Part.1
Chapter.5
Lenin aur Aqwame Mashriq
Summary and Excerpts:
Summary:
19ven 20ven Sadi me Europe ki Asian Pasmandah Mulkon per Sarmayadarana Tasallut, Noabadiyat waghera.
Aur is hawale se Lenin k Afkar, Taqarir o Iqtabasat
Pehli International
Dusri International
Asia Me Bedari Ki Lahr
Turkey ka Inqilab
Jange Tarablas
Jange Balqan
Hindustan
Zyada tar mawad syasi waqia't wa ikhbarat per mushtamil hy.
Excerpts:
باب۔ ۵
چنگاری
۔۔ (لینن) یورپ پہنچ کروہ روسی سوشل ڈیموکریٹک لیبر پارٹی میں شامل ہوگیا اور جنیوا سے اخبار 'اِسکرا' (چنگاری) جاری کیا۔ اسکرا پہلا مارکسی اخبار تھا جو روسی زبان میں شائع ہوا۔ 100
۔۔ مقبوضات سے مفت ہاتھ آئی دولت کے دسترخوان سے مزدوروں کوبھی کچھ نہ کچھ مل جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ انقلابی انداز میں سوچنے سے قاصر ہیں۔ (اینگلز) ۔۔ 103
(پہلی جنگ عظیم)
۔۔ لینن کی بالشویک پارٹی کا موقف تھا کہ یہ سامراجی جنگ ہے جو مقبوضات اور نوآبادیات کو ازسرنو تقسیم کرنے کی خاطر لڑی جا رہی ہے اور اس میں دنیا بھر کے محنت کشوں ہی کا جانی اور مالی زیاں ہے لہذا ہم کو اس جنگ کی شدت سے مخالفت کرنی چاہیے اور سامراجی جنگ کو خانہ جنگی میں بدل دینا چاہیے یعنی اپنے ملک کے سامراجی حاکموں کے خلاف جدوجہد کرکے ان کا تختہ الٹ دینا چاہیے۔ 108
۔۔ یہی حربہ ایران سے بھی آزمایا گیا۔
سلطان ناصرالدین شاہ قاچار کو روپیوں کی ضرورت ہوئی تو اس نے 1858ء میں ایک انگریزی ٹیلی گراف کمپنی سے رقم کے عوض کمپنی کو ملک میں ٹیلی گراف لائن بچھانے کی اجازت دے دی۔ ۔۔۔ ٹیلی گراف لائن کی دیکھ بھال کے لیے چودہ مرکز کھولے گئے ان سے جاسوسی اور قبائلیوں کو رشوت دے کر رام کرنے کا کام بھی لیا گیا۔ 1873ء میں سلطان کو سفرِیورپ کے لیے روپیوں کی پھر ضرورت پڑی تو رائٹر نامی ایک انگریز کو پورے ایران میں ریلوے لائن بچھانے کا ٹھیکہ دیا گیا اور کانکنی کی رعایت بھی۔ 1889ء میں انگریزوں نے تہران میں پہلا بینک امپیریل بینک آف پرشیا کے نام سے کھولا اور اس طرح ایرانی سرمائے ہی کے ذریعے ایران کو اپنا دستِ نگر بنانے کا انتظام کرلیا۔ سلطان نے بینک کو ملک میں شاخیں قائم کرنے اور نوٹ چھاپنے کے اختیارات بھی دے دئیے۔ ۔۔ قالین سازی ایران کا قدیم صنعت ہے جو مقامی تاجروں کی اجارہ داری تھی۔ انگریزوں نے ایران میں جگہ جگہ اپنی فیکٹریاں قائم کرلیں اور ایرانی دستکاروں کو ملازم رکھ کر خود قالین بنانے اور برآمد کرنے لگے۔ پانی سر سے اونچا ہوتا جا رہا تھا اور ایرانیوں کا پیمانہ صبر لبریز ہوتا جارہا تھا۔
1890ء میں ناصرالدین شاہ نے پندرہ ہزار پونڈ سالانہ کے عوض ایک انگریز کمپنی کو ایران میں تمباکو کی کاشت اور خرید و فروخت کی اجارہ داری پچاس برس کے لیے دے دی۔ اس رعایت سے پورے ایران میں تہلکہ مچ گیا کیونکہ اس سے پیشتر جو ٹھیکہ تقسیم ہوئے تھے ان سے تھوڑے لوگ متاثر ہوئے تھے۔ تمباکو کی اجارہ داری سے ایران کے شہر، دیہات سبھی متاثر ہوئے چناچہ ایرانی قوم ایک دم چیخ اٹھی۔ ایرانی مجتہدوں نے فتویٰ دے دیا کہ تمباکو پینا، تمباکو کو کاشت کرنا اور اس کی خریدوفروخت سب حرام ہے۔
لوگوں نے حقّہ پینا ترک کردیا، یہاں تک کہ جب سلطان نے فتوے کے دوسرے دن حقہ طلب کیا تو شاہی ملازموں نے حقّے کو ہاتھ لگانے سے انکار کردیا۔ آخر اس ملک گیر مقاطعہ سے مجبور ہوکر سلطان نے اجارہ داری کا معاہدہ منسوخ کردیا۔ مطلق العنان شہنشاہی کی یہ پہلی شکست تھی۔ 112-113
