FIKRism

Sunday, March 13, 2011

Peshani - پیشانی

پیشانی!۔

انسان کی ارتقاء میں پیشانی ایک اہم حیثیت رکھتی ہے۔ کیونکہ انسان جانوروں میں سے مقدم اپنے دماغ کی وجہ سے ہی ہے۔ اور انسان کی ارتقاء حقیقۃً اس کے دماغ کی ارتقاء ہے۔ لاکھوں سال پہلے کے انسان نماؤں کا دماغ چھوٹا اور اس مناسبت سے ہوتا تھا کہ ان کے چھہرے آگے کو نکلے ہوتے تھے اور پیشان یا تو نہیں ہوتی تھی یا بالکل پیچھے کے طرف مُڑی ہوئی۔
مذہبی مناسبت سے اس کو دیکھیں تو یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ آیا ان کے پاس نماز یا سجدے جیسے کسی چیز کا کوئی تصور تھا یا نہیں۔
اسی مناسبت سے یہ قیاس کرنا آسان بن جاتا ہے کہ جب سے انسان کی پیشانی سپاٹ ہونے لگی، تو اُس پر احکامات کی پاسداری فرض ہوگئی اور وہ سجدہ بھی کرنے لگا۔ کیونکہ دماغ ہی نے انسان کو شعور بخشا اور انسان بنایا، اور پیشانی اس کے دماغ کے بڑھاؤ اور باشعوریت کی نشانی ہے! جس کو وہ شکرانے کے طور پر زمین پر رکھتا۔

ویسے سجدے کے سات اعضاء ہی، جو انسان سجدے میں رکھتا، انسان کی ارتقاء کے اہم حصے ہیں۔
پیشانی، ھاتھ، گھٹنے اور پیر۔

پیشانی کے بعد ھاتھ ہی نے انسان کو ارتقائی طور پر وہ عزت بخشی جس سے آج کا انسان زمین پر قدم رکھ کر مریخ پر اپنے نشانات چھوڑتا۔ اور ٹانگیں جنھوں نے انسان کو سیدھا کھڑا کیا۔ جس کی وجہ سے ایک تو وہ صحیح معنی میں انسان بنا دوسرا انھوں نے ہاتھوں کی مدد کی تاکہ اب وہ آزاد ہوکر ضروری کام سرانجام دے سکیں۔ یعنی جو انسانی ارتقاء کے اہم اعضاء وہی سجدے کے سات اعضاء!۔


۔۔ اپنے مخالفین سے بحث میں ڈیویؤا نے یہ ثابت کردیا کہ کہ کھوپڑی کسی طرح بھی گبن کی نہیں ہوسکتی کیونکہ اس کے پیشانی نہیں ہوتی اور پیتھیکنتھرپس کی ہوتی ہے۔  
۔(انسان بڑا کیسے بنا۔ پیج 48
Gibbon*, Pithecanthropus*


۔۔ نینڈرتھل آدمی کے خدوخال میں دو چیزیں یعنی اس کی پیشانی اور ٹھوڑی اس کو ہم سے مختلف کردیتی ہیں۔ اس کی پیشانی پیچھے کی طرف دبی ہوئی ہے اور دراصل ٹھوڑی تو بالکل غائب ہے۔
۔(انسان بڑا کیسے بنا۔ پیج۔ 106 


۔۔ اشارات اور جذبات میں جتنا اضافہ ہوتا گیا اتنا ہی اکثر "سگنلوں کے بارے میں سگنل" دماغ کو پہنچنے لگے اور "مرکزی اسٹیشن" کا کام بڑھنے لگا جو انسانی کھوپڑی کے پیشانی والے سرے میں ہوتا ہے۔
۔ (انسان بڑا کیسے بنا۔ پیج۔ 113 


۔۔۔ اور سجدہ کا خاص مقام بھی یہی پیشانی ہے!۔


۔۔ دماغ کا اگلا حصہ: یعنی پریفرنٹل کارٹیکس، آئی کیو میں ایک اہم حیثیت رکھتا ہے۔ اس حصہ کو سورہ علق آیت ۱۵ میں 'ناصیہ' یعنی پیشانی (فورھیڈ) کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے۔
"اگر وہ اپنے کام سے دستبردار نہ ہوگا تو ہم اس کی ناصیہ پکڑ کر عذاب کی طرف لے جائیں گے۔"
اتفاق سے یہی وہ حصہ ہے جو سجدے میں زمین پر لگتا ہے سجدے کی حالت میں اس حصے میں خون کا بہاؤ بڑھ جاتا ہے جس سے اس کی نشوونما اور فعالیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس لئے طویل سجدے نہ صرف بارگاہ الٰٰہی میں مقبول ہیں بلکہ دنیاوی میدان میں بھی انسان کی ذہانت میں اضافہ کرکے منافع کا سبب بنتے ہیں۔ یوگا کی جدید مشقوں میں لوگوں کو الٹا ہونے کی ایکسرسائز کروائی جاتی ہے تاکہ ان کے دماغ کے اس حصے کا خون کا بہاؤ کچھ دیر کے لئے بڑھ جائے۔

(ڈاکٹر محمد علیم شیخ۔ خودشناسی، قسط ۹۔ ماھنامہ طاہرہ کراچی، فروری ۲۰۱۰)


لگتا ہے کہ نیئنڈرتھل اور کرومیگنن آدمی ایک لاکھ سال پہلے آفریکا یورپ اور ایشیا میں موجود رہے تھے۔ نیئنڈرتھل لوگ اگرچہ ہومیوسیپیئین سمجھے جاتے ہیں پر وہ آج کے انسانوں کے مقابلے میں دیکھنے میں مختلف تھے۔ ان کی چھاتیاں تنگ اور پیشانیاں چھوٹی ہوتی تھیں اور دماغ قدراً بڑے تھے۔ نیئینڈرتھل لوگ چالیس ہزار سال پہلے ختم ہوچکے پر کیوں؟ اس کی خبر کسی کو نہیں۔ کرومیگنن لوگ جن میں سے شاید آج کے انسان بنے ہیں، یہ ہی اُس وقت کے مکھیہ قسم کے لوگ سمجھے جاتے ہیں۔
۔[از سندھی ترجمہ۔ قومن جی عالمی تاریخ۔ سندھیکا۔ پیج۔ ۱۸]۔

___________________

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...