FIKRism

Monday, May 31, 2010

Blog Archive upto May 2010

FIKRism.tk [http://fikrism.blogspot.com]

by Azhar H. Abro

http://feeds.feedburner.com/Fikrism-

Blog Archive - Total Posts = 101

Sunday, May 30, 2010

iNQILAB-e-iRAN - Ch. 14 (Last)

iNQILAB-e-iRAN
Sibte Hassan

Chapter: 14 - 1980 Ke Baad Iran Per Kya Guzri

Excerpts:


باب: ۱۴: ۱۹۸۰ء کے بعد ایران پر یا گزری

۔۔ ایرانی انقلاب کا تقاضا تھا کہ ملک کی اقتصادیات کو غیر سرمایہ دارانہ خطوط پر ترقی دی جائے لیکن اربابِ اقتدار نے ملکی معیشت کو مغرب کے سرمایہ دار ملکوں کو دستِ نگر بنادیا ہے۔ ان ملکوں سے اشیائے صرف کی بے تحاشا درآمد ہورہی ہے اور زرمبادلہ کیادائیگی کے لیے تیل کی پیداوار کو جاپان اور مغربی ملکوں کے ہاتھ فروخت کیا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایران کی صنعتی پالیسی غیر ملکی اجارہ دار کمپنیوں کے مفاد کے تابع ہوگئی ہے۔ امریکہ سے براہِ راست تجارت نہیں ہوسکتی۔ لہٰذا یہ سودا ترکی کے ذریعے ہوتا ہے۔ ۱۸/جنوری ۱۹۸۳ء کے اخبار 'کیہان' کے بقول وزیرِ روغنیات غزازی نے کہا کہ ترکی سے ہماری تجارت ۸۰ کروڑ ڈالر تک پہنچ گئی ہے جو شاہ کے زمانے کے مقابلے میں ۴۰ گنا زیادہ ہے۔ یہ سارا کاروبار امریکی کمپنیوں اور اُن کے گماشتوں کے قبضے میں ہے۔ وہ ترکی میں بیٹھ کر امریکی مال ایران کو فراہم کرتے رہتے ہیں۔ اس طرزِ تجارت کو جس میں ترکی کی حیثیت دلال سے زیادہ نہیں 'اسلامی کامن مارکیٹ' کا نام دیا جاتا ہے۔ اور وزیرِ روغینات فرماتے ہیں کہ 'اسلامی کامن مارکیٹ قائم کرکے ہم امپیرئیل ازم سے ٹکر لے سکیں گے۔' حلانکہ اس نام نہاد اسلامی مارکیٹ کے ساری معیشت امپیرئیلسٹ ملکوں کے دامن سےبندھی ہوئی ہے۔ اسلام بیچارہ ان دنوں ہر شخص کا تکیہ کلام بن گیا ہے۔ بینک ہوں، بیمہ کمپنیاں ہوں، ہوٹل ہوں، تعمیراتی کمپنیاں ہوں، ان کے نام کے آگے اسلامی لکھ دو، وہ مشرف بہ اسلام ہوجائیں گی۔ 296-297
____________

Saturday, May 29, 2010

iNQILAB-e-iRAN - Ch.13

iNQILAB-e-iRAN
Sibte Hassan

Chapter: 13 - Irani Inqilab Kidhar?

Excerpts:


باب: ۱۳: ایرانی انقلاب کدھر؟

۔۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایرانی انقلاب کے قائد خمینی صاحب تھے اور انقلاب میں شرکت کرنے والے تمام عناصر نے ان کی قیادت کو خوشی سے تسلیم کر لیا تھا لیکن یہ دعویٰ تاریخی اعتبار سے غلط ہے کہ انقلابی جنگ اسلام کے نام پر لڑی گئی تھی۔ 271


شیعہ انقلابی مذہب ہے:
۔۔ شیعہ مذہب انقلابی مذہب ہے جو شیعوں کو دورِ حاضر کے یزیدوں کے خلاف جہاد کی دعوت دیتا ہے۔
۔۔ شیعہ مذہب دراصل احتجاجی مذہب ہے جس کے محرکات سیاسی تھے۔ شیعوں کا بنیادی عقیدہ یہ ہے کہ رسولِ خدا(ص) مسلمانوں کے روحانی پیشوا بھی تھے اور دنیاوی امور کے سربراہ بھی۔ یعنی آنحضرت (ص) کی ذات خلافت اور امامت دونوں کی امین تھی۔ ان کی وفات کے بعد یہ منصب حضرت علی کو ملنا چاہیے تھا مگر ایسا نہیں ہوا اور اسی سے مسلمانوں کے اندر تفریق کی ابتدا ہوئی۔ جن لوگوں کا خیال تھا کہ خلافت کے مستحق حضرت علی تھے وہ شیعیان علی کہلائے۔ یہ نزاع حضرت علی کے بالآخر خلیفہ ہونے پر ھی ختم نہیں ہوئی بلکہ امام حسین کی شہادت کے بعد مستقل صورت اختیار کرگئی اور شیعیانِ علی باقاعدہ ایک مذہبی فرقہ بن گئے۔
شیعون کا یہ عقیدہ بھی ہے کہ امامت حضرت علی کے جانشینوں کا حق تھی جو نسلاً بعد نسل باپ سے بیٹے کو منتقل ہوتی رہی۔ بارہویں اور آخری امام مہدی تھے۔ ان کو صاحب الامر بھی کہتے ہیں۔ وہ بچپن ہی میں سامرہ (عراق) کے ایک غار میں غائب ہوگئے تھے۔ مگر شیعہ عقائد کے مطابق وہ ہنوز زندہ ہیں اور دنیا میں جب فسق و فجور بہت بڑھ جائے تا تو دوبارہ ظہور کریں گے۔ البتہ ان کی عدم موجودگی (غیبت کبریٰ) میں مجتہد حضرات نائب امام کی حیثیت سے شیعوں کی رہبری کے فرائض انجام دیں گے لیکن فقط شرعی امور کی حد تک۔ 272


۔۔ 1502ء میں جب صفویوں نے شیعہ مذہب کو ایران کا سرکاری مذہب قرار دیا تو شیعہ علما وہی کردار ادا کرنے لگے جو زرتشتی موبدوں کا ساسانی عہد میں تھا۔ اسی بنا پر ڈاکٹر علی شریعتی ایرانی ملاون کو شیعیان علی کی بجائے 'شیعیان صفوی' کہتے ہیں۔

خمس:
۔۔ ایران میں خمس کا رواج بھی ہے جو آمدنی کا پانچواں حصہ ہوتا ہے، یہ رقم مجتہدوں ہی کے ذریعے مستحقین میں تقسیم کی جاتی ہے۔ 274


مسائل ۔ نہ مغربی نہ مشرقی:
۔۔ انقلابی تحریک شروع ہوئی تو شاہ کا کہنا تھا کہ ساری شرارت مولویون اور کمیونسٹوں کی ہے ورنہ عوام کو حکومت سے کوئی شکایت نہیں۔ یہی عذر لنگ اب خمینی صاحب پیش کررہے ہیں۔ ان کا خیال ہے سارا فساد مغرب پرست 'طاغوتیوں' کا ہے۔ حلانکہ مسائل ملکی حالات سے پیدا ہوتے ہیں اور عوام کو عمل پر مجبور کرتے ہیں۔ کوئی نہ کسی کو بھڑکاتا ہے نہ مسائل پیدا کرتا ہے۔ قومی خود مختاری کا مسئلہ، انسانی حقوق کا مسئلہ، جمہوری آئین کا مسئلہ، بے روزگاری کا مسئلہ اور مہنگائی کا مسئلہ، نمائندہ حکومت کا مسئلہ، یہ سب سماجی مسائل ہیں۔ ان کا تعلق نہ مغرب سے ہے نہ مشرق سے۔ ان کا حل کیے بغیر نہ تھیوکریسی کے قدم جم سکتے ہیں اور نہ جمہوریت کامیاب ہوسکتی ہے۔ 278-279


