Sibte Hassan
Chapter: 5 - Amrici Amal Dakhal
Excerpts:
باب: ۵: امریکی عمل دخل
مغربی تہذیب
۔۔ مغربی تہذیب کوٹ پتلون پہننے، کانٹا چُھری استعمال کرنے یا نائٹ کلب میں ناچنے کا نام نہیں ہے بلکہ مغربی تہذیب و تمدن کی اصل اساس صنعتی انقلاب ہے، یعنی فیوڈل ازم کے پیداواری طریقوں اور سماجی رشتوں کی تنسیخ اور مشینی صنعتوں اور سرمایہ داری رشتوں کی ترویج۔ مغربی تہذیب عبارت ہے جمہوری طرزِ حکومت اور عوام کے شہری حقوق سے، مغربی تہذیب عبارت ہے سائنسی علوم و فنون اور ٹیکنالوجی کے فروغ سے، مغربی تہذیب عبارت ہے سائنسی اندازِ فکر و عمل سے اور اگر ان لوازمات کو معاشرے سے خارج کردیا جائے تو پھر مغربی تہذیب خالی خولی شعبدہ بازی رہ جاتی ہے۔ 122
۔۔ دوسری جنگِ عظیم سے پہلے امریکی سرمایہ داروں کی مخصوص شکارگاہ جنوبی امریکہ تھا اور مشرقِ قریب کو برطانیہ کی اجارہ داری خیال کیا جاتا تھا۔ مصر، فلسطین، اردن، یمن، عراق اور خلیج فارس کی ریاستیں سب برطانیہ کی زیر نگین تھیں۔ ایران کے تیل کے چشمے انگریز کمپنیوں کے تصرف میں تھے حتٰی کہ سعودی عرب کو بھی جو، اب دنیا کے سب سے دولت مند ملکوں میں شمار ہوتا ہے، برطانیہ کی طرف سے سالانہ وظیفہ ملتا تھا لیکن دوسری جنگ عظیم کے دوران میں ایک طرف برطانیہ کی اقتصادی اور سیاسی قوت روز بروز گھٹتی گئی۔ دوسری طرف امریکہ کی صنعتی پیداوار بالخصوص اسلحوں کی پیدواور میں حیرت انگیز اضافہ ہوا اور تیل کی مانگ بھی بہت بڑھ گئی۔ لہذا نئے علاقوں کو زیر اثر لانا 'ضروری' ہوگیا۔ 123
۔۔ امریکہ کی فوجی امداد ایشیا اور افریقہ میں ہر جگہ عوامی تحریکوں کو کچلنے ہی کے کام آئی ہے۔ 125
خارجہ حکمت عملی
۔۔ بات یہ ہے کہ سامراجی طاقتیں اپنی خارجہ حکمت عملی وضع کرتے وقت دوسرے ملکوں کے عوام کو اور ان کے جذبات و احساس کو بالکل خاطر میں نہیں لاتیں۔ وہ تو فقط یہ دیکھتی ہیں کہ فلاں ملک کے پاس فوج اور پولیس کتنی ہے؟ اس کو اسلحہ کون فراہم کرتا ہے؟ اس کے حکمراں طبقے کا جھکاو کدھر ہے؟ اوراس کے فوجی اور سویلین افسروں کے سیاسی نظریات کیا ہیں؟ اگر یہ سماجی عناصر جمہوریت اور سوشلزم کے مخالف ہوں تو سامراجی طاقتیں ان کو مزید تقویت پہنچانے کی کوشش کرتی ہیں۔ عوام ان سماجی عناصر کے بارے میں کیا سوچتے ہیں اس سے سامراجی طاقتوں کو چنداں سروکار نہیں ہوتا۔ مگر جو خارجہ حکمت عملی عوامی قوتوں کو نظر انداز کرکے وضع کی جاتی ہے وہ ہمیشہ ناکام رہتی ہے۔ چناچہ امریکی سامراج نے یہی غلطی ویت نام میں کی۔ یہی غلطی کیوبا اور انگولا میں کی اور یہی غلطی ایران میں کی۔ یہ دوسری بات ہے کہ وہ اس حکمت عملی کے سوا کوئی دوسری حکمت عملی اختیار ہی نہیں کرسکتا کیونکہ وہ اگر عوام کے حقوق، مفادات اور جذبات و احساسات کا احترام کرے تو وہ سامراجی طاقت نہیں رہ سکے گا۔ 136
روحِ انسانی
۔۔ 'امریکائی اگورت را از ایران گم کن'،'نابود باد اتحاد نظامی با امریکہ۔' 'جاسوسان سیا (سی۔آئی۔اے) را از ایران بیرون کنید'،'امریکہ حق مداخلہ در ایراں ندادرد' جیسے نعروں سے گونجنے لگے تو امریکی مبصرین کی حیرت کی انتہا نہ رہی۔ نپولین نے ایک بار کہا تھا کہ دنیا میں فقط دو طاقتیں ہیں، ایک تلوار اور دوسرے روحِ انسانی۔ ان کے درمیان جب تصادم ہوتا ہے تو ہار آخرکار تلوار کی ہوتی ہے۔ ایران میں امریکہ کی شکست کا اصل سبب یہی تھا کہ وہ روحِ انسانی سے برسر پیکار تھا۔ 137
