مُقالات
جلالپوری
علی عباس جلالپوری
علی عباس جلالپوری
مشمولات
۱۔ مرزا غالب
اور نظریہ وحدت الوجود
۲۔ مرزا غالب
کی جمالیات
۳۔ مرزا غالب
کا کلامِ منقبت
۴۔ خواجہ
فرید کی عشقیہ شاعری
۵۔ فرائڈ
۶۔ ژنگ
۷۔ فلاسفہ
تاریخ
۸۔ کافکا
۹۔ تخلیقِ فن
۱۰۔ فن اور
شخصیت
۱۱۔ فن اور
کاریگری
۱۲۔ تنزل
پذیری کا مفہوم
۱۳۔ مطالعہ
فلسفہ
اقتباسات:۔
۵۔ فرائڈ
"فرائڈ ژینے کے تحت الشعور کے تصور پر تحقیق کرتے
ہوئے لاشعور کا انکشاف کیا تھا اور اپنے دوسرے اہم انکشافات 'لاشعوری دباؤ' کے
حوالے سے کہ کہا تھا کہ دبائی ہوئی ناگوار خواہشات لاشعور میں جاگزیں ہوجاتی ہیں
اور معاشرے کے مطالبات سے متصادم ہوکر نفسیاتی نظام کو درہم برہم کردیتی ہیں
تحلیلِ نفسی سے ان دبائی ہوئی خواہشات کو شعور کی سطح پر لایا جاسکتا ہے۔ 'خوابوں
کی ترجمانی' کی اشاعت اور تحلیل نفسی کے طرزِ علاج کے باعث فرائڈ کی شہرت تمام
مغربی ممالک میں ہر کہیں دور دور تک پھیل گئی۔ اور نوجوان ڈاکٹر کسبِ فیض کے لئے
فرائڈ کے گرد جمع ہونے لگے۔ 155
[اس سے پتہ
چلتا ہے کہ جو شخص خودشناسی نہیں رکھتا وہ بے لغام گھوڑے کی مانند ہوتا ہے جسے کچھ
پتہ نہیں ہوتا مجھے کب کہا کیسے اور کس طرف مڑنا ہے۔]
فرائڈ کہتا
ہے:
"میں نے
بارہا اپنے نقطہ نظر میں ترمیم کی ہے اور اس ترمیم کو شائع بھی کردیا ہے۔ بعض
لوگوں نے ان ترمیمات کو نظر انداز کردیا ہے اور مجھے ان خیالات کے باعث ہدفِ طعن
بنایا جاتا ہے جن سے ایک مُدت ہوئی میں رجوع کرچکا ہوں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو
مجھ سے ناراض ہیں کہ تم اپنے خیالات تبدیل کرتے رہتے ہو اس ہئے ناقابلِ اعتماد ہو
۔۔۔ وہ نہیں دیکھتے کہ نقطہ نظر میں تبدیلی کرنے سے کہیں زیادہ افسوس ناک حالت یہ
ہے کہ آدمی کے منہ سے جو بات نکل جائے اسی پر مرتے دم تک قائم رہے خواہ جی ہی جی
میں اسے غلط سمجھ رہا ہو۔" 159
"مذہبی
دیوانے جو معمولی سے اختلاف رائے پر مرنے مارنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ فی الحقیقت
اپنے مذہب کی صداقت کے بارے میں شکوک و شبہات رکھتے ہیں۔" 170
"جو شخص
کسی عورت سے محبت کرتا ہے اور دوڑ دھوپ کے بعد اس پر قابو پانے میں کامیاب ہوجاتا
ہے اس میں حد درجہ اعتمادِ نفس اور قوت اقدام پائی جاتی ہے اور وہ دوسرے دنیوی
معاملات میں بھی کامیاب ثابت ہوتا ہے۔" 170
"فڑائڈ
کہتا ہے کہ خدا انسان کا خالق نہیں بلکہ انسان کے ذہن کی مخلوق ہے۔" 170
"خدا کے
علاوہ فرائڈ روح کے مذہبی تصور اور حیات بعد ممات کا بھی منکر ہے۔ اس نے اپنے
آبائی مذہب پر اپنی ایک کتاب "موسٰی اور وحدانیت" میں نقد لکھتے ہوئے
کہا ہے کہ تاریخ غالم کا سب سے پہلا موحد فرعون اخناتن (۱۳۷۵ ق م تخت نشین ہوا)
تھا۔ جس نے بت پرستی کو ممنوع قرار دیا۔"
فرائڈ کے
خیال میں موسٰی قبطی الاصل تھے اور اُنھوں نے آتن ہی کے مسلک کا احیاء کیا تھا۔
مصریوں کی طرح انھوں نے ختنہ کرانے کا حکم دیا۔ 171
"انسان
کے بطون میں خیر و شر میں تمیز کرنے کی کوئی پیدائشی صلاحیت نہیں ہوتی۔ ماں باپ کی
روک ٹوک سے خیر و شر کی تمیز پیدا ہوتی ہے۔" 172
[ناٹ ایگری!
