خاندان، ذاتی ملکیت اور ریاست کا آغاز
فریڈرک انگلز
اقتباسات۔ ۳
۔(شرح و نقد)۔
کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے رومولس نے الگ الگ افراد کو ایک ہیکٹر فی کس کے حساب سے زمین بانٹی تھی۔ 128
پرانے گن دستور کو جس انقلاب نے ختم کیا وہ کب اور کیوں اور کیسے ہوا تھا۔ اس سلسلے میں یقین کے ساتھ ہم صرف ایک بات کہہ سکتے ہیں اور وہ یہ کہ اس انقلاب کی تہہ میں پلے بئیین اور پوپولس کی کشمکش کام کر رہی تھی۔ 136
انگریز سامراج
آئرلینڈ نے جہاں انگریزوں نے زبردستی گن نظام کو برباد کرڈالا، وہ آج بھی کم سے کم نیم شعوری طور پر لوگوں کے ذہن میں زندہ ہے۔ سکاٹ لینڈ میں وہ گذشتہ صدی کے وسط تک پوری توانائی کے ساتھ پایا جاتا تھا اور وہاں بھی اسے صرف انگریزوں کے ہتھیاروں، قوانین اور عدالتوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے ہیں۔ 139
ویلز
مرد کے منہ سے بدبو آنا بھی طلاق دینے کی ایک کافی وجہ سمجھی جاتی تھی۔ 141
وقتی شادیوں کا وہاں (آئرلینڈ، ویلز) بھی رواج تھا۔ 141
ماموں اور بھانجے کا خون کا رشتہ باپ اور بیٹے کے رشتے سے زیادہ مقدس اور قریبی ہے۔ (تاسیت، میکسیکو، یونان)۔ 145
پرانے نارس گیت
۔"وولوسپا" (Voluspa).
یعنی وہ گیت جس میں دیوتاؤں کی آخری گھڑی اور قیامت یعنی دنیا کی تباہی کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس کا ایک ٹکڑا اس سے بھی زیادہ فیصلہ کن ہے چونکہ وہ آٹھ سو برس بعد کی چیز ہے۔ اس حصے میں جسے "غیب داں عورت کا کشف" کہا گیا ہے اور جس میں جیسا کہ بینگ اور بگے نے اب ثابت کردیا ہے، عیسائیت سے عناصر بھی ملے ہوئے ہیں، بتایا گیا ہے کہ قیامات سے پہلے عام فسق و فجور اور برائی اور بداخلاقی کا ایک زمانہ آئے گا۔ اس زمانے کا حال بیان کرتے ہوئے ایک جگہ کہا گیا ہے:
"بھائی بھائی ایک دوسرے سے جنگ کریں گے اور ایک دوسرے کا خون بہائیں گے اور بہنوں کی اولاد خون کی قرابت داری کے تعلق کو توڑے گی۔" ۔ 146
غیرت
مادری حق کی ایک اور نشانی تھی جو کہ اس وقت تک مٹنے لگی تھی اور جو روم کے باشندوں کے نقطہ نظر سے سمجھ میں نہ آنے والی بات تھی، وہ یہ کہ جرمن لوگ عورتوں کی بڑی عزت کرتے تھے۔ جرمنوں سے اگر کسی وعدے کو پورا کرانا ہوتا تھا تو اس کا سب سے اچھا طریقہ یہ سمجھا جاتا تھا کہ شریف خاندانوں کی لڑکیوں کو ضمانت کے طور پر رکھ لیا جائے۔ جنگ کے وقت جرمنوں کی ہمت اور کسی چیز سے اس قدر جوش میں نہیں آتی تھی جتنی اس خوفناک خیال سے کہ اگر انہیں شکست ہوئی تو دشمن ان کی بہو بیٹیوں کو پکڑ لے جائیں گے اور اپنی باندیاں بنالیں گے۔ جرمن لوگ عورت کو مقدس مانتے تھے اور سمجھتے تھے کہ اس میں مستقبل کو دیکھ لینے کی طاقت موجود ہے۔ چناچہ وہ سب سے اہم معاملوں میں عورتوں کی صلاح پر عمل کرتے تھے۔ 147