۔۔ ایران کے موجودہ حکمران، ملک میں ایک ایسا نظامِ حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں جو کہنے کو تو اسلامی ہوگا لیکن فی الواقع تنا ہی آمرانہ ہوگا جتنا شاہی نظام تھا بلکہ اس سے بھی زیادہ۔283
_______________

Friday, May 28, 2010

iNQILAB-e-iRAN - Ch.11,12

iNQILAB-e-iRAN
Sibte Hassan

Chapters: 11-12 - Ek Qadam Aage Do Qadam Peechhe

Excerpts:


باب: ۱۱۔ ۱۲: ایک قدم آگے دو قدم پیچھے

عجیب بات ہے:
۔۔ عجیب بات ہے کہ جہاں کہیں اسلامی نظام رائج کرنے کی باتیں کی جاتی ہیں، وہاں سارا زور سزائوں پر صرف ہوتا ہے۔ شراب پینے والوں کو کوڑوے لگائے جاتے ہیں، چوری کرنے والوں کے ہاتھ کاٹ دئیے جاتے ہیں اور زانیوں کے سرقلم ہوتے ہیں۔ خمینی صاحب کے اسلامی نظام میں میں توکئی پیشہ ور عورتوں کو بھی گولی ماری جاچکی ہے البتہ خمینی صاحب اور ان کے رفقا نے کبھی یہ دریافت کرنے کی کوشش نہیں کی کہ لوگوں کو روٹی روزگار میسر ہے یا نہیں، بیماروں کے لیے دوا علاج کا انتظام ہے یا نہیں، لڑکے لڑکیوں کے لیے درسگاہیں موجود ہیں یا نہیں، دردمندی، رحم اور عفو جیسے الفاظ ان کی لغت سے خارج ہیں لیکن سزائوں سے نہ معاشرے کی تطہیر ہوتی ہے اور نہ لوگوں کے روزمرہ کے مسائل حل ہوتے ہیں۔ 227


۔۔ لیکن بعد کے واقعات نے ثابت کردیا کہ رفسنجانی، خلخالی اور دائیں بازو کے دوسرے انتہا پسند عناصر جو کچھ کرت ہیں اس میں خمینی صاحب کا اشارہ ضرور شامل ہوتا ہے۔ شوشلزم اور کمیونزم تو الگ رہے، جمہوری آزادی کے خلاف بھی جو اقدامات ہوئے ہیں ان سے خمینی صاحب پوری طرح باخبر تھے۔ اب خمینی صاحب وہ خمینی صاحب نہ تھے جن کو یہ غم ستاتا رہتا تھا کہ 'شاہ نے اظہار خیال اور پریس کی آزادی کا گلا گھونٹ دیا ہے۔' (۶ نومبر ۱۹۷۸ء) اور نہ وہ خمینی صاحب تھے جو ایرانیوں سے وعدہ کرتے تھے کہ 'اسلامی ری پبلک میں عورت مرد دونوں کو مساوی آزادی ملےگی اور شہری حقوق بحال کیے جائیں گے۔' اب تو ان کے کسی فیصلے سے ہلکا سا اختلاف بھی ناقابل معافی جرم تھا اور ان کی حکومت پر اعتراض ملک سے غداری۔ 229

مولوی حضرات
۔۔ مولوی حضرات خواہ پاکستان کے ہوں یا ایران کے، اسلامی نظام کی ثناء و صفت میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں مگر جب اسلامی نظام کو عملی شکل دینے کا وقت آتا ہے تو مغربی ملکوں کے آئین و قوانین کی نقالی میں ذرا بھی شرم و حیا محسوس نہیں کرتے۔ مثلاً ایران کے آئین کے اس مسودے کا موازنہ ۔۔ فرانس کے آئین سے کیجئے تو صاف معلوم ہوگا کہ فرانسیسی آئین کو مشرف بہ اسلام کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ البتہ اس کوشش میں فرانسیسی آئین کی خوبیاں پر تو سیاہی پھیر دی گئی ہے مگر اس میں جو خامیاں ہیں ان کو برقرار رکھا گیا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے خمینی صاحب نے اپنی ذات کو پیشِ نظر رکھ کر یہ مسودہ تیار کروایا ہے۔ 233


صدر = ڈکٹیٹر:
۔۔ یہی وجہ ہے کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے علاوہ صدارتی نظام کا تجربہ کہیں کامیاب نہیں ہوا ہے بلکہ جنوبی امریکہ، افریقہ، اور ایشیا میں جہا کہیں صدارتی نظام رائج ہے، صدر ڈکٹیٹر بن گیا ہے۔ 234

۔۔ خمینی صاحب کے دستِ راست کہہ چکے ہیں کہ انقلاب مُلا لائے تھے لہذا وہی ملک پر حکومت کریں گے۔ 234

بندوق میرا گھنہ:
۔۔ کُرد بڑی جفاکش اور بہادر قوم ہے۔ ہمارے سرحدی پٹھانوں کی طرح کُرد بھی بندوق رائفل کو مرد کا زیور سمجھتے ہیں۔ 241


سستے تربوز۔۔۔
۔۔ ایران بڑا دولت مند ملک ہے۔ اس کے وسائل اتنے وافر ہیں کہ لوگوں کو اگر اپنے اقتصادی حالات سدھارنے کا موقع ملا ہوتا تو ایران میں آج نہ کوئی بھوکا ہوتا نہ بے روزگار لیکن جہاں استحصال اور زر پرستی زندگی کا نصب العین بن جائے وہاں امیر امیرتر اور غریب غریب تر ہوتے جاتے ہیں اور کرپشن، لوٹ، رشوت اور مہنگائی کی بدولت زندگی اجیرن ہوجاتی ہے۔ یہی اقتصادی زبوں حالی ایرانی انقلاب کا سبب بنی۔ اب کوئی لاکھ کہے کہ 'ایرانیوں نے اسلام کے لیے خون کی قربانی دی تھی، سستے تربوزوں اور مکانوں کے لیے نہیں۔' (خمینی ۸ ستمبر) واقعہ یہی ہے کہ ایرانیوں نے روزمرہ کی پریشانیوں سے عاجز آکر انقلاب میں شرکت کی تھی۔ خمینی صاحب فرماتے ہیں کہ 'یہ بات بالکل ناقابلِ فہم ہے کہ کوئی شخص اپنے بیٹے کو سستی روٹی کے لیے قربان کردے۔' مگر اس قسم کی طنز آمیز باتیں وہی شخص کرسکتا ہے جو زندگی میں کبھی بھوکا نہیں رہا یا جس نے کبھی اپنی محنت سے روٹی نہیں کمائی۔ خمینی صاحب کے اس بیان سے کیا ہم یہ نتیجہ نکال لیں کہ اسلامی نظام کو عوام کے دکھ درد سے کوئی دلچسپی نہیں؟ کیا خمینی صاحب کا اسلام یہ چاہتا ہے کہ سستے تربوز فقط اہلِ ثروت ہی کے دسترخوان پر نظر آئیں؟ کیا خمینی صاحب کا اسلام یہ چاہتا ہے کہ فقط دولت مند طبقہ مکانوں میں رہے اور غربا آسمان کی کھلی چھت کے نیچے سوئیں؟


۔۔ صنعتی یا تجارتی اداروں کو قومی ملکیت بنا لینا چنداں دشوار نہیں ہوتا البتہ ان کو خوش اسلوبی سے چلانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ نجی صنعت کاروں میں لاکھ عیب سہی مگر وہ اپنے کاروبار کے گُر ضرور جانتے ہیں۔ سرمایہ کہاں سے آئے، کچا مال کب اور کہاں سے خریدا جائے، مزدوروں سے کیسے نمٹا جائے، اور مال کی نفع بخش نکاسی کیے لیے کیا تدابیر اختیار کی جائیں، وہ ان سب مسائل سے بخوبی واقف ہوتے ہیں۔ 259


