شاه عبدالطيف ڀٽائي
۔۔ شاہ صاحب علوم متداولہ سے بخوبی واقف تھے اور اس روایت میں بڑی صداقت معلوم ہوتی ہے کہ مثنوی مولانا روم اور عطارد و حافظ کے دیوان برابر ان کے مطالعے میں رہتے تھے۔ شاہ لطیف نے اپنے رسالے میں مولانا روم کی تقلید پر بڑا زور دیا ہے۔ 32
۔۔ ورنہ شاہ لطیف کا سا ذہین اور ذکی الحس شاعر جس نے فرنگی سوداگروں تک کا تذکرہ کیا ہے ملکی واقعات کو نظر انداز نہیں کرسکتا تھا۔ 34
۔۔ شاہ لطیف ایک آزادانہ منش درویش تھے۔ شاعری ان کا ذریعہ معاش نہ تھی وہ ۔۔۔ 34-35
۔۔ شاہ لطیف کو اس کی قطعاً پرواہ نہیں کہ ان کی داستانوں کے کردار ہندو ہیں یا ملسمان وہ تو فقط یہ دیکھتے ہیں کہ یہ شخصیتیں حقیقت کے اظہار میں کیا کردار ادا کرتی ہیں۔ خودشناسی اور عرفانِ ذات کی کس منزل میں ہیں۔ 36
۔۔ اس کے برعکس شاہ ۔۔۔ 40
۔۔ انسان جبتک خودشناسی کے راز ۔۔۔ 41-42
۔۔ ۔۔۔ ایسا مرقع جس سے تاریخ سندھ کی کتابیں خالی ہیں ۔ 43
۔۔ تہذیبی تصادم سندھ کی خصوصیت نہیں ہے بلکہ جس ملک میں بھی مختلف تہذیبی وحدتیں یکجا ہوگی وہاں تصادم کا ہونا قدرتی امر ہے۔ 45
۔۔ اس تہذیبی امتزاج کا تجربہ سب سے زیادہ سندھ کو ہے ۔۔۔
دراصل سندھی تہذیبوں کی میل جول سے ہی اٹھا ہے۔ 47
۔۔ دوسری جنگ عظیم میں فاشزم کی شکست ۔۔۔ 170
____________________
No comments:
Post a Comment