علی عباس جلالپوری
۱۹۷۱
مشمولات
پیش لفظ
اقبال ایک متکلم ہیں
علم کلام کا آغاز و ارتقاء
اقبال کا تصور ذات باری
اقبال اور نظریہ وحدت الوجود
اقبال اور تقابل عقل و وجدان
اقبال کے رومانی افکار
تاویلات اقبال
علم کلام کے اثرات و نتائج
دنیائے اسلام میں خرد افروزی کی ضرورت
تصریحات
اصطلاحات
کتابیات
یہ کتاب علم کلام، خرد دشمنی، اور تصوف کے حوالے سے لکھے گئی ہے،
دنیا جہاں کے متکلمین، صوفی، خرددشمن ۔۔۔ جن کے خرددشمن نظریات اور افکار نے انسانوں کی اجتہادی و اختراعی سوچ کو بڑھنے سے روک دیا بلکہ پیچھے کے قدم چلنے پر اُکسایا۔
کتاب کا نام:۔
کتاب کے نام اور تقریباً ہر باب میں اقبال کا ذکر خصوصاً پیش نظر رکھا گیا ہے جو کہ میرے نزدیک غلط ہے۔ ایک فکری انسان کو ذاتی طور پر کسی بھی بندے کی ذاتی عقاید و سوچ پرعناد نہیں رکھنا چاہیے۔ اور جیسا کہ جلالپوری صاحب نے خود بھی کتاب میں ہر جگہ ہر متکلم و فلسفی کا تذکرہ کیا ہے، جس کی سوچ چاہے اقبال سے ملتی ہو یا نہ ملتی ہو پر متکلم ہو یا خرد دشمن۔ بلکہ ان کا بھی تذکرہ خصوصا کیا ہے جو غیرمتکلم اور خرد دوست تھے، جیسے قدریہ، معتزلہ ۔۔۔ اس لیے اقبال کا نام خصوصاً لیے بغیرکتاب کا نام 'علم کلام اور اس کے مضر اثرات' ہونا چاہیے تھا۔
بجائے کسی فرد کا نام لیتے ہوئے، یقیناً دوسروں کی طرح اس کا نام بھی آتا اگر ان کی فکر بھی متکلمانہ ہوتی پر ٹائیٹل میں نام دینے ایسے تاثر ملتا جیسے جلالپوری صاحب کو اقبال سے ذاتی عناد ہواور انہیں متکلم ثابت کرنے کے لئے انہوں نے مسمم ارادہ کیا ہو۔
علم کلام کی تعریف:۔
علم کلام کی تعریف عرفہ عام میں تو یہ ہے کہ عقل و نقل کی تطبیق کرنا۔
کتاب میں ایک جگہ ایک عیسائی متکلم کا یہ قول درج ہے:۔
"میں پہلے عقیدہ رکھتا ہوں پھر غوروفکر کرتا ہوں۔ غوروفکر کے بعد عقیدہ اختیار نہیں کرتا۔" (پیج ۱۵)۔
لیکن یہ جملہ پورا مفہوم ادا نہیں کرتا جب تک اسکے پہلے ھاف کو اس انداز سے بیان نہ کیا جائے:۔
میں پہلے عقیدہ رکھتا ہوں پھر غوروفکر کرتا ہوں اور غوروفکر کے بعد بھی اپنے عقیدہ کی اصلاح نہیں کرتا بلکہ اپنی فکر سے ثابت ہونے والے صحیح نتائج کو جان بوجھ کر کھینچ تان کراپنے پہلے سے اندھی تقلید میں اختیار کیے گئے عقیدہ کے مساوی بنادیتا ہو۔
علم کلام چونکہ فلسفہ کے خلاف ایجاد ہوا تھا اس لیے جلالپور لکھتے ہیں:۔
۔"جو شخص آزاد غوروفکر کے بعد عقیدہ اختیار کرےگا وہ متکلم نہیں فلسفی کہلائےگا۔" ۱۵
کتاب پڑھنے کے بعد علم کلام کو جیسے میں نے پایا:۔
علم کلام ایک اسی چیز ہے جس میں انسان جان بوجھ کر سائنس اور علومِ جدیدہ کے جدید نظریات کو اپنے مذہبی عقاید کے مساوی بنانے کی کوشش کرے، اپنے اسلاف کی سیکڑو ہزاروں سال پہلے لکھی ہوئی کتابوں کو کھوج کھوج کر کوئی ایک لفظ یا جملہ پکڑ کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرے کہ 'یہ کوئی نئی بات نہیں ہمارے اسلاف نے ہزاروں سال پہلے اس بات کو کھوج لگائی تھی'۔
اور علم کلام میں تصوف، خرددشمنی، اشراقیت، نوفلاطونیت، رومانیت۔۔۔ ایسی چیزیں جس میں انسان آگے بڑھنے کے بجائے، ترقی و کوشش کرنے کے بجائے، اپنی فکر کو جنجھوڑ کر اجتہادی اور اختراعی سوچ پیدا کرنے کے بجائے کسی کونے میں بیٹھ کر بس مراقبت میں مشغول رہے، فلسفہ و سائنس کی ترقی کو بیکار بلکہ ملہک سمجھے اور انسان کو واپس پتھر کے زمانے کی طرف لےجانے کی دعوت دے۔ اور اگر کوئی سائنسی ایجاد یا نئی فکر اُس کے عقیدہ و نظریات کے خلاف ثابت ہو تو یا تو اسے رد کرے اور خطرناک کہ کراسے پڑھنے اور سمجھنے سے اپنےنوجوانوں کو منع کرے یا پھر اپنی اسلاف کی کتابوں کی چھان بین کر کے اس کی 'تاویلات' کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرے یہ کوئی نئی بات نہیں۔
شارٹ کٹ میں علم کلام ایسی چیز ہے جس میں متکلم جدید علوم کے نظریات کو اپنے مذہبی عقاید کے موافق کرے۔ (کم سے کم جلالپوری نے علم کلام کو اسی انداز سے پیش کیا)۔
ّّّّّّّّ
No comments:
Post a Comment