۔۔ خمینی صاحب جس حکمت عملی پر کاربند ہیں اس کی موجودگی میں نظم و ضبط قائم نہیں ہوسکتا اور نہ ملک کی تعمیرِ نو کا کوئی منصوبہ بن سکتا ہے۔
۔۔ خمینی صاحب 'طاغوتیوں' کو کیفر کردار تک پہنچانے اور قوم کا اخلاق درست کرنے میں اس درجہ مصروف ہیں کہ ان کو ملک کے بنیادی مسائل کی طرف توجہ دینے کی فرصت ہی نہیں ملتی اور نہ وہ ان مسائل کو اہمیت دیتے ہیں۔ کیونکہ 'سستی روٹی اور سستے تربوزوں' کا مطالبہ ان کے نزدیک انقلاب دشمنوں کا مطالبہ ہے، شاہ پسندوں کی شرارت ہے، کمیونسٹوں کی سازش ہے۔ 260

_______________

Thursday, May 27, 2010

iNQILAB-e-iRAN - Ch.9,10

iNQILAB-e-iRAN
Sibte Hassan

Chapter: 9,10

Excerpts:


باب: ۹: انقلابی ہلچل

[1976-1977 کا بجٹ]
۔۔ ایران اقتصادی تباہی کے دہانے پر کھڑا تھا چناچہ رسالہ میڈ اُس وقت کی ایرانی معیشت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ 'اگر خمینی نہ ہوتے اور انقلاب نا آتا بلکہ شاہ بدستور اپنے محل میں مقیم ہوتے تب بھی ایرانی معیشت کی عمارت اس سال کے موسم گرما تک دھماکے کے ساتھ زمین پر گر گئی ہوتی۔۔۔۔ شاہ کی معیشت ایک غبارہ تھی جس میں ضرورت سے زیادہ ہوا بھردی گئی تھی اور بس اس کا انتظار تھا کہ کوئی اس کو چھودے۔ شاہ کو انقلاب کا شکرگزار ہونا چاہیے۔ اس نے شاہ کو شرمندگی اور خجالت سے بچالیا۔' ۔191


۔۔ محمد شاہ رنگیلا تو خواہ مخواہ بدنام تھا۔ وہ بے چارہ تو رضا شاہ پہلوی کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔ 192


اور آخر وہ دن آہی گیا:
۔۔ اور آخر وہ دن آہی گیا۔ ۲۹ جنوری کی شام کو شاہ نے محل کے عملے کو اپنی روانگی سے مطلع کیا۔ ۳۰ جنوری کو وہ پریس کانفرنس کرنے والا تھا لیکن مصاحبوں نے مشورہ دیا کہ چلتے وقت بھڑکے چھتے کو نہ چھیڑیں لہذا شاہ اپنی 'محبوب رعایا' کو بتائے بغیر چپکے سے قاہرہ روانہ ہوگیا۔ ۵۳ سالہ پہلوی آمریت کاغذی محل کی طرح زمین بوس ہوگئی۔
اُس دن تہران میں بڑی سردی تھی اور ہلکی ہلکی بوندا باندی بھی ہورہی تھی مگر سہ پہر میں جونہی ریڈیو سے اعلان ہوا کہ شاہ اور شاہ بانو قاہرہ چلے گئے۔ سارا شہر سڑکوں پر نکل آیا۔ لوگ خوشی سے ناچ رہے تھے، گلے مل رہے تھے۔ ایک دوسرے کو فتح کی مبارک باد، دے رہے تھے۔ پھول برسائے جارہے تھے۔ مٹھائیاں تقسیم ہورہی تھیں۔ فوجیوں نے اپنی توپوں، ٹینکوں اور رائفلوں پر، جو کل تک آگ اگل رہی تھے کارنیشن کے پھول سجا لیے تھے۔ شہر میں جہاں کہیں شاہ یا اس کے باپ کا مجسمہ نظر آتا لوگ اس کو جوتوں کا ہار پہناتے اور کھینچ کر نیچے کرادیتے۔ شام ہوتے ہوتے ایک مجسمہ بھی سلامت نہیں بچا۔ 204


خمینی کمیونسٹ دشمن:
۔۔ امریکی حکومت خمینی صاحب کی کمیونسٹ دشمنی سے بخوبی آگاہ تھی۔ 210


باب: ۱۰: انقلابِ ایران کے محرکات و اسباب
_______________

Wednesday, May 26, 2010

iNQILAB-e-iRAN - Ch.6,7,8

iNQILAB-e-iRAN
Sibte Hassan

Chapters: 6,7,8

Excerpts:
Align Right
باب: ۶: پہلوی ریاست کے استبدادی ادارے

باب: ۷: پہلوی دور کی سیاسی تنظیمیں

باب: ۸: ایران کی شوشلسٹ تحریک

۔۔ 'روس کا سوشلسٹ انقلاب تاریخِ انسانی میں ایک نئے باب کا آغاز تھا۔ اس انقلاب نے خاص طور پر کشور ایراں کی سرنوشت پر اور یہاں کے سیاسی اور اقتصادی حالات پر گہرا اثر ڈالا۔ بلکہ یہ انقلاب ایران کی آزادی اور داخلی اور خارجی سیاست کو متاثر کرنے والے عوامل میں سے تھا۔ انقلابِ روس دراصل ایران کی آزادی کی بقا کا باعث ثابت ہوا۔ اگر یہ انقلاب برپا نہ ہوتا تو کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ایران کو کیا کیا صدمے برداشت کرنے پڑتے اور آج ایران اور ترکی کا وجود بھی نہ ہوتا۔' (آقا یحییٰ آرین پور) ۔ 164

۔۔ بالشویک پارٹی نے جس کا مسلک ابتدا ہی سے محکوم اور نیم محکوم ملکوں کی مکمل آزادی تھا۔۔ 164


۔۔ ابتدا میں وہ [رضا خان] کمال اتاترک کی مانند ایران کو ری پبلک بنانے کے حق میں تھا لیکن قم کے مجتہدوں نے ۲۹ مارچ ۱۹۲۴ کو فتویٰ دیا کہ اسلام ری پبلک کی اجازت نہیں دیتا، تو رضا خاں کو بادشاہ بننے کا بہانہ ہاتھ آگیا۔ 169

۔۔ اس وقت سے ایران میں ۱۱ مئی کا دان سیاسی قیدیوں کی یادگار کے طور پر منایا جاتا ہے۔ 173

۔۔ 'ایران کے شیعہ مذہبی رہنما جو نچلے اور درمیانہ طبقوں سے تعلق رکھتے ہیں ظاہر ہے کہ ملک کی صورت حال اور عوام کی زبوں حالی سے لاتعلق نہیں رہ سکتے تھے۔ وہ عوام کو آمریت کے خلاف ابھارنے پر مجبور تھے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ایران میں مختلف عناصر آمریت کے خلاف احتجاجی تحریک میں ازخود شامل ہوگئے ہیں۔' (ایرج سکندری) ۔۔ 177

۔۔ 'ہم کو موجودہ تحریک کی مذہبی زبان اور مذہبی نعروں سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ تحریک بنیادی طور پر سیاسی اور سماجی ہے اور اس میں مزدور طبقہ پیش پیش ہے اور سرکاری ملازمین اور شہری نوجوان بہ کثرت شامل ہیں۔' (حمید سفری)۔ 184
_____________

iNQILAB-e-iRAN - Ch.5

iNQILAB-e-iRAN
Sibte Hassan

Chapter: 5 - Amrici Amal Dakhal

Excerpts:


باب: ۵: امریکی عمل دخل

مغربی تہذیب
۔۔ مغربی تہذیب کوٹ پتلون پہننے، کانٹا چُھری استعمال کرنے یا نائٹ کلب میں ناچنے کا نام نہیں ہے بلکہ مغربی تہذیب و تمدن کی اصل اساس صنعتی انقلاب ہے، یعنی فیوڈل ازم کے پیداواری طریقوں اور سماجی رشتوں کی تنسیخ اور مشینی صنعتوں اور سرمایہ داری رشتوں کی ترویج۔ مغربی تہذیب عبارت ہے جمہوری طرزِ حکومت اور عوام کے شہری حقوق سے، مغربی تہذیب عبارت ہے سائنسی علوم و فنون اور ٹیکنالوجی کے فروغ سے، مغربی تہذیب عبارت ہے سائنسی اندازِ فکر و عمل سے اور اگر ان لوازمات کو معاشرے سے خارج کردیا جائے تو پھر مغربی تہذیب خالی خولی شعبدہ بازی رہ جاتی ہے۔ 122


۔۔ دوسری جنگِ عظیم سے پہلے امریکی سرمایہ داروں کی مخصوص شکارگاہ جنوبی امریکہ تھا اور مشرقِ قریب کو برطانیہ کی اجارہ داری خیال کیا جاتا تھا۔ مصر، فلسطین، اردن، یمن، عراق اور خلیج فارس کی ریاستیں سب برطانیہ کی زیر نگین تھیں۔ ایران کے تیل کے چشمے انگریز کمپنیوں کے تصرف میں تھے حتٰی کہ سعودی عرب کو بھی جو، اب دنیا کے سب سے دولت مند ملکوں میں شمار ہوتا ہے، برطانیہ کی طرف سے سالانہ وظیفہ ملتا تھا لیکن دوسری جنگ عظیم کے دوران میں ایک طرف برطانیہ کی اقتصادی اور سیاسی قوت روز بروز گھٹتی گئی۔ دوسری طرف امریکہ کی صنعتی پیداوار بالخصوص اسلحوں کی پیدواور میں حیرت انگیز اضافہ ہوا اور تیل کی مانگ بھی بہت بڑھ گئی۔ لہذا نئے علاقوں کو زیر اثر لانا 'ضروری' ہوگیا۔ 123


۔۔ امریکہ کی فوجی امداد ایشیا اور افریقہ میں ہر جگہ عوامی تحریکوں کو کچلنے ہی کے کام آئی ہے۔ 125


خارجہ حکمت عملی
۔۔ بات یہ ہے کہ سامراجی طاقتیں اپنی خارجہ حکمت عملی وضع کرتے وقت دوسرے ملکوں کے عوام کو اور ان کے جذبات و احساس کو بالکل خاطر میں نہیں لاتیں۔ وہ تو فقط یہ دیکھتی ہیں کہ فلاں ملک کے پاس فوج اور پولیس کتنی ہے؟ اس کو اسلحہ کون فراہم کرتا ہے؟ اس کے حکمراں طبقے کا جھکاو کدھر ہے؟ اوراس کے فوجی اور سویلین افسروں کے سیاسی نظریات کیا ہیں؟ اگر یہ سماجی عناصر جمہوریت اور سوشلزم کے مخالف ہوں تو سامراجی طاقتیں ان کو مزید تقویت پہنچانے کی کوشش کرتی ہیں۔ عوام ان سماجی عناصر کے بارے میں کیا سوچتے ہیں اس سے سامراجی طاقتوں کو چنداں سروکار نہیں ہوتا۔ مگر جو خارجہ حکمت عملی عوامی قوتوں کو نظر انداز کرکے وضع کی جاتی ہے وہ ہمیشہ ناکام رہتی ہے۔ چناچہ امریکی سامراج نے یہی غلطی ویت نام میں کی۔ یہی غلطی کیوبا اور انگولا میں کی اور یہی غلطی ایران میں کی۔ یہ دوسری بات ہے کہ وہ اس حکمت عملی کے سوا کوئی دوسری حکمت عملی اختیار ہی نہیں کرسکتا کیونکہ وہ اگر عوام کے حقوق، مفادات اور جذبات و احساسات کا احترام کرے تو وہ سامراجی طاقت نہیں رہ سکے گا۔ 136


روحِ انسانی
۔۔ 'امریکائی اگورت را از ایران گم کن'،'نابود باد اتحاد نظامی با امریکہ۔' 'جاسوسان سیا (سی۔آئی۔اے) را از ایران بیرون کنید'،'امریکہ حق مداخلہ در ایراں ندادرد' جیسے نعروں سے گونجنے لگے تو امریکی مبصرین کی حیرت کی انتہا نہ رہی۔ نپولین نے ایک بار کہا تھا کہ دنیا میں فقط دو طاقتیں ہیں، ایک تلوار اور دوسرے روحِ انسانی۔ ان کے درمیان جب تصادم ہوتا ہے تو ہار آخرکار تلوار کی ہوتی ہے۔ ایران میں امریکہ کی شکست کا اصل سبب یہی تھا کہ وہ روحِ انسانی سے برسر پیکار تھا۔ 137
_______________

Tuesday, May 25, 2010

iNQILAB-e-iRAN - Ch.4

iNQILAB-e-iRAN
Sibte-e-Hassan

Chapter: 4: Pehlvi Ryasat Ka Kirdar

Excerpts:

باب: ۴: پہلوی ریاست کا کردار

۔۔ یوں تو کہنے کو ایران 1906 کے آئین کے رو سے ایک آئینی ملوکیت تھا اور بادشاہ کی حیثیت آئینی سربراہ کی تھی لیکن اس آئین کا احترام نہ کبھی قاچاریوں نے کیا اور نہ پہلویوں نے۔ 95

۔۔ پہلوی ریاست تھی تو سرمایہ دار ریاست مگر اپنی معیشت کے نوآبادیاتی کردار کے باعث وہ حقیقی معنی میں آزاد اور ترقی یافتہ صنعتی ریاست کبھی نہ بن سکی۔ 97

۔۔ 1959 میں ایران میں جو لیبر قانون نافذ ہوا وہ ہٹلر اور فرانکو کے لیبر قوانین کا چربہ تھا۔ 111

۔۔ اس علاقے میں تیل کا سارا کاروبار امریکی اور برطانوی کمپنیوں کے قبضے میں ہے۔ [کویت، یمن، بحرین، قطر، عمان، متحدہ عرب امارات (ابوظہبی، دبئی، شارجہ، اجمان، راس الخیمہ، فجیرہ، اور اُم القیوین)]۔ شیخوں کو جو رائلٹی ملتی ہے وہ بھی اتنی زیادہ ہے کہ ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ اس رقم کو کیسے خرچ کریں۔ اس کا عبرتناک منظر دیکھنا ہو تو لندن اور پیرس کے بازاروں کی سیر کیجئے، ۔۔ 115


۔۔ شاہ کی بادشاہت:
۔۔ رضا شاہ پہلوی کی ریاست بورژوا ریاست تھی جس کا بنیادی فریضہ سرمایہ داری نظام بالخصوص 'شرکتی' سرمایہ دار طبقے کے مفاد کی حفاظت کرنا تھا۔
۔۔۔ حالانکہ پرانے زمانے کے بادشاہ اور شہزادے کاروبار کرنے کی سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ وہ دولت اپنے شاہانہ مصارف کے لیے جمع کرتے تھے اور اگر کوئی ان سے کہتا کہ چاندی سونے کے ذخیروں کو کاروبار میں لگا کر نفع کمائیے تو شاید او اُس کی کھال کھنچوالیتے۔ اس کے برعکس رضا شاہ کی زراندوزی کی نوعیت خالص کاروباری تھی۔ وہ سرمائے سے مزید سرمایہ پیدا کرنے کی دھن میں لگا رہتا تھا اور جائز و ناجائز کی تمیز بھی نہیں کرتا تھا۔ 118


