(یورپی سیاحوں کی روشنی میں)
ڈاکٹر مبارک علی
2003
اقتباسات
۔۔ (سندھ کے) مغرب میں لس مکران اور بلوچستان اور کچھ گنڈوا ہیں۔ ان میں سے اول الذکر یہ علاقہ ایک اونچے پہاڑی سلسلے کی وجہ سے کٹ جاتا ہے۔ یہ سلسلہ کوہ دو یا تین مقامات کے علاوہ ناقابلِ عبور ہے۔ 10۔
William Pottinger-1831
۔۔ کشتی رانی:
بلاشبہ اپنے تمام بحری سفروں کے دوران میں نے اس سے زیادہ سفری سہولیات کہیں نہیں دیکھیں۔ وہ جہاز اس قابل ہیں کہ بہت سارے آدمیوں کو نہر کے بہاؤ کے مخالف سمت میں لے جائیں حالانکہ ہوائیں بھی ان کی مخالف سمت میں چل رہی ہوتی ہیں۔ اس طرح سے ٹھٹھہ سے لاہور تک کا سفر چھہ یا سات ہفتوں میں طے کرتے ہیں لیکن لاہور سے واپسی میں 18 دن سے زیادہ نہیں لگتے۔ اور بعض اوقات تو 12 دنون میں ہی یہ سفر مکمل ہوجاتا ہے۔ 30-31
A. Hamilton. 1688-1723
۔۔ مچھلی:
دریائے سندھ سمیت دیگر دریائوں اور نہروں میں بڑی تعداد میں مچھلیاں موجود ہیں۔۔۔۔ ماہ اپریل، مئی اور جون میں دریائے سندھ میں ایک خاص قسم کی مچھلی پکڑی جاتی ہے جو پلہ مچھلی کہلاتی ہے یہ عام مچھلیوں سے مختلف ہوتی ہے، یہ مچھلی اس دریا کے علاوہ اور کسی دریا میں نہیں پائی جاتی۔ علاوہ ازیں ٹنچ کی طرح کی ایک اور مچھلی بھی ہوتی ہے جسے دمبیا کہتے ہیں۔ گو یہ بہت بڑی ہوتی ہے مگر اس میں کانٹے بے تحاشا ہوتے ہیں اور یہ بے ذائقہ بھی ہوتی ہے۔
دریائے سندھ میں موری مچھلی بھی پائی جاتی ہے جو لمبی سی سرخی مائل مچھلی ہوتی ہے جس میں کانٹے بہت ہوتے ہیں۔ شاکیلر نامی مچھلی کا سر گول ہوتا ہے۔ یہ کھانے میں بہت پسند کی جاتی ہے کیونکہ اس میں زیادہ کانٹے نہیں ہوتے۔ کیٹ فش کی طرز کی کوگاہ مچھلی پسندیدہ خوراک میں شامل نہیں ہے۔ تہلی مچھلی تقریبا ایک فٹ لمبی اور دس انچ موٹی ہوتی ہے۔ اس میں دم سے لے کر پیٹ تک کانٹے ہی کانٹے ہوتے ہیں اور بہت بے ذائقہ ہوتی ہے۔ ملی یا جرکاہ نامی مچھلی تقریبا 6 یا 8 فٹ لمبی ہوتی ہے اس کا سر بھی کتے کے سر کی طرح بڑا ہوتا ہے۔ گو کہ یہ بھی کھائی جاتی ہے لیکن یہ بہت خراب ہوتی ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس سے کئی قسم کی بیماریاں بھی لگ جاتی ہیں۔ کٹاری مچھلی تقریبا دو فٹ لمبی ہوتی ہے۔ اس کا منہ بڑا اور دو سینگ ہوتے ہیں جو اس کے منہ پر ہی ہوتے ہیں۔ بمبول یا ایل مچھلی کافر وافر ہوتی ہے اس کا سائز بہت لمبا ہوتا ہے۔ کجواہ یا ٹرٹل پروپوسس اور میرے خیال میں تو کروکوڈلز نامی مچھلیاں بھی سندھ میں عام ہیں۔ 35
E. Delhoste. 1831-32
۔۔ (پلہ مچھلی) ۔۔۔ چار مہینوں میں ملتی ہے کہ جب دریا میں پانی تیز ہوجائے یعنی جنوری تا اپریل، مقامی لوگوں کا خیال ہے کہ یہ مچھلی یہاں پر ایک مشہور بزرگ خواجہ خضر کے توسط سے آتی ہے۔ 35
Alexander Burnes. 1831
دیہات
