سُخن در سُخن
سبط حسن
1987
سخن در سخن فیض احمد فیض پر لکھی گئی کتاب ہے۔
فیض صاحب نہ صرف سبط حسن کے اچھے دوست تھے بلکے سیاسی سوشلسٹ ساتھی بھی تھے۔
اور سبط حسن کے نزدیک ہر وہ بندہ "ہیرو" ہے جو انقلابی اور باغی ہو!
-------------------------------------------------------
اقتباسات
۔۔ ہم کو ایسا ادب درکار ہے جو لوگوں کو جگائے نہ کہ سُلائے۔ (منشی پریم چند)۔ 12
۔۔ سوال کرنا ابراہیم و سقراط کی دیرینہ سُنت ہے۔ سوالوں ہی کے وسیلے سے انسان شعورو عرفان تک پہنچتا ہے۔ چنانچہ فیض صاحب نے بھی حقیقت شناسی کی راہ سوالوں ہی کے ذریعے طے کی۔ اسی دوران وہ سوشلسٹ نظریات سے بھی روشناس ہوئے اور ان کے فکر و احساس کا افق بھی وسیع ہوا۔ یہ حسیں کھیت ، پھٹا پڑتا ہے جوبن جن کا کس لیے ان میں فقط بھوک اُگا کرتی ہے
۔۔ فیض صاحب کے نزدیک انقلاب کی راہ حیات بخش اور مرگ آفرین قوتوں کے مابین تصادم سے ہوکر گزرتی ہے۔ 31
۔۔ جیل خانہ بڑی آزمائش کی جگہ ہے ۔۔۔ جیل خانہ بڑی آزمائش کی جگہ ہے۔ وہاں پہنچ کر کھرے کھوٹے کا فرق صاف طاہر ہوجاتا ہے۔ وہ نقاب اُتر جاتی ہے جو ہم اپنی شخصیت پر چڑھائے رہتے ہیں اور دوست احباب، عزیز اقارب کے ادعائے محبت کی قلعی بھی کھل جاتی ہے۔ 34
۔۔ اب کسی لیلٰی کو بھی اقرار محبوبی نہیں اِن دنوں بدنام ہے ہر ایک دیوانے کا نام ۔ 36
۔۔ جیل میں کوئی نو گرفتار دوست آتا ہے تو بڑی خوشی ہوتی ہے۔ (سبط)۔ 44
۔۔ فیض صاحب کی طبیعت میں گھبراہٹ یا جلد بازی بالکل نہیں تھی۔ وہ آہستہ چلتے تھے، آہستہ بولتے تھے اور ہر کام سکون اور آرام سے مگر وقت پر کرنے کے قائل تھے۔ جیل میں بھی اُن کے معمولات میں فرق نہیں آیا۔ وہ صبح اُٹھ کر شیو کرتے اور کپڑے بدل کر یوں تیار وہوجاتے گویا دفتر جانا ہے۔ 46
۔۔ ہر فن پارے پر اپنے خالق کی شخصیت کی چھاپ ضرور ہوتی ہے۔ اُس کی انفرادیت ہی اُس کو دوسروں کی فنی تخلیقات سے جُدا یا ممتاز کرتی ہے۔ ۔۔۔ مثلاً تقسیمِ ہند کے وقت ملک میں جو فسادات برپا ہوئے اور جو انسانیت سوز مناظر دیکھنے میں آئے ان سے متاثر ہوکر سعادت حسن منٹو، کرشن چندر، بیدی، خواجہ احمد عباس اور دوسرے ادیبوں نے کئی بڑی دلدوز کہانیاں لیکھیں مگر فیض صاحب اس موضوع پر کوئی نظم نہ لکھ سکے حالاں کہ وہ لاہور میں کشت و خون کے عینی شاہد تھے۔ البتہ جب مشرقی پاکستان میں خون کی ندیاں بہیں تو فیض صاحب بے قرار ہوگئے، ہر چند کہ وہ ان حادثات کے عینی شاہد نہ تھے۔ 51
۔۔ تخلیق عموماً کسی منصوبے کے تحت نہیں ہوتی بلکہ نئے یا پرانے واقعے سے متاثرع ہوکر۔۔ 52
۔۔ ہم خستہ تنوں سے محتسبو ، کیا مال منال کا پوچھتے ہو جو عمر سے ہم نے بھر پایا سب سامنے لائے دیتے ہیں دامن میں ہے مشتِ خاکِ جگر،ساغر میں ہے خونِ حسرتِ مےَ لوہے نے دامن جھاڑ دیا ، لو جام اُلٹائے دیتے ہیں۔ 55