انسان کے بطون میں پیدائشی انسٹینکٹولی خیر و شر کی تمیز ہوتی ہے، پر اس کو سمجھنا
اوائلی عمر میں اتنا آسان نہیں ہوتا، اور جب تک بندا اسے سمجھے تب تک ماں باپ،
دوست احباب اور زمانے کے خیر و شر کی تھ/لییَر اوپر چڑھ جاتی ہے/ اسپر غالب آجاتی ہیں۔
بعض اوقات
زمانہ انسان کو کسی چیز پر اکساتا ہے، اور انسان کو وجدانی طور پر محسوس ہوتا ہے
کہ یہ صحیح نہیں، پر چونکہ ایک تو علم کی لاعلمی کی وجہ سے اُس کے پاس کوئی ٹھوس
ثبوت نہیں ہوتا جواس کے وجدانی فکر کو تقویت دے، دوسری طرف انسان اپنے ماں باپ
دوست احباب کی عزت کرتے ہوئی ان کے فیصلے کو صحیح سمجھ بیٹھتا ہے۔]
"فرائڈ
کے خیال میں جنسیاتی ارتقاء کے تین مراحل ہیں، پہلا مرحلہ خودلذاتی کا ہے جب کہ
بچہ کسی معروض شے کا سہارا لئے بغیر اپنی ہی ذات میں شہوانی لذت محسوس کرتا ہے۔ اس
کے بعد ہم جنسیت کا دور آتا ہے، جب وہ اپنی ہی صنف کے بچوں میں جنسیاتی کشش محسوس
کرتا ہے۔ آخری دور میں وہ مخالف جنس کے
افراد کی طرف مائل ہوجاتا ہے۔" 160
فرائڈ کا
خواب
فرائڈ کے
خیال میں وہ عمل جس سے خواب کا خفی موضوع جلی موضوع میں بدل جاتا ہے "خواب کا
عمل" کہلاتا ہے، خواب کے اس عمل سے پہلے تلخیص کا عمل ہوتا ہے اس کا مطلب یہ
ہے کہ جلی خواب کا موضوع اتنا تفصیلی نہیں ہوتا جتنا کہ خفی موضوع ہوتا ہے گویا یہ
موخرالذکر کی تلخیص کا عمل یہ ہے۔
۱۔ بعض خفی
عناصر حذف کردئیے جاتے ہیں۔ ۲۔ خفی خواب کی بہت سی الجھنوں کا صرف ایک معمولی سا
حصہ جلی خواب میں منقل ہوتا ہے۔ ۳۔ خفی عناصر جو مشابہ ہوں جلی خواب میں اکائی بن
جاتے ہیں۔ اس آخری عمل کے لئے تلخیص کا لفظ زیادہ موزوں ہے تلخیص کے باعث بعض
متضاد خفی خیالات ایک ہی جلی خواب کی صورت متحد ہوجاتی ہیں، اور ہم خواب کی
ترجمانی کے قابل بن جاتے ہیں۔
خواب کا
دوسرا عم اکھاڑ پچھاڑ کا ہے، یہ عمل خواب کے محتسب کا ہے اس سے خواب کا مرکز بدل
جاتا ہے اور خواب نامانوس صورت اختیار کرلیتا ہے، خواب کا تیسرا عمل یہ ہے کہ اس
کی بدولت خیالات و تصورات مرئی پیکروں کی شکلیں اختیار کرلیتے ہیں۔ سبلرز نے بھی
ثابت کیا ہے کہی خواب کی حالت میں مجرد افکار تصویری پیکروں کی صورت میں سامنے
آتے ہیں، خواب میں ثانوی ترتیب بھی ہوتی ہے، جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ موضوع کو
نئے سرے سے مرتب کیا جائے تاکہ اس کا سمجھنا مشکل ہوجائے۔ ثانوی ترتیب سے خواب میں
