FIKRism

Tuesday, July 6, 2010

RTQ - Ch. 6 - IRAN

روایاتِ تمدّنِ قدیم
علی عباس جلالپوری

Align Right


باب۔ ۶
ایران:

۔۔ داریوش اول نخامنشی خاندان کا عظیم ترین بادشاہ سمجھا جاتا ہے، اس کے زمانے میں گندھارا، سندھ ور کشمیر کے کچھ علاقہ ایرانی سلطنت میں شامل کرلئے گئے۔ 153


ایرانی خاص بادشاہ:
کوروش اعظم ۔۔ کمبوجیہ
ہخامنشی: داریوش اول ۔۔ خشارشیا ۔۔ داریوش سوم
داریوش سوم نے سکندر سے شکست کھائی اور ہخامنشی خاندان کا بھی خاتمہ ہوگیا۔
ساسانی: اُردشیر (222ء) ۔۔ شاپور اعظم ۔۔ انوشروان (جمشید) ۔۔ خسروپرویز ۔۔ یزدگرد


۔۔ شاہانِ ایران میں فراعین مصر کی طرح بعض اوقات اپنی حقیقی بہنوں اوربیٹیوں سے نکاح کرلیتے تھے۔ 157


صائبیت، مجوسیت:
۔۔ ایرانیوں کے مذہب کو مزدائیت یا مجوسیت کہا جاتا ہے مجوسیت سے پہلے صائبیت یا ستارہ پرستی کا رواج تھا جو بابلیوں کا مذہب تھا۔ 162


مجوسیت کے بنیادی اصول:
۔۔ مجوسیت کے بنیادی اصول تین ہیں؛ ہمتا (پاک خیال)، ہختا (پاک الفاظ)، اور ہووورشتا (پاک عمل)۔ اس کی رُو سے انسان مادی اور روحانی عناصر سے مل کر بنا ہے، جسم فانی ہے اور روح غیر فانی ہے۔ عقل و خرد انسان کی سب سے اعلیٰ اور ارفع قوت ے، اس کے بعد دینا (ضمیر) (حاشیہ: دے نا: یہ لفظ عربی میں دین بن گیا) اردوان(روح) اور فروّشتی (ہمزاد) کی روحانی قوتوں کا درجہ ہے۔ انسان فاعل مختار ہے اور اپنے اعمال کے لئے جوابدہ ہے۔ ۔۔ 166


7 and 16
۔۔ ارتا خشرشیا کے زمانے میں وہ ربّ الافواج بن گیا۔ ہر مہینے کا ساتواں اور سولھواں دن اس کا مقدس دن تھا۔ 168


ایرانی علوم در دریا و آگ:
۔۔ ایرانی قدیم کے علوم و فنون کے ذخیرے بہت کچھ جنگ و جدال میں تلف ہوگئے۔ یہ تباہی اِس قدر مکمل تھی کہ ساسانی عہد سے ایک شعر بھی ہم تک نہیں پہنچ سکا۔ تسخیرِ ایران کے بعد سعد بن وقاص نے حضرت عمر کے کہنے پر ہزاروں کتابیں جو مدائن کے شاہی کُتب خانوں سے دستیاب ہوئی تھی دریا میں بہادیں یا آگ میں پھکودیں۔ 173


۔۔ "موجودہ اشتراکیت اور سوشلزم سے مزدک کی تعلیم کو جو چیز جدا کرتی ہے وہ مزدک کا مذہبی ذہن ہے۔ " 172


انوشروان۔۔ کلیلہ دمنہ ۔۔ شطرنج:
۔۔ شاہان ایران علوم و فنون کے سرپرست تھے ان میں انوشرواں خاص طور سے بڑا علم دوست تھا۔ اُس نے اپنے خاص وزیر برزویہ کو ہندوستان بھیجا جہاں سے وہ کلیلہ دمنہ کا قصہ اور شطرنج کا کھیل لایا۔ ۔۔۔ 174


۔۔ بیل اور شیرببر کے علامتی نشانات خالص ایرانی ہیں۔ 176


۔۔ ایرانی تمیزو شائستگی کے پیکر سمجھے جاتے تھے۔ حد یہ تھی کہ جب بادشاہ کسی کو سزائے موت دیتا تو مجرم جُھک کر شکریہ ادا کرتا کا بارے جہاں پناہ نے میری ذات کو درخورِ توجہ تو سمجھا۔ ۔۔ 177
____________________________________

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...