۔۔ (فیض صاحب) کُل وقتی یا پیشہ ور شاعر بھی نہ تھے کہ دن رات تصوّرِ جاناں میں تخیّل کے جام و سبُو لنڈھاتے رہتے۔ 62
۔۔ لیکن محبت زبان سے نہیں دل سے کی جاتی ہے اور دل ملے ہوں تو یار مہرباں کی زبان ترکی ہو یا تازی کوئی فرق نہیں ہوتا۔ 64
۔۔ فیض صاحب کا مروجہ فنونِ لطیفہ کے علاوہ ملک کے لوک ورثے سے بھی بڑا لگاؤ تھا۔ اُن کی دلی خواہش تھی کہ ادب و فن کے اس عوامی ورثے کو جس قدر ممکن ہو محفوظ کرلیا جائے ورنہ یہ قیمتی سرمایہ مشینی مصنوعات کے سیلاب میں بہہ جائے گا اور کچھ عرصے کے بعد کسی کو اُن کے نام بھی یاد نہیں رہیں گے۔ 67
۔۔ مشرقی بنگال میں فوج کے ہاتھوں قتلِ عام کا جو میلہ سجا اُس سے فیض صاحب کو بہت صدمہ پہنچا۔ مشرقی بنگال کی ساتھ ابتداہی سے نوآبادیوں کا سا جو سلوک کیا جاتا تھا وہ اس نا انصافی پر ہمیشہ کڑھا کرتے تھے اور وہاں کی اکثریت کو اُس کے جائز حقوق سے محروم کرنے کی غرض سے جو شاطرانہ چالیں چلی جاتی تھیں، فیض صاحب نے اُن کی برابر مذمت کی۔ [افسوس کہ سندھ کے ساتھ بھی وہ ہی سلوک کیا جارہا ہے، اور وہ ہی شاطرانہ چالیں چلی جا رہی ہیں۔ ابڑو]
۔۔ اسلام آباد کی فضا
۔۔۔ اسلام آباد کی فضا محلّا تی سازشوں کے لیے نہایت موزوں ہے مگر یہ وہ سردخانہ ہے جس میں داخل ہوکر انسان کے ضمیر پر، اس کی روح پر، اُس کے دل و دماغ اور اس کی تخلیقی صلاحیتوں پر برف کی تہیں جم جاتی ہیں۔
۔۔۔ فیض صاحب کی زندگی کے وہ چار پانچ سال جو انہوں نے اسلام آباد میں گزارے وہ شعر تخلیق کے اعتبار سے بالکل اکارت گئے۔ یوں تو وہاں اُن کو ہر طرح کا آرام نصیب تھا۔ سکار دربار تک رسائی تھی، دعوتیں اور ضیافتیں تھیں۔ مہ وشوں کی جلوہ پاشیاں تھیں اور کاسہ لیسوں کا ہجوم تھا لیکن۔۔۔ اُن کو وہاں ہر وقت اپنے ضمیر سے لڑنا پڑتا تھا اور روحانی برداشت کرنی پڑتیں۔ جیل میں تمام پابندیوں کے باوجود اُن کی فکر آزاد تھی، اُن کی نطق و لَب آزاد تھے، اُن کا آدرش اُن کو روحانی غذا فراہم کرتا تھا اور اُن کو کامل یقین تھا کہ وہ حق پر ہیں اور حق گوئی کی پاداش میں سزا بھگت رہے ہیں۔
۔۔۔ اُن کی شعری زندگی کے بھی وہی چار سال (جیل والے) سب سے بار آور ثابت ہوئے۔ اس کے برعکس انہوں نے اسلام آباد میں چار سال گزارے وہ نہ صرف اکارت گئے بلکہ اس سے اُن کی شخصیت اور عزت نفس بہت مجروح ہوئی۔ 79-80
۔۔ ہماری نئی نسل کو شاید معلوم نہ ہو کہ 1948ء میں جب سوویت یونین کی اپیل پر ہل ملک میں امن کیٹیاں بننے لگیں تا کہ سامراجی طاقتوں کی جنگی تیاریوں کا سدِباب کیا جائے تو فیض صاحب پاکستان کی مرکزی کمیٹی کے صدر مقرر ہوئے۔ آج کل تو وہ حکومتیں بھی امن، امن کہتے نہیں تھکتیں جو دن رات ایٹم بم، ایٹمی میزائیل اور دوسرے ہلاکت آفریں ہتھار بنانے میں مصروف ہیں۔ 84