معنویت پیدا ہوتی ہے، انا کی گرفت میں آجانے سے خواب میں وہ منطقی عنصر پیدا
ہوجاتا ہے جو کہ اصل خواب میں نہیں پایا جاتا۔ مختصراً فرائڈ کے خواب کے نظریے کے تین
اصول ہیں۔
۱۔ خواب کا
عمل اس لئے ہوتا ہے کہ نیند کا تحفظ کیا جائے یہ عمل نہ ہوتا تو انسان کے لئے سونا
مشکل ہوجاتا۔ خواب کا عمل اصل خواہشات اور داردات پر رمزیت کا رنگ چڑھا دیتا ہے۔
جس سے نیند میں خلل نہیں پڑتا۔
۲۔ خواب میں
خفی موضوع ہوتا ہے جو جلی موضوع سے زیادہ سیر حاصل اور مختلف ہوتا ہے۔
۳۔ خواب میں
نا آسودہ خواہشات کی تکمیل عمل میں آتی ہے جو بھیس بدل بدل کر خواب کے موضوع میں
نمودار ہوتی رہتی ہیں۔ خواب کی ترجمانی میں ان کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ 162-164
فرائڈ کہتا
ہے۔
جب کسی شخص
یا شے کا نام بار بار بھول جاتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ہم لاشعوری طور پر
اس سے نفرت کر رہے ہوتے ہیں۔ 169
ژنگ نے اواخر
عمر میں یہ نظریہ پیش کیا کہ ہمارے نفس میں بعض اعمال ایسے بھی ہوتے ہیں جنھیں
"ماورا ذہن" کہا جاسکتا ہے۔ یہ اعمال عضویاتی طور پر دماغ سے وابستہ
نہیں ہوتے اور لاشعوری کیفیت یا بے ہوشی کی حالت میں بروئے کار آتے ہیں۔ ژنگ کا
عقیدہ ہے کہ ایک نہ ایک دن جوہری توانائی اور اجتماعی لاشعور میں اقدار مشترک مل
جائیں گی اور نفس انسانی اور جوہری توانائی کے واحد الاصل ہونے کا ثبوت بھی مل
جائے گا۔ 181
۶۔ ژنگ
۷۔ فلاسفہ
تاریخ
۔۔ اس لئے جو
شخص تاریخی واقعات کو دیانت اور محنت سے دریافت کر کے پیش کرتا ہے وہ مورخ کہلاتا
ہے اور جو مبصر ان حقائق کی ترجمانی کرکے تاریخی حرکت یا تمدنی ارتقا کے قوانین
مرتب کرتا ہے اس فلسفی تاریخ کہا جاسکتا ہے۔ 199
۔۔ ابن خلدون
کے خیال میں بدوی یا صحرائی زندگی انسانی معاشرے میں سبقت کا درجہ رکھتی ہے۔
۔۔ ابن خلدون
نے جن خیالات کا اظھار کیا ہے ان سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عرب نژاد ہونے کے باوجود
صحرا نشین عربوں کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھتا تھا وہ کہتا ہے کہ جہاں کہیں
عربوں نے اپنی سلطنت قائم کیں وہیں تباہی بربادی پھیل گئی۔ عرب فطرتاً حریص اور
طماع ہیں اور رعایا کا مال ورز لوٹنے میں بڑے بے باک ہیں، انھیں تہذیب و تمدن اور