۔۔ اکثر دیہاتوں کا کوئی نام نہیں ہے بلکہ وہ اپنے مالکوں کے ناموں سے مشہور ہیں۔ کسی بھی ضرورت کی وجہ سے یا پھر خوراک و روزگار کے حصول کی ناکامی کی وجہ سے یہ رواج اس ملک میں عام ہوگیا ہے کہ پورے دیہات کی آبادی ایک جگہ سے دوسری جگہ نقل مکانی کر جائے۔ 37
James Burnes. 1827
۔۔ یہ لوگ چاق و چوبند، مصروف اور بڑے پھرتیلے ہیں۔ یہاں ہر شخص اس طرح سے چلتا پھرتا نظر آتا ہے کہ جیسے اس کے آگے کوئی مقصد ہو۔ 37
Richard Burton. 1848-49-1878
۔۔ مساجد کی تعمیرزیادہ بہت طور پر کی گئی ہے ان کی دیکھہ بھال بھی کی جاتی ہے، مسلمانوں کو ان چیزوں سے بڑی رغبت ہے۔ 40
Charles Masson. 1830
۔۔ ان کی اکثریت سنی مسلمان ہے لیکن امیر اور کبیر دربار شیعہ ہیں۔ 42
۔۔ سندھی مرد سانولے رنگ کے ہیں لیکن مجموعی طور پر بیحد خوبصورت ہیں۔ وہ اہل ایشیا کے درمیانی قدوقامت سے بلند ہیں اور اچھے خدوخال اور قوی اعضا و جوارح کے مالک ہیں۔ سندھی عورتوں کا حسن مشہور ہے اور صحیح طور پر مشہور ہے۔ جب ہم ٹھٹھہ اور حیدرآباد میں سوار ہو کر باہر نکلتے تھے تو ہمیں اونچے طبقے کی عورتیں کبھی کبھار نظر آتی تھیں جو ہمیں دیکھنے کی مشتاق ہوتی تھیں لیکن رقاصائوں کے طائفے جو اکثر ہمارے پاس مظاہرہ فن کے لیے آتے تھے میں نے ان میں ایک بھی ایسی نہیں دیکھی جس کا چہرہ دلربا نہ ہو یا اس کا جسم متوازن و متناسب نہ ہو بلکہ اکثر یہ دیکھا کہ یہ دونوں صفات ان میں رچی بسی تھیں۔ 42
Henry Pottinger. 1809
سید
۔۔ سیدوں کی بہت تعظیم کی جاتی ہے۔ اور ان میں سے اکثر بہت معزز زندگی بسر کر رہے ہیں۔ عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ کوئی بھی سید بڑی بے خوفی کے ساتھ جرم کر سکتا ہے۔ 40-41
Charles Masson. 1830
۔۔ سندھ کے سید کہ جن کے اختیارات بہت زیادہ لامحدود اور ظالمانہ نوعیت کے ہیں وہ مشرق کی سب سے زیادہ جاہل قوم سے بھی زیادہ جاہل ہیں۔ ملک میں ان کی املاک بہت زیادہ ہیں۔ 44
William Pottinger. 1831-32
۔۔ سادات۔ page. 67
بلوچی
۔۔ بلوچی جو کل آبادی کا مشکل سے ہی دسواں حصہ ہیں وہ صحرائی آزاد باشندے ہیں۔ وہ حقیقت میں شمال مغربی پہاڑوں سے اتر کر آئے ہیں۔ ان کے بہت سے اطوار اور رسومات موسوی قوانین سے مشابہ ہیں۔ ان کی زبانی اور تحریری روایات بھی یہی ہیں کہ وہ یہودی النسل ہیں۔ ان کے خدوخال بھی یہی اشارہ دیتے ہیں کہ وہ اسرائیل کے گمشدہ قبائل کی نسل ہیں۔ 45-46
Leopold von Orlich. 1842
سندھی
۔۔ خاص سندھی لوگ دراز قد، مضبوط جسم کے مالک اور مغربی ہندوستان کے مقامی لوگوں کی نسبت زیادہ طاقتور اور جارح ہوتے ہیں۔ دریائے سندھ کے پار جو اقوام آباد رہتی ہیں ان کے ساتھ نہ تو ان کے ہاتھوں کی ساخت ملتی ہے اور نہ ہی پیروں اور ٹخنوں کی مشابہت ہے۔ دراصل سندھی نسلی طور پر آدھے ہندوالنسل اور آدھے فارسی النسل ہیں۔ اول الذکر سب سے زیادہ نامکمل اور موخرالذکر سب سے زیادہ مکمل لوگ ہیں۔ 48
