FIKRism

Sunday, January 23, 2011

IKIK-Excerpts-03-Tehreeken

تحریکیں

محمد بن عبد الوہاب اور ابن سعود (وہابی)۔
۔-- محمد بن عبد الوہاب ۱۷۰۳ء میں عینیہ میں پیدا ہوئے فقہ میں حنبلی المذہب تھے اور ابن تیمیہ اور ابن قیم کی تحریروں سے بہت متاثر ہوئے۔
محمد بن عبدالوہاب نے اپنےپشیروحنابلہ کی طرح ان کے انسداد کا بیڑا اٹھایا۔ اور دنیائے اسلام میں تحریک وہابیت کا آغاز ہوا۔ وہابی کا لقب مخالفوں کا دیا ہوا ہے۔ محمد بن عبدالوہاب کے پیرو اپنے آپ کو موحدّون کہتے تھے۔ علمائے وقت نے ان کی مخالفت بڑے جوش و خروش سے کی تو وہ ۱۷۴۴ء میں امیر محمد بن سعود کے پاس درعیہ چلے گئے۔ ابنِ سعود اور اس کے گھرانے نے محمد بن عبدالوہاب کی دعوت قبول کرلی اوربزورِشمشیر اپنے نئے مذہب کو رائج کرنے کی کوشش کی۔ چناچہ سعود بن عبدالعزیز نے ۱۸۰۲ء میں شہرکربلا پر اچانک حملہ کیا۔ دوہزار مردوں کو قتل کیا اور لوٹ مار کا بے شمار سامان حاصل کیا۔ پھرمکہ اور مدینہ پر تاخت کا آغاز ہوا۔ قُبے منہدم کرادئیے گئے۔ اور سعود زردجواہر سمیٹ کر واپس آگیا۔ اس کے بعد وہابی حاجیوں کے قافلے لوٹتے رہے۔ اس طرح جوشِ اصطلاح نے نجد کے ان بدووں کے لئے لوٹ مار اور قتل و غارت کا جواز پیدا کردیا۔ محمد علی پاشا اور ابراہیم پاشا نے وہابیوں کو پے در پے شکستیں دیں اور درعیہ کو فتح کرکے مسمار کردیا۔ لیکن ترکی کی سلطنت کے کمزور ہوتے ہی ابن سعود کا گھرانا پھر برسرِاقتدار آگیا۔ 44-45

اسلام و اقوام و ملل
تاریخی حقیقت یہ تھی کہ اسلام کی اشاعت ایشیا کی ایسی اقوام و ملل میں ہوئی تھی جن کی اپنی مستقل تمدنی روایات اور معاشرتی قدریں تھیں۔ مصر، ایران، مراکش، ہندوستان، انڈونیشیا وغیرہ کے مسلمانوں سے یہ توقع نہیں رکھی جاسکتی تھی کہ وہ ہرمعاملے میں جزیرہ نمائے عرب کے مسلمانوں کی تقلید کریںگے اور اپنے قدیم تمدنی روایات سے کنارہ کشی اختیار کرلیںگے۔ 44


بابی تحریک، بہائی
۔-- شیعیانِ ایران کے ایک فرقہ شیخیہ (پیروانِ شیخ احمد احسائی) کا عقیدہ تھا کہ ہر زمانے میں امام منتظر یا امام غائب کسی نہ کسی شخص سے بلاواسطہ ربط و تعلق رکھے ہیں جسے وہ باب (دروازہ) کہتے تھے۔ مرزا علی محمد شیرازی نے کہا کہ وہ واسطہ اور باب میں ہی ہوں۔ اس پر فرقہ شیخیہ کے بعض لوگوں نے اُن کی دعوت قبول کرلی۔ دولتِ ایران بابیت کی تبلیغ و اشاعت اور اس کی روز افزوں ترقی سے متوحش ہوگئی۔ باب کو ۱۸۵۰ء میں گولی ماردی گئی اور ان کے پرووں کو کچلنے کی ہرممکن کوشش کی گئی۔ بابیوں کی مشہور شاعرہ اور نقیبہ قرۃالعین کا انجام سکندریہ کی فلسفی خاتون ہائی پیشیا کی طرح بڑا المناک ہوا۔ اسے ایک گڑھے میں گِرا کر گرھے کو پتھروں سے پاٹ دیا گیا۔ مرزا علی محمد باب نے اپنی موت سے پہلے ایک شخص کے ظہور کی پیشِ گوئی کی تھی جسے بابی "من یظہر اللھ" (جسے اللھ ظاہر کرے) کہتے تھے چناچہ ایک بابی مرزا حسین علی ملقب بہ بہاء اللھ نے "من یطہر اللھ" ہونے کا دعویٰ کیا۔ اور اس کے پیرووں کو بہائی کہنے لگے۔
مرزا علی محمد باب اپنی الہامی کتاب "بیان" میں کہتے ہیں کہ اس کتاب کے ساتھ قرآن منسوخ ہوگیا ہے۔ ۔۔۔ وہ تین نمازوں کو فرض سمجھتے ہیں اور نمازِ جماعت کے مخالف ہیں، رمضان کے تیس روزوں کے بجائے موسم بہار کے اُنیس روزے فرض سمجھتے ہیں،۔۔ عیدالفطر کے بجائے عید نوروز منائی جاتی ہے۔ جو خالص ایرانی تہوار ہے۔ سودخوری اور موسیقی حلال سمجھی جاتی ہے۔ ان کے ہاں ہر مذہب کے پیرو کو لڑکی دینا اور اُس سے رشتہ لینا جائز ہے۔ وہابی اور بہائی عقائد میں سخت اختلافات رکھنے کے باوجود ایک بات پر متفق ہیں، دونوں صوفیاء کے مخالف ہیں۔ بہائی صوفیہ کو "شجرہ زقومیہ خبیثیہ صوفیہ" کے القاب سے یاد کرتے ہیں۔ 47