علوم و فنون سے کوئی لگاو نہیں۔ یہی وجہ ہے مشاہیر علماو حکماء اسلام عجمی السنل
ہوئے ہیں۔ وہ اس بات پر سخت رنج و علم کا اظہار کرتا ہے کہ تسخیر مدائن کے بعد سعد
ابن وقاص نے حضرت عمر ابن الخطاب کے کہنے پر ایرانیوں کی ہزاروں بیش قیمت کتابوں
کو دریا میں بہا دیا تھا۔ 203-204
۔۔ (ابن
خلدون) امت محمدیہ کی طبعی عمر کا ذکر کرتے ہوئے وہ یعقوب بن اسحٰق الکندی کا یہ
قول درج کرتا ہے کہ ملت اسلامیہ کی مدّت حیات 693 برس ہے۔ 204
۔۔ یہ بات تو
طے شدہ ہے کہ بوقتِ خوشی و مسرت روح حیوانی پھیلتی اور کشادہ ہوتی ہے اور بوقت غم
و الم اس کے خلاف روح حیوانی بھنچتی اور سُکڑتی ہے۔ 206
۔۔ ابن خلدون
کے خیال میں تیں چیزیں ایسی ہیں جو عمران یا معاشرے سے الگ ہیں لیکن اس پر ہمیشہ
اثر انداز ہوتی رہتی ہیں یعنی اقلیم، جغرافیائی ماحول اور مذہب۔ وہ مذہب کو معاشرے
کا داخلی عنصر نہیں سمجھتا بلکہ اسے ایک خارق عادت چیز سمجھتا ہے جو خارج سے
معاشرے میں دخیل ہوتی ہے۔ 205
۔۔ زمانے یا
تاریخ کے اس دولابی تصور کے ساتھ جبریت کا تصور بھی وابستہ ہے جو ویچو کے علاوہ
ابن خلدون کے افکار سے بھی متباور ہوتا ہے۔ 208
۔۔ بکل نے
آب و ہوا کے اثرات سے بحث کی ہے جو انسان کی طرزِ معاشرت اور اس کے عادات و خصائل
پر ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں وہ مثال کے طور پر کہتا ہے کہ ہندوستان میں قدرتے مناظر
اس قدر ہیبت ناک اور عظیم ہیں کہ ہندوؤں کا ذہن و دماغ ان سے مرعوب ہوکر رہ گیا
اور ان کی پوجا کرنے لگے۔ جس سے ان میں پست ہمتی، رہبانیت، قنوطیت اور وہم پرستی
پیدا ہوگئی۔ یورپ میں قدرتی مناظراتنے شاندار نہیں تھے اس لئے اہل مغرب نے ان کی
پوجا کرنے کی بجائے ان پر قابو پانے کی کوشش کی جس سے ان میں اولی العزمی، خطرات
پسندی، جفاکشی اور مہم جوئی کی صفات پیدا ہوگئیں۔ جغرافیائی ماحول کے انسانی عادات
و خصائل پر اثر انداز ہونے کا یہ تصور صریحاً ابن خلدون سے ماخوذ ہے۔ 208
۔۔ (دانی
لیوفسکی)
اس کے خیال
میں بڑے بڑے تمدن 12 ہیں، مصری، چینی، اشوری، بابلی، فنیقی، کلدانی، ہندی، ایرانی،
صیہونی، یونانی، رومی، عربی، جرمنی، رومانی یا یورپی، میکسیکی، اور پیروی۔
آخرالذکر دونوں تمدن مِٹ چکے ہیں۔ 210
۔۔ سپنگلر
تاریخی عمل کو جبری سمجھتا ہے اور کہتا ہے کہ پر قوم کا خاتمہ مقدر ہوچکا ہے، اس
مقدر کو اس نے
Schicksal
کہا ہے۔ 214