ایران میں تیل کا بحران:
۔۔ ہر چند کہ ملک کی پوری معیشت کا دارومدار تیل پر ہے لیکن تیل کی صنعت میں مزدوروں کی تعداد سب سے کم ہے۔ یہ تعداد برابر کم ہوتی جا رہی ہے (حالانکہ تیل کی پیداوار میں گزشتہ بیس برسوں میں بیس گنا اضافہ ہوا ہے)۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عام ملوں اور فیکٹریوں کے برعکس تیل کی صنعت مشینوں اور انجنیئروں کے بل پر چلتی ہے۔ اس میں جسمانی محنت کرنے والے مزدوروں کی ضرورت نسبتاً بہت کم ہوتی ہے۔
مٹی کے تیل اور پٹرول کے قحط کے باعث ہوائی جہازوں، ریل گاڑیوں، بسوں اور موٹروں کے پہیئے رک گئے اور دکانیں، دفتر، سینما، ہوٹل سب سنسان ہوگئے۔ 107-108
_____________

Sunday, May 23, 2010

iNQILAB-E-iRAN - Ch.2-3

iNQILAB-e-iRAN
Sibte-e-Hassan

Chapters: 2-3

Excerpts:


باب: ۲: بیداری کی لہر

خوش قسمتی سے ۔۔۔
۔۔ خوش قسمتی سے عوامی ادب و فن کی روایت ایران میں بہت پرانی ہے۔ جنوبی ایشیا کی مانند وہاں بھی فقیر درویش، مراثی مسخرے، بھانڈ نقال موجود تھے جو گاوں گاوں پھرتے۔ اپنے تمسخرآمیز لطیفوں اور گیتوں گانوں میں بادشاہوں، امیروں، حاکموں اور ملاوں پر پھبتیاں کستے اور سننے والوں کو خوش کرتے۔ بعض اوقات کوئی دل جلا فقیر غمِ زمانہ کا مرثیہ دکھی لہجے میں گا کر سناتا تو مجمع بے تاب ہوجاتا۔ خوشی اور غم کے یہ گیت دراصل عوام کے اپنے دل کی آوازاں تھیں۔ اس لیے یہ گیت فوراً لوگوں کی زبانوں پر چڑھ جاتے اور پھر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہتے تھے۔ 73


باب: ۳ : مشروطہ کی تحریک

ایران کا بٹوارہ:
۔۔ بالا بالا ۳۱ / اگست ۱۹۰۷ء کو ایک خفیہ معاہدہ ایران کے بٹوارے کے بارے میں کیا۔ اس معاہدے کی رُو سے ایران کو حلقہ اثر کے اعتبار سے تین ٹکڑوں میں بانٹ دیا گیا۔ شمال مغربیاور شمال مشرقی علاقے روس کے حصے میں آئے، جنوب مغربی اور جنوبی مسرقی علاقے برطانیہ کو ملے اور وسطی علاقے کو شاہ کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ 81

۔۔ حکومت کی بے بسی کا اس سے بڑھ کر اور ثبوت کیا ہوسکتا ہے کہ برطانیہ اور روس کے جس خفیہ معاہدے کو مجلس نے ۱۹۰۷ میں مسترد کردیا تھا اور جس کے خلاف پورے ملک میں احتجاج ہوا تھا، مجلس نے ۱۹۱۲ء میں اسی معاہدے کی توثیق کردی۔ گویا ایران نے ملک کی تقسیم کو تسلیم کرکے اپنے گلے پر خود چھری پھیرلی۔

۔۔ اگست ۱۹۱۴ء میں پہلی جنگ عظیم چھڑی تو ایران نے دو ماہ کے اندر اپنی غیر جانبداری کا اعلان کار دیا لیکن جنگ کے بعد فریقین نے ایران کی غیرجانبداری کا بالکل احترام نہیں کیا۔ پہلے جرمنی اور ترکی کی فوجیں مغربی سمت سے ایران میں داخل ہوئیں، پھر روس اور برطانیہ کی یلغار شروع ہوئی اور ایران کی سرزمین دیکھتے ہی دیکھتے لڑائی کا میدان بن گئی۔ شمالی علاقوں پر روسی فوجوں نے قبضہ کرلیا۔ مغربی علاقے ترکوں اور جرمنوں کے تصرف میں آئے اور عراق کی سرحد سے بلوچستان تک کے تمام علاقوں پر انگریزی فوجوں کا تسلط ہوگیا۔ یوں معلوم ہوتا تھا گویا ایران ایک لاش ہے جس کو گدھ نوچ نوچ کر کھانے پر تلے ہوئے ہیں۔ غیر ملکی فوجوں کو لوٹ مار سے شہر بارباد اور آبادیاں ویران ہوگئیں اور ہر طرف طوائف الملوکی پھیل گئی۔ 90
_______________

iNQILAB-e-iRAN - Ch.1

iNQILAB-E-iRAN
Sibt-e-Hassan
1979

Chapter 1

Excerpts:

باب: ۱: قاچاری دور

ایرانی اسلام:
۔۔ غور سے دیکھا جائے تو جس تہذیب کو عموماً اسلامی تہذیب سے تعبیر کیا جاتا ہے وہ در حقیقت عجمیوں ہی کی کوشش کا ثمر ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ خلفائے بنی عباس کا دربار دیکھتے ہی دیکھتے ساسانی دربار میں تبدیل ہوگیا۔ ایرانی لباس درباری لباس قرار پایا۔ خلیفہ اور خلیفہ زادون کی شادیاں ایرانی لڑکیوں سے ہونی لگیں۔ نوروز، مہرگان اوررام کے ایرانی تیوہار سرکاری طور منائے جانے لگے اور دربار میں ہر جگہ ایرانیوں کو عربوں پر ترجیح دی جانے لگی۔ علومِ دینی میں بھی جو رتبہ عجمی علما نے حاصل کیا وہ عربوں کو نصیب نہ ہوا۔
امام ابوحنیفہ اور امام غزالی جیسے اسلامی شریعت کے ستون ایرانی تھے۔ احادیث نبوی کو ترتیب دینے والے امام بخاری، امام مسلم، ابن ماجہ، قزوینی، ترمذی اور نسائی ایرانی تھے۔ پہلی مستند عربی گرامر کا مولف سیبویہہ ایرنی تھا۔ خلیفہ امین اور مامون کا استاد ابن حمزہ کسائی ایرانی تھا۔ مشہور مورخ طبریا، عوفی اور ابن قطیبہ ایرانی تھے۔ فرقہ معتزلہ جو روشن خیال مسلمانوں کی پہلی فکری تحریک تھی اس کا بانی واصل بن عطا ایرانی تھا۔ ابوریحان البیرونی اور شیخ بو علی سینا ایرانی تھے، رہا تصوف سو اس کا تو سارا نظام ہی ایرانیوں کا وضع کردہ ہے۔ اسی بنا پر علامہ اقبال جو تصوف کو ناپسند کرتے تھے مگر مولانا روم کے مرید تھے، عجمی فکراور فلسفے کے سخت مخالف تھے۔ اُنکا خیال تھا کہ عجمی ذہنیت ہی اسلام کے زوال کا باعث ہوئی۔ 27


۔۔ یہ تو بحث فضول ہے کہ جدید خیالات اور نظریات مشرق میں سامراجی قوتوں کے اثرونفوذ کے بغیر ازخود نشونما پاسکتے تھے یا نہیں۔ البتہ تاریخی اعتبار سے ہم بس اتنا کہہ سکتے ہیں کہ اہلِ مشرق میں اصلاحِ احوال کا احساس مغربی علوم و فنون سے روشناس ہونے کے بعد انیسویں صدی کی ابتدا میں پیدا ہوا۔ 30


۔۔ ۔۔۔ قاچاریوں نے شیراز اور کرمان وغیرہ میں لوگوں پر بڑے مظالم ڈھائے تھے لیکن تہران کے شیعہ مجتہدوں نے ان مظالم کی مذمت کرنے کے بجائے قاچاریوں کی حمایت کی تھی۔ اس لیے جنوبی ایران والے شیعہ مجتہدوں کو ناپسند کرتے تھے۔ 31


۔۔ قاچاریوں کے سواسوسالہ دورِ حکومت میں کوئی ایک فرمانروا بھی ایسا نہ ہوا جس کو وطن کا درد ہوتا یا جو ذاتی مفاد ہی کی خاطر اصلاحِ احوال کی فکر کرتا۔ 34