Richard Burton. 1848-49-1878
ہندو
۔۔ سندھ کی تمام تر تجارت ہندوؤں کے ہاتھہ میں ہے۔
۔۔ میمنوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ سندھ میں کچھہ سے آئے ہوئے ہندو ہیں۔
۔۔ خیرپور کے میر منشی نے گاؤں رسول آباد کا اصل نام کبھی تحریر نہیں کیا بلکہ ہمیشہ اسے وزیرآباد لکھا ہے۔ (کیونکہ سندھ میں یہ مشھور تھا کہ جو ہندو لفظ "رسول" اپنے منہ سے نکالے گا تو مسلمان ہوجائےگا۔) 58
Edward Archer Langley. 1858
۔۔ برہمن ۔۔ یہ لوگ داڑھی تو منڈوا لیتے ہیں مگر مسلمانوں سے الگ شناخت قائم کرنے کی غرض سے مونچھیں باقی رہنے دیتے ہیں۔ 66
Richard Burton. 1848-49-1878
۔۔ ملتان کے بارے میں کہے گئے فارسے مقولے کا سندھ پر بھی پورا پورا اطلاق ہو سکتا ہے! "سندھ کی پہچان چار چیزوں سے ہوجاتی ہے یعنی،
گرما، گرد، گداگر اور گورستان"۔ 68
T. Posten. 1840-41
غلامی
۔۔ سندھ میں غلامی کی اصطلاح کو ظلم اور مذلل قید کے طور پر استعمال نہیں کیا جاتا، غلاموں کے ساتھ کافی اچھا سلوک ہوتا ہے اور بعض غلام تو کسی خاندان میں کافی صاحب اثر و رسوخ بن جاتے ہیں۔ 73
T. Posten. 1840-41
۔۔ امیروں کا تعلق شیعہ فرقے سے ہے لیکن ان کے عوام کی اکثریت سنی مسلک سے تعلق رکھتی ہے ۔۔ اور سب کو مذہبی آزادی ہے۔ 74
H. Ellis. 1809
۔۔ عادات: جب تک ضرورت نہ پڑے سندھی بے حس پڑا رہتا ہے۔ 74
N. Crow. 1799-1800
مکانات:
۔۔ ایک بار میں اور مسٹر آئی بھی ایک چھجے پر جا سوئے جس کی وجہ سے اردگرد کے سارے لوگ محتاط ہوگئے۔ میں صبح سویرے ہی اُٹھ جایا کرتا تھا اور مجھے بعض عجیب و غریب باتیں محسوس ہوتی تھیں مگر پھر آوازیں آتیں "خاموش"۔84
Edward Archer Langley. 1858
ٹھٹھہ
۔۔ ٹھٹھہ شہر، الہیات، لسانیات کی تعلیم کی وجہ سے بہت مشہور ہے اور ان شعبہ جات میں نوجوانوں کو تربیت دینے کی غرض سے تقریبا چار سو مدارس ہیں۔ میں ایک سید سے جو الہیات کا ماہر تھا بہت متاثر ہوا۔ وہ اچھا مورخ بھی تھا۔ ایک روز اس نے مجھہ سے پوچھا کہ آیا میں نے اپنے ملک میں سکندر اعظم کے بارے میں سنا ہے۔ میں نے اسے کہا کہ ہاں اور میں نے پورس کے ساتھ اس کی جنگ اور فتح کا حال بیان کیا۔ اس نے مجھے بتایا کہ ان کی تاریخوں میں بھی ایسا ہی ہے لیکن دونوں بادشاہوں کے ناموں میں کچھ اختلاف ہونے کی علاوہ دریائے سندھ پر سے اس کی گزرگاہ پر بھی اختلاف ہے۔ اس نے کہا کہ اس کی تاریخ میں شاہ اسکندر اور پورس کا تذکرہ ہے نیز یہ بھی تحریر ہے کہ سکندر بہت بڑا جادوگر تھا اور اس نے تقریبا دس لاکھ جنگلی ہنس جمع کیے تھے جس پر سے اس کی فوج نے دریا عبور کیا اور پورس کے ہاتھی کبھی اس جگہ کی جانب اپنے رخ نہیں کرتے تھے کہ جہاں اسکندر ہوا کرتا تھا۔ 87-88
A. Hamilton. 1688-1723