۔۔ جس طرح
بیج مٹی میں غائب ہونے کے بعد دوبارہ نشونما پاکر ننھے اکھوے کی صورت میں سطح زمین
پر اُبھر آتا ہے اسی طرح فرد یا معاشرے یا قوم اور تمدن بھی بعض اوقات اپنی داخلی
دنیا میں غائب ہوکر اور وہاں سے قوت حاصل کرنے کے بعد نمودار ہوسکتے ہیں۔ (ٹوئن
بی)۔ 215
۸۔ کافکا
ایک دن کافکا
نے مجھ سے کہا "میں لڑکپن کے مرحلے سے گزر کر کبھی بھی بالغ نہیں ہوسکوں کا
بلکہ لڑکے سے سیدھا بڈھا کھوسٹ بن جاؤں گا۔ 220
۔۔ اس نے مجھ
سے کہا، بالزاک کا ماٹو ہے میں ہر رکاوٹ کو توڑ دونگا میرا ماٹو ہے، ہر رکاوٹ مجھے
توڑ ڈالے گی۔ 223
۹۔ تخلیق
فن
۔۔ شاعر کے
متعلق یہ خیال عام تھا کہ جب کوئی مافوق الطبع ہستی اس کے دل و دماغ پر متصرف
ہوجاتی ہے تو وہ بے اختیار شعر کہنے لگتا ہے۔ اس کیفیت کو الہام سے تعبیر کرتے
تھے۔ چناچہ سقراط کہتا ہے کہ کوئی بھی عظیم شاعر ہنروری سے شعر نہیں کہتا بلکہ
نزولِ الہام اور وجد و حال کی حالت میں کہتا ہے۔ 230
۔۔ ابن خلدون
کہتا ہے کہ شراب اور عشق شعر گوئی کے لئے موثر ثابت ہوتے ہیں۔ 231
۔۔ اس کے ایک
شاعر دوست نے ایک خط لکھا کہ مجھ پر فنی تخلیق کا سرچشمہ خشک ہوگیا ہے۔ شلر اُس کے
جواب میں لکتھا ہے:
"میرے
خیال میں اس کی وجہ یہ ہے کہ تمہارا تفکر تمہارے وجدان پر حاوی ہوگیا ہے ذہن و قلب
میں ہجوم کرکے آتے ہوئے خیالات و واردات کا سختی سے جائزہ لیا جائے تو عمل تخلیق
کو لازماً نقصان پہنچتا ہے۔ ہر تنہا خیال بے رنگ اور بے کیف ہوتا ہے اور دوسرے
خیالات کی رو میں آکر اہمیت و شدت اختیار کرتا ہے۔ تفکر اس خیال کا جائزہ نہیں لے
سکتا جب تک کہ وہ اُسے دوسرے خیالات سے مربوط کر کے اس کا مطالعہ نہ کرے۔ میرے
خیال یہ ہے کہ تخلیق کے وقت تفکر خیالات کا سختی سے محاسبہ کرنا چھوڑدیتا ہے اور ہر
اس طرح خیالات و واردات بے ساختہ ہجوم کر آتے ہیں۔ اس کیفیت کو مفکر اور ناقد
جنون اور دیوانگی سے تعبیر کرتے ہیں، لیکن فی الاصل یہی تخلیقِ فن کا مرکزی نقطہ
ہے تم اپنے خیالات اور واردات کا کڑا محاسبہ کرتے ہو اور ان کی بے ساختہ ہجوم
آوری میں مخل ہوتے ہو اسی لئے تخلیق کی شکایت کرتے ہو"۔ 232
۔۔ فرائڈ نے
تخلیق فن کے عمل کو روز خوابی کے مماثل
قرار دیا ہے۔ 232
۔۔ ارسطو نے
کہا تھا کہ ہر بڑا شاعر مراق، مالیخولیا میں مبتلا ہوتا ہے۔
فرائڈ کہتا
ہے کہ ہر فن کا نرگسیت کا مریض ہوتا ہے۔ 232
۔۔ فن کار کی