۔۔ اقتصادی غلامی چونکہ سیاسی غلامی کی تمہید ہوتی ہے۔ (سبط)۔ 116
۔۔ لیکن تقدیریں، خوہشوں سے نہیں دبلا کرتیں (سبط)۔ 167
چنگاری
۔۔ (لینن) یورپ پہنچ کروہ روسی سوشل ڈیموکریٹک لیبر پارٹی میں شامل ہوگیا اور جنیوا سے اخبار 'اِسکرا' (چنگاری) جاری کیا۔ اسکرا پہلا مارکسی اخبار تھا جو روسی زبان میں شائع ہوا۔ 100
۔۔ مقبوضات سے مفت ہاتھ آئی دولت کے دسترخوان سے مزدوروں کوبھی کچھ نہ کچھ مل جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ انقلابی انداز میں سوچنے سے قاصر ہیں۔ (اینگلز) ۔۔ 103
(پہلی جنگ عظیم)
۔۔ لینن کی بالشویک پارٹی کا موقف تھا کہ یہ سامراجی جنگ ہے جو مقبوضات اور نوآبادیات کو ازسرنو تقسیم کرنے کی خاطر لڑی جا رہی ہے اور اس میں دنیا بھر کے محنت کشوں ہی کا جانی اور مالی زیاں ہے لہذا ہم کو اس جنگ کی شدت سے مخالفت کرنی چاہیے اور سامراجی جنگ کو خانہ جنگی میں بدل دینا چاہیے یعنی اپنے ملک کے سامراجی حاکموں کے خلاف جدوجہد کرکے ان کا تختہ الٹ دینا چاہیے۔ 108
۔۔ یہی حربہ ایران سے بھی آزمایا گیا۔
سلطان ناصرالدین شاہ قاچار کو روپیوں کی ضرورت ہوئی تو اس نے 1858ء میں ایک انگریزی ٹیلی گراف کمپنی سے رقم کے عوض کمپنی کو ملک میں ٹیلی گراف لائن بچھانے کی اجازت دے دی۔ ۔۔۔ ٹیلی گراف لائن کی دیکھ بھال کے لیے چودہ مرکز کھولے گئے ان سے جاسوسی اور قبائلیوں کو رشوت دے کر رام کرنے کا کام بھی لیا گیا۔ 1873ء میں سلطان کو سفرِیورپ کے لیے روپیوں کی پھر ضرورت پڑی تو رائٹر نامی ایک انگریز کو پورے ایران میں ریلوے لائن بچھانے کا ٹھیکہ دیا گیا اور کانکنی کی رعایت بھی۔ 1889ء میں انگریزوں نے تہران میں پہلا بینک امپیریل بینک آف پرشیا کے نام سے کھولا اور اس طرح ایرانی سرمائے ہی کے ذریعے ایران کو اپنا دستِ نگر بنانے کا انتظام کرلیا۔ سلطان نے بینک کو ملک میں شاخیں قائم کرنے اور نوٹ چھاپنے کے اختیارات بھی دے دئیے۔ ۔۔ قالین سازی ایران کا قدیم صنعت ہے جو مقامی تاجروں کی اجارہ داری تھی۔ انگریزوں نے ایران میں جگہ جگہ اپنی فیکٹریاں قائم کرلیں اور ایرانی دستکاروں کو ملازم رکھ کر خود قالین بنانے اور برآمد کرنے لگے۔ پانی سر سے اونچا ہوتا جا رہا تھا اور ایرانیوں کا پیمانہ صبر لبریز ہوتا جارہا تھا۔
1890ء میں ناصرالدین شاہ نے پندرہ ہزار پونڈ سالانہ کے عوض ایک انگریز کمپنی کو ایران میں تمباکو کی کاشت اور خرید و فروخت کی اجارہ داری پچاس برس کے لیے دے دی۔ اس رعایت سے پورے ایران میں تہلکہ مچ گیا کیونکہ اس سے پیشتر جو ٹھیکہ تقسیم ہوئے تھے ان سے تھوڑے لوگ متاثر ہوئے تھے۔ تمباکو کی اجارہ داری سے ایران کے شہر، دیہات سبھی متاثر ہوئے چناچہ ایرانی قوم ایک دم چیخ اٹھی۔ ایرانی مجتہدوں نے فتویٰ دے دیا کہ تمباکو پینا، تمباکو کو کاشت کرنا اور اس کی خریدوفروخت سب حرام ہے۔
لوگوں نے حقّہ پینا ترک کردیا، یہاں تک کہ جب سلطان نے فتوے کے دوسرے دن حقہ طلب کیا تو شاہی ملازموں نے حقّے کو ہاتھ لگانے سے انکار کردیا۔ آخر اس ملک گیر مقاطعہ سے مجبور ہوکر سلطان نے اجارہ داری کا معاہدہ منسوخ کردیا۔ مطلق العنان شہنشاہی کی یہ پہلی شکست تھی۔ 112-113
۔۔ اقتصادی غلامی چونکہ سیاسی غلامی کی تمہید ہوتی ہے۔ (سبط)۔ 116
۔۔ لیکن تقدیریں، خوہشوں سے نہیں دبلا کرتیں (سبط)۔ 167
No comments:
Post a Comment