Part-1
Chapter-1
Mashriq aur Magrib ke Taluqat
SUMMARY AND EXCERPTS
SUMMARY:
Pehla Ch. Europe aur Asia k Sayasi, Tijarati aur Ilmi taluqat ke daur ko qarib Sikandar Azam (356-323 BC) se 17ven sadi tk (yane Hindustan me Angrezon ki Amad tk) ko cover krta hy.
Is Mashriq Magrib k Melap me zyada tr ‘Garam Medan’ Mashraqi Europe aur Magrabi Asia ka raha, per 1492 me Columbus ka Hindustan ki Mutabadil Raston ki Talash me Amrica me namoodar hona, aur 1498 me Vasco Da Gama ka Hindustan k mutabadil raste talash krne se Magrabi Europe ka taluq South Asia aur Mashraqi Asia se hone laga.
Is Mashriq Magrib Melap me kis ne kis se Seekha, kon kis se Bara, kon kis se Qadim, (Kon Kis Ka Dada!) ka muakhiza krna buhut mushkil hy! Yaqinan E. Gibbin likhte hyn: "Un Dinon Mashriq Funoon Aur Samane Aish O Asaish Ka Malik Tha. Ehle Magrib Kheti Bari Se B Nabalad The Ya Zaraat Ko Haqarat Se Dekhte The. Hewanat Aur Nibatat Ki Jitni Qismen Assia Aur Misr Se Europe Me Raaij Huin Un Ka Shumar Mumkin Nahin... Masalan Tamam Phool, Jari Bootiyan Aur Phal Jo Europi Baghon Me Pai Jate Hyn Mashraqi Hyn." 22
Short Cut me itna kaha ja sakta hy 15ven sadi se pehle tk Maghrib ne Mashriq se Seekha, aur 15ven sadi k bad Mashriq Magrib ke Rehm Karam per hy!
Chapter ko following tags me banta ja skta hy:
>Sikandare Azam apni Yunani Tehzib Sindh tk Leke Aye (4thi Sadi QM).
"Bakhtar Ke Yunaniyon ne Wadiye Sindh per Agarche 100 Sal Tak Hukumat ki Magar Unhon ne Yahan ki Tehzib per Apne Gehre Nuqoosh Chhore hyn." 18
> Sikandar k Bad Ptolemy (Batlimoosi) ki hukumt ayi, "Batlimoosi Badshahon ne Misr per Pone Teen So Sal (304-30 BC) Hukumat Ki. Inke Ehde Urooj me Sham, Phalastin, Qabrs, Quret aur Mashraqi Behre Rom k Dusre Jazire Misr ke Zere Nagin the." 19 (1hli Sadi QM se qabl tk)
> "Pehli Sadi QM Batleemoosiyon ke Zawal aur Roma ke Urooj ka Zamana tha." 21. Yane 1hli sadi QM k bad Greece Down hogaya aur Rome Up hogaya. "Iske Bad Mashriq, Sahile Furat se Sahile Nile blke Libya aus Aljazais tk, 700 Sal tk Romatul Kubra ke Tabe' raha." 21
> 4thi Sadi Eesvi me Shahanshahe Rome Qustantin Awwal (274-337) K Eesai Hojane se Rome ka Zawal aur Eesaiyat ka Urooj shuru hua.
> 7vi Sadi Eesvi me Islam ke Zahoor k bad kahani ne alag rukh liya. Aur Arbon ka Sikka chalne laga. "Arbon se Pehle Spain Kya Poore Europe me Taleem Kalisa Ki Jageer Thi." 28, Arbon ki Futoohat se hi Europe Apni Neend se Jaga, per Ise Poori trah Hosh me Ane me 8 Das Sadyan aur lagni thin!
> Quroone Wasta me Musalman/Arab Sciendanon hi ki Talimat chalne lagi, aur Ehle Magrib ko philosophically Ibne Rushd aur Abu Bakr Rhaze ne buhut mutasir kiya.
> SALEBI Jangen (1095-1291):
> aur phr 1492 aur 1498 me Amrica aur Hindustan ki Daryaft se Sarmayadari ka Beej bua. (boya gya.)
> Ch ka Akhri chnd Siffat Marx per hyn k jb wo peda hua aur jawan hua to aya use kesa mahol mila, jis me wo pinepa.
