Ch. 4. Iqbal ka Ilme Kalam by Jalalpuri
اقبال کا تصور ذاتِ باری
شعروشاعری ایک بیکار مشغلہ ہے ۔ اقبال
۔۔ قیام مغرب کے دوران میں وہ اہلِ مغرب کی مادی ترقی اور اُن کے بے پناہ علمی ذوق اور ولولے سے بے حد متاثر ہوئے اور اس کے ساتھ ملل اسلامیہ کی عالمگیر زبوں حالی اور پسماندگی نے بھی انھیں مضطرب کیا۔ چناچہ اُنھوں نے ترک شعرگوئی کا مصمم اراداہ کرلیا۔ اور انھیں یہ احساس ستانے لگا کہ شعروشاعری ایک بےکار مشغلہ ہے۔ 68
۔۔ اس زمانے میں مثالیت پسند فشطے، ارادیت پسند شوپنہائر، روحیّتی پسند جیمزوارڈ، بطلی حریّتی نٹشے، ارتقائی تخلیق کے ترجمان برگسان، اور ارتقائے بروز کے شارحین کے افکار و نظریات ہرکہیں شائع ہورہے تھے۔۔۔
جہاں تک تصورذات باری کا تعلق ہے اقبال فلاسفہ ارتقاء کے سَرَیانی نظریے سے متاثر ہوئے۔ 69
۔۔ اقبال نے یورپ سے لوٹ کر حافظ شیرازی کی مخالفت میں اشعار لکھے تو ملک بھر میں احتجاج کی لہر دوڑگئی اور اقبال کو وہ اشعار مثنوی اسرار رموز سے حذف کرنا پڑے۔ 80
احدیت کو وحدانیت سے مخلوط نہ کیا جائے!۔
دیدانت، اشراقیت اور ابن عربی کے وحدت وجود میں بنیادی اُصول اور قدریں مشترک ہیں تینوں بظریے احدیت (Monism)
کے ترجمان ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کائنات میں صرف ایک ہی اصل الاصول کے قائل ہیں۔ احدیت کو وحدانیت (Monotheism)
سے مخلوط نہ کیا جائے۔ وحدانیت میں خدا کو مختار مطلق اور فاعلِ با اختیار سمجھا جاتا ہے جو اشیاء کو عدم سے وجود میں لا سکتا ہے۔ اس میں دوئی کا تصور لازماً موجود ہوتا ہے۔ خالق اور مخلوق کی دوئی۔ دیدانت اشراقیت اور وحدتِ وجود میں اس دوئی کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔ بلکہ خالق اور مخلوق ذاتِ مطلق اور کائنات کو ایک دوسرے کا عین سمجھا جاتا ہے اور ان میں کسی قسم کا انفکاک ناممکن خیال کیا جاتا ہے۔ اس نظریے کی رُو سے وجود کی وحدت حقیقی ہے۔ کثرت یا تعدد اعتباری ہے۔ 80
۔۔ اقبال کو دو واسطوں سے وحدتِ وجود یا ہمہ اوست کا نظریہ ذہنی اور ذوقی میراث میں ملا تھا۔ ایک تو وہ برہمن تھے اور سریان کا تصور صدیوں سے ان کے آباواجداد کے ذہن و عقل میں نفوذ کرچکا تھا اور دوسرے ان کے والد ایک صاحبِ کشف و حال صوفی تھے۔۔۔ 83
۔۔ معلوم ہوتا ہے "مابعدالطبیعیات ایران" لکھنے کے بعد اقبال کے خیالات و عقائد مٰ نمایاں تغیر رونما ہونے لگا۔ یہ تغیر کیوں اور کیسے رونما ہوا اس کے متعلق شواہد موجود نہیں ہیں۔ یہ البتہ یقینی ہے کہ قیام یورپ کے اواخر میں اقبال اقوام و ملل اسلامیہ کی ہمہ گیر پسماندگی اور سیاسی زبوںحالی کے اسباب و عوامل پر اکثر غورو خوض کرتے رہتے تھے۔ 90
۔۔ اقبال کا نظریہ خودی فشٹے ہی سے مستعار ہے۔ 91
۔۔ بہرحال اقبالنے وجودی صوفیہ اور ان کے افکار و آراء کے خلاف پرجوش جہاد کا آغاز کیا۔ ابن عربی کی تعلیمات کو کفروزندقہ قراردیا اور حافظ شیرازی کو فقیہہِ ملت میخوارگاں کا لقب دےا
اقبال نواشراقیت کے بانی فلاطینوس پر طنز کرتے تو ایک حد تک اس کا جواز بھی پیدا ہوجاتا۔ لیکن افلاطون یونانی کو گوسفندقدیم قرار دینا انصاف سے بعیدہے۔ افلاطون کے افکار میں بےشک کہیں کہی کشف و عرفان کے عناصر موجود ہیں لیکن اس کا نظریہ امثال خالص عقلی و منطقی ہے۔ اس کے علاوہ افلاطون صاحبِ عزیمت تھا۔ اس نے سائراکینوز میں اصلاحات نافذ کرنے کی کوشش کی جس پر وہاں کا جابر حاکم اس سے خفا ہوگیا۔ اور اُسے قزاقوں کے ہاتھ غلام بنا کر بیچ ڈالا۔ 92
۔۔ سوال یہ پیدا ہوگا کہ اقبال نے شیخ اکبر محی الدین عربی کی تعلیمات کو کفروزندقہ قرار دینے کے بعد شیخ کے ایک پیرو اور متبع کو اپنا پیرومرشد کیوں منتخب کیا؟ اقبال کے بعض شارحین نے بھی اس دقت کو محسوس کیا ہے اور دو ایک نے حتیٰ المقدور اس اشکال کو رفع کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ 95
۔[ایسا لگتا ہے اقبال اپنی فکری معاملات میں کنفیوزڈ ہیں یا اور کنفیوزشن کے ساتھ اپنی پسند کے بھی سخت غلام بن چکے ہیں اور اس بات کو جاننے کے باوجود کے یہ غلط ہے اس سے پیچھا نہیں چھڑا سکتے، اس کی وجہ ایک شاید یہ ہے کہ یہ چیزیں ان کے بچپن سے ہی ان سے منسلک ہوچکی تھی۔! ابڑو]۔
۔۔ اقبال اپنی شاعری کے پہلے دور میں جو قیام مغرب کے اوائل تک محیط ہے، وحدتِ وجود کے شارح اور نوفلاطونی صوفی تھے۔ جب انھوں نے احیاء و تجدیدِ ملت کا بیڑا اٹھایا تو وہ ہمہ اوست کی مخالفت کرنے لگے۔ عام طورسے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اقبال مرتے دم تک وحدتِ وجود اور سریان کے مخالف رہے، لیکن یہ عدم تدبر کا تنیجہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اقبال اواخر عمر میں وحدتِ وجود کی طرف دوبارہ رجوع لانے پر مجبور ہوگئے تھے۔ 100
No comments:
Post a Comment