ہنگلاج (Hinglaj)
۔۔ دیوتا رام چندر نے دورہ کیا تھا۔ اس بات کا ایک پتھر پر تذکرہ موجود ہے اور شہادت کے لیے سورج اور چاند کی شبیہ بنادی گئیں ہیں۔ 89
سکندر اعظم کے راستے کا ایک حصہ ہے۔
ہنگلاج کا سفر کرنے والا گناہوں سے پاک ہوجاتا ہے۔90
Alexander Burnes. 1831
۔۔ جب سندھی حکمران عربوں کے تسلط سے آزاد ہوئے تو انہوں نے ٹھٹھہ کو اپنا صدر مقام بنایا اور جلد ہی ایشیا کا عظیم ترین شہر بن گیا۔ 92
Henry Pottinger. 1809
دیکھو وہ لڑکیوں کا ۔۔۔
۔۔ دیکھو وہ لڑکیوں کا ایک جمگھٹا اپنے پسندیدہ کھیل کھینو لطف اندوز ہو رہا ہے۔ ان کے سر ننگے ہیں اور ان کی ململ کی قمیض زیادہ تراشی ہوئی نہیں ہیں، وہ دوڑتی ہیں، چلاتی ہیں، اور خوشی سے ایک دوسرے کو دھکے دیتی ہیں، بالکل اسی طرح سے جس طرح کہ انگریزی ہائیڈنز کی بیویاں کرتی ہیں۔
تھوڑا ہی آگے، ایک مصروف گھریلو عورت رات کو سونے کے لیے آرام گاہیں (یعنی پلنگ) بچھا رہی ہے۔ یہ ایک مصنوعی سی نشست ہے۔ اس میں چار ٹانگوں پر مشتمل لکڑی کے فریم کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ جیسے کہ تمہارے خیمے کے بستر ہوتے ہیں، اس میں فیتے کی جگہ عمدہ رسیاں لگائی گئی ہیں ان پر عام سی رضائیاں پڑی ہوئی ہیں۔
ادھر ذرا اس گروہ کو دیکھو جو گھر کے آگے نماز ادا کر رہا ہے۔ ایک بوڑھا ماچس چلانے کے طریقے بتا رہا ہے۔ قبرستان میں بہت سی قبریں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یا پھر زلزلوں سے چٹخ گئی ہیں اور اس طرح سے گری ہوئی ہیں کہ دور سے بڑے بڑے پتھر پڑے معلوم ہوں۔ ایک قبر کے گنبد پر کبوتروں نے اپنا کابک بنا لیا ہے ان سب چیزوں سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ وہاں کبھی آدمی رہتے ہوں گے۔
حال ہی میں ایک اور ممتاز صوفی، میاں ملوک کو اسی مخصوص امتحان کے ذریعہ دریافت کیا گیا ہے کہ پرانے وقتوں میں مکلی کی پہاڑیوں کو حضرت محمد ﷺ کے نواسگان حسن اور حسین (علیہا السلام) کی زیارت کا شرف رہا ہے۔ ایک غافل چرواہا اپنی بھیڑوں کو چٹانوں کے اوپر لے جاتا لے۔ یہ دیکھ کر اس کا غصہ روزبروز بڑھتا چلا گیا کہ یہ جانور ایک خاص جگہ پر سینگ لگانے سے باز رہتے ہیں۔ اس کے بعد اس نے ایک خواب دیکھا جسے وہ سمجھا نہیں۔ لیکن جب وہ خواب اس نے دوپرہیزگار اور نیک آدمیوں کو بتایا تو انہوں نے اس جگہ پر رکھ کر نشان لگا دئیے۔ ٹھٹھہ کے ایک گورنر نے اس کے گرد دیوار کھڑی کردی۔ ایک اور شخص نے اس پر گنبد لگا دیا۔ اور یوں یہ آہستہ آہستہ ایک خانقاہ کی شکل اختیار گر گیا۔ 100-101
Richard Burton. 1848-49-1878
Ref: Unhappy Valley of Sindh.page. 101-112
کراچی
۔۔ سندھ کا سب سے بڑا تجارتی شہر کراچی ہے بلکہ اس کے تاجروں کا تو اب بمبئی کے سرمایہ داروں سے مقابلہ ہونے لگا ہے۔122