Excerpts:
اقتباسات:
باب ۱
۔۔ اس اثنا میں ایک اور یونانی شہزادہ بدخشاں سے قسمت آزمائی کرتا ہوا ٹیکسلا پہنچا۔ اس کا نام مناندر تھا۔ مناندر نے اگاتھوکلیس کی بیٹی سے شادی کی اور شمال مشرقی پنجاب فتح کرنے نکل کھڑا ہوا اس نے ساکلا یعنی سیالکوٹ کو اپنی راجدھانی بنایا اور رفتہ رفتہ دریائے جمنا تک سارے علاقے پر قابض ہوگیا۔ مناندر بڑا روشن خیال اور وسیع مشرب فرماں روا تھا۔ اس نے بدھ مت اختیار کرلیا اور آخری عمر میں راج پاٹ چھوڑ کر بھکشو ہوگیا۔ بدھ مت میں اس کے اقوال اور فرمودات کو بہت اونچا مرتبہ حاصل ہے۔
مناندر کے بیٹے اپالوڈوٹس نے باپ کی سلطنت کو مزید وسعت دی اور سندھ، کاٹھیاواڑ اور گجرات بھی اس کے زیرِنگیں ہوگئے مگر اس کی وفات (۹۰ق۔م) کےبعد یونانی سلطنت کئی ٹکڑوں میں بٹ گئی اور تقریباً پچاس برس تک وادئ سندھ میں کوئی مضبوط حکومت قائم نہ ہوسکی۔ تب ۳۰ ق۔م کے قریب ترکستان کی جانب سے ساکاؤں نے یلغار کی اور یونانی اقتدار کی شمع ہمیشہ کے لیے بجھ گئی۔ 18
۔۔ بطلیموسی فرماں روا علم و حکمت بالخصوص سائنسی علوم کے بڑے دلدادہ تھے۔ ان کے گماشتے یونان، ایشیاء کوچک، شام و فلسطین میں انجینئروں، ریاضی دانوں، فلکیات کے عالموں، ریاضی، ہئیت، طب اور جغرافیہ کے عالموں کی تلاش میں رہتے اور ان کو اسکندریہ کی دعوت دیتے۔ بطلیموس اول نے تو فلسطین سے ایک ہزار یہودی عالموں کو زبردستی پکڑ بلوایا اور اسکندریہ میں آباد کیا تھا۔ 19
نتیجہ یہ ہوا کہ اسکندریہ بہت جلد علم و دانش کا سب سے بڑا مرکز بن گیا۔ اسکندریہ کے شاہی کتب خانے کو جو بین الاقوامی شہرت نصیب ہوئی اس کی تو نظیر نہیں ملتی۔ اس کتب خانے کو جو بہ یک وقت دارالتحقیق و تجربہ اور درس گاہ بھی تھا بطلیموس اول نے ۲۹۰ق۔م میں ارسطو کی درس گاہ لائی سیتم کے اصولوں پر قائم کیا تھا۔ اسکندریہ کے کتب خانے میں ۵ لاکھ ۳۲ ہزار مخروطے تھے جن کی فہرست ۱۲۰ دفتروں پر محیط تھی۔ ان مخروطوں کو بڑی بڑی رقمیں خرچ کر کے حاصل کیا جاتا تھا۔ مثلاً بطلیموس سوئم کو پتہ چلا کہ ایتھنز میں کسی کے پاس یونان کے قدیم ڈرامہ نویسوں ایس کائی لس، سوفوکلیز اور یوری پڈیز کے اپنے ہاتھ کے لکھے ہوئے ڈرامے موجود ہیں۔ بادشاہ نے ۹۰ ہزار ڈالر بطور ضمانت ادا کیے اور وعدہ کیاکہ ڈراموں کو نقل کرکے اصل دستاویزیں واپس کر دی جائیں گی لیکن ڈرامے ہاتھ آگئے تو اس نے اصل خود رکھ لی اور نقل مالک کو بھجوادی اور کہلا دیا کہ زرِ ضمانت بے شک ضبط کرلو۔ درس گاہ میں معلموں کی تعداد ایک سو تھی۔ ان کو تنخواہ سرکاری خزانے سے ملتی تھی۔ درس گاہ سے ملحق ایک رصدگاہ تھی، ایک چڑیا گھر تھا، ایک باغ تھا جس میں انواع واقسام کے درخت، جڑی بوٹیاں، پودے اور پھول موجود تھے اور ایک عمارت چیر پھاڑ کرنے کی تھی۔ درس گاہ میں انجینئرنگ، ریاضی، فلکیات، طب اور جغرافیہ کی تعلیم پر زیادہ زور دیا جاتا تھا۔ 20
۔۔ خلفائے بنی عباس بالخصوص ہارون رشید و مامون رشید نے یوانانیت کے احیاء میں بڑا نمایاں کردار ادا کیا۔ 26
۔۔ یورپ کو اندیرے سے اُجالے میں لانے والے اسپین کے عرب فاتح تھے۔ 27