۔۔ اقبال کے وہاں فلسفہ زیست ہے، فکرکی بلندی ہے، سماجی شعور ہے، ظالم اور مظلوم کی واضح تفریق اور نشان دہی ہے ۔ لینن خُدا سے سوال کرتا ہے کہ ۔۔ وہ کون سا آدم ہے کہ تو جس کا ہے معبود وہ آدمِ خاکی کہ جو ہے زیرِ سماوات لیکن اُس کی وحدت تو پارہ پارہ وہچکی ہے ۔۔ مشرق کے خداوند سفیدانِ فرنگی مغرب کے خداوند درخسندہ فِلزات رعنائی تعمیر میں، رونق میں، صفا میںگرجوں سے کہیں بڑھ کے ہیں بینکوں کی عمارت ظاہر میں تجارت ہے، حقیقت میں جُوا ہے سُود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگِ مفاجات یہ علم ، یہ حکمت ، ہی تدبّر، یہ حکومت پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیم مساوات ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومتاحساسِ مروّت کو کُچل دیتے ہیں آلات 91
۔۔ جن کا دیں پرورئ کذب و ریا ہے اُن کو ہمتِ کفر ملے، جرأت تحقیق ملے جن کے سر منتظر تیغِ جفا ہیں اُن کو دستِ قاتل کو جھٹک دینے کی توفیق ملے
۔۔ وطن سے محبت بڑا فطری جذبہ ہے اور بدقسمت ہے وہ شخص جو قدرت کے اس فیض سے محروم ہے۔ 98
لیکن پاکستان کے اربابِ اقتدار کی نظر میں سچا محبِّ وطن وہی ہے جس کا شیوہ حکومت کی اطاعت و بندگی ہو اور اگر کوئی شخص اختلاف یا اعتراض کرے تو وہ وطن کا غدار ہے اور سزاوارِسزا ہے۔۔ نثار میں تیری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اُٹھا کے چلے جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلےنظر چُرا کے چلے، جسم و جاں بچا کے چلے
۔۔ یوں بھی وہ عالمِ فکر و عمل کے شاعر نہ تھے بلکہ محسوسات کے شاعر تھے۔ 105
۔۔ جنگ کی معنی پرانے زمانے کی جنگوں اور آج کل کی جنگوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ پرانے زمانے میں جب لوگ تلوار، بندوق سے لڑتے تھے تو تباہی ضرور آتی تھی لیکن اس کا دائرہ بہت محدود ہوتا تھا اور آبادی کا بہت ہی مختصر حصّہ اس سے متاثر ہوتا تھا جس فریق نے میدان جنگ میں شکست کھائی وہ تاج و تخت سے محروم ہوا، ملک کی عنانِ اقتدار فاتح کے قبضے میں آگئی اور زندگی بدستور پرانے ڈگر پر چلنے لگی لیکن آج امن کی معنی ہیں بنی نوع انسان کی بقا اور ایٹمی جنگ کے معنی ہیں کہ دنیا ملبے کا ڈھیر ہوجائے گی اور انسان، جانور برگ و شجر کسی کا سِرے سے وجود ہی باقی نہ رہے۔ (فیض احمد فیض)۔ 107
فیض صاحب نہ صرف سبط حسن کے اچھے دوست تھے بلکے سیاسی سوشلسٹ ساتھی بھی تھے۔
اور سبط حسن کے نزدیک ہر وہ بندہ "ہیرو" ہے جو انقلابی اور باغی ہو!
-------------------------------------------------------
اقتباسات
۔۔ ان حالات نے دنیا بھر کے روشن خیال ادیبوں کو سوچنے پر مجبور کردیا کہ آزادی اور جمہوریت کے دشمنوں کا اگر جم کر مقابلہ نہ کیا گیا تو پرورش لوح و قلم کے امکانات ہی باقی نہ رہیں گے۔ 11
۔۔ ہم کو ایسا ادب درکار ہے جو لوگوں کو جگائے نہ کہ سُلائے۔ (منشی پریم چند)۔ 12
۔۔ سوال کرنا ابراہیم و سقراط کی دیرینہ سُنت ہے۔ سوالوں ہی کے وسیلے سے انسان شعورو عرفان تک پہنچتا ہے۔ چنانچہ فیض صاحب نے بھی حقیقت شناسی کی راہ سوالوں ہی کے ذریعے طے کی۔ اسی دوران وہ سوشلسٹ نظریات سے بھی روشناس ہوئے اور ان کے فکر و احساس کا افق بھی وسیع ہوا۔ یہ حسیں کھیت ، پھٹا پڑتا ہے جوبن جن کا کس لیے ان میں فقط بھوک اُگا کرتی ہے
۔۔ فیض صاحب کے نزدیک انقلاب کی راہ حیات بخش اور مرگ آفرین قوتوں کے مابین تصادم سے ہوکر گزرتی ہے۔ 31
۔۔ جیل خانہ بڑی آزمائش کی جگہ ہے ۔۔۔ جیل خانہ بڑی آزمائش کی جگہ ہے۔ وہاں پہنچ کر کھرے کھوٹے کا فرق صاف طاہر ہوجاتا ہے۔ وہ نقاب اُتر جاتی ہے جو ہم اپنی شخصیت پر چڑھائے رہتے ہیں اور دوست احباب، عزیز اقارب کے ادعائے محبت کی قلعی بھی کھل جاتی ہے۔ 34
۔۔ اب کسی لیلٰی کو بھی اقرار محبوبی نہیں اِن دنوں بدنام ہے ہر ایک دیوانے کا نام ۔ 36
۔۔ جیل میں کوئی نو گرفتار دوست آتا ہے تو بڑی خوشی ہوتی ہے۔ (سبط)۔ 44
۔۔ فیض صاحب کی طبیعت میں گھبراہٹ یا جلد بازی بالکل نہیں تھی۔ وہ آہستہ چلتے تھے، آہستہ بولتے تھے اور ہر کام سکون اور آرام سے مگر وقت پر کرنے کے قائل تھے۔ جیل میں بھی اُن کے معمولات میں فرق نہیں آیا۔ وہ صبح اُٹھ کر شیو کرتے اور کپڑے بدل کر یوں تیار وہوجاتے گویا دفتر جانا ہے۔ 46
۔۔ ہر فن پارے پر اپنے خالق کی شخصیت کی چھاپ ضرور ہوتی ہے۔ اُس کی انفرادیت ہی اُس کو دوسروں کی فنی تخلیقات سے جُدا یا ممتاز کرتی ہے۔ ۔۔۔ مثلاً تقسیمِ ہند کے وقت ملک میں جو فسادات برپا ہوئے اور جو انسانیت سوز مناظر دیکھنے میں آئے ان سے متاثر ہوکر سعادت حسن منٹو، کرشن چندر، بیدی، خواجہ احمد عباس اور دوسرے ادیبوں نے کئی بڑی دلدوز کہانیاں لیکھیں مگر فیض صاحب اس موضوع پر کوئی نظم نہ لکھ سکے حالاں کہ وہ لاہور میں کشت و خون کے عینی شاہد تھے۔ البتہ جب مشرقی پاکستان میں خون کی ندیاں بہیں تو فیض صاحب بے قرار ہوگئے، ہر چند کہ وہ ان حادثات کے عینی شاہد نہ تھے۔ 51
۔۔ تخلیق عموماً کسی منصوبے کے تحت نہیں ہوتی بلکہ نئے یا پرانے واقعے سے متاثرع ہوکر۔۔ 52
۔۔ ہم خستہ تنوں سے محتسبو ، کیا مال منال کا پوچھتے ہو جو عمر سے ہم نے بھر پایا سب سامنے لائے دیتے ہیں دامن میں ہے مشتِ خاکِ جگر،ساغر میں ہے خونِ حسرتِ مےَ لوہے نے دامن جھاڑ دیا ، لو جام اُلٹائے دیتے ہیں۔ 55
۔۔ (فیض صاحب) کُل وقتی یا پیشہ ور شاعر بھی نہ تھے کہ دن رات تصوّرِ جاناں میں تخیّل کے جام و سبُو لنڈھاتے رہتے۔ 62
۔۔ لیکن محبت زبان سے نہیں دل سے کی جاتی ہے اور دل ملے ہوں تو یار مہرباں کی زبان ترکی ہو یا تازی کوئی فرق نہیں ہوتا۔ 64
۔۔ فیض صاحب کا مروجہ فنونِ لطیفہ کے علاوہ ملک کے لوک ورثے سے بھی بڑا لگاؤ تھا۔ اُن کی دلی خواہش تھی کہ ادب و فن کے اس عوامی ورثے کو جس قدر ممکن ہو محفوظ کرلیا جائے ورنہ یہ قیمتی سرمایہ مشینی مصنوعات کے سیلاب میں بہہ جائے گا اور کچھ عرصے کے بعد کسی کو اُن کے نام بھی یاد نہیں رہیں گے۔ 67
۔۔ مشرقی بنگال میں فوج کے ہاتھوں قتلِ عام کا جو میلہ سجا اُس سے فیض صاحب کو بہت صدمہ پہنچا۔ مشرقی بنگال کی ساتھ ابتداہی سے نوآبادیوں کا سا جو سلوک کیا جاتا تھا وہ اس نا انصافی پر ہمیشہ کڑھا کرتے تھے اور وہاں کی اکثریت کو اُس کے جائز حقوق سے محروم کرنے کی غرض سے جو شاطرانہ چالیں چلی جاتی تھیں، فیض صاحب نے اُن کی برابر مذمت کی۔ [افسوس کہ سندھ کے ساتھ بھی وہ ہی سلوک کیا جارہا ہے، اور وہ ہی شاطرانہ چالیں چلی جا رہی ہیں۔ ابڑو]
۔۔ اسلام آباد کی فضا
۔۔۔ اسلام آباد کی فضا محلّا تی سازشوں کے لیے نہایت موزوں ہے مگر یہ وہ سردخانہ ہے جس میں داخل ہوکر انسان کے ضمیر پر، اس کی روح پر، اُس کے دل و دماغ اور اس کی تخلیقی صلاحیتوں پر برف کی تہیں جم جاتی ہیں۔
۔۔۔ فیض صاحب کی زندگی کے وہ چار پانچ سال جو انہوں نے اسلام آباد میں گزارے وہ شعر تخلیق کے اعتبار سے بالکل اکارت گئے۔ یوں تو وہاں اُن کو ہر طرح کا آرام نصیب تھا۔ سکار دربار تک رسائی تھی، دعوتیں اور ضیافتیں تھیں۔ مہ وشوں کی جلوہ پاشیاں تھیں اور کاسہ لیسوں کا ہجوم تھا لیکن۔۔۔ اُن کو وہاں ہر وقت اپنے ضمیر سے لڑنا پڑتا تھا اور روحانی برداشت کرنی پڑتیں۔ جیل میں تمام پابندیوں کے باوجود اُن کی فکر آزاد تھی، اُن کی نطق و لَب آزاد تھے، اُن کا آدرش اُن کو روحانی غذا فراہم کرتا تھا اور اُن کو کامل یقین تھا کہ وہ حق پر ہیں اور حق گوئی کی پاداش میں سزا بھگت رہے ہیں۔
۔۔۔ اُن کی شعری زندگی کے بھی وہی چار سال (جیل والے) سب سے بار آور ثابت ہوئے۔ اس کے برعکس انہوں نے اسلام آباد میں چار سال گزارے وہ نہ صرف اکارت گئے بلکہ اس سے اُن کی شخصیت اور عزت نفس بہت مجروح ہوئی۔ 79-80
۔۔ ہماری نئی نسل کو شاید معلوم نہ ہو کہ 1948ء میں جب سوویت یونین کی اپیل پر ہل ملک میں امن کیٹیاں بننے لگیں تا کہ سامراجی طاقتوں کی جنگی تیاریوں کا سدِباب کیا جائے تو فیض صاحب پاکستان کی مرکزی کمیٹی کے صدر مقرر ہوئے۔ آج کل تو وہ حکومتیں بھی امن، امن کہتے نہیں تھکتیں جو دن رات ایٹم بم، ایٹمی میزائیل اور دوسرے ہلاکت آفریں ہتھار بنانے میں مصروف ہیں۔ 84
۔۔ اقبال کے وہاں فلسفہ زیست ہے، فکرکی بلندی ہے، سماجی شعور ہے، ظالم اور مظلوم کی واضح تفریق اور نشان دہی ہے ۔ لینن خُدا سے سوال کرتا ہے کہ ۔۔ وہ کون سا آدم ہے کہ تو جس کا ہے معبود وہ آدمِ خاکی کہ جو ہے زیرِ سماوات لیکن اُس کی وحدت تو پارہ پارہ وہچکی ہے ۔۔ مشرق کے خداوند سفیدانِ فرنگی مغرب کے خداوند درخسندہ فِلزات رعنائی تعمیر میں، رونق میں، صفا میںگرجوں سے کہیں بڑھ کے ہیں بینکوں کی عمارت ظاہر میں تجارت ہے، حقیقت میں جُوا ہے سُود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگِ مفاجات یہ علم ، یہ حکمت ، ہی تدبّر، یہ حکومت پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیم مساوات ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومتاحساسِ مروّت کو کُچل دیتے ہیں آلات 91
۔۔ جن کا دیں پرورئ کذب و ریا ہے اُن کو ہمتِ کفر ملے، جرأت تحقیق ملے جن کے سر منتظر تیغِ جفا ہیں اُن کو دستِ قاتل کو جھٹک دینے کی توفیق ملے
۔۔ وطن سے محبت بڑا فطری جذبہ ہے اور بدقسمت ہے وہ شخص جو قدرت کے اس فیض سے محروم ہے۔ 98
لیکن پاکستان کے اربابِ اقتدار کی نظر میں سچا محبِّ وطن وہی ہے جس کا شیوہ حکومت کی اطاعت و بندگی ہو اور اگر کوئی شخص اختلاف یا اعتراض کرے تو وہ وطن کا غدار ہے اور سزاوارِسزا ہے۔۔ نثار میں تیری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اُٹھا کے چلے جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلےنظر چُرا کے چلے، جسم و جاں بچا کے چلے
۔۔ یوں بھی وہ عالمِ فکر و عمل کے شاعر نہ تھے بلکہ محسوسات کے شاعر تھے۔ 105
۔۔ جنگ کی معنی پرانے زمانے کی جنگوں اور آج کل کی جنگوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ پرانے زمانے میں جب لوگ تلوار، بندوق سے لڑتے تھے تو تباہی ضرور آتی تھی لیکن اس کا دائرہ بہت محدود ہوتا تھا اور آبادی کا بہت ہی مختصر حصّہ اس سے متاثر ہوتا تھا جس فریق نے میدان جنگ میں شکست کھائی وہ تاج و تخت سے محروم ہوا، ملک کی عنانِ اقتدار فاتح کے قبضے میں آگئی اور زندگی بدستور پرانے ڈگر پر چلنے لگی لیکن آج امن کی معنی ہیں بنی نوع انسان کی بقا اور ایٹمی جنگ کے معنی ہیں کہ دنیا ملبے کا ڈھیر ہوجائے گی اور انسان، جانور برگ و شجر کسی کا سِرے سے وجود ہی باقی نہ رہے۔ (فیض احمد فیض)۔ 107
No comments:
Post a Comment