Edward Archer Langley. 1858
۔۔ روھڑی (الور) مسلمانوں کی فتح کے وقت شمالی ہند کا دارالحکومت تھا۔ 141
Charles Masson. 1830
William Pottinger-1831
۔۔ کشتی رانی:
بلاشبہ اپنے تمام بحری سفروں کے دوران میں نے اس سے زیادہ سفری سہولیات کہیں نہیں دیکھیں۔ وہ جہاز اس قابل ہیں کہ بہت سارے آدمیوں کو نہر کے بہاؤ کے مخالف سمت میں لے جائیں حالانکہ ہوائیں بھی ان کی مخالف سمت میں چل رہی ہوتی ہیں۔ اس طرح سے ٹھٹھہ سے لاہور تک کا سفر چھہ یا سات ہفتوں میں طے کرتے ہیں لیکن لاہور سے واپسی میں 18 دن سے زیادہ نہیں لگتے۔ اور بعض اوقات تو 12 دنون میں ہی یہ سفر مکمل ہوجاتا ہے۔ 30-31
A. Hamilton. 1688-1723
۔۔ مچھلی:
دریائے سندھ سمیت دیگر دریائوں اور نہروں میں بڑی تعداد میں مچھلیاں موجود ہیں۔۔۔۔ ماہ اپریل، مئی اور جون میں دریائے سندھ میں ایک خاص قسم کی مچھلی پکڑی جاتی ہے جو پلہ مچھلی کہلاتی ہے یہ عام مچھلیوں سے مختلف ہوتی ہے، یہ مچھلی اس دریا کے علاوہ اور کسی دریا میں نہیں پائی جاتی۔ علاوہ ازیں ٹنچ کی طرح کی ایک اور مچھلی بھی ہوتی ہے جسے دمبیا کہتے ہیں۔ گو یہ بہت بڑی ہوتی ہے مگر اس میں کانٹے بے تحاشا ہوتے ہیں اور یہ بے ذائقہ بھی ہوتی ہے۔
دریائے سندھ میں موری مچھلی بھی پائی جاتی ہے جو لمبی سی سرخی مائل مچھلی ہوتی ہے جس میں کانٹے بہت ہوتے ہیں۔ شاکیلر نامی مچھلی کا سر گول ہوتا ہے۔ یہ کھانے میں بہت پسند کی جاتی ہے کیونکہ اس میں زیادہ کانٹے نہیں ہوتے۔ کیٹ فش کی طرز کی کوگاہ مچھلی پسندیدہ خوراک میں شامل نہیں ہے۔ تہلی مچھلی تقریبا ایک فٹ لمبی اور دس انچ موٹی ہوتی ہے۔ اس میں دم سے لے کر پیٹ تک کانٹے ہی کانٹے ہوتے ہیں اور بہت بے ذائقہ ہوتی ہے۔ ملی یا جرکاہ نامی مچھلی تقریبا 6 یا 8 فٹ لمبی ہوتی ہے اس کا سر بھی کتے کے سر کی طرح بڑا ہوتا ہے۔ گو کہ یہ بھی کھائی جاتی ہے لیکن یہ بہت خراب ہوتی ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس سے کئی قسم کی بیماریاں بھی لگ جاتی ہیں۔ کٹاری مچھلی تقریبا دو فٹ لمبی ہوتی ہے۔ اس کا منہ بڑا اور دو سینگ ہوتے ہیں جو اس کے منہ پر ہی ہوتے ہیں۔ بمبول یا ایل مچھلی کافر وافر ہوتی ہے اس کا سائز بہت لمبا ہوتا ہے۔ کجواہ یا ٹرٹل پروپوسس اور میرے خیال میں تو کروکوڈلز نامی مچھلیاں بھی سندھ میں عام ہیں۔ 35
E. Delhoste. 1831-32
۔۔ (پلہ مچھلی) ۔۔۔ چار مہینوں میں ملتی ہے کہ جب دریا میں پانی تیز ہوجائے یعنی جنوری تا اپریل، مقامی لوگوں کا خیال ہے کہ یہ مچھلی یہاں پر ایک مشہور بزرگ خواجہ خضر کے توسط سے آتی ہے۔ 35
Alexander Burnes. 1831
دیہات
۔۔ اکثر دیہاتوں کا کوئی نام نہیں ہے بلکہ وہ اپنے مالکوں کے ناموں سے مشہور ہیں۔ کسی بھی ضرورت کی وجہ سے یا پھر خوراک و روزگار کے حصول کی ناکامی کی وجہ سے یہ رواج اس ملک میں عام ہوگیا ہے کہ پورے دیہات کی آبادی ایک جگہ سے دوسری جگہ نقل مکانی کر جائے۔ 37