۔۔ ہر ریاست نظریاتی ریاست ہوتی ہے۔ یہ ریاستی نظریہ کبھی سیاسی ہوتا ہے، کبھی اقتصادی اور کبھی مذہبی اس کے ذریعے ریاست کے باشندوں کو اطاعت کا خوگر بنایا جاتا ہے۔ ان کے دل و دماغ کو ریاست کے اغراض و مقاصد کے مطابق ڈھالا جاتا ہے اور یہ بات ذہن نشین کرائی جاتی ہے کہ ان کا اور ریاست کا مفاد مشترکہ ہے، حالانکہ حقیقت میں ریاست ایک طبقاتی ادارہ ہے جس کا بنیادی مقصد برسرِاقتدار طبقے کے مفادات کا تحفظ ہوتا ہے۔ 38


۔۔ اس اعتبار سے پہلوی دور کو اگر ترجموں کا دور کہا جائے تہ غلط نا ہوگا۔ 40


۔۔ ۔۔۔ لیکن خیالات تو روحِ عصر کے تقاضوں کا اظہار ہوتے ہیں۔ ان کو دیوارِ چین بھی نہیں روک سکتی۔ 61

Saturday, May 22, 2010

iNQILAB-e-iRAN - Tamheed

iNQILAB-e-iRAN
Sibte-e-Hassan
1979


Tamheed:
Excerpts:




تمہید:
۔۔ ۔۔ تاریخ بھی کوئی شے ہے جو ہر فرد کی زندگی پر اثر انداز ہوتی ہے۔ تاریخ کا یہی شعور قومی آزادی اور قومی تشخص کا محرّک بنتا ہے۔ ہمارے ذہنوں میں ماضی کی عظمتوں کی یادیں تازہ ہوتی ہیں اور ہم کو اپنے قومی زوال، پستی اور ذلّت کے لمحے کانٹے کی طرح چبھنے لگتے ہیں۔ 7-8

ایران و پاکستان:
۔۔ ایران اور پاکستان کے معاشرتی حالات میں جو مماثلت پائی جاتی ہے وہ کبھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ ایرانی معاشرے کا وہ کون سا پہلو ہے جو ہمارے ۳۲ سالہ تجربوں سے مختلف ہے۔ زندگی کو حسین و دلکش بنانے کے وہی خواب اور وہی ان کی ہیبت ناک تعبیریں، انسانی حقوق کی وہی پامالی، کبھی جمہوریت کے نام پر ، کبھی مذہب کے نام پر، دولت و اقتدار کی وہی ہوس اور ہوس کی ہوی بے شرمیاں، دیواستبداد کی وہی سفاکیاں اور گیرودار کی وہی رسمِ کہن، وہی درباری سازشیں اور ملکی مفاد کے وہی سودے، عوام کے مسائلِ زیست سے وہی غفلت، ضمیرِ انسانی کی وہی خرید و فروخت اور وقارِ انسانی کی وہی بے حرمتی، جلوت میں اخلاق و ایمانداری کے وہی وعظ اور خلوت میں وہی ان وعظوں کی نفی، طاقت کا وہی نشہ اور اس طاقت کے لازوال ہونے کا وہی غرّہ، غرضیکہ بصیرت کی آنکھوں سے دیکھو تو ایران کی گزشتہ ۳۵ سالہ تاریخ میں اپنے گھر کی بربادی کا نقشہ صاف نظر آجائے گا۔
یوں بھی ایران ہمارا دوست اور ہمسایہ ہے۔ اس کے ساتھ ہمارے رشتے ہزاروں سال پرانے ہیں۔ ہماری زبانیں ایک ماں کی اولاد ہیں۔ ایرانی علوم وفنون سے ہم نے بہت کچھھ سیکھا ہے۔ فارسی تقریباً آٹھ سو برس تک ہمارے ملک کی سرکاری درباری زبان رہی ہے جس کی وجہ سے فارسی کے بے شمار الفاظ، محاورے، اصطلاحیں، تلمیحیں، علامتیں اور استعارے ہمارے ادب کا جز بن گئے ہیں۔ حتٰی کہ ہماری گرامر بھی فارسی گرامر کا چربہ ہے اور ہمارا رسم الخط بھی فارسی ہے۔ ہم نے امیرخسرو، مرزا عبدالقادر بیدل، غالب اور اقبال جیسے عظیم القدر شاعر پیدا کیے ہیں۔ ہمارے صوفیوں کی تعلیمات اور تصنیفات کی عظمت کا اعتراف اہلِ ایران بھی کرتے ہیں۔ ان حالات میں ایران سے موجودہ تاریخ سے ہماری دلچسپی قدرتی امر ہے۔
لیکن افسوس ہے کہ گزشتہ ۳۲ سال میں ہمارے کسی مورخ، کسی مبصر، کسی دانش ور، کسی صحافی نے ہم کو ایران کے صحیح حالات سے باخبر کرنے کی زحمت نہیں اٹھائی۔ فارسی داں بزرگوں نے باربار ایران کی سیاحت کی، طلبا وہاں اعلٰی تعلیم حاصل کرنے گئے اور کئی کئی سال وہاں مقیم رہے، بے شمار سرکاری وفد بھی ایران جاتے رہے لیکن کسی کو یہ توفیق نہ ہوئی کہ واپس آکر ایران کے سیاسی، معاشی اور معاشرتی مسائل پر کچھ لکھتا، جو لوٹا اس نے شاہ کی مدح وثنا پر اکتفا کی اور شاہ کی مہمان نوازیوں کا قصیدہ لکھا۔ دراصل ملوکیت پرستی ہماری رگ و پے میں کچھ اس طرح سرایت کر گئی ہے اور ہم معاشرتی زندگی کو شخصیتوں کے حوالے سے دیکھنے کے اس درجہ خوگر ہوگئے ہیں کہ ہم فرد ہی کو جماعت تصور کرنے لگے ہیں اور فرد بھی وہ جو جماعت سے بلند و بالا ہو۔ چنانچہ رضا شاہ کو ہم نے قومی ہیرو کا درجہ دے رکھا تھا۔ کسی کی مجال نہ تھی جو ایک حرف ان کے خلاف زبان سے نکال سکتا۔ وہ جب سرکاری دورے پر یہاں آتے تھے تو ان کا خیر مقدم یو ہوتا تھا گویا پاکستان کے نجات دہندہ وہی ہیں۔ اسی غلامانہ ذہنیت کا نتیجہ تھا کہ شاہ پاکستان کو اپنی کالونی سمجھنے لگے تھے۔ شاہِ ایران تو رخصت ہوگئے لیکن ہماری شخصیت پرستی میں کمی نہیں آئی ہے۔ پہلے شاہ ہمارے ہیرو تھے اب وہی مقام ہم نے امام خمینی کو دے دیا ہے۔ 9-11

امریکا کا مفاد
۔۔ امریکہ کا مفاد دراصل امرکیک کمپنیوںکا مفاد ہے جو سعودی عرب اور امارتوں کے تیل پر قابض ہیں۔ (ان امریکی کمپنیوں کو ۱۹۷۹ء کے پہلے نو مہینوں میں ۲۵/ ارب ڈالر کا خالص نفع ہوا۔) اس علاقے کے تیل کی یومیہ پیداوار ساڑھے تین کروڑ پیپے ہیں۔ امریکہ، مغربی یورپ اور جاپان میں جتنا تیل استعمال ہوتا ہے اس کا ایک تہائی انھیں ملکوں (سعودی عرب، عراق، کویت، بحرین اور عرب امارات) سے جاتا ہے۔ 12

۔۔ 'عرب ممالک میں نظامِ حکومت کی تبدیلی مغرب کے مفاد کے خلاف ہوگی کیونکہ عرب بادشاہتیں اور امارتیں ہمیشہ مغرب نواز اور کمیونسٹ دشمن رہی ہیں۔' 12

