FIKRism

Wednesday, January 26, 2011

IKIK-Excerpts-09-Islaaf Parasti

اقبال کا علم کلام
باب ۸
علم کلام کے اثرات و نتائج

پدرِمن سلطان بود!۔
۔۔ اقبال نے جدید فلسفے اور سائنس کے افکار بالخصوص برگساں، لائڈمارگن اور الگزنڈر کے ارتقائی نظریات اور آئن شٹائن کے نظریہ اضافیت کے مآخذ قرآن اور قدماء کی کتابوں میں تلاش کرنا شروع کئے۔ ہندوستان آزاد ہوتا تو جاپانیوں کی طرح اہلِ ہند بھی حال کے تقاضوں کو ماضی کی روایات پر قربان نہ کرتے اور نئی قدروں کو شکستہ پیمانوں سے جانچنے کی کوشش نہ کرتے لیکن غلامی کی حالت بے بسی کی حالت تھی۔ اس لئے حقائق کی تلخی سے گریز کرکے بزرگوں کع عظیم کارنامے گنانا اہلِ علم کا محبوب مشغلہ قرار پایا۔ 194


۔۔ سائنس فرنگی زاد نہیں ہے لیکن اسے عربی زاد بھی نہیں کہا جاسکتا۔ 198
۔(ہر بزرگی اپنی ہی کوشش سے حاصل ہوتی ہے نہ کہ آباؤاجداد کا نام لینے سے اور آباؤاجداد بھی نام لینے کے قابل جبھی ہوتے ہیں کہ ان میں شرافت ہو)۔ 198


۔۔ جس طرح علمِ کلام نے دنیائے اسلام میں فلسفے کا خاتمہ کردیا تھا، اسی طرح شبلی نعمانی کی مقصدی تاریخ نویسی نے تاریخ کو اپنے مقام سے گِرادیا۔ 199


۔۔ مقصدی تاریخ نویسی کا ایک اور دلچسپ پہلو بھی ہے، ہمارے مؤرخینِ تاریخ تمدّن پر قلم اٹھاتے ہیں تو اس کا آغاز صدرِاسلام سے کرتے ہیں اور ماقبل اسلام سارے زمانے کو دورِ جاہلیت سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس کا آغاز سید امیر علی کی تاریخ اسلام سے ہوا تھا۔ اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ظہورِ اسلام کے وقت اکثر متمدن اقوام تنزّل کا شکار ہوچکی تھیں، چھٹی اور ساتویں صدیاں (ق۔م) اس ہمہ گیر زوال کی آئینہ دار ہیں لیکن ولادت جناب مسیح سے کم و بیش چار ہزار برس قبل سے لے کر تیسری صدی بعد از مسیح تک اور، مصر، بابل، اشوریا، فینیقیہ، کریطس، یونان، رُوم، چین اور ہند میں مختلف تمدن اپنی اپنی بہار دیکھ چکے تھے۔ اور ان اقوام کے علمی و فنی کارناموں نے نوعِ انسان کی تمدنی میراث کو مالامال کر دیا تھا۔ سُمیریوں نے سب سے پہلے دن رات کو چوبیس گھنٹوں میں تقسیم کیا، ہفتے کے سات دن اور مہینے کے تیس دن قرار دئیے، تحریر کا فن ایجاد کیا۔ بابل اور اشوریا میں علمِ ہئیت کی بنیاد رکھی گئی۔ مصریوں نے ریاضی، ہندسہ، جرثقیل، موسیقی، تعمیر اور مجسمہ تراشی کے علوم و فنون کو ترقی دی۔ فینیقیوں نے حروفِ ابجد کو ترتیب دے کردنیائے علم میں انقلاب برپا کیا۔ نیز جہازرانی اور بین الاقوامی تجارت کو فروغ دیا۔ یونانیوں نے کائنات کے مظاہر میں محققانہ غوروفکر کا آغاز کیا۔ نظری سائنس اور فلسفے کی تاسیس کی اور ڈرامہ اور مجسمہ تراشی کی تکمیل کی۔ رومیوں اور ایرانیوں نے مُلک داری اور جہانبانی کے اُصول وضع کئے اور مختلف اقوام پر حکومت کرکے ان میں لچک اور وسعت پیدا کی۔ چینیوں نے کاغذ، بارود، چھاپہ خانہ اور قطب نما کی ایجادات پیش کیں۔ مقابلے کے امتحان شروع کئے، کاغذ کا سَکّہ چلایا اور ریشم بنانے کا فن سکھایا۔ ہندیوں نے کسرِاعشاریہ اور ہندسوں سے عربوں کو روشناس کرایا۔ القصہ سُمیریوں سے لے کر ظہورِ اسلام تک کم و بیش پانچ برس تک یہ مختلف تمدن فروغ پاتے رہے اور مِٹ مِٹ کر ابھرتے رہے۔ جب عربوں نے ایران، شام، مصر، شمالی افریقہ اور ہسپانیہ کے ملک فتح کئے تو ان قدیم تمدنوں کی علمی، فنی، صنعتی، سیاسی اور اقتصادی روایات ان کو ورثے میں ملیں۔ ان تمدنوں کو انسان کے زمانہ جالہیت سے تعبیر کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ہمارے مؤرخین تاریخِ تمدن سے نا آشنا ہیں۔ یا شاید ہے کہ ان تمدنی روایات کا ذکر کیا گیا تو مسلمانوں کے کارنامے ماند پڑجائیں گے۔ 200-201