James Burnes. 1827
۔۔ یہ لوگ چاق و چوبند، مصروف اور بڑے پھرتیلے ہیں۔ یہاں ہر شخص اس طرح سے چلتا پھرتا نظر آتا ہے کہ جیسے اس کے آگے کوئی مقصد ہو۔ 37
Richard Burton. 1848-49-1878
۔۔ مساجد کی تعمیرزیادہ بہت طور پر کی گئی ہے ان کی دیکھہ بھال بھی کی جاتی ہے، مسلمانوں کو ان چیزوں سے بڑی رغبت ہے۔ 40
Charles Masson. 1830
۔۔ ان کی اکثریت سنی مسلمان ہے لیکن امیر اور کبیر دربار شیعہ ہیں۔ 42
۔۔ سندھی مرد سانولے رنگ کے ہیں لیکن مجموعی طور پر بیحد خوبصورت ہیں۔ وہ اہل ایشیا کے درمیانی قدوقامت سے بلند ہیں اور اچھے خدوخال اور قوی اعضا و جوارح کے مالک ہیں۔ سندھی عورتوں کا حسن مشہور ہے اور صحیح طور پر مشہور ہے۔ جب ہم ٹھٹھہ اور حیدرآباد میں سوار ہو کر باہر نکلتے تھے تو ہمیں اونچے طبقے کی عورتیں کبھی کبھار نظر آتی تھیں جو ہمیں دیکھنے کی مشتاق ہوتی تھیں لیکن رقاصائوں کے طائفے جو اکثر ہمارے پاس مظاہرہ فن کے لیے آتے تھے میں نے ان میں ایک بھی ایسی نہیں دیکھی جس کا چہرہ دلربا نہ ہو یا اس کا جسم متوازن و متناسب نہ ہو بلکہ اکثر یہ دیکھا کہ یہ دونوں صفات ان میں رچی بسی تھیں۔ 42
Henry Pottinger. 1809
سید
۔۔ سیدوں کی بہت تعظیم کی جاتی ہے۔ اور ان میں سے اکثر بہت معزز زندگی بسر کر رہے ہیں۔ عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ کوئی بھی سید بڑی بے خوفی کے ساتھ جرم کر سکتا ہے۔ 40-41
Charles Masson. 1830
۔۔ سندھ کے سید کہ جن کے اختیارات بہت زیادہ لامحدود اور ظالمانہ نوعیت کے ہیں وہ مشرق کی سب سے زیادہ جاہل قوم سے بھی زیادہ جاہل ہیں۔ ملک میں ان کی املاک بہت زیادہ ہیں۔ 44
William Pottinger. 1831-32
۔۔ سادات۔ page. 67
بلوچی
۔۔ بلوچی جو کل آبادی کا مشکل سے ہی دسواں حصہ ہیں وہ صحرائی آزاد باشندے ہیں۔ وہ حقیقت میں شمال مغربی پہاڑوں سے اتر کر آئے ہیں۔ ان کے بہت سے اطوار اور رسومات موسوی قوانین سے مشابہ ہیں۔ ان کی زبانی اور تحریری روایات بھی یہی ہیں کہ وہ یہودی النسل ہیں۔ ان کے خدوخال بھی یہی اشارہ دیتے ہیں کہ وہ اسرائیل کے گمشدہ قبائل کی نسل ہیں۔ 45-46
Leopold von Orlich. 1842
سندھی
۔۔ خاص سندھی لوگ دراز قد، مضبوط جسم کے مالک اور مغربی ہندوستان کے مقامی لوگوں کی نسبت زیادہ طاقتور اور جارح ہوتے ہیں۔ دریائے سندھ کے پار جو اقوام آباد رہتی ہیں ان کے ساتھ نہ تو ان کے ہاتھوں کی ساخت ملتی ہے اور نہ ہی پیروں اور ٹخنوں کی مشابہت ہے۔ دراصل سندھی نسلی طور پر آدھے ہندوالنسل اور آدھے فارسی النسل ہیں۔ اول الذکر سب سے زیادہ نامکمل اور موخرالذکر سب سے زیادہ مکمل لوگ ہیں۔ 48
Richard Burton. 1848-49-1878
ہندو
۔۔ سندھ کی تمام تر تجارت ہندوؤں کے ہاتھہ میں ہے۔
