FIKRism

Friday, May 28, 2010

iNQILAB-e-iRAN - Ch.11,12

iNQILAB-e-iRAN
Sibte Hassan

Chapters: 11-12 - Ek Qadam Aage Do Qadam Peechhe

Excerpts:


باب: ۱۱۔ ۱۲: ایک قدم آگے دو قدم پیچھے

عجیب بات ہے:
۔۔ عجیب بات ہے کہ جہاں کہیں اسلامی نظام رائج کرنے کی باتیں کی جاتی ہیں، وہاں سارا زور سزائوں پر صرف ہوتا ہے۔ شراب پینے والوں کو کوڑوے لگائے جاتے ہیں، چوری کرنے والوں کے ہاتھ کاٹ دئیے جاتے ہیں اور زانیوں کے سرقلم ہوتے ہیں۔ خمینی صاحب کے اسلامی نظام میں میں توکئی پیشہ ور عورتوں کو بھی گولی ماری جاچکی ہے البتہ خمینی صاحب اور ان کے رفقا نے کبھی یہ دریافت کرنے کی کوشش نہیں کی کہ لوگوں کو روٹی روزگار میسر ہے یا نہیں، بیماروں کے لیے دوا علاج کا انتظام ہے یا نہیں، لڑکے لڑکیوں کے لیے درسگاہیں موجود ہیں یا نہیں، دردمندی، رحم اور عفو جیسے الفاظ ان کی لغت سے خارج ہیں لیکن سزائوں سے نہ معاشرے کی تطہیر ہوتی ہے اور نہ لوگوں کے روزمرہ کے مسائل حل ہوتے ہیں۔ 227


۔۔ لیکن بعد کے واقعات نے ثابت کردیا کہ رفسنجانی، خلخالی اور دائیں بازو کے دوسرے انتہا پسند عناصر جو کچھ کرت ہیں اس میں خمینی صاحب کا اشارہ ضرور شامل ہوتا ہے۔ شوشلزم اور کمیونزم تو الگ رہے، جمہوری آزادی کے خلاف بھی جو اقدامات ہوئے ہیں ان سے خمینی صاحب پوری طرح باخبر تھے۔ اب خمینی صاحب وہ خمینی صاحب نہ تھے جن کو یہ غم ستاتا رہتا تھا کہ 'شاہ نے اظہار خیال اور پریس کی آزادی کا گلا گھونٹ دیا ہے۔' (۶ نومبر ۱۹۷۸ء) اور نہ وہ خمینی صاحب تھے جو ایرانیوں سے وعدہ کرتے تھے کہ 'اسلامی ری پبلک میں عورت مرد دونوں کو مساوی آزادی ملےگی اور شہری حقوق بحال کیے جائیں گے۔' اب تو ان کے کسی فیصلے سے ہلکا سا اختلاف بھی ناقابل معافی جرم تھا اور ان کی حکومت پر اعتراض ملک سے غداری۔ 229

مولوی حضرات
۔۔ مولوی حضرات خواہ پاکستان کے ہوں یا ایران کے، اسلامی نظام کی ثناء و صفت میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں مگر جب اسلامی نظام کو عملی شکل دینے کا وقت آتا ہے تو مغربی ملکوں کے آئین و قوانین کی نقالی میں ذرا بھی شرم و حیا محسوس نہیں کرتے۔ مثلاً ایران کے آئین کے اس مسودے کا موازنہ ۔۔ فرانس کے آئین سے کیجئے تو صاف معلوم ہوگا کہ فرانسیسی آئین کو مشرف بہ اسلام کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ البتہ اس کوشش میں فرانسیسی آئین کی خوبیاں پر تو سیاہی پھیر دی گئی ہے مگر اس میں جو خامیاں ہیں ان کو برقرار رکھا گیا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے خمینی صاحب نے اپنی ذات کو پیشِ نظر رکھ کر یہ مسودہ تیار کروایا ہے۔ 233


صدر = ڈکٹیٹر:
۔۔ یہی وجہ ہے کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے علاوہ صدارتی نظام کا تجربہ کہیں کامیاب نہیں ہوا ہے بلکہ جنوبی امریکہ، افریقہ، اور ایشیا میں جہا کہیں صدارتی نظام رائج ہے، صدر ڈکٹیٹر بن گیا ہے۔ 234

