FIKRism

Wednesday, January 26, 2011

IKIK-Excerpts-08-Taveelat

باب۔ ۷
تاویلاتِ اقبال

اخوان الصفا
۔۔ اخوان الصفا کے رسائل سے فلاسفہ، متکلمین اور صوفیہ نے بیش از بیش استفادہ کیا۔ اسمٰعیلیہ نے اپنے الٰہیاتی نظریات اور منطقی دلائل اُن سے اخذ کئے۔ غزالی نے اپنی تصانیف میں جابجا ان کی تکفیر کی لیکن ان کے افکار و نظریات سے استفادہ بھی کرتے رہے۔ امام رازی اخوان الصفا کی رایوں کی طرف بہت میلان رکھتے تھے لکن اِخفا کرتے تھے۔ اس لئے ناواقف شخص ان کو سُنّی اشعری خیال کرتا ہے۔ بوعلی سینا کا باپ ہمیشہ رسائلِ اخوان الصفا کو زیرِ نظر رکھتا تھا۔ خود بو علی سینا نے نظریہ عُقول ان سے اخذ کیا۔ ابن رشد اور محقق طوسی سے لے کر مُلا صدرا اور ملا ہادی سبزواری تک اکثر فلاسفہ اسلام نے اِخوان الصّفا کے نظریہ فصل و جذب سے استفادہ کیا ہے۔ صوفیہ میں منصور حلاج اور شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کے نظریات پر اخوان الصفا کا اثر مسلم ہے۔ ۔۔ 165-166


سرسید کی تمثیلات
۔۔ سرسیداحمدخاں کا اصول تفسیر تو یہ تھا کہ "خدا نے اَن پڑھ بدؤوں کے لئے ان ہی کی زبان میں قرآن اُتارا ہے۔ پس ہمیشہ قرآن مجید کے سیدھے سادے معنی لینے چاہئیں۔" لیکن بعد میں انھیں یہ اشکال درپیش ہوا کہ سیدھے سادے معنی لینے سے جدید دور کے تعلیم یافتہ طبقے کی تسکین نہیں ہوسکے گی۔ چناچہ اخوان الصفا کی طرح انھوں نے بھی قرآن کی تمثیلی تفسیر لکھنے پر کمرہمّت باندھی۔ اخوان الصفأ کے تتّبع میں سرسید نے شیطان کے وجودِ خارجی سے انکار کیا اور فرمایا "شیطان کے وجودِ خارجی ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ہے، جو لوگ اس کے قائل ہوئے ہیں انھوں نے خود اپنی ہی صورت آئینے میں دیکھی ہے"۔ لفط شجر کو بھی تمثیلی قرار دیا۔ "لفظ شجر قرآن مجید میں موجود ہے کیا حقیقت میں وہ ایسا ہی درخت ہے جیسے لّلو مالی اور کلّو کسان بویا کرتا ہے۔۔۔" اسی طرح سرسید ہبوطِ آدم کو بھی تمثیلی سمجھتے ہیں۔ ۔۔۔ 170-169


۔۔ سرسیداحمد ہندوستان میں تحریک عقلیت کے بانی ہیں، لیکن اس امر کی طرف توجہ دلانا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ان کی عقلیت نے جدید علوم کی روشنی میں آگے قدم بڑھانے کی بجائے اخوان الصفا کی باطنیت کا سہارا لیا جس سے اس تحریک کی افادیت مقید اور محدود ہوکر رہ گئی۔ 171


۔۔ اقبال نے بھی اپنے پیش رو متکلمین کی طرح عقل و نقل میں تطبیق کرنے کی کوشش کی، اخوان الصفاء اور دوسرے باطنیہ کی طرح ان کو بھی اس بات کا احساس تھا کہ اگر نصوص کے ظاہری معنی پر اِکتفا کیا گیا تو مذہبی عقائد و شعائر کی مفاہمت جدید فلسفے اور سائنس کے ساتھ نہیں کی جا سکے گی۔ چناچہ انھوں نے ظاہری معنی سےاعراض کیا۔ اور ان کی حسب منشا تاویل کرکے ان کی مطابقت آئنسٹائن، برگساں، فشٹے، الگزینڈر، جیمزوارڈ وغیرہ کے افکار و نظریات سے کرنے کی کوشش کی۔ 171-172


۔۔ راقم کے خیال میں اقبال کا نظریہ خودی بہ تمام و کامل فشٹے سے ماخوذ ہے۔ 172

۔۔ فشٹے خودی سے انفرادی خودی مراد نہیں لیتا بلکہ مجرّد خودی مراد لیتا ہے۔
تمام خودیوں کا صدور مسلسل و متواتر مطلق خودی سے ہورہا ہے۔ 173


۔۔ اقبال کا نظریہ زمان برگساں سے ماخوز ہے۔
وہ (برگساں) کہتا ہے کہ کائنات میں صرف ایک ہی چیز حقیقی ہے اور وہ ہے تغیر و تبدل۔ ہر زندہ چیز محض اس لئے موجود ہے کہ وہ تغیرپذیر ہے۔ 176


۔۔ اقبال کےافکار کو سمجھنے کے لئے فلسفے کا منتہی ہونا ضروری ہے یہ بات محض ناقدینِ ادب یا صوفیہ کے بس کی نہیں ہے۔ (جلالپوری) حاشیہ۔ 176


۔۔ برگساں کائنات کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔
۱۔ دنیا جو فریبِ نظر ہے اور ٹھوس مادی اشیاء پر مشتمل ہے۔
۲۔ مرورِ محض جو حقیقت اولیٰ ہے۔

۔[میرے نزدیک اس فلسفے کی حقیقت کچھ اس طرح ہے کہ ہم کائنات کا دو زایوں سے ادراک کرتے یا یہ کہوں کہ ہماری عقل دو طریقوں سے کام کرتی ایک اشیاء کو ان کے زمان و مکان کی مناسبت سے دیکھتی ہے، زمان و مکان میں قید کرکے دیکھتی، اس حساب سے 'اقدار و حقائق' مختلف لوگوں کے لئے مختلف زمانوں میں بدلتے رہتے۔ دوسرے وہ 
Ultimate Truths
جو ازلی و ابدی ہوتے، اور زماں و مکاں کی قید سے بالاتر ہوتے! ابڑو]۔


۔۔ مرورِ محض کا ادراک صرف وجدان ہی کرسکتا ہے کیونکہ عقل زمان کو آنات و لمحات میں تقسیم کرکے دیکھنے کی عادی ہے۔ (برگساں)۔ 177-176


۔۔ فی الاصل اقبال یہ ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ فشٹے اور برگساں وغیرہ کے افکار ان فلاسفہ کا اجتہاد و اختراع نہیں ہیں بلکہ ان کے ماخذ علوم معارف اسلامی میں بہت پہلے سے موجود ہیں۔ 182


۔۔ اقبال اور صوفیہ وجودیہ و باطنیہ کی تمثیلی تاویلات میں فرق محض یہی ہے کہ صوفیہ اور باطنیہ نے اپنی تاویلات و تمثیالات کی بنیاد بطلیموسی ہئیت اور نوفلاطونی فلسفے پر رکھی تھی اور اقبال فشٹے، برگساں، الگزنڈر وغیرہ کے نظریات کی روشنی میں آیات کی تمثیلی تفسیریں کرتے ہیں۔ 191-192

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...