۔[ایسی 'عزت' ہمارے معاشرے میں بھی رائج ہے، لوگ اپنی عورتوں کو اپنے ہی ہاتھوں سے مارنا تو پسند کریں گے پر دشمن کے ہتھے چڑھنے کو بالکل گوارا نہیں کریں گے، اور یہ بات عربوں میں بھی تھی جس کی مثال جنگ احد میں دیکھی جا سکتی ہے جب ابوسفیان نے تقریباً پورے مکّہ کو (عورتوں بچوں سمیت) میدانِ جنگ میں کھڑا کر دیا، تاکہ لڑنے والے مرد اپنے بیوی بچوں کے سامنے پیچھے بھاگنے اور بزدلی کا مظاہرہ نہ کرسکیں، اور اس جنگ میں مسلمانوں کی شکست کھانی پڑی۔ باقی اس سوچ کے علاوہ ہم اور عربوں میں عورتوں کو کوئی عزت نہ دی جاتی چہ جائیکہ صلاح مشورہ میں پیش پیش رکھنا!۔
ایسا کیوں ہوتا ہے، کچھ کہنا بہت مشکل ہے، ایک قیاس یہ ہے کہ شاید جن معاشروں میں سیکس کی کھلے عام چھوٹ نہیں ہوتی اور جن معاشروں میں ماضی میں آزادنہ جنس روی نہیں پائی جاتی تھی، شاید وہاں ایسی سوچ کو پیدا ہونا ممکن ہو۔]۔
تقریباً سبھی قوموں میں شروع میں پورا گن اور بعد میں قدیم کمیونسٹی خاندان برادریاں مل کر کھیتی کرتی تھیں۔ ۔۔۔ بعد میں زمین تقسیم کرنے کا رواج ہوا اور تھوڑے تھوڑے دنوں بعد الگ الگ خاندانوں میں زمین نئے سرے سے بانٹ دیا جاتا تھا۔ 148
۔[ہمارے دیہاتی معاشرے میں بھی بہت کم صورت میں صحیح پر یہ نظام موجود ہے اور اس کا سبب خود اس کا نتیجہ ہے، جب مشترکہ خاندان، مشترکہ زمین پر مشترکہ محنت کرتے تو پھر اس کا حاصل شدہ پیداوار بھی مشترکہ طور ضرورت کے مطابق بانٹی جاتی۔۔
گن نظا کی بچی کھچی نشانیاں ہمارے معاشرے کے گاؤں گوٹھوں میں اب بھی چلی آتی، ایک گوٹھ کے باشندے عموماً ایک مورثِ اعلیٰ (مرد) کی اولاد ہوتے اور اُسی مورثِ اعلٰی کے نام سے گوٹھ کا نام بھی ہوتا، ان کی زمینیں چاہے الگ الگ خاندانوں کے نام پر ہی کیوں نہ ہوں پر وہ سب مرد، عورتیں، چھوٹے بڑے مشترکہ طور پر ان پر محنت کرتے۔]۔
جب گھرانے کے ممبروں کی تعداد اتنی بڑھ گئ کہ پیداوار ی اس وقت جو حالت تھی اس میں مل کر کھیتی کرنا ناممکن ہوگیا، تب کہیں ان گھریلو برادیوں کا شیرازہ منتشر ہوا۔ پہلے جو ساجھے کے کھیت اورچراگاہیں تھیں، انہیں ان الگ الگ گھرانوں میں جو اس وقت تک بن چکے تھے، مروجہ طریقے کے مطابق بانٹ دیا گیا۔ شروع میں یہ بٹوارہ ایک مقررہ وقفے کے بعد بار بار ہوتا تھا، پھر کہ ایک بار ہمیشہ کے لیے ہوگیا لیکن جنگل، چراگاہ، ندی نالے اور تالاب سبھی کی مشترکہ ملکیت رہے۔ 150
غلامی کا خاتمہ
لیکن غلامی کا دم توڑتا ہوا نظام اب بھی اتنا جاندار تھا کہ پیداوارکا تمام کام بظاہر غلاموں کا کام معلوم ہوتا تھا جو آزاد رومنوں کے شایان شان نہیں تھا اور اب ہر شخص ایک آزاد رومن تھا۔ ایک تو وجہ کہ تھی جس سے غیر ضروری طور پر غلاموں کی تعداد میں اضافہ ہوا اور یہ غلام چونکہ ایک بوجھ بن گئے تھے اس لیے انہیں آزاد کر دیا گیا۔ دوسری طرف کولونی اور بھک منگے آزادوں کی تعداد بڑھی۔ 159
