطقہ کا نام دیا۔
.(حاشیہ: ارسطو کی Rational Soul کا ترجمہ)
۔۔ "نفس ناطقہ تمام قوائے بدن کا رئیس ہے"۔ اندلس کے مشہور فلسفی ابن الطفیل کے افسانے "حی ابن یقطان" کا مرکزی خیال بھی یہی ہے کہ ناطقہ کی ورزش اور تکمیل تمام انسانی کوششوں کا مقصود و منتہیٰ ہے۔ اور اسی کے طفیل انسان کو اشرف المخلوقات کا منصب و مرتبہ بخشا گیا ہے۔ 113-114
۔۔ معتزلہ علانیہ عقل کو مذہب کا معیار کہتے تھے۔ 115
۔۔ دنیائے اسلام میں خرددشمنی کی تحریک کا آغاز غزالی سے ہوا۔ 115
روسو
۔۔ مغرب کے تمدّنِ جدید کے تنزل کا پہلا نقیب روسو ہے جو رومانیت کے ساتھ صحرائیت اور بدویّت کا داعی بھی تھا۔ ۔۔ وہ کہتا ہے علوم و فنون کی ترقی نے انسان کو فطرت سے دور کردیا ہے۔ اس کے خیال میں انسان کے تمام سیاسی، معاشی، عمرانی اور تعلیمی عقدوں کا واحد حل یہ ہے کہ دوبارہ بدوی اور صحرائی بودوماند اختیار کرلے اور فطرت سے ازسرِنو اپنا قلبی رابطہ قائم کرنے کی کوشش کرے۔ اس نے کہا "مجھے یہ کہنے میں چنداں باک محسوس نہیں ہوتا کہ تفکروتدبر خلافِ فطرت ہے اور مفکر ایک ذلیل حیوان ہے۔ 116
ارادیت پسند
۔۔ روسو کی رومانیت اور خرددشمنی نے اُنیسویں صدی کے جرمن مثالیت پسندوں کو متاثر کیا۔ کانٹ عقل اور وجدان دونوں کو اہم سمجھتا تھا اس کے متبعین میں شوپنہائر نے دعویٰ کیا کہ ایک قسم کا اندھا آفاقی ارادہ ہی حقیقتِ اولیٰ ہے۔ چناچہ شوپنہائر سے ارادیّت کا آغاز ہوتا ہے۔ ۔ شوپنہائر نے کہا کہ انسان میں عقل فائق نہیں ہے بلکہ آلے کی مانند ہے۔ برگساں، فرائڈ، برنارڈشا، میک ڈوگل، جیمزوارڈ، ولیم جیمز وغیرہ بھی ارادے اور جبلت کو عقل و فکر پر فوقیت دیتے ہیں۔ لیکن ان میں سوائے برگساں کے کسی نے وجدان کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھا۔ 116
اقبال ارادیت کے اسی مکتب فکر سے متاثر ہوئے تھے۔۔۔ انھوں نے برگساں سے بطورِ خاص استفادہ کیا ہے۔ 117
۔۔ برگساں عقل و شعور کے مشاہدے کو مکانی قرار دیتا ہے اور وجدانی مشاہدے کو مرورِ محض سے مخصوص کردیتا ہے۔ 119
اقبال کا عشق
۔۔ اقبال کا عشق، برگساں کی جوششِ حیات
فرائڈ کا Eros
برنارڈشا کا Life-Force
پومیول نن کی Horme
برگساں کی Elan Vital
کے مفرضات ایک ہی مفہوم میںمستعمل ہیں۔ 121
۔۔ وجدانی کیفیت کا انحصار کسی سخص کے مخصوص رنگِ مزاج (مُوڈ) پر ہوتا ہے جو بذاتِ خود طبیعیت کی افتاد، موسم کی تبدیلی اور ماحول کے گوناگوں اثرات کے ساتھ وابستہ ہوتا ہے۔ اس لئے اس کے اخذ کئے ہوئے نتائج پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔
"بہار کے ایک روشن دن کو جب میرا احساس شگفتہ ہو، جب میں محبت کی خوشی سے ہمکنار ہوں اور حالات مساعد ہوں، ہوسکتا ہے کہ مجھے اس بات کا وجدان ہوجائے کہ دنیا میں نیکی ایک بنیادی عنصر کا درجہ رکھتی ہے۔ لیکن جاڑے میں جب مجھے یہ احساس جو کہ تقدیر نے ناحق مجھے جوروستم کا نشانہ بنارکھا ہے۔ میری آرزوئیں تشنہ تکمیل ہوں، میری محبوبہ مجھے دھتا بتا چکی ہو، اس وقت بالواسطہ مجھے یہ وجدان ہوگا کہ کائنات اخلاقی لحاظ سے مجھ سے قطعی طور پر بےپروا و بے تعلق ہے۔" ۔۔ آلڈوس ہکسلے۔ 122
۔[یہ وجدانی کیفیات نہیں ہیں بلکہ نفسیاتی کیفیات ہیں!، وجدان رنگِ مزاج کا پابند نہیں ہوتا۔۔ ابڑو]۔
۔۔ شیخ اکبر ابن عربی نے وحدتِ وجود کا نظریہ اپنے ذاتی کشف و حال کی بنا پر مُرتب کیا تھا۔ شیخ کی طرح دوسرے وجودی صوفیا مولانا روم، عطار، ابن الفارض وغیرہ ذاتی واردات و مکاشافات کے باعث وحدتِ وجود پر اعتقاد رکھتے تھے۔ فلاطینوس کا دعویٰ تھا کہ اسے بارہا ذاتِ محض کے ساتھ اتّصال و اتّحاد کا تجربہ ہوا ہے۔ برگساں کہتا ہے کہ مجھے اپنی زندگی میں کئی دفعہ مرورِ محض کا بلاوسطہ مشاہدہ نصیب ہوا ہے۔ دیدانتی بھی جیوآتما اور پرم آتما کے اتحاد کا دعویٰ ذاتی تجربے کے بنا پر کرتے ہیں۔ دوسری طرف ہمہ ازدست یا وحدتِ شہود کے شارح شیخ احمد سرہندی کا دعویٰ ہے کہ اُنھیں ذاتی کشف و شہود کے باعث اس بات کا انشراح ہوتا ہے کہ وحدتِ الوجود یا ہمہ اوست وہمِ باطل ہے اور ہمہ ازوست سچا نظریہ ہے۔ لُطف یہ ہے کہ شاہ ولی اللھ دہلوی اس بات کے مدعی ہیں کہ ان کا وجدان وحدتِ وجود اور وحدتِ شہود دونوں کی تصدیق کرتا ہے۔ 123
۔[ایسی کیفیات کا دعویٰ کرنے والے لوگ نفسیاتی مریض ہوتے ہیں، جیسے آج کل کے کئی آمیریکن کو ایسا لگتا ہے کہ انھیں الینز ۔ Alein اٹھا کے لے گئے تھے اور ان کا جسمانی چکاس کرکے واپس چھوڑ گئے!۔۔
یا شاید یہ ہوسکتا ہے کہ اُن لوگوں کا وجدان سے مراد عقل ہو!، یعنی وہ یہ کہنا چاہتے ہوں کہ میری عقل یہ کہتی ہے۔۔۔ پر چونکہ ان کے پاس اس بات کے عقلی دلائل نہیں ہوتے اس لئے وہ اسے وجدان کا نام دے دیتے۔ ویسے بھی یہ ایک فطری عمل ہے کہ کئی لوگوں کی عقل کچھ کہتی ہے پر آیا وہ ایسا کیوں کہتی ہے اس بات کا ہر کیس کے پاس دلیل و ثبوت نہیں ہوتے۔ ابڑو]۔
۔۔ اقبال خود ایک عظیم شاعر تھے لیکن اُنھوں نے اپنی شاعری کو متکلمانہ ترجمانی کا ایک وسیلہ بنا لیا۔ یہی حالت افلاطون کی تھی جس کے مکالمات ادبیات عالم میں شمار ہوتے ہیں لیکن جو شعراء کو اپنے مثالی معاشرے سے خارج البلد کردینا چاہتا ہے۔ 127
No comments:
Post a Comment