FIKRism

Saturday, January 22, 2011

IKIK-Excerpts-02-Mutazili

مُعتَزِلہ

کلام کی ابتداء
۔-- شبلی نعمانی اس ان کے تلامذہ معتزلہ کو علم کلام کا موجد سمجھتے ہیں۔ لیکن یہ تاریخ فلسفہ سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے۔ 'کلام' کی اصطلاح بے شک پہلی صدی ہجری میں بغداد اور بصرہ میں رواج پذیر ہوئی لیکن فلسفہ و مذہب کی تطبیق کا آغاز باقاعدہ طور پراس سے کم و بیش چھ سو سال پہلے سکندریہ میں ہوا تھا۔ 21


مُرجیہ و قدّریہ ۔ معتزلہ
۔-- دنیائے اسلام میں تحریک اعتزال سے عقلی استدلال کا آغاز ہوا۔ معتزلہ عقاید میں غوروفکر کی دعوت دیتے اور عقل و نقل یا فلسفہ و مذہب کی تطبیق کو ضروری نہ سمجھتے تو مسلمانوں میں تحقیقِ علمی کا نشوونما پانا ناممکن تھا۔ اعتزال کا تعلق ایک طرف سیاسیات سے تھا اور دوسری طرف مذہبیات سے ۔ بنواُمیہ شے خلافت کو خاندانی میراث میں تبدیل کردیا تھا جسے برقرار رکھنے کے لئے وہ جبرواستبداد سے کام لیتے تھے ان کی اکثریت لہوولعب اور عیش کوشی کی دلدادہ تھی۔ جس کے لوازم پر بیت المال کا روپیہ بیدردی سے خرچ کیا جاتا تھا۔ نتیجتاً عہدِجاہلیت کی قدروں نے ازسرِنو قبولِ عام پایا۔۔۔ عرب فطرتاً حرّیت پسند تھاے اور جبرواستبداد کے عادی نہیں تھے۔ موالی الگ برافروختہ ہورہے تھے کیونکہ بنواُمیہ انھیں حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔۔۔ ایک صوبہ دار حجاج بن یوسف نے ایک لاکھ بیس ہزار مسلمانوں کا خون بہایا۔ قیدیوں کو بھیڑبکریوں کی طرح باڑوں میں بند کرنا اور مردوں اور عورتوں کو اکھٹا زنجیروں میں جکڑنا اسی کی اوّلیات ہیں۔ ابن الوقت اور جاہ پسند علماء کی ایک جماعت نے جسے بعد میں مُرجیہ کا نام دیا گیا حکومتِ وقت کا ساتھ دیا۔ اور اس کے جور و استبداد کا جواز اِس صورت میں پیش کیا کہ جو کچھ ہوتا ہے خدا کی مرضی سے ہوتا ہے اس لئے ظلم و ستم اور جور و جفا کو صبر شکر کے ساتھ برداشت کرنا چاہیے۔ نیز ایمان کا تعلق بنیادی طور پر عقیدہ کے ساتھ ہے عمل کے ساتھ نہیں۔(حاشیہ: آج کل بعض لوگ دین اور مذہب میں جو تفریق کر رہے ہیں وہ اسی عقیدے کی صدائے بازگشت ہے۔) لہٰذا جن لوگوں کا عقیدہ راسخ ہو اُنہیں نماز پڑھنے یا دوسرے فرائض ادا کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ مرجیہ میں ابوشمر، عنسان بن ابان کوفی اور ابومعاذ التوبانی قابلِ ذکر ہیں۔ ابن حزم نے ملل و النحل میں ابوحنیفہ نعمان بن ثابت کو بھی مُرجیہ کہا ہے۔ (حاشیہ: ملاحضہ ہو سیرت نعمان، شبلی نعانی)
قدّریہ نے مُرجیہ کے ان خیالات کے خلاف احتجاج کیا اور کہا کہ خدا عادل ہے وہ نہ ظلم کرتا ہے اور نہ ظالم کی سرپرستی کرتا ہے نیز انسان کو اپنے اعمال پر قُدرت و اختیار حاصل ہے اسی لئے وہ اپنےاعمال کا ذمہ دار ہے۔ یعنی تکلیف (ذمے داری) اور قدرت لازم و ملزوم ہیں۔ اگر انسان کو جیسا کہ مرجیہ کہتے تھے مجبور محض تصور کیا جائے تو خدا عادل نہیں رہے گا۔ کیونکہ جو شخص برائی کرنے پر مجبور ہے اس سے اعمال بد کا مواخذہ کرنا ناانصافی ہے۔ اس کے ساتھ قدّریہ نے کہا کہ خدا ظلم و ستم کو روا نہیں رکتھا اس لئے ظالم و جابر سلاطین کو بزورِشمشیر طلم و ستم سے باز رکھنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔ دوسرے الفاظ میں قدریہ نے امربالمعروف و نہی عن المنکر کی دعوت دی۔ 31،32


۔-- یہ بدیہی امر ہے کہ جس ملک میں آمریت ہوگی وہاں صرف دو قسم کے لوگ نظر آئیں گے یا تو خوشامدی اور ابن الوقت اور یا باغی اور مصلح۔
۔-- مرجیہ ابن الوقت تھے اور قدریہ (جنہیں بعد میں معتزلہ کہا گیا) باغی اور مصلح۔ 33