۔[۔۔ اور اس طرح بوجھ بنے غلاموں کو آزاد کرکے پھر انہیں غلام بنا دیا گیا، پر اب کی بار ان کی کفالت کا بوجھ اٹھانے کے بجائے محض تھوڑی سی قیمت پر اور وہ بھی 'آزادی" کے نام پر، اور جو طبقہ آگے چل کے پرولتاریہ بنا! غلامی کا خاتمہ سرمایہ دارانہ نظام کا ایک سوچا سمجھا منصوبہ کہا جا سکتا ہے! اس لیے جو غلامی کے خاتمہ کی بات کرتے اور پرولتاریہ پر ڈھالے گئے ظلم پر ہمدردی کا اظہار بھی، وہ حقیقۃً دو متضاد باتیں کرتے۔ وہ 'سبب' پر لعنت کرتے پر 'نتیجہ' کہ گلے لگاتے۔ یعنی لعنت سے پیدا شدہ نتیجے کو گلے لگاتے، اب لعنت سے پیدا شدہ نتیجہ لعنتی ہی ٹھیرےگا!۔۔۔ یا پھر ہم یہ کہیں کے 'سبب'(غلامی) حقیقۃً لعنت ہی نہ تھا۔ ۔]۔
Gau
فرینک لوگوں کی سلطنت کو لیجیے۔ یہاں نہ صرف رومی ریاست کا وسیع علاقہ فاتح سالین جاتی کو مل گیا تھا بلکہ زمینکے تمام ایسے بہت بڑے بڑے قطعات بھی، خاص کر بڑے بڑے جنگل جو بڑے یا چھوٹے حلقے (گاو) اور مارک برادریوں میں نہیں بانٹے گئے تھے، انہیں مل گئے تھے۔ 161
جرمن ایک نہایت باصلاحیت آریائی قبیلے کے لوگ تھے۔ 165
حاکم و محکوم
گن نظام کی عظمت اور اسی کے ساتھ اس کی کمزوری بھی یہی تھی کہ اس میں نہ کوئی حاکم تھا اور نہ کوئی محکوم۔ 167
مویشی کرنسی
گلہ بان قبیلے تبادلے میں اپنے ہمسایوں کو جو خاص چیز دیتے تھے وہ مویشی تھے ۔۔۔ مویشی سے زر یا روپیہ کا کام لیا جانے لگا تھا۔ 169
جب مویشی پالنے، کھیتی اور گھریلو دستکاری غرضیکہ سبھی شاخوں میں پیداوار بڑھی تو انسان کی قوت محنت کو قائم رکھنے کے لیے جتنا پیدا کرنے کی ضرورت تھی، وہ اس سے زیادہ پیدا کرنے لگی۔ ساتھ ہی گن یا گھریلو برادری کے یا الگ الگ خاندان کے ہر ممبر کو روز جتنا کام کرنا پڑتا تھا، اس میں بھی اضافہ ہوگیا۔ اس لیے ضرورت محسوس ہوئی کہ کہیں سے اور استعداد محنت حاصل کی جائے، وہ جنگ سے حاصل ہوئی۔ جنگ میں جو لہگ پکڑے جاتے تھے اب ان کو غلام بنایا جانے لگا۔ 170
ہم یہ آج تک نہیں جان سکے ہیں کہ جانوروں کے ریوڑ اور جھنڈ کب اور کیونکہ قبیلے یا گن کی مشترکہ ملکیت سے نکل کر الگ الگ خاندانوں کے سرداروں کی ملکیت بن گئے۔ ۔۔ مویشی کے گلوں اور دولت کے اور دوسرے نئے سامان کی بدولت خاندان میں ایک انقلاب نمودار ہوا۔ روزی حاصل کرنا ہمیشہ مرد کا کام ہوا کرتا تھا۔ وہی ذرائع زندگی پیدا کرتا تھا اور وہی ان کا مالک ہوتا تھا۔ 170
عورت کی آزادی
عورتوں کی آزادی اور مردوں کے ساتھ ان کی مساوات اس وقت تک ناممکن ہے اور ناممکن رہےگی جب تک عورتوں کو سماجی پیداوار کے کام سے الگ رکھ کر خانہ داری کے کام تک جو کہ نجی کام ہے، محدود رکھا جائےگا۔ عورتوں کی آزادی اسی وقت ممکن ہوگی جب عورتیں ایک بڑے سماجی پیمانے پر پیداوار میں حصہ لے سکیں گی اور جب گھریلو کاموں پر انہیں بہت کم دھیان دینا پڑے گا اور یہ اب محض بڑے پیمانے کی صنعت کی وجہ سے ممکن ہوا ہے، جو نہ صرف یہ کہ عورتوں کے لیے بہت بڑی تعداد میں پیداوار کے کام میں حصہ لینے کی گنجائش پیدا کرتی ہے، بلکہ سچ پوچھئے تو اس پر زور دیتی ہے اور اس کے علاوہ نجی گھریلو کام کو بھی ایک عام صنعت بنانے کی کوشش کرتی ہے۔ 171
۔[اگر میرا گھر 'ایک عام صنعت' بن جائے تو ایسی کمیونزم مجھے نہیں چاہیے!