۔۔ خمینی صاحب کے دستِ راست کہہ چکے ہیں کہ انقلاب مُلا لائے تھے لہذا وہی ملک پر حکومت کریں گے۔ 234

بندوق میرا گھنہ:
۔۔ کُرد بڑی جفاکش اور بہادر قوم ہے۔ ہمارے سرحدی پٹھانوں کی طرح کُرد بھی بندوق رائفل کو مرد کا زیور سمجھتے ہیں۔ 241


سستے تربوز۔۔۔
۔۔ ایران بڑا دولت مند ملک ہے۔ اس کے وسائل اتنے وافر ہیں کہ لوگوں کو اگر اپنے اقتصادی حالات سدھارنے کا موقع ملا ہوتا تو ایران میں آج نہ کوئی بھوکا ہوتا نہ بے روزگار لیکن جہاں استحصال اور زر پرستی زندگی کا نصب العین بن جائے وہاں امیر امیرتر اور غریب غریب تر ہوتے جاتے ہیں اور کرپشن، لوٹ، رشوت اور مہنگائی کی بدولت زندگی اجیرن ہوجاتی ہے۔ یہی اقتصادی زبوں حالی ایرانی انقلاب کا سبب بنی۔ اب کوئی لاکھ کہے کہ 'ایرانیوں نے اسلام کے لیے خون کی قربانی دی تھی، سستے تربوزوں اور مکانوں کے لیے نہیں۔' (خمینی ۸ ستمبر) واقعہ یہی ہے کہ ایرانیوں نے روزمرہ کی پریشانیوں سے عاجز آکر انقلاب میں شرکت کی تھی۔ خمینی صاحب فرماتے ہیں کہ 'یہ بات بالکل ناقابلِ فہم ہے کہ کوئی شخص اپنے بیٹے کو سستی روٹی کے لیے قربان کردے۔' مگر اس قسم کی طنز آمیز باتیں وہی شخص کرسکتا ہے جو زندگی میں کبھی بھوکا نہیں رہا یا جس نے کبھی اپنی محنت سے روٹی نہیں کمائی۔ خمینی صاحب کے اس بیان سے کیا ہم یہ نتیجہ نکال لیں کہ اسلامی نظام کو عوام کے دکھ درد سے کوئی دلچسپی نہیں؟ کیا خمینی صاحب کا اسلام یہ چاہتا ہے کہ سستے تربوز فقط اہلِ ثروت ہی کے دسترخوان پر نظر آئیں؟ کیا خمینی صاحب کا اسلام یہ چاہتا ہے کہ فقط دولت مند طبقہ مکانوں میں رہے اور غربا آسمان کی کھلی چھت کے نیچے سوئیں؟


۔۔ صنعتی یا تجارتی اداروں کو قومی ملکیت بنا لینا چنداں دشوار نہیں ہوتا البتہ ان کو خوش اسلوبی سے چلانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ نجی صنعت کاروں میں لاکھ عیب سہی مگر وہ اپنے کاروبار کے گُر ضرور جانتے ہیں۔ سرمایہ کہاں سے آئے، کچا مال کب اور کہاں سے خریدا جائے، مزدوروں سے کیسے نمٹا جائے، اور مال کی نفع بخش نکاسی کیے لیے کیا تدابیر اختیار کی جائیں، وہ ان سب مسائل سے بخوبی واقف ہوتے ہیں۔ 259


۔۔ خمینی صاحب جس حکمت عملی پر کاربند ہیں اس کی موجودگی میں نظم و ضبط قائم نہیں ہوسکتا اور نہ ملک کی تعمیرِ نو کا کوئی منصوبہ بن سکتا ہے۔
۔۔ خمینی صاحب 'طاغوتیوں' کو کیفر کردار تک پہنچانے اور قوم کا اخلاق درست کرنے میں اس درجہ مصروف ہیں کہ ان کو ملک کے بنیادی مسائل کی طرف توجہ دینے کی فرصت ہی نہیں ملتی اور نہ وہ ان مسائل کو اہمیت دیتے ہیں۔ کیونکہ 'سستی روٹی اور سستے تربوزوں' کا مطالبہ ان کے نزدیک انقلاب دشمنوں کا مطالبہ ہے، شاہ پسندوں کی شرارت ہے، کمیونسٹوں کی سازش ہے۔ 260

_______________

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...