۔۔ میمنوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ سندھ میں کچھہ سے آئے ہوئے ہندو ہیں۔
۔۔ خیرپور کے میر منشی نے گاؤں رسول آباد کا اصل نام کبھی تحریر نہیں کیا بلکہ ہمیشہ اسے وزیرآباد لکھا ہے۔ (کیونکہ سندھ میں یہ مشھور تھا کہ جو ہندو لفظ "رسول" اپنے منہ سے نکالے گا تو مسلمان ہوجائےگا۔) 58
Edward Archer Langley. 1858
۔۔ برہمن ۔۔ یہ لوگ داڑھی تو منڈوا لیتے ہیں مگر مسلمانوں سے الگ شناخت قائم کرنے کی غرض سے مونچھیں باقی رہنے دیتے ہیں۔ 66
Richard Burton. 1848-49-1878
۔۔ ملتان کے بارے میں کہے گئے فارسے مقولے کا سندھ پر بھی پورا پورا اطلاق ہو سکتا ہے! "سندھ کی پہچان چار چیزوں سے ہوجاتی ہے یعنی،
گرما، گرد، گداگر اور گورستان"۔ 68
T. Posten. 1840-41
غلامی
۔۔ سندھ میں غلامی کی اصطلاح کو ظلم اور مذلل قید کے طور پر استعمال نہیں کیا جاتا، غلاموں کے ساتھ کافی اچھا سلوک ہوتا ہے اور بعض غلام تو کسی خاندان میں کافی صاحب اثر و رسوخ بن جاتے ہیں۔ 73
T. Posten. 1840-41
۔۔ امیروں کا تعلق شیعہ فرقے سے ہے لیکن ان کے عوام کی اکثریت سنی مسلک سے تعلق رکھتی ہے ۔۔ اور سب کو مذہبی آزادی ہے۔ 74
H. Ellis. 1809
۔۔ عادات: جب تک ضرورت نہ پڑے سندھی بے حس پڑا رہتا ہے۔ 74
N. Crow. 1799-1800
مکانات:
۔۔ ایک بار میں اور مسٹر آئی بھی ایک چھجے پر جا سوئے جس کی وجہ سے اردگرد کے سارے لوگ محتاط ہوگئے۔ میں صبح سویرے ہی اُٹھ جایا کرتا تھا اور مجھے بعض عجیب و غریب باتیں محسوس ہوتی تھیں مگر پھر آوازیں آتیں "خاموش"۔84
Edward Archer Langley. 1858
ٹھٹھہ
۔۔ ٹھٹھہ شہر، الہیات، لسانیات کی تعلیم کی وجہ سے بہت مشہور ہے اور ان شعبہ جات میں نوجوانوں کو تربیت دینے کی غرض سے تقریبا چار سو مدارس ہیں۔ میں ایک سید سے جو الہیات کا ماہر تھا بہت متاثر ہوا۔ وہ اچھا مورخ بھی تھا۔ ایک روز اس نے مجھہ سے پوچھا کہ آیا میں نے اپنے ملک میں سکندر اعظم کے بارے میں سنا ہے۔ میں نے اسے کہا کہ ہاں اور میں نے پورس کے ساتھ اس کی جنگ اور فتح کا حال بیان کیا۔ اس نے مجھے بتایا کہ ان کی تاریخوں میں بھی ایسا ہی ہے لیکن دونوں بادشاہوں کے ناموں میں کچھ اختلاف ہونے کی علاوہ دریائے سندھ پر سے اس کی گزرگاہ پر بھی اختلاف ہے۔ اس نے کہا کہ اس کی تاریخ میں شاہ اسکندر اور پورس کا تذکرہ ہے نیز یہ بھی تحریر ہے کہ سکندر بہت بڑا جادوگر تھا اور اس نے تقریبا دس لاکھ جنگلی ہنس جمع کیے تھے جس پر سے اس کی فوج نے دریا عبور کیا اور پورس کے ہاتھی کبھی اس جگہ کی جانب اپنے رخ نہیں کرتے تھے کہ جہاں اسکندر ہوا کرتا تھا۔ 87-88
A. Hamilton. 1688-1723
ہنگلاج (Hinglaj)
۔۔ دیوتا رام چندر نے دورہ کیا تھا۔ اس بات کا ایک پتھر پر تذکرہ موجود ہے اور شہادت کے لیے سورج اور چاند کی شبیہ بنادی گئیں ہیں۔ 89