سنوسی تحریک
۔۔ اسلامی دنیا کے اس ہمہ گیر اضطراب ہ ہیجان نے ۱۹ویں صدی کے دوسرے نصف میں سنّوسی تحریک کو جنم دیا۔ شیخ علی سنوسی ۱۷۱۹ء میں بمقامِ الجیریا پیدا ہوئے او ایک طرف عثمانی سلاطین کی مذہبی لاپروائی کے شاکی تھے اور دوسری طرف جدید مغربی تہذیب و تمدن کے دشمن تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اہل مغرب کی عسکری اور تجارتی تاخت سے کہیں زیادہ خطرناک وہ خیالات ہیں جو وہ اپنے ساتھ ہر کہیں پھیلا رہے ہیں۔ اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لئے سنوسی عہد رسالت کے نمونے پر ایک مذہبی ریاست قائم کرنا چاہتے تھے۔ چند برسوں میں ہی شمالی افریقہ کے اکثر قبائل نے ان کی دعوت قبول کرلی اور صحرائے لیبیا میں جغبو کا مقام جہاں وہ دفن کئے گئے اس تحریک کا مرکز قرار پایا۔ سنوسی کی دعوت سے متاثر ہوکر ہی مہدی سوڈانی نے مصر اور ترکی کی حکومتوں کے خلاف بغاوت کی تھی۔ اور انگریز کے پے در پے شکستیں دے کر ان علاقوں سے نکال دیا تھا۔ بعد میں کخچر نے مہدوی قوت کا شیرازہ بکھیردیا۔ لیکن سنوسی تحریک سے آزادی کا جو ولولہ اور جوش شمالی افریقہ کے مسلمانوں میں پیدا ہوگیا تھا وہ آج تک باقی و برقرار ہے۔
سید جمال الدین افغانی جنھیں شکیب ارسلاں نے قوموں کے مصنف کا خطاب دیا تھا سنوسی تحریک ہی کے فیضیان یافتہ تھے۔۔۔ سید جمال الدین افغانی مذہبی لحاظ سے امام غزالی کے مداح تھے اور اُنھی کے انداز میں جدید مغربی افکار کا مقابلہ کرنا چاہتے تھے۔ لیکن سیاسی سرگرمیوں اور ہنگامہ خیزیوں نے انھیں تالیف و تصنیف کی فرصت نہ دی۔ 48-49


قدیم تحریکیں
۔۔ نجدی اور سنوسی تحریکیں اصلاحی اور سیاسی تھیں۔ بابیت مجوسی اور باطنی روایات کے امتزاج کا نتیجہ تھی۔ سلطان عبدالحمید عثمانی کی پان اسلامیت کے پردے میں اس کے ذاتی اغراض و مقاصد کا دیوپائے کوب تھا۔ سید جمال الدین افغانی کی عمر ہنگامہ آفرینی کی نذر ہوگئی تھی اور وہ کوئی مستقل تعمیری کارنامہ انجام نہ دے سکے۔ ان تمام مصلحین میں افغانی کے سوا کسی نے بھی جدید مغربی سائنس اور فلسفے کے اُن گہرے اثرات کا اندازہ نہیں لگایا تھا جو اہل مغرب کے سیاسی اور ملوکی تسلط کے ساتھ اقوام مشرق کے قلب و نظر میں اضطراب ہ ہیجان پیدا کر رہے تھے۔ اور جو انھین اپنی تمدنی میراث اور روایتی قدروں کا ازسرنو تنقیدی جائزہ لینے پر مجبور کر رہے تھے۔ قدیم روایات کی فرسودگی اور اقدارِ ماضی کی بے ثمری کا ذکر کرتے ہوئے ایک معاصر چینی اہلِِ قلم نے کہا ہے:
۔"ہمارے سامنے دو ہی راستے ہیں۔ یا تو قدیم روایات سے گلوخلاصی کرالیں اور زندہ رہیں۔ اور یا ان کا پھندا اپنے گلے میں ڈالے رکھیں اور مرجائیں۔"۔۔۔ 50

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...