اپنی کوئی شخصیت نہیں ہوتی بلکہ وہ لاشعورکی اندھی قوتوں کے ہاتھوں میں محض ایک
آلہ کار کی حیثیت رکھتا ہے۔ چناچہ ژُنگ کہتا ہے کہ گوئٹے نے فاؤسٹ کو تخلیق نہیں
کیا بلکہ فاؤسٹ نے گوئٹے کو خلق کیا تھا۔ 233
۔۔ ایک پاگل
اپنی محرومیوں اور حسرتوں کی تلافی خواب و خیال کی دنیا میں کرسکتا ہے اور ایک فن
کار آرٹ کی صورت میں یہ تلافی کرتا ہے اور میر تقی میر کی طرح دوسروں کو ابھی
اپنی محرومیوں میں شریک کر لیتا ہے۔ 233
۔۔ حقیقت یہ
ہے انسانی شعور ایسی اکائی ہے جسے مختلف طبقات یا حصوں میں تقسیم نہیں کیا جا
سکتا۔ ایک فلسفی یا ایک سائنسدان کے افاکرخواہ کتنے ہی مجرّد اور بسیط ہوں جذبہ و
احساس سے عاری نہیں ہوتے، اور ایک فن کار کے جذبات خواہ کتنے ہی پرجوش ہوں تفکر و
تعقّل کے حامل ہوتے ہیں۔ فرق کمی بیشی کا ہوتا ہے۔ عدم و وجود کا نہیں ہوتا۔ 233
۱۰۔ فن
اور شخصیت
۔۔ کردار
معاشرتی اور سیاسی ہنگاموں میں ڈھلتا ہے جبکہ شخصیت تفکر و تعمق سے صورت پذیر ہوتی
ہے۔ جس شخص کا کردار محکم ہوگا وہ لازماً
خارج پسند ہوگا، مگر شخصیت کے لئے خارج پسند ہونا ضروری نہین ہے۔ ہم جوشِ عمل کو
کردار کا بنیادی عنصر قرار دے سکتے ہیں، اور تفکر کو شخصیت کا مرکزی نقطہ شمجھا جا
سکتا ہے۔ اصحابِ کردار ایک رخے ذہن کے مالک ہوتے ہیں۔ ان کے افکار و احساسات میں
وہ بالیدگی اور زاویہ نظر میں وہ کشادگی نہیں ہوتی جو شخصیت سے خاص ہے۔ 237-238
۔۔ فن کار کی
شخصیت کی ایک اور خصوصیت بھی قابلِ ذکر ہے، آلڈس ہکسلے نے اسے ابلیسیت کا نام دیا
ہے۔ والٹر کا مشہور قول ہے، "آرٹ
میں کامیاب ہونے کے لئے ضروری ہے کہ تمہارے اندر ابلیس ہو۔"۔ اس میں شک نہیں
کہ ہر فن کار کی طبیعیت میں بغاوت کا عُنصر موجود ہوتا ہے۔ 242
[میرے نزدیک
اس سے مراد ابلیس کی پیروی کرنا نہیں ہے، بلکہ
اس سے مراد
زمانے کے 'لوگوں کی نگاہ' سے نہ دیکھنا ہے۔
مطلب ایک فن
کار ہر چیز کو شروع سے اُس کو اصل شکل میں دیکتھا ہے، دیکھنے کی کوشش کرتا ہے،
بجائے کہ لوگوں نے جو خیال و فکر اُس چیز کے متعلق گھڑ لی ہے، کی اندھا دھن پیروی
کرے۔
پر فن کار کو
بھی چاہییہ کہ وہ ہر چیز کا بلاوجہ انکار اور ضد نہ کرے، اگر زمانے نے کسی چیز کے
متعلق صحیح رائے پیدا کی ہے تو اس میں زمانے کا ساتھ دینے میں ہی بھلائی ہے۔
اس حوالے سے
فن کار میں ابلیسیت کا مادہ شاید اس وجہ سے بھی ہوتا ہے کہ فن کار دوسروں سے منفرد