اگر عورت کی آزادی یہ ہے کہ فیکٹریوں میں کام کرے، تو ایسے آزادی ۔۔۔ اب یہ عورتوں پر چھوڑا ہوا ہے ۔۔۔ انہیں کونسی آزادی پسند ہے!؟
اور اگر کمیونزم سے مراد یہ ہے کہ مرد بھی فیکٹریوں میں کام کرے اور عورت بھی فیکٹریوں میں کام کرے، عورت گھریلو کام پر کم دھیان دے، ۔۔۔ تو مطلب انسان کی کوئی نجی زندگی بچے گی ہی نہیں۔ کمیونزم معاشرہ میں مرد اور عورت کا کام محض صبح اٹھ کر فیکٹریوں میں کام کرنے کے علاوہ کچھ نہ رہےگا۔ بچے 'بچہ گھروں' میں پلہ کریں گیں، کھانا 'کھانا گھروں' میں ملا کرےگا، سیکس جس سے چاہے کرو (اگر وہ راضی ہوجائے)، اور بس بتائے گئے رولس کو فالو کرتے ہوئے روبوٹس کی طرح 'کام' کرو۔۔۔ یہ ہے کمیونزم۔]۔
۔[پہلے آزادی اور غلامی کا کانسیپٹ ہوا کرتا تھا، اور اب صرف اور صرف 'غلامی' بچےگی، (نہ اختلاف رائے کی گنجائش، اور ہر بچہ پیدا ہوتے ہی کمیونسٹ!)۔۔ ہاں اپٓ اسے 'آزادی' بھی کہ سکتے ہیں، کیوں کہ جدلیاتی تھیوری کی رو سے چیزوں کو اُن کی ضد سے پہچانہ جاتا ہے، جب 'ضد' ہی کو مار ڈالا جائیگا تو اب بچی ہوئی کیفیت کی پہچان ناممکن ہوجائگی۔۔ ۔۔
اور یہاں سے یہ بھی پتہ چلتا کہ 'غلامی' کا کانسپٹ اس لیے دیا گیا تھا تاکہ 'آزادی' کی ہمیشہ پہچان و قدر رہے، اگر غلامی کو ختم کردیا گیا تو وقت گذرنے سے قوموں کی قومیں غلام بن جائیں گی، پر انہیں پتہ تک نہ چلےگا۔۔۔ اورغلام بن کر اس وہمِ بےجا میں مبطلا ہوںگی کہ وہ آزاد ہیں!]۔
۔[جب ایک بچہ جیل میں پیدا ہو، اور جیل میں ہر آنے جانے ولی چیز کو مانیٹر کیا جائے اور اُسے اپنے ڈھنگ میں ڈھال کے پیش کیا جائے، اور اُسے بچپن سے ہی یہ پڑھایا جائے کہ جیل کی زندگی ہی تمہارے لیے سُکھ و چین کی زندگی ہے (پھر چاہے کتنی ہی مشکلوں میں کیوں نہ ہو)، جبکہ جیل سے باہر خونخوار بھیڑیوں کی دنیا ہے جو تمھیں کانٹ کھائیںگے۔ تو پھر ایسے ماحول میں پلنے والے بچوں کی حالت ان سے مختلف نہیں ہوگی جو ہمارے معاشرہ میں خود کو خودکش بموں میں اُڑا دیتے ہیں۔ پھر آزادی تو درکنار آزادی فکر کے مفہوم ہی سے وہ ناآشنا رہیں گے۔]۔
دولت میں تیزی سے اضافہ ہوا لیکن یہ الگ الگ افراد کی دولت تھی۔ 172
۔[اس 'دولت' کو اگر 'محنت' سے تبدیل کیا جائے تب بھی غلط نہ ہوگا۔]۔
تاجر