۔۔ عربوں سے پہلے اسپین کیا پورے مغربی یورپ میں تعلیم کلیسا کی جاگیر تھی۔ 28
۔۔ یورپ میں تعلیم عام نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اہلِ مغرب کاغذ سازی کے ہنر سے ناواقف تھے۔ یہ فن عرب مراکش سے اپنے ہمراہ لائے اور تب کتابوں کی اشاعت نے پہلے اسپین میں اور پھر دوسرے ملکوں میں رواج پایا۔ 28
۔۔ غرضیکہ یورپ میں تہذیب نو کی نشو نما کے لیے حالات اسپین اور سسلی کے عربوں نے پیدا کیے چناچہ پروفیسر فِشر کے سے متعصب مورخ کو بھی اعتراف کرنا پڑا کہ 'بارہویں صدی میں روشنی کی جو کرنیں یورپ میں پہنچیں وہ یونان سے نہیں بلکہ اسپین کے عربوں کے ذریعے آئیں۔ 28-29
۔۔ یورپ میں سائنسی تجربوں کا دور عربی تصانیف کے لاطینی ترجموں کے بعد شروع ہوا۔ 32
۔۔ جارج سیل نے 1734ء میں قرآن کا انگریزی ترجمہ کیا۔ 36
۔۔ لسانیات کے جرمن عالم ہرڈر (1784) نے یہ دعویٰ کیا کہ دنیا کی سب سے پرانی تہذیبیں آپس میں جڑی ہوئی ہیں۔ 36
۔۔ شیلیگل نے تو یہاں تک کہ دیا کہ مشرقی مذہب (ہندو دھرم، بدھ مت، زرتشتی مسلک اور اسلام) کے تعاون کے بغیر نہ تو مادیت اور جمہوریت کا زور توڑا جا سکتا ہے اور نہ یورپ کی روحانی احیاء ممکن ہے۔ 36
۔۔ کرسٹین ٹامسن ایک فرانسیسی عالم نے 1836ء میں سماجی ارتقا کے تین مدارج متعین کے اور آلاتِ پیداوار کو ان مدارج کی پہچان قرار دیا۔ اس کے نزدیک پہلا دور پتھر کا تھا جب انسان پتھر لکڑی اور ہڈی کے آلات و اوزار استعمال کرتا تھا۔ دوسرا دور تانبے اور کانسی کا تھا اور تیسرا دور لوہے کا جو ابھی تک جاری ہے۔ 38
باب ۱
۔۔ اس اثنا میں ایک اور یونانی شہزادہ بدخشاں سے قسمت آزمائی کرتا ہوا ٹیکسلا پہنچا۔ اس کا نام مناندر تھا۔ مناندر نے اگاتھوکلیس کی بیٹی سے شادی کی اور شمال مشرقی پنجاب فتح کرنے نکل کھڑا ہوا اس نے ساکلا یعنی سیالکوٹ کو اپنی راجدھانی بنایا اور رفتہ رفتہ دریائے جمنا تک سارے علاقے پر قابض ہوگیا۔ مناندر بڑا روشن خیال اور وسیع مشرب فرماں روا تھا۔ اس نے بدھ مت اختیار کرلیا اور آخری عمر میں راج پاٹ چھوڑ کر بھکشو ہوگیا۔ بدھ مت میں اس کے اقوال اور فرمودات کو بہت اونچا مرتبہ حاصل ہے۔
مناندر کے بیٹے اپالوڈوٹس نے باپ کی سلطنت کو مزید وسعت دی اور سندھ، کاٹھیاواڑ اور گجرات بھی اس کے زیرِنگیں ہوگئے مگر اس کی وفات (۹۰ق۔م) کےبعد یونانی سلطنت کئی ٹکڑوں میں بٹ گئی اور تقریباً پچاس برس تک وادئ سندھ میں کوئی مضبوط حکومت قائم نہ ہوسکی۔ تب ۳۰ ق۔م کے قریب ترکستان کی جانب سے ساکاؤں نے یلغار کی اور یونانی اقتدار کی شمع ہمیشہ کے لیے بجھ گئی۔ 18
۔۔ بطلیموسی فرماں روا علم و حکمت بالخصوص سائنسی علوم کے بڑے دلدادہ تھے۔ ان کے گماشتے یونان، ایشیاء کوچک، شام و فلسطین میں انجینئروں، ریاضی دانوں، فلکیات کے عالموں، ریاضی، ہئیت، طب اور جغرافیہ کے عالموں کی تلاش میں رہتے اور ان کو اسکندریہ کی دعوت دیتے۔ بطلیموس اول نے تو فلسطین سے ایک ہزار یہودی عالموں کو زبردستی پکڑ بلوایا اور اسکندریہ میں آباد کیا تھا۔ 19