بننا چاہتا ہے اور اس حساب سے اگر سبھی لوگ "صحیح" ہوں تو فن کا
"غلط" کو منتخب کرتا ہے!۔ ابڑو]
۱۲۔ فن
اور کاریگری
۔۔ فلاطینوس
نے اپنی تالیف 'اینڈز' میں کہا ہے:
"فرض
کرو پتھر کی دو سلیں ہیں ان میں سے ایک کو تو کسی سنگ تراش نےء نہیں چُھوا اور
دوسری میں سے ایک ماہر سنگ تراش نے کسی دیوتا یا آدمی کا مجسمہ بنایا ہے جس میں
اپنے اعجاز فن سے حُسن و جمال کی روح پھونک دی ہے۔ خیال رہے کہ یہ پتھر جسے آرٹ
نے حسین صورت بخشی ہے پتھر کی حیثیت سے خوبصورت نہیں سمجھا جائےگا۔ اس طرح تو ہر
پتھر کو حسین کہنا پڑےگا۔ بلکہ اُس صورت یا خیال کے باعث حسین ٹھرےگا جسے فن کار
نے اس میں داخل کیا ہے، یہ صورت اس پتھر میں پہلے سے موجود نہیں تھی بلکہ اس میں
منتقل ہونے سے پہلے فن کار کے ذہن میں موجود تھی۔" 247
۔۔ وہ لوگ
آجکل کے "فن کاروں" کی طرح چلنے سے پہلے بھاگنے کی کوشش نہیں کرتے نہ
"کچا ہونے سے پہلے پک جانے" کا حوصلہ رکتھے تھے۔ 248
۔۔ بعض لوگ کاریگری
یا مہارت اصولِ فن ہی کو فن کی غایت اولٰی سمجھ لیتے ہیں حالانکہ جہاں اصول فن کی
تکمیل ہوتی ہے وہاں تخلیق فن کی ابتداء ہوتی ہے۔
کاریگری کو
منتہا و مقصود سمجھنے والوں کے زُمرے میں تمام دوسرے درجے کے "فن کار"
آجاتے ہیں۔ 248
۔۔ یاد رہے
دوسرے درجے کا ادب ادب نہیں ہوتا اور دوسرے درجے کی شاعری کو شاعری نہیں کہا جا سکتا۔ ادب اور فن صرف اول
درجے ہی کا ہوتا ہے۔ 249
۱۳۔
مطالعہ فلسفہ
۔۔ جس شخص کا
نظریہ کائنات اور زندگی کے متعلق محدود ہوگا وہ روپیہ سمیٹنے کو اپنی زندگی کا
مقصد واحد سمجھے گا اور جلبِ زر کے کوشش میں کسی قسم کے جبر و استحصال سے دریغ
نہیں کرے گا۔ 255
۔۔ جو لوگ
جذبات کے غلام ہیں اور ان کی جبلتوں پر عقل و خرد کا تصرف نہیں ہے وہ حیوانات کی
زندگی گزار رہے ہیں۔ 257
۔۔ جس ملک
میں فلسفے کو غیر اہم سمجھا جائے اس میں سائنس کا پنپ سکنا امرِ محال ہے۔ اسلامی
ممالک میں سائنس کی ترقی نہ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان میں اہلِ علم فلسفے
کو شروع سے مذہب کی کنیز سمجھتے رہے ہیں۔ 258
۔۔ البیرونی
کہتا ہے،
"حکما
کو دولت سے محرومی کا احساس ہوتا ہے لیکن اُمراء کو علم و دانش سے محرومی کا مطلق
احساس نہیں ہوتا۔" 259
________________________________________
________________________________________