سکندر اعظم کے راستے کا ایک حصہ ہے۔
ہنگلاج کا سفر کرنے والا گناہوں سے پاک ہوجاتا ہے۔90
Alexander Burnes. 1831
۔۔ جب سندھی حکمران عربوں کے تسلط سے آزاد ہوئے تو انہوں نے ٹھٹھہ کو اپنا صدر مقام بنایا اور جلد ہی ایشیا کا عظیم ترین شہر بن گیا۔ 92
Henry Pottinger. 1809
دیکھو وہ لڑکیوں کا ۔۔۔
۔۔ دیکھو وہ لڑکیوں کا ایک جمگھٹا اپنے پسندیدہ کھیل کھینو لطف اندوز ہو رہا ہے۔ ان کے سر ننگے ہیں اور ان کی ململ کی قمیض زیادہ تراشی ہوئی نہیں ہیں، وہ دوڑتی ہیں، چلاتی ہیں، اور خوشی سے ایک دوسرے کو دھکے دیتی ہیں، بالکل اسی طرح سے جس طرح کہ انگریزی ہائیڈنز کی بیویاں کرتی ہیں۔
تھوڑا ہی آگے، ایک مصروف گھریلو عورت رات کو سونے کے لیے آرام گاہیں (یعنی پلنگ) بچھا رہی ہے۔ یہ ایک مصنوعی سی نشست ہے۔ اس میں چار ٹانگوں پر مشتمل لکڑی کے فریم کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ جیسے کہ تمہارے خیمے کے بستر ہوتے ہیں، اس میں فیتے کی جگہ عمدہ رسیاں لگائی گئی ہیں ان پر عام سی رضائیاں پڑی ہوئی ہیں۔
ادھر ذرا اس گروہ کو دیکھو جو گھر کے آگے نماز ادا کر رہا ہے۔ ایک بوڑھا ماچس چلانے کے طریقے بتا رہا ہے۔ قبرستان میں بہت سی قبریں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یا پھر زلزلوں سے چٹخ گئی ہیں اور اس طرح سے گری ہوئی ہیں کہ دور سے بڑے بڑے پتھر پڑے معلوم ہوں۔ ایک قبر کے گنبد پر کبوتروں نے اپنا کابک بنا لیا ہے ان سب چیزوں سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ وہاں کبھی آدمی رہتے ہوں گے۔
حال ہی میں ایک اور ممتاز صوفی، میاں ملوک کو اسی مخصوص امتحان کے ذریعہ دریافت کیا گیا ہے کہ پرانے وقتوں میں مکلی کی پہاڑیوں کو حضرت محمد ﷺ کے نواسگان حسن اور حسین (علیہا السلام) کی زیارت کا شرف رہا ہے۔ ایک غافل چرواہا اپنی بھیڑوں کو چٹانوں کے اوپر لے جاتا لے۔ یہ دیکھ کر اس کا غصہ روزبروز بڑھتا چلا گیا کہ یہ جانور ایک خاص جگہ پر سینگ لگانے سے باز رہتے ہیں۔ اس کے بعد اس نے ایک خواب دیکھا جسے وہ سمجھا نہیں۔ لیکن جب وہ خواب اس نے دوپرہیزگار اور نیک آدمیوں کو بتایا تو انہوں نے اس جگہ پر رکھ کر نشان لگا دئیے۔ ٹھٹھہ کے ایک گورنر نے اس کے گرد دیوار کھڑی کردی۔ ایک اور شخص نے اس پر گنبد لگا دیا۔ اور یوں یہ آہستہ آہستہ ایک خانقاہ کی شکل اختیار گر گیا۔ 100-101
Richard Burton. 1848-49-1878
Ref: Unhappy Valley of Sindh.page. 101-112
کراچی
۔۔ سندھ کا سب سے بڑا تجارتی شہر کراچی ہے بلکہ اس کے تاجروں کا تو اب بمبئی کے سرمایہ داروں سے مقابلہ ہونے لگا ہے۔122
Edward Archer Langley. 1858
۔۔ روھڑی (الور) مسلمانوں کی فتح کے وقت شمالی ہند کا دارالحکومت تھا۔ 141
Charles Masson. 1830
No comments:
Post a Comment