FIKRism

Saturday, May 22, 2010

iNQILAB-e-iRAN - Tamheed

iNQILAB-e-iRAN
Sibte-e-Hassan
1979


Tamheed:
Excerpts:




تمہید:
۔۔ ۔۔ تاریخ بھی کوئی شے ہے جو ہر فرد کی زندگی پر اثر انداز ہوتی ہے۔ تاریخ کا یہی شعور قومی آزادی اور قومی تشخص کا محرّک بنتا ہے۔ ہمارے ذہنوں میں ماضی کی عظمتوں کی یادیں تازہ ہوتی ہیں اور ہم کو اپنے قومی زوال، پستی اور ذلّت کے لمحے کانٹے کی طرح چبھنے لگتے ہیں۔ 7-8

ایران و پاکستان:
۔۔ ایران اور پاکستان کے معاشرتی حالات میں جو مماثلت پائی جاتی ہے وہ کبھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ ایرانی معاشرے کا وہ کون سا پہلو ہے جو ہمارے ۳۲ سالہ تجربوں سے مختلف ہے۔ زندگی کو حسین و دلکش بنانے کے وہی خواب اور وہی ان کی ہیبت ناک تعبیریں، انسانی حقوق کی وہی پامالی، کبھی جمہوریت کے نام پر ، کبھی مذہب کے نام پر، دولت و اقتدار کی وہی ہوس اور ہوس کی ہوی بے شرمیاں، دیواستبداد کی وہی سفاکیاں اور گیرودار کی وہی رسمِ کہن، وہی درباری سازشیں اور ملکی مفاد کے وہی سودے، عوام کے مسائلِ زیست سے وہی غفلت، ضمیرِ انسانی کی وہی خرید و فروخت اور وقارِ انسانی کی وہی بے حرمتی، جلوت میں اخلاق و ایمانداری کے وہی وعظ اور خلوت میں وہی ان وعظوں کی نفی، طاقت کا وہی نشہ اور اس طاقت کے لازوال ہونے کا وہی غرّہ، غرضیکہ بصیرت کی آنکھوں سے دیکھو تو ایران کی گزشتہ ۳۵ سالہ تاریخ میں اپنے گھر کی بربادی کا نقشہ صاف نظر آجائے گا۔
یوں بھی ایران ہمارا دوست اور ہمسایہ ہے۔ اس کے ساتھ ہمارے رشتے ہزاروں سال پرانے ہیں۔ ہماری زبانیں ایک ماں کی اولاد ہیں۔ ایرانی علوم وفنون سے ہم نے بہت کچھھ سیکھا ہے۔ فارسی تقریباً آٹھ سو برس تک ہمارے ملک کی سرکاری درباری زبان رہی ہے جس کی وجہ سے فارسی کے بے شمار الفاظ، محاورے، اصطلاحیں، تلمیحیں، علامتیں اور استعارے ہمارے ادب کا جز بن گئے ہیں۔ حتٰی کہ ہماری گرامر بھی فارسی گرامر کا چربہ ہے اور ہمارا رسم الخط بھی فارسی ہے۔ ہم نے امیرخسرو، مرزا عبدالقادر بیدل، غالب اور اقبال جیسے عظیم القدر شاعر پیدا کیے ہیں۔ ہمارے صوفیوں کی تعلیمات اور تصنیفات کی عظمت کا اعتراف اہلِ ایران بھی کرتے ہیں۔ ان حالات میں ایران سے موجودہ تاریخ سے ہماری دلچسپی قدرتی امر ہے۔
لیکن افسوس ہے کہ گزشتہ ۳۲ سال میں ہمارے کسی مورخ، کسی مبصر، کسی دانش ور، کسی صحافی نے ہم کو ایران کے صحیح حالات سے باخبر کرنے کی زحمت نہیں اٹھائی۔ فارسی داں بزرگوں نے باربار ایران کی سیاحت کی، طلبا وہاں اعلٰی تعلیم حاصل کرنے گئے اور کئی کئی سال وہاں مقیم رہے، بے شمار سرکاری وفد بھی ایران جاتے رہے لیکن کسی کو یہ توفیق نہ ہوئی کہ واپس آکر ایران کے سیاسی، معاشی اور معاشرتی مسائل پر کچھ لکھتا، جو لوٹا اس نے شاہ کی مدح وثنا پر اکتفا کی اور شاہ کی مہمان نوازیوں کا قصیدہ لکھا۔ دراصل ملوکیت پرستی ہماری رگ و پے میں کچھ اس طرح سرایت کر گئی ہے اور ہم معاشرتی زندگی کو شخصیتوں کے حوالے سے دیکھنے کے اس درجہ خوگر ہوگئے ہیں کہ ہم فرد ہی کو جماعت تصور کرنے لگے ہیں اور فرد بھی وہ جو جماعت سے بلند و بالا ہو۔ چنانچہ رضا شاہ کو ہم نے قومی ہیرو کا درجہ دے رکھا تھا۔ کسی کی مجال نہ تھی جو ایک حرف ان کے خلاف زبان سے نکال سکتا۔ وہ جب سرکاری دورے پر یہاں آتے تھے تو ان کا خیر مقدم یو ہوتا تھا گویا پاکستان کے نجات دہندہ وہی ہیں۔ اسی غلامانہ ذہنیت کا نتیجہ تھا کہ شاہ پاکستان کو اپنی کالونی سمجھنے لگے تھے۔ شاہِ ایران تو رخصت ہوگئے لیکن ہماری شخصیت پرستی میں کمی نہیں آئی ہے۔ پہلے شاہ ہمارے ہیرو تھے اب وہی مقام ہم نے امام خمینی کو دے دیا ہے۔ 9-11