۔۔ بردہ فروشی ۔۔۔ 202

۔۔ سرسیداحمدخاں اور اقبال جیسے زعمائے ملت نے بھی عورت کی اعلیٰ تعلیم کی مخالفت کی ہے۔ 203

اسلاف پرستی
۔۔ اسلاف پرستی کا ایک نتیجہ جو ہمارے خیال میں سب سے زیادہ اندیشہ ناک ہے، خود اطمینانی اور زعمِ بےجا کی صورت میں رونما ہوا ہے۔ ہر شخص اپنی عظمتِ رفتہ کے تصور میں مگن ہے۔ اُسے اس بات کا یقین دلایا گیا ہے کہ اہلِ مغرب فلسفہ و سائنس کی دنیا میں لاکھ انکشافات و اجتہادات کرتے رہیں ان کے تمام کارنامے بہرصورت ہماری ہی کتابوں سے ماخوذ ہیں۔ اور ان کی حکمت و دانش ہماری ہی متاعِ گم گشتہ ہے جو سُوءِ اتفاق سے اُن کے ہاتھ لگ گئی ہے۔ اہلِ مغرب جب کوئی ایجاد کریں گے ہم جھٹ اس کا کھوج اپنی کتابوں میں لگا لیں گے۔ ہمیں تحقیق و کاوش کی ضرورت ہی کیا ہے۔ سائنس کے عقدے پر برسوں محنتِ شاقہ برداشت کرنا فعلِ عبث ہے، جبکہ ہم لُغت کی کتاب سامنے رکھ کر کسی نہ کسی لفظ کا کوئی نہ کوئی معنی ضرور ایسا پالیں گے جو سائنس کے تازہ ترین انکشافات کا ماخذ ثابت ہوگا۔ اس طرح علمِ کلام نے صدیوں سے ہماری ذہنی سہل انگاری اور تن آسانی کی پرورش کی ہے۔۔ 204


۔۔ اسٹرونومی کا مطالعہ انسان کو پست ہمت کردیتا ہے، میں ہمیشہ نوجوانوں کو اس سے منع کرتا ہوں (اقبال)
مسلمانوں کو موجودہ حالات میں فلسفے اور لٹریچر کی چنداں ضرورت نہیں۔
اقبال کے خیال میں یہ چیزیں خودی کو کمزور کرتی ہیں اور جوشِ عمل اور یقین محکم کے ضعف کا باعثِ ہوتی ہیں۔ 206


نظریاتی و تجرباتی سائنس
۔۔ شیخ محمد اکرام فرماتے ہیں : "جدید فلسفے کو اخذ کرنے کی اتنی ضرورت نہیں جتنی جدید سائنس اور صنعت و حرفت کی۔"
اگر ہمیں مغرب سے صرف تکنیکی سائنس اخذ کرنے کی ضرورت ہے تو اس کا مطب یہ ہوا کہ ہمیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مغرب کی تکنیکی غلامی قبول کرنا پڑے گی کیونکہ جب تک ہم فطری سائنس کی تحصیل نہیں کرے گے ہم تکنیک میں بطور خود کوئی ایجان نہیں کرسکیں گے۔ اور اگر ہم جدید فلسفے کی تحصیل نہیں کریں گے تو وہ وسعتِ نظر، وہ اجتہادِ فکر، وہ ذوقِ تجسس کہاں سے ائےگا۔ جو سائنس کے فروغ کا باعث ہواکرتا ہے۔
بنوعباس کے دورِ حکومت میں بھی ہمارے سائنسدانوں نے فقہأ کے خوف سے نظری سائنس کو فروغ دینے سے گریز کیا تھا اور ان کی تمام سائنسی سرگرمیاں کیمیا اور علم المناظر کے تجربات تک محدود ہوکر رہ گئی تھیں۔ نظری سائنس کو تجرباتی سائنس سے جُدا کرنے کا یہ تنیجہ ہو کہ عرب سائنس دان ہُنرور اور کاریگر بن کر رہ گئے۔ 207-208


۔۔ چند کلوں کی ساخت کو سمجھ لینے اور انھیں چلانے کا فن سیکھ لینے سے ہم ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتے۔ زمانے کا تقاضا یہ ہے کہ اربابِ وطن کے طرزِ فکر و نظر میں تبدیلی پیدا کی جائے اور ان کے علمی تجسس اور تحقیق کی صلاحیتوں کو اُجاگر کیا جائے۔ 208


۔۔ اقبال بالطبع شاعر تھے اور اس میں شک نہیں کے وہ بہت بڑے شاعر تھے۔ (جلالپوری) ۔ 211

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...