نتیجہ یہ ہوا کہ اسکندریہ بہت جلد علم و دانش کا سب سے بڑا مرکز بن گیا۔ اسکندریہ کے شاہی کتب خانے کو جو بین الاقوامی شہرت نصیب ہوئی اس کی تو نظیر نہیں ملتی۔ اس کتب خانے کو جو بہ یک وقت دارالتحقیق و تجربہ اور درس گاہ بھی تھا بطلیموس اول نے ۲۹۰ق۔م میں ارسطو کی درس گاہ لائی سیتم کے اصولوں پر قائم کیا تھا۔ اسکندریہ کے کتب خانے میں ۵ لاکھ ۳۲ ہزار مخروطے تھے جن کی فہرست ۱۲۰ دفتروں پر محیط تھی۔ ان مخروطوں کو بڑی بڑی رقمیں خرچ کر کے حاصل کیا جاتا تھا۔ مثلاً بطلیموس سوئم کو پتہ چلا کہ ایتھنز میں کسی کے پاس یونان کے قدیم ڈرامہ نویسوں ایس کائی لس، سوفوکلیز اور یوری پڈیز کے اپنے ہاتھ کے لکھے ہوئے ڈرامے موجود ہیں۔ بادشاہ نے ۹۰ ہزار ڈالر بطور ضمانت ادا کیے اور وعدہ کیاکہ ڈراموں کو نقل کرکے اصل دستاویزیں واپس کر دی جائیں گی لیکن ڈرامے ہاتھ آگئے تو اس نے اصل خود رکھ لی اور نقل مالک کو بھجوادی اور کہلا دیا کہ زرِ ضمانت بے شک ضبط کرلو۔ درس گاہ میں معلموں کی تعداد ایک سو تھی۔ ان کو تنخواہ سرکاری خزانے سے ملتی تھی۔ درس گاہ سے ملحق ایک رصدگاہ تھی، ایک چڑیا گھر تھا، ایک باغ تھا جس میں انواع واقسام کے درخت، جڑی بوٹیاں، پودے اور پھول موجود تھے اور ایک عمارت چیر پھاڑ کرنے کی تھی۔ درس گاہ میں انجینئرنگ، ریاضی، فلکیات، طب اور جغرافیہ کی تعلیم پر زیادہ زور دیا جاتا تھا۔ 20
۔۔ خلفائے بنی عباس بالخصوص ہارون رشید و مامون رشید نے یوانانیت کے احیاء میں بڑا نمایاں کردار ادا کیا۔ 26
۔۔ یورپ کو اندیرے سے اُجالے میں لانے والے اسپین کے عرب فاتح تھے۔ 27
۔۔ عربوں سے پہلے اسپین کیا پورے مغربی یورپ میں تعلیم کلیسا کی جاگیر تھی۔ 28
۔۔ یورپ میں تعلیم عام نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اہلِ مغرب کاغذ سازی کے ہنر سے ناواقف تھے۔ یہ فن عرب مراکش سے اپنے ہمراہ لائے اور تب کتابوں کی اشاعت نے پہلے اسپین میں اور پھر دوسرے ملکوں میں رواج پایا۔ 28
۔۔ غرضیکہ یورپ میں تہذیب نو کی نشو نما کے لیے حالات اسپین اور سسلی کے عربوں نے پیدا کیے چناچہ پروفیسر فِشر کے سے متعصب مورخ کو بھی اعتراف کرنا پڑا کہ 'بارہویں صدی میں روشنی کی جو کرنیں یورپ میں پہنچیں وہ یونان سے نہیں بلکہ اسپین کے عربوں کے ذریعے آئیں۔ 28-29
۔۔ یورپ میں سائنسی تجربوں کا دور عربی تصانیف کے لاطینی ترجموں کے بعد شروع ہوا۔ 32
۔۔ جارج سیل نے 1734ء میں قرآن کا انگریزی ترجمہ کیا۔ 36
۔۔ لسانیات کے جرمن عالم ہرڈر (1784) نے یہ دعویٰ کیا کہ دنیا کی سب سے پرانی تہذیبیں آپس میں جڑی ہوئی ہیں۔ 36
۔۔ شیلیگل نے تو یہاں تک کہ دیا کہ مشرقی مذہب (ہندو دھرم، بدھ مت، زرتشتی مسلک اور اسلام) کے تعاون کے بغیر نہ تو مادیت اور جمہوریت کا زور توڑا جا سکتا ہے اور نہ یورپ کی روحانی احیاء ممکن ہے۔ 36
۔۔ کرسٹین ٹامسن ایک فرانسیسی عالم نے 1836ء میں سماجی ارتقا کے تین مدارج متعین کے اور آلاتِ پیداوار کو ان مدارج کی پہچان قرار دیا۔ اس کے نزدیک پہلا دور پتھر کا تھا جب انسان پتھر لکڑی اور ہڈی کے آلات و اوزار استعمال کرتا تھا۔ دوسرا دور تانبے اور کانسی کا تھا اور تیسرا دور لوہے کا جو ابھی تک جاری ہے۔ 38
No comments:
Post a Comment