امریکا کا مفاد
۔۔ امریکہ کا مفاد دراصل امرکیک کمپنیوںکا مفاد ہے جو سعودی عرب اور امارتوں کے تیل پر قابض ہیں۔ (ان امریکی کمپنیوں کو ۱۹۷۹ء کے پہلے نو مہینوں میں ۲۵/ ارب ڈالر کا خالص نفع ہوا۔) اس علاقے کے تیل کی یومیہ پیداوار ساڑھے تین کروڑ پیپے ہیں۔ امریکہ، مغربی یورپ اور جاپان میں جتنا تیل استعمال ہوتا ہے اس کا ایک تہائی انھیں ملکوں (سعودی عرب، عراق، کویت، بحرین اور عرب امارات) سے جاتا ہے۔ 12

۔۔ 'عرب ممالک میں نظامِ حکومت کی تبدیلی مغرب کے مفاد کے خلاف ہوگی کیونکہ عرب بادشاہتیں اور امارتیں ہمیشہ مغرب نواز اور کمیونسٹ دشمن رہی ہیں۔' 12

امام خمینی ۔ جمہوریت دشمنی منطق
۔۔ امام خمینی کا یہ ارشاد بجا ہی کہ ایران کا سب سے بڑا دشمن امریکہ ہے۔ لہذا ہم اس سے لڑیں گے لیکن وہ ان جمہوریت پسند عناصر سے بھی آمادہ پیکار ہیں جو امریکی امپیرئل ازم سے جنگ میں ان کے سب سے معتبر اور مستعد رفیق ہوسکتے ہیں۔ امام خمینی کو اس تضاد کو حل کرنا پڑے گا اور جمہوریت کو از سرِ نو بحال کرنا ہوگا کیونکہ امریکی سامراج کو جمہوری طاقتوں کی مدد ہی سے شکست دی جاسکتی ہے اور اگر جمہوری عناصر بدستور موردِ عتاب رہے تو امام خمینی کی جمہوریت دشمنی کی منطق ایران کو ایک نہ ایک دن امپیرئل ازم سے سمجھوتہ کرنے پر مجبور کردےگی۔20-21

امام خمینی کی تھیوکریسی
۔۔ بہرحال امام خمینی کی تھیوکریسی جس کو اب آئینی شکل دے دی گئی ہے، ایران کے اقتصادی اور سیاسی مسائل کا حل نہیں ہے بلکہ اس سے تو مسائل اور پیچیدہ ہوجائیں گے اور ایران کے دشمنوں کو سازش کے نئے موقعے ہاتھ آئیں گے۔ یہ بھی امرِ واقعہ ہے کہ ایرانی محبّانِ وطن کی بہت بڑی تعداد نیک نیتی سے یہ سمجھتی ہے کہ تھیوکریسی کا نفاذ ایرانی معاشرے کے حق میں روڑا ثابت ہوگا۔ وہ بجا طور پر محسوس کرتے ہیں کہ 'ولایت فقیہہ' کی آڑ میں لوگوں کو انسانی حقوق سے محروم کیا جارہا ہے اور شخصی حکومت کے لیے راہ ہموار ہو رہی ہے۔ تھیوکریسی کے خلاف یہ بدگمانی بلاوجہ نہیں ہے کیونکہ قرونِ وسطٰی میں تھیوکریسی کا مشرق و مغرب دونوں میں یہی کردار رہا ہے۔ اور آج بھی مشرق، وسطٰی میں جن ملکوں میں تھیوکریسی رائج ہے وہاں درحقیقت شخصی حکومت ہی کا دور دورہ ہے، ریاست کا سیاسی ڈھانچہ خالص آمرانہ ہے، سربراہِ ریاست کو ریاست کے باشندے منتخب نہیں کرتے بلکہ یہ منصب اس کو ورثے میں ملتا ہے گویا ریاست اس کی ذاتی ملکیت ہے۔ نہ رعایا کی چنی ہوئی مجلسِ قانون ساز، نہ رعایا کے روبرو جواب دہ وزارتیں، نہ انسانی حقوق کی کوئی ضمانت، نہ تحریر، تقریر اور تنظیم کی آزادی۔ ایسے نظامِ مملکت کو آمرانہ نہ کہیے تو کیا کہیے۔ شرعی عدالتیں قائم کرنے اور شرعی سزائیں دینے سے اس آمریت کی نوعیت نہیں بدل سکتی۔ 21-22

دورِ حاضر کی تھیوکریسی:
۔۔ دورِ حاضر کی تھیوکریسی کا اقتصادی ڈھانچہ بھی ایسا نہیں جس سے عوام کو فیض پہنچتا ہو بلکہ خالص سرمایہ دارانہ ہے۔ صنعتی اور تجارتی کاروبار، فیکٹریاں اور کارخانے، بینک اور بیمہ کمپنیان، دکانیں اور دفاتر غرضیکہ دولت پیدا کرنے اور اس کو تقسیم کرنے کا سارا نظام سرمایہ داری اصولوں پر چلتا ہے۔ دولت اور دولت آفرینی کے ذرائع کا وہی چند ہاتھوں میں ارتکاز اور وہی اپنے ہم مذہب محنت کاروں کی قوت کا آزادانہ استحصال، جو سرمایہ داری کی خصوصیت ہے تھیوکریٹک ریاستوں میں بھی پوری شان و شوکت سے جلوہ گر ہے۔ یہی آمرانہ اور امیرانہ تھیوکریسی خمینی صاحب تھوڑی بہت ترمیم کے ساتھ ایران میں بھی نافذ کرنا چاہتے ہیں لیکن ایرانیوں نے اپنی جانیں اس لیے تو قربان نہیں کی تھیں کہ ایک آمر کو ہٹا کار دوسرے آمر کو اپنے اوپر مسلّط کرلیں۔ 22
__________

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...