_______________
مغربی تہذیب
۔۔ مغربی تہذیب کوٹ پتلون پہننے، کانٹا چُھری استعمال کرنے یا نائٹ کلب میں ناچنے کا نام نہیں ہے بلکہ مغربی تہذیب و تمدن کی اصل اساس صنعتی انقلاب ہے، یعنی فیوڈل ازم کے پیداواری طریقوں اور سماجی رشتوں کی تنسیخ اور مشینی صنعتوں اور سرمایہ داری رشتوں کی ترویج۔ مغربی تہذیب عبارت ہے جمہوری طرزِ حکومت اور عوام کے شہری حقوق سے، مغربی تہذیب عبارت ہے سائنسی علوم و فنون اور ٹیکنالوجی کے فروغ سے، مغربی تہذیب عبارت ہے سائنسی اندازِ فکر و عمل سے اور اگر ان لوازمات کو معاشرے سے خارج کردیا جائے تو پھر مغربی تہذیب خالی خولی شعبدہ بازی رہ جاتی ہے۔ 122
۔۔ دوسری جنگِ عظیم سے پہلے امریکی سرمایہ داروں کی مخصوص شکارگاہ جنوبی امریکہ تھا اور مشرقِ قریب کو برطانیہ کی اجارہ داری خیال کیا جاتا تھا۔ مصر، فلسطین، اردن، یمن، عراق اور خلیج فارس کی ریاستیں سب برطانیہ کی زیر نگین تھیں۔ ایران کے تیل کے چشمے انگریز کمپنیوں کے تصرف میں تھے حتٰی کہ سعودی عرب کو بھی جو، اب دنیا کے سب سے دولت مند ملکوں میں شمار ہوتا ہے، برطانیہ کی طرف سے سالانہ وظیفہ ملتا تھا لیکن دوسری جنگ عظیم کے دوران میں ایک طرف برطانیہ کی اقتصادی اور سیاسی قوت روز بروز گھٹتی گئی۔ دوسری طرف امریکہ کی صنعتی پیداوار بالخصوص اسلحوں کی پیدواور میں حیرت انگیز اضافہ ہوا اور تیل کی مانگ بھی بہت بڑھ گئی۔ لہذا نئے علاقوں کو زیر اثر لانا 'ضروری' ہوگیا۔ 123
۔۔ امریکہ کی فوجی امداد ایشیا اور افریقہ میں ہر جگہ عوامی تحریکوں کو کچلنے ہی کے کام آئی ہے۔ 125
خارجہ حکمت عملی
۔۔ بات یہ ہے کہ سامراجی طاقتیں اپنی خارجہ حکمت عملی وضع کرتے وقت دوسرے ملکوں کے عوام کو اور ان کے جذبات و احساس کو بالکل خاطر میں نہیں لاتیں۔ وہ تو فقط یہ دیکھتی ہیں کہ فلاں ملک کے پاس فوج اور پولیس کتنی ہے؟ اس کو اسلحہ کون فراہم کرتا ہے؟ اس کے حکمراں طبقے کا جھکاو کدھر ہے؟ اوراس کے فوجی اور سویلین افسروں کے سیاسی نظریات کیا ہیں؟ اگر یہ سماجی عناصر جمہوریت اور سوشلزم کے مخالف ہوں تو سامراجی طاقتیں ان کو مزید تقویت پہنچانے کی کوشش کرتی ہیں۔ عوام ان سماجی عناصر کے بارے میں کیا سوچتے ہیں اس سے سامراجی طاقتوں کو چنداں سروکار نہیں ہوتا۔ مگر جو خارجہ حکمت عملی عوامی قوتوں کو نظر انداز کرکے وضع کی جاتی ہے وہ ہمیشہ ناکام رہتی ہے۔ چناچہ امریکی سامراج نے یہی غلطی ویت نام میں کی۔ یہی غلطی کیوبا اور انگولا میں کی اور یہی غلطی ایران میں کی۔ یہ دوسری بات ہے کہ وہ اس حکمت عملی کے سوا کوئی دوسری حکمت عملی اختیار ہی نہیں کرسکتا کیونکہ وہ اگر عوام کے حقوق، مفادات اور جذبات و احساسات کا احترام کرے تو وہ سامراجی طاقت نہیں رہ سکے گا۔ 136
روحِ انسانی
۔۔ 'امریکائی اگورت را از ایران گم کن'،'نابود باد اتحاد نظامی با امریکہ۔' 'جاسوسان سیا (سی۔آئی۔اے) را از ایران بیرون کنید'،'امریکہ حق مداخلہ در ایراں ندادرد' جیسے نعروں سے گونجنے لگے تو امریکی مبصرین کی حیرت کی انتہا نہ رہی۔ نپولین نے ایک بار کہا تھا کہ دنیا میں فقط دو طاقتیں ہیں، ایک تلوار اور دوسرے روحِ انسانی۔ ان کے درمیان جب تصادم ہوتا ہے تو ہار آخرکار تلوار کی ہوتی ہے۔ ایران میں امریکہ کی شکست کا اصل سبب یہی تھا کہ وہ روحِ انسانی سے برسر پیکار تھا۔ 137
_______________
No comments:
Post a Comment