Sibte Hassan
Chapter: 9,10
Excerpts:
باب: ۹: انقلابی ہلچل
[1976-1977 کا بجٹ]
۔۔ ایران اقتصادی تباہی کے دہانے پر کھڑا تھا چناچہ رسالہ میڈ اُس وقت کی ایرانی معیشت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ 'اگر خمینی نہ ہوتے اور انقلاب نا آتا بلکہ شاہ بدستور اپنے محل میں مقیم ہوتے تب بھی ایرانی معیشت کی عمارت اس سال کے موسم گرما تک دھماکے کے ساتھ زمین پر گر گئی ہوتی۔۔۔۔ شاہ کی معیشت ایک غبارہ تھی جس میں ضرورت سے زیادہ ہوا بھردی گئی تھی اور بس اس کا انتظار تھا کہ کوئی اس کو چھودے۔ شاہ کو انقلاب کا شکرگزار ہونا چاہیے۔ اس نے شاہ کو شرمندگی اور خجالت سے بچالیا۔' ۔191
۔۔ محمد شاہ رنگیلا تو خواہ مخواہ بدنام تھا۔ وہ بے چارہ تو رضا شاہ پہلوی کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔ 192
اور آخر وہ دن آہی گیا:
۔۔ اور آخر وہ دن آہی گیا۔ ۲۹ جنوری کی شام کو شاہ نے محل کے عملے کو اپنی روانگی سے مطلع کیا۔ ۳۰ جنوری کو وہ پریس کانفرنس کرنے والا تھا لیکن مصاحبوں نے مشورہ دیا کہ چلتے وقت بھڑکے چھتے کو نہ چھیڑیں لہذا شاہ اپنی 'محبوب رعایا' کو بتائے بغیر چپکے سے قاہرہ روانہ ہوگیا۔ ۵۳ سالہ پہلوی آمریت کاغذی محل کی طرح زمین بوس ہوگئی۔
اُس دن تہران میں بڑی سردی تھی اور ہلکی ہلکی بوندا باندی بھی ہورہی تھی مگر سہ پہر میں جونہی ریڈیو سے اعلان ہوا کہ شاہ اور شاہ بانو قاہرہ چلے گئے۔ سارا شہر سڑکوں پر نکل آیا۔ لوگ خوشی سے ناچ رہے تھے، گلے مل رہے تھے۔ ایک دوسرے کو فتح کی مبارک باد، دے رہے تھے۔ پھول برسائے جارہے تھے۔ مٹھائیاں تقسیم ہورہی تھیں۔ فوجیوں نے اپنی توپوں، ٹینکوں اور رائفلوں پر، جو کل تک آگ اگل رہی تھے کارنیشن کے پھول سجا لیے تھے۔ شہر میں جہاں کہیں شاہ یا اس کے باپ کا مجسمہ نظر آتا لوگ اس کو جوتوں کا ہار پہناتے اور کھینچ کر نیچے کرادیتے۔ شام ہوتے ہوتے ایک مجسمہ بھی سلامت نہیں بچا۔ 204
خمینی کمیونسٹ دشمن:
۔۔ امریکی حکومت خمینی صاحب کی کمیونسٹ دشمنی سے بخوبی آگاہ تھی۔ 210
باب: ۱۰: انقلابِ ایران کے محرکات و اسباب
_______________
[1976-1977 کا بجٹ]
۔۔ ایران اقتصادی تباہی کے دہانے پر کھڑا تھا چناچہ رسالہ میڈ اُس وقت کی ایرانی معیشت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ 'اگر خمینی نہ ہوتے اور انقلاب نا آتا بلکہ شاہ بدستور اپنے محل میں مقیم ہوتے تب بھی ایرانی معیشت کی عمارت اس سال کے موسم گرما تک دھماکے کے ساتھ زمین پر گر گئی ہوتی۔۔۔۔ شاہ کی معیشت ایک غبارہ تھی جس میں ضرورت سے زیادہ ہوا بھردی گئی تھی اور بس اس کا انتظار تھا کہ کوئی اس کو چھودے۔ شاہ کو انقلاب کا شکرگزار ہونا چاہیے۔ اس نے شاہ کو شرمندگی اور خجالت سے بچالیا۔' ۔191
۔۔ محمد شاہ رنگیلا تو خواہ مخواہ بدنام تھا۔ وہ بے چارہ تو رضا شاہ پہلوی کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔ 192
اور آخر وہ دن آہی گیا:
۔۔ اور آخر وہ دن آہی گیا۔ ۲۹ جنوری کی شام کو شاہ نے محل کے عملے کو اپنی روانگی سے مطلع کیا۔ ۳۰ جنوری کو وہ پریس کانفرنس کرنے والا تھا لیکن مصاحبوں نے مشورہ دیا کہ چلتے وقت بھڑکے چھتے کو نہ چھیڑیں لہذا شاہ اپنی 'محبوب رعایا' کو بتائے بغیر چپکے سے قاہرہ روانہ ہوگیا۔ ۵۳ سالہ پہلوی آمریت کاغذی محل کی طرح زمین بوس ہوگئی۔
اُس دن تہران میں بڑی سردی تھی اور ہلکی ہلکی بوندا باندی بھی ہورہی تھی مگر سہ پہر میں جونہی ریڈیو سے اعلان ہوا کہ شاہ اور شاہ بانو قاہرہ چلے گئے۔ سارا شہر سڑکوں پر نکل آیا۔ لوگ خوشی سے ناچ رہے تھے، گلے مل رہے تھے۔ ایک دوسرے کو فتح کی مبارک باد، دے رہے تھے۔ پھول برسائے جارہے تھے۔ مٹھائیاں تقسیم ہورہی تھیں۔ فوجیوں نے اپنی توپوں، ٹینکوں اور رائفلوں پر، جو کل تک آگ اگل رہی تھے کارنیشن کے پھول سجا لیے تھے۔ شہر میں جہاں کہیں شاہ یا اس کے باپ کا مجسمہ نظر آتا لوگ اس کو جوتوں کا ہار پہناتے اور کھینچ کر نیچے کرادیتے۔ شام ہوتے ہوتے ایک مجسمہ بھی سلامت نہیں بچا۔ 204
خمینی کمیونسٹ دشمن:
۔۔ امریکی حکومت خمینی صاحب کی کمیونسٹ دشمنی سے بخوبی آگاہ تھی۔ 210
باب: ۱۰: انقلابِ ایران کے محرکات و اسباب
_______________
No comments:
Post a Comment