امام خمینی ۔ جمہوریت دشمنی منطق
۔۔ امام خمینی کا یہ ارشاد بجا ہی کہ ایران کا سب سے بڑا دشمن امریکہ ہے۔ لہذا ہم اس سے لڑیں گے لیکن وہ ان جمہوریت پسند عناصر سے بھی آمادہ پیکار ہیں جو امریکی امپیرئل ازم سے جنگ میں ان کے سب سے معتبر اور مستعد رفیق ہوسکتے ہیں۔ امام خمینی کو اس تضاد کو حل کرنا پڑے گا اور جمہوریت کو از سرِ نو بحال کرنا ہوگا کیونکہ امریکی سامراج کو جمہوری طاقتوں کی مدد ہی سے شکست دی جاسکتی ہے اور اگر جمہوری عناصر بدستور موردِ عتاب رہے تو امام خمینی کی جمہوریت دشمنی کی منطق ایران کو ایک نہ ایک دن امپیرئل ازم سے سمجھوتہ کرنے پر مجبور کردےگی۔20-21

امام خمینی کی تھیوکریسی
۔۔ بہرحال امام خمینی کی تھیوکریسی جس کو اب آئینی شکل دے دی گئی ہے، ایران کے اقتصادی اور سیاسی مسائل کا حل نہیں ہے بلکہ اس سے تو مسائل اور پیچیدہ ہوجائیں گے اور ایران کے دشمنوں کو سازش کے نئے موقعے ہاتھ آئیں گے۔ یہ بھی امرِ واقعہ ہے کہ ایرانی محبّانِ وطن کی بہت بڑی تعداد نیک نیتی سے یہ سمجھتی ہے کہ تھیوکریسی کا نفاذ ایرانی معاشرے کے حق میں روڑا ثابت ہوگا۔ وہ بجا طور پر محسوس کرتے ہیں کہ 'ولایت فقیہہ' کی آڑ میں لوگوں کو انسانی حقوق سے محروم کیا جارہا ہے اور شخصی حکومت کے لیے راہ ہموار ہو رہی ہے۔ تھیوکریسی کے خلاف یہ بدگمانی بلاوجہ نہیں ہے کیونکہ قرونِ وسطٰی میں تھیوکریسی کا مشرق و مغرب دونوں میں یہی کردار رہا ہے۔ اور آج بھی مشرق، وسطٰی میں جن ملکوں میں تھیوکریسی رائج ہے وہاں درحقیقت شخصی حکومت ہی کا دور دورہ ہے، ریاست کا سیاسی ڈھانچہ خالص آمرانہ ہے، سربراہِ ریاست کو ریاست کے باشندے منتخب نہیں کرتے بلکہ یہ منصب اس کو ورثے میں ملتا ہے گویا ریاست اس کی ذاتی ملکیت ہے۔ نہ رعایا کی چنی ہوئی مجلسِ قانون ساز، نہ رعایا کے روبرو جواب دہ وزارتیں، نہ انسانی حقوق کی کوئی ضمانت، نہ تحریر، تقریر اور تنظیم کی آزادی۔ ایسے نظامِ مملکت کو آمرانہ نہ کہیے تو کیا کہیے۔ شرعی عدالتیں قائم کرنے اور شرعی سزائیں دینے سے اس آمریت کی نوعیت نہیں بدل سکتی۔ 21-22

دورِ حاضر کی تھیوکریسی:
۔۔ دورِ حاضر کی تھیوکریسی کا اقتصادی ڈھانچہ بھی ایسا نہیں جس سے عوام کو فیض پہنچتا ہو بلکہ خالص سرمایہ دارانہ ہے۔ صنعتی اور تجارتی کاروبار، فیکٹریاں اور کارخانے، بینک اور بیمہ کمپنیان، دکانیں اور دفاتر غرضیکہ دولت پیدا کرنے اور اس کو تقسیم کرنے کا سارا نظام سرمایہ داری اصولوں پر چلتا ہے۔ دولت اور دولت آفرینی کے ذرائع کا وہی چند ہاتھوں میں ارتکاز اور وہی اپنے ہم مذہب محنت کاروں کی قوت کا آزادانہ استحصال، جو سرمایہ داری کی خصوصیت ہے تھیوکریٹک ریاستوں میں بھی پوری شان و شوکت سے جلوہ گر ہے۔ یہی آمرانہ اور امیرانہ تھیوکریسی خمینی صاحب تھوڑی بہت ترمیم کے ساتھ ایران میں بھی نافذ کرنا چاہتے ہیں لیکن ایرانیوں نے اپنی جانیں اس لیے تو قربان نہیں کی تھیں کہ ایک آمر کو ہٹا کار دوسرے آمر کو اپنے اوپر مسلّط کرلیں۔ 22
__________

iNQILAB-e-iRAN - iNTRO

iNQILAB-e-iRAN
Sibte-e-Hassan
1979



Intro:
1979 ke iran ke inqilab per likhi gai ek inqilabi kitab. Jis inqilab me ek Dictator (shah) utarta hy to Doosra (khumeni) awam ki sarron per sawar hojata hy! Bus faraq itna hota hy ke ek khulle am Amrica Amrica karta tha aur doosre khulla am Not-Amrica Not-Amrica krta tha per peet-peechhe kam donon ka ek hi raha. Aur awam bichari waheen ki waheen rahin.

About the Book:
Inqilabe Iran ko sahi mani main samajhne ke liye Sibte Hassan Sahb Iran ki tareekh ko 18ven sadi se lekar chalte hyn, yani Qachari Dor se … is liye kitab ke shuroo ke 3 chapters 18ven 19ven sadi ki iran ke badshahat nizam ko dikhati hy, jis main badshah apni dolat main magan hote the aur awam apni ghurbat wali zindagi guzarti thi.

Magar awam ka sahi tor per istehsal Pehelvi Dor main hua jis main awam ki zindagi itni wabal bna di gai k unke pas marne aur ah-o-buqa k siwa koi rasta na bacha. Sarmayadari se mulk ko loota ja raha tha hatta ke mulk k tukre kar ke bechne ke plan banne lage!

Kitab ka Akhri Hissa, Inqilab ke baad Khumeni Sahab ki Hukumat per jhalak hy, jis main Khumeni Sahab mulk ki Aulil-Amr ban bhete, Deeni o Dunyavi dono tarah ki hakim ban bhethe (jo ke ikhtayarat shah ko bhi na the), Khumeni ne apne liye ikhtyarat Shah se bhi zyada makhsoos kar liye. Aur ese ese usool nafiz kiye jis se mulk ka berrah garak hota chala gaya.
Aur logon per Jabr o Zulm o Tashaddud (inqilab ke bad bhi) wesa ee raha. Ikhbarat o risalon per pabandi laga di, media per pabandi laga di, aurton per pabandi laga di, aqleeyat aqwam ke huqooq per pabandi laga di (bulke unko qatal kiya gaya), Amrica se tijart ab bhi rahi, pehle Direct hoti thi, aur ab Indircet Turkey ke raste, Amrica se hathyar ab bhi mangawye jane lage.
Per log jab Roti ke liye cheekhte to unhe kaha jata ye Baaghi hyn, roti ke naam per baghawat karna chahte hyn, inqilab islam ke naam per aya tha ‘saste tarboozon aur saste makanon ke liye nahin’!


باب: ۱: قاچاری دور
باب: ۲: بیداری کی لہر
باب: ۳ : مشروطہ کی تحریک
باب: ۴: پہلوی ریاست کا کردار
باب: ۵: امریکی عمل دخل
باب: ۶: پہلوی ریاست کے استبدادی ادارے
باب: ۷: پہلوی دور کی سیاسی تنظیمیں
باب: ۸: ایران کی شوشلسٹ تحریک
باب: ۹: انقلابی ہلچل
باب: ۱۰: انقلابِ ایران کے محرکات و اسباب
باب: ۱۱۔ ۱۲: ایک قدم آگے دو قدم پیچھے
باب: ۱۳: ایرانی انقلاب کدھر؟
باب: ۱۴: ۱۹۸۰ء کے بعد ایران پر یا گزری
_______________

Thursday, May 20, 2010

Socialism Not For Poors!