مامون رشید
۔-- لیکن مامون رشید نے مسلکِ اعتزال اختیار کیا۔
مامون رشید حضرت علی بن ابی طالب کی افضلیت کا قائل تھا۔ 35

۔-- معتزلی عقل اور وحی دونوں کو صداقت کا سرچشمہ خیال کرتے تھے اور تاویل و توجیہ سے عقل و نقل میں مفاہمت پیدا کرتے تھے۔ معتزلہ دراصل متکلم تھے اور اسلامی عقائد کی صداقت کو عقلی دلائل سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے تھے۔36

۔-- (معتزلی) نے معقولات کا مطالعہ کیا اور عقلی دلائل سے غیر مذاہب کے علما کے ساتھ مناظرے کا بازار گرم کیا۔ اس طرح دنیائے اسلام میں عقل و نقل یا فلسفہ ومذہب کی تطبیق کا اغاز ہوا۔ جسے اصطلاح میں علم کلام کہا جاتا ہے۔ 37

۔-- یہ بات خالی از دلچسپی نہیں کہ یعقوب بن اسحٰق الکندی جسے فلسفہ اسلام کا بانی سمجھا جاتا ہے میزلی العقیدہ تھا۔ 37

۔-- معتزلہ نے قدر و اختیار، عدل و انصاف، آزادی فکرونظر، عقلیت پسندی اور امربالمعروف و نہی عن المنکر کے انقلاب پرور نظریے کو فروغ دیا تھا۔ اس لئے سلاطین و خلفا ان کے عقائد کو اپنے لئے خطرناک سمجھتے تھے۔ متوکل عباسی نے ان ترقی پرور خیالات کا سدِّباب کرنے کے لئے احمد بن حنبل کے پیرووں کی حوصلہ افزائی کی۔ یہ لوگ مُعتزِلہ کے پرانے دشمن تھے۔ اُنھوں نے اس معاملے میں متوکل سے پورا تعاون کیا۔ معتزلہ کو ملک بدر کردیا گیا اور ان کی تالیفات کو نذرآتش کردیا گیا۔ یہ تباہی ایسی مکمل تھی کہ آج تک ان کی سیکڑوں تالیفات میں سے ایک بھی دستیاب نہیں ہوتی۔ اور اُن کے عقائد و خیالات جستہ جستہ اقتباسات سے ہی معلوم کئے جاسکتے ہیں۔ شبلی لکھتے ہیں:
"اس وقت سلطنت عباسیہ برائے نام رہ گئی تھی اور سلجوقیہ وغیرہ کی وجہ سے مذہبی آزادی بالکل نہیں رہی تھی۔ معتزلہ پر ہر طرح سے ظلم کیا گیا۔ محمد بن احمد معتزلی عالم پچاس برس تک گھر میں گُھسا بیٹھا رہا۔ علامہ زمخشری صاحبِ کشاف ہجرت کرکے مکہ چلے گئے۔ 37


۔-- معتزلہ اگرچہ متکلم تھے لیکن عقلی استدلال کو اولین اہمیت دیتے تھے۔ جس سے تحقیق و فکر کو تقویت پہنچنے کا قوی امکان تھا۔ اس عقلی کاوش کا فلسفہ و سائنس کی ہمہ گیر ترویج پر منتج ہونا چاہیے تھا۔ لیکن اشاعرہ اور حنابلہ کی کم نظری اور تعصب نے اس امکان کو سدِّ باب کردیا۔ اور ہرکہیں ذہنی جمود و تعطل کا دور دورہوگیا۔ ڈاکٹر سخاو نے سچ کہا ہےکہ اگر مسلمانوں میں اشعری اور غزالی نہ ہوتے تو ان میں اب تک کئی گلیلیو اور نیوٹن پیدا ہوچکے تھے۔ 40


۔-- اس ذہنی جمود و تعطل اور تقدیرپرستی کے طلسم سے نجات حاصل کرنے کے لئے مسلمانوں کو پانچ سو برس انتظار کرنا پڑا۔ معتزلہ اور ان کی تالیفات کو صدیوں کے تشدد نے حرفِ غلط کی طرح صفحہ ہستی سے مٹا دیا تھا۔ لیکن ان کے نظریات متفرق اقتباسات کی صورت میں محفوظ رہے اور بیسویں صدی میں جب مسلمانوں کا سامنا جدید علوم سے ہوا تو دوبارہ معتزلہ سے ہی رجوع کیا گیا۔ 41


۔-- ہبوطِ بغداد (۱۲۵۶) سے ۱۹ویں صدی کے اوائل یعنی کم و بیش پانچ سو برس تک مسلمان علماء عقلی استدلال اور حریت فکر کو بدعت سیہ سمجھتے رہے۔ 42-43


۔۔۔۔۔۔
چند معتزلہ در کتاب
معبد جہنی
غیلان دمشقی
واصل بن عطا
ضرار بن عمرو
معمر
ابوالہذیل علاف
النظام
ہشام بن الحکم
جاحظ
جُبائی
بشر بن المعمر
المزدار
اِسکافی
خیّاط
کعبی
مامون رشید
محمد بن احمد معتزلی
علامہ زمخشری
ابومسلم اصفہانی
سر سید احمد خاں
سید امیر علی (اثنا عشری)۔
خدا بخش




اینٹی معتزلہ
حسن بصری
احمد بن حنبل
غزالی شاگرد محمد بن تومرت
صلاح الدین ایوبی
ابوالحسن اشعری

-------
Wikepidai Mutazila

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...