محنت کا اضافہ۔۔۔ اس نے ایک ایسے طبقے کو جنم دیا جو عمل پیداوار میں قطعی کوئی حصہ نہیں لیتا اور محض پیداوار کا تبادلہ کیا کرتا ہے۔ یہ تاجروں کا طبقہ ہے۔ ۔۔۔ اس نے بحیثیت مجموعی پیداوار کے سارے انتظام کو اپنے قبظے میں کرلیا اور پیدا کرنے والوں کو اقتصادی طور پر اپنی حکمرانی میں لے لیا۔ یہ ایسا طبقہ ہے جو دو قسم کا مال پیدا کرنے والوں کے درمیان کی ایک ضروری اور لازمی کڑی بن جاتا ہے اور دونوں کا استحصال کرتا ہے۔ پیدا کرنے والوں کے تبادلے کی پریشانی اور اس کے خطروں سے بچانے کے بہانے، ان کے مال کے لیے دور دور کے ملکوں میں منڈی تلاش کرنے کے بہانے اور اس طرح سماج کا سب سے کارآمد طبقہ ہونے کا دعویٰ کرکے طفیلیوں کا ایک طبقہ سامنے آتا ہے۔ یہ سچ مچ سماجی سالیسوں کا گروہ ہے جو حقیقت میں نہایت معمولی خدمتوں کے عوض ملک کے اندر اور باہر کی پیداوار کا سب اچھا حصہ دودھ کے بالائی کی طرح خود نکال لیتا ہے، تیزی سے کثیر دولت کا مالک بن بیٹھتا ہے اور اسی کی مناسبت سے سماجی اثر پیدا کرتا ہے اور اسی وجہ سے تمدن کے عہد میں اسے نت نئے اعزاز ملتے رہتے ہیں اور پیداوار پر اس کی گرفت زیادہ سخت ہوتی جاتی ہے حتی کہ آخر میں وہ خود بھی اپنی ایک چیز پیدا کرتا ہے، میعادی تجارتی بحران۔ 175
تجارت کی توسیع، سکہ کا چلن، سودخوری، زمین پر نجی ملکیت اور رہن کا رواج۔ ان سب چیزوں کے ساتھ ایک طرف ایک چھوٹے سے طبقے کے ہاتھ میں دولت کا اجتماع اور ارتکاز ہوتا رہا اور دوسری طرف عام لوگوں کا افلاس بڑھتا گیا۔ اور گداگروں اور مفلسوں کی تعداد بہت بڑھ گئی۔ 177
اس اقتدارِ عامہ کو قائم رکھنے کے لیے شھریوں سے پیسہ وصولنا یعنی ٹیکس لینا ضروری ہوگیا۔ 180
۔[ریاست خود کو چلانے کے لیے ٹیکس وصولی کرتی تھی، پر کمینوزم ٹیکس وصول نہیں کریں گی، بلکہ وہ آپ سے آپ کا سب کچھ وصول کرےگی تاکہ ٹیکس جیسی چیز کی نوبت ئی نہ آئے۔]۔
چونکہ ریاست طبقاتی تضاد کو دبائے رکھنے کی ضرورت سے پیدا ہوئی لیکن اسی کے ساتھ وہ ان طبقوں کی کشمکش کے دوران پیدا ہوئی، اس لیے وہ عام طور پر سب سے زیادہ طاقتور، اقتصادی طور پر سب سے زیادہ ذی اقتدار طبقہ بن جاتا ہے اور اس طرح مظلوم طبقے کو دبائے رکھنے اور اس کا استحصال کرنے کے نئے ذرائع حاصل کرتا ہے۔ 181
تاریخ میں ابھی تک جتنی ریاستیں ہوئی ہیں، ان میں زیادہ تر شہریوں کو ان کی دولت کے مطابق کم یا زیادہ حقوق دئیے جاتے ہیں۔ اس سے یہ بات بالکل صاف ہوجاتی ہے کہ ریاست ملکیت والے طبقوں کی ایک تنظیم ہے جو محروم ملکیت طبقے سے ان کی حفاظت کرنے کے لیے بنائی گئی ہے۔ 182
ریاست کی اعلٰی ترین شکل یعنی جمہوری ریپبلک جو سماج کے موجودہ حالات میں روز بروز ایک لازمی ضرورت ہوتی جا رہی ہے اور جو ریاست کی وہ تنہا صورت ہے جس میں پرولتاریہ اور برژوا طبقے کی آخری فیصلہ کن جدوجہد ہوسکتی ہے۔ وہ جمہوری ریپبلک سرکاری طور پر ملکیت کے فرق کو نہیں مانتی۔ اس میں دولت بالواسطہ طریقے سے مگر اور بھی زیادہ کارگر ڈھنگ سے اپنا اثر ڈالتی ہے۔ ایک تو دولت سے سرکاری عہدیداروں کے سیدھے سیدھے رشوت دی جاتی ہے۔ اس کی ٹھیٹ مثال امریکہ ہے۔ دوسرے، حکومت اور سٹاک ایکسچینج میں گٹھ بندھن ہوجاتا ہے۔ 182
ریاست Antique
جوسماج مال پیدا کرنے والوں کے آزاد اور مساوی تعاون کی بنیاد پر پیداوار کو منظم کرےگا وہ سماج ریاست کی پوری مشین کو اٹھا کر وہاں رکھ دے گا جہاں تب اس کا رکھا جانا زیب دے گا، یعنی وہ ریاست کو ہاتھ کے چرخے اور کانسے کی کلہاڑی کی طرح آثارِ قدیمہ کے عجائب گھر میں رکھ آئے گا۔ 183
انسان نے ابھی تبادلہ شروع ہی کیا تھا کہ اس کا بھی تبادلہ کیا جانے لگا۔ 185
تمدن کا عہد جنس تبادلہ کی پیداوار کی جس حالت سے شروع ہوا اس کی اقتصادی خصوصیتیں یہ تھیں: ۱۔ دھات کے بنے ہوئے سکے استعمال ہونے لگے تھے اور اس لیے زر کی شکل میں سرمائے کا، سود اور سودخوری کا رواج بھی ہوچکا تھا۔ ۲۔ پیدا کرنے والوں کے بیچ میں تاجر درمیانی آدمی کا کام کرنے لگے تھے۔ ۳۔ زمین پر افراد کی نجی ملکیت قائم ہوگئی تھی اور ہن کا رواج ہوچکا تھا۔ ۴۔ پیداوار کی مروجہ شکل غلاموں کی محنت تھی۔ تمدن کے عہد سے مطابقت رکھنے والی خاندان کی شکل جو اس عہد میں یقینی طورپر مروجہ شکل بن چکی تھی، یک زوجگی ہے جس میں عورت پر مرد کا غلبہ ہوتا ہے اور الگ الگ ہر خاندان سماج کی اقتصادی اکائی ہوتا ہے۔ متمدن سماج کو باندھ کر رکھنے والی قوت ریاست ہے، جو ہر نمائندہ عہد میں محض حکمراں طبقے کی ریاست ہوتی ہے اور جو بنیادی طور پر ہمیشہ مظلوم اور استحصال کیے جانے والے طبقے کو دبا کر رکھنے والی مشین کا کام کرتی ہے۔ تمدن کی دوسری خصوصیتیں یہ ہیں: سماجی محنت کی پوری تقسیم کی بنیاد کے طور پر شہر اور دیہات میں مستقل تصاد قائم ہوجاتا ہے۔ دوری طرف وصیت ناموں کا رواج ہوجاتا ہے جس کے ذریعے جائیداد کا مالک اپنی موت کے بعد بھی اپنی جائیداد کو جسے چاہے دے سکتا ہے۔ یہ رواج جس نے قدیم گن دستور پر براہ راست کاری ضرب لگائی، سولون کے زمانے تک ایتھنز میں نہیں پایا جاتا تھا۔ روم میں بہت شروع میں ہی اس کا رواج ہوگیا تھا لیکن ہم ٹھیک ٹھیک نہیں کہہ سکتے کہ کب۔ جرمنوں میں وصیت کو پادریوں نے رواج دیا تاکہ بھولے بھالے خوش عقیدہ جرمن بلا کسی دشواری کے اپنی جائیداد کلیسا کو دے جائیں۔ 186
سائنس اور فن
اگر نصب العین کو پورا کرنے کی کوشش کے دوران میں سائنس نے زیادہ سے زیادہ ترقی کی اور فن کے انتہائی عروج کے دور بھی بار بار آتے رہے تو اس کی وجہ یہی تھی کہ دولت بٹورنے میں آج جو زبردست کامیابی حاصل ہوئی ہے، وہ سائنس اور فن کی ان کامیابیوں کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی تھی۔ 186-187