علم کلام کی ایک چھوٹی سی مثال ایک جگہ جلالپوری نے ایک یونانی قصہ کی مناسبت سے دی ہے جسے یہاں درج کیا جا رہا ہے:۔
۔"کہتے ہیں کہ یونان کے ایک علاقے میں ایک رہزن لوٹ مار کیا کرتا تھا اس کا نام پروقرسطیس تھا۔ یہ شخص بڑا ظالم اور سفاک تھا۔ اس نے لوہے کا ایک پلنگ بنوا رکھا تھا۔ جب کبھی وہ کسی شخص کو گرفتار کرکے لاتا تو اسے اپنے پلنگ پر چت لٹا دیتا اگر اس مظلوم کی ٹانگیں پلنگ کی پائنتی سے بڑھ جاتیں تو وہ اپنے کلہاڑے سے اس کی ٹانگیں کاٹ کر پلنگ کی لمبائی کے برابر کرلیتا اور اگر وہ آدمی پستہ قد ہوتا اور اس کی ٹانگیں آہنی پلنگ کی پائنتی تک نہ پہنج سکتیں تو وہ اس کے پاوں چمڑے کے مضبوط تسموں سے باندھ کر اور زور سے کھنچوا کراس کی ٹانگیں پلنگ کے برابرکرلیتا تھا۔ اس کھینچاتانی میں اس اجل گرفتہ کے بدن کے جوڑ اکھڑجاتے تھے۔" 163
متکلمانہ
اس قصہ کا متکلمانہ فلسفہ تو یہی ہے کہ آہنی پلنگ آپ کے وہ اندھے عقاید ہیں جن میں آپ کسی قسم کا ردّوبدل نہیں کرنا چاہتے اور ہر نظریہ و فکر کا کھینچ تان کار یا کاٹ کر اس کے برابر کرنا چاہتے ہیں پھر چاہے اس میں اُس کی جان ہی کیوں نہ چلی جائے!۔
دوستانہ
لیکن اس کا ایک دوسرہ پہلو یہ بھی ہے کہ جب آپ کسی (فلسفی، مفکر، سیاستدان، ۔۔۔) کو ایک بار پسند کرلیتے ہیں، اسے اپنا آئیڈیل اور استاد مان لیتے ہیں تو پھر اُس کی ہر بات و فعل میں آپ رضامند ہوجاتے ہیں اور صحیح سمجھتے ہیں، اس کا اندھا دھن تقلید کرنے لگ جاتے ہیں پھر چاہے وہ غلط ئی کیوں نہ ہوں۔
پسند کرنا اپنی جگہ پر فکری لحاظ سے ہر فکر کو سب سے پہلے اپنے اندر میں جھانک کر بالکل مخلص، غیرجانبدارانہ، نیوٹرل بنیادوں پر پرکھنا چاہیے۔
ہوسکتا ہے جس پر آپ پہلے لوگوں کی کہاکہی اور دیکھادیکھی میں کہکہے لگا رہے تھے ایک بار مخلصانہ سوچ کے بعد آپ بھی اپنی سوچ کواُسی کے ہم آہنگ پائیں۔
مزے کی بات اس اندھا تقلیدی میں کئے بار لوگ خود اُسی (اپنے آئیڈیل و مربی) کی خلاف ورزی کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ بالکل ایسے ئی ہے جیسے کوئی تحریر میں پڑھوں اور اپنے دوست کو بتاوں کے دیکھ کیا تو عمدہ تحریر لکھی ہوئی ہے کہ "برائ مہربانی اسے مت پڑہیے اور اگر پڑھ بھی لیں تو کسی کو مت بتائیے!"۔
بالکل اسی طرح مارکس کے معاملے میں
اکثر مارکسی مارکس کوایک بار دل دے بیٹھنے کے بات مارکس کی ہر سوچ خیال و فکر کے آگے سر تسلیم خم کر بیٹھتے ہیں۔ اس حساب سے (ایک تو وہ متکلمانہ رویہ اختیار کر رہے ہیں دوسرہ) خود مارکس کی خلاف ورزی کر رہے ہیں کیونکہ مارکس کا خود اندازِفکر یہ تھا کہ جب تک کسی چیز کے متعلق پوری طرح جان نہ لو اُس کے متعلق اپنی کوئی رائے مت قائم کرو!۔
اور اسی طرح جلالپوری کے چاہنے والے خود جلالپوری کی خلاف ورزی کرتے ہیں جب وہ جلالپوری کے خیالات و فکر کو اپنی آزادانہ سوچ پر نہیں پرکھتے، اور بےچوں و چرا تسلیم کر بیٹھتے ہیں، جبکہ جلالپوری خود کہتا ہے عقل کو بروئےکار لاو اور اندھی تقلید و متکلمانہ رویہ اختیار مت کرو۔
یاد رہے یہ بہت دقیق مسئلہ ہے کہیں ایسا نہ ہو آزادانہ سوچ کے نام پر آپ بھی محبت میں جلالپوری کو آہنی پلنگ پے لیٹا بھیٹھیں!۔
نفسیانہ
اس بات کا ایک نفسیاتی پہلو بھی ہے۔ یہ بات ہوتی ہر کسی میں ہے پر اصل مردمجاہد تو وہ کہلائگا جو اپنے کردار و گفتار کو پہچان کر اس کو صحیح راستہ دکھائے۔ وہ یہ چیز ہے کہ انسان جس چیز کو پسند کرتا ہے یا چاہے ناپسند ئی کرتا ہو نفسیاتی طور پر اُس کے طرفدار ہو بیٹھتا ہے اور چاہتا ہے کہ آخری بات اُسی کی ہو! حتیٰ کہ آپ اگر جان بھی لیں کہ آپ کی فلاں عادت و خصلت بری ہے تب بھی حتی الامکان آپ کوشش کرتے کے اُس کی جان بوجھ کر خوبیاں گنوائی جائیں اور خرابیوں کو کم سے کم کر کے پیش کیا جائے!۔
No comments:
Post a Comment