Socialism Not For Poors!

Ye Zamane ki sitam zarifi hy k jo iqtidar me ata hy uske pas dolat ajati hy jis k pas dolat ajati hy wo Garib nahien rehta.

Socialism hy to garibon k liye per zamane k pech wa kham kuch ese hyn k Socialism ki rasai Garibon tk aur Garibon ki rasai Socialism tk mahal ho chuki hy!

Zamane ki Pecheedgyan buhut barh chuki hyn aur musalsal barh rahi hyn aur inki islah ek 2 usoolon se mumkin nahien.
Dunya Iqtisadi Samraji (ecoomic emperialism) dor me na sirf chal rha hy bulke uski pechedgyon me uljha hua hy.
(Sare mamalik apas me had darja linked hyn, ye wo purana zamana nahi k ek shehr apni pedawar pe chalta ho, agr kuch kr liye to zyada se zyada apne hamsaye shehron se tijarat)
per aj k zamane me Ap Independant Bn Kar Nahien Chal sakte aur agr Dusron se Rishta Bna ke Chalna Hy to Hamesha Apki Man Mani Nahien Chalne Wali!

Socialism sirf usi mulk main Nafiz ho sakta hy jo itna Balig ho chuka ho k Naddar ho ke bare bare Magar Machhon ko Daant dikhaye, aur kahe nikal jao mere mulk me se mjhe tmhari madad ki koi zaroorat nahien! Ese me magar machh kahenge Acha Esa Hy to Phr Ham Tmhara Jeena Mahal Kardenge, Dekhte Hyn tm is Talab main Kese jeette hy aur Wo kahe Parwah Nahien, Dkhte Hyn Kon Kis ka Jeena Mahal Karta Hy!

Yaqinan Roos aur Cheen ki Inqilab k Zamane me wo itne baalig ho chuke the k Magar Machon ko daant dikha sakhen.
Lekin hamare jese Kam Qabiliyat aur Pasmandah Mulkon me Socialism Nafiz Karne ka Scenerio kuch wesa i na ho jesa Iran me 1949 me Dr. Musaddaq k sath hua tha:

“ise asna main tel ke muahede ki tajdeed ka sawal uth khara hua. Ye muahida Raza Khan Sepahdar ny 1933 main 25 sal ke liye Englo Iran Oil Company se kiya tha. Ye muahida 25 sal ke liye us waqt kia gya tha jab iran ko tel se faqat 17 lakh pound salana ki aamdani hoti thi. Choothai sadi ke doran tel ki pedawar main itna izafa hua ke royalty ki raqam 1848 main derh crore pound hogai. Magar ye raqam kul amdani ki tehai se bhi kam thi goya do tehai amdani Bartanvi Company hazam kar jati thi. Irani watan paraston ko ye soorathal qabil-e-qabool na thi. Chunache us muahide ki tajdeed ki mukhalifat shuroo hogai. Dr. Musaddaq ne Jabbah Milli (National Front) ke naam se ek syasi jamat ki bunyad rakhi. Dr. Musaddaq purane sayasatdan the aur mulk main in ki bari izzat thi. Wo majlis Shorai Milli ke un chaar mimbaron main se the jinhon ne 1924 main Raza Khan ko badshah banane ki tajveez ke khilaf vote diya tha aur Republic ki tajveez pesh ki thi. Jabba Milli ka pehle din se ye mutaliba tha ke tel ki sanat ko Qaumi Milkiyat bana diya jaye aur is ki amdani ek mulkgeer tarqiyati mansoobe per kharch ki jaye, magar wazeere azam general Rizm Ara muahide ki tajdeed ke haq main tha. Chunache july 1949 main bartanvi company aur irani hukoomat ke darmiyan ek naya muahida te paya jis ki ro se royalty ki shirah pachhas feesad muqarrar hui. Is muahide ko general Rizm Ara ne majlis main tauseeq ke liye pesh kiya magar Dr. Musaddaq ke israr per majlis ne muahide ki tauseeq se inkar kardiya. Bartanvi company ne dabao dalne ke liye royalty ki wajib-ul-ada raqmon ki adaigi bhi rok di. Nateeja ye hua ke mulk bhar main genaral Rizm Ara ko bartaraf kar ke Dr. Musaddaq ko wazeer e azam muqarrar karne ka mutaliba hone laga. Is doran mian kisi ne 7 march 1951 ko Rizm Ara ko goli mar kar halak kar diya, to Shah ne majboor hokar 30 april ko Dr. Musaddaq ko wazeer e azam muqarrar kia. Dr. Musaddaq ne Majlis Shorai Milli ke fesle ke mutabiq tel ki sanat ko Qaumi Milkiyat qarar de diya aur Shah ko bhi is qanoon per dastakhat karne pare. Englo Irani Oil Company ne is iqdam ke jawab main october 1951 main tel ke chashmon aur abad un ki Oil Refinary ko band kardiya aur Angrez mulazmin ko watan wapas bhej diya. Iran dushman taqaton ne iss per iktafa nahin ki bulke Europi aur Amrici Companiyon ke tel bardar jahazon ne intiqaman irani tel uthani se bhi inkar kardiya. Soviet Union ne sanat ko bahal karne ki gharz se Roosi Mahireen ki khidmat pesh ken aur jama shudah tel khareedne ka wada bhi kia lekin Dr. Musaddaq ne ye donon tajveezen rad karden. Dr. Musaddaq ki is nafi polici ki waja se iran shadeed iqtisadi buhran main mubtala hogaya. Wo sakht jazbati insan tha lekin in ko ye to zaroor ilm hoga ke Englo Irani Oil Company ka irani amala tel ke karkhanon ko chalane ki ehliyat nahin rakhta hy. Ese soorat main un ko tel ko Qaumi Milkiyat banate waqt ye sochna chahiye tha ke agar Angrezon ne ta’wn na kiya to ye karkhane kese chalen ge. Unhon ne tel ki sanat ko qaumi tahweel main le liya magar aakhr waqt tak tamana ka doosra qadam uthate hachkachate rahe. Aur un ka yehi tazbazab iran ke haq main muhlik sabit hua. Wo beemari ka bahana kar ke bastar per let gaye aur haalat per qabu pane ke tadbeeren ikhtiyar karne ke bajaye haalat ko apne ooper qabu pane ka moqa de diya. Un ki is be amali ne logon ke hosle past kardiye aur tab amrica ne shabkoon mara.”
[Inqilabe Iran, by Sibte Hasan. Page. 125-126]

. . .

Lekin yahan per to ye halat hy k dar hy k kahin Mustaqbil Qarib me Bangladesh se imdad na leni pare!

Socialism Nafiz karne ke liye chahe kese ee achhe Usool/Qanoon murattib kyon na kar liye jayen, lekin wo qanoon mulkgeer hi rahen gen.
Sarmayadari ka asar torne (aur jama andozi ko khatam karne) ke liye jo ‘socialism’ nafiz hogi,(take money recirculate hoti rahe, aur jama andozi na hone paye.. ) wo mulki sarmayadari tak mehdood hogi, aur mulki sarmayadar aate main namak ke barabar hyn, baqi poora ka poora ata jo ghair mulki choos lete hyn. Usko un ke jebon se nikalna dobara namumkin ke barabar hy. To phir ya to ye ho ke Poori Dunya main ek saath Socialism Nafiz ho! Ya apne Mulk main se subhi Gair Mulki Sarmayadari Khatam karli jaye. aur dono ee sooraten muajudooh soorathal ko dekh kar mahaal nazar ati hyn. Kyon ke Poori Dunya main ek saath socialism ksi Almi Jang se ee mumkin hy. (aur match se pehle winner ka fesla nahi kiya ja sakta). Aur Ghareeb mulk ‘Imdaad’