FIKRism

Sunday, May 23, 2010

iNQILAB-e-iRAN - Ch.1

iNQILAB-E-iRAN
Sibt-e-Hassan
1979

Chapter 1

Excerpts:

باب: ۱: قاچاری دور

ایرانی اسلام:
۔۔ غور سے دیکھا جائے تو جس تہذیب کو عموماً اسلامی تہذیب سے تعبیر کیا جاتا ہے وہ در حقیقت عجمیوں ہی کی کوشش کا ثمر ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ خلفائے بنی عباس کا دربار دیکھتے ہی دیکھتے ساسانی دربار میں تبدیل ہوگیا۔ ایرانی لباس درباری لباس قرار پایا۔ خلیفہ اور خلیفہ زادون کی شادیاں ایرانی لڑکیوں سے ہونی لگیں۔ نوروز، مہرگان اوررام کے ایرانی تیوہار سرکاری طور منائے جانے لگے اور دربار میں ہر جگہ ایرانیوں کو عربوں پر ترجیح دی جانے لگی۔ علومِ دینی میں بھی جو رتبہ عجمی علما نے حاصل کیا وہ عربوں کو نصیب نہ ہوا۔
امام ابوحنیفہ اور امام غزالی جیسے اسلامی شریعت کے ستون ایرانی تھے۔ احادیث نبوی کو ترتیب دینے والے امام بخاری، امام مسلم، ابن ماجہ، قزوینی، ترمذی اور نسائی ایرانی تھے۔ پہلی مستند عربی گرامر کا مولف سیبویہہ ایرنی تھا۔ خلیفہ امین اور مامون کا استاد ابن حمزہ کسائی ایرانی تھا۔ مشہور مورخ طبریا، عوفی اور ابن قطیبہ ایرانی تھے۔ فرقہ معتزلہ جو روشن خیال مسلمانوں کی پہلی فکری تحریک تھی اس کا بانی واصل بن عطا ایرانی تھا۔ ابوریحان البیرونی اور شیخ بو علی سینا ایرانی تھے، رہا تصوف سو اس کا تو سارا نظام ہی ایرانیوں کا وضع کردہ ہے۔ اسی بنا پر علامہ اقبال جو تصوف کو ناپسند کرتے تھے مگر مولانا روم کے مرید تھے، عجمی فکراور فلسفے کے سخت مخالف تھے۔ اُنکا خیال تھا کہ عجمی ذہنیت ہی اسلام کے زوال کا باعث ہوئی۔ 27


۔۔ یہ تو بحث فضول ہے کہ جدید خیالات اور نظریات مشرق میں سامراجی قوتوں کے اثرونفوذ کے بغیر ازخود نشونما پاسکتے تھے یا نہیں۔ البتہ تاریخی اعتبار سے ہم بس اتنا کہہ سکتے ہیں کہ اہلِ مشرق میں اصلاحِ احوال کا احساس مغربی علوم و فنون سے روشناس ہونے کے بعد انیسویں صدی کی ابتدا میں پیدا ہوا۔ 30


۔۔ ۔۔۔ قاچاریوں نے شیراز اور کرمان وغیرہ میں لوگوں پر بڑے مظالم ڈھائے تھے لیکن تہران کے شیعہ مجتہدوں نے ان مظالم کی مذمت کرنے کے بجائے قاچاریوں کی حمایت کی تھی۔ اس لیے جنوبی ایران والے شیعہ مجتہدوں کو ناپسند کرتے تھے۔ 31


۔۔ قاچاریوں کے سواسوسالہ دورِ حکومت میں کوئی ایک فرمانروا بھی ایسا نہ ہوا جس کو وطن کا درد ہوتا یا جو ذاتی مفاد ہی کی خاطر اصلاحِ احوال کی فکر کرتا۔ 34


۔۔ ہر ریاست نظریاتی ریاست ہوتی ہے۔ یہ ریاستی نظریہ کبھی سیاسی ہوتا ہے، کبھی اقتصادی اور کبھی مذہبی اس کے ذریعے ریاست کے باشندوں کو اطاعت کا خوگر بنایا جاتا ہے۔ ان کے دل و دماغ کو ریاست کے اغراض و مقاصد کے مطابق ڈھالا جاتا ہے اور یہ بات ذہن نشین کرائی جاتی ہے کہ ان کا اور ریاست کا مفاد مشترکہ ہے، حالانکہ حقیقت میں ریاست ایک طبقاتی ادارہ ہے جس کا بنیادی مقصد برسرِاقتدار طبقے کے مفادات کا تحفظ ہوتا ہے۔ 38


۔۔ اس اعتبار سے پہلوی دور کو اگر ترجموں کا دور کہا جائے تہ غلط نا ہوگا۔ 40


۔۔ ۔۔۔ لیکن خیالات تو روحِ عصر کے تقاضوں کا اظہار ہوتے ہیں۔ ان کو دیوارِ چین بھی نہیں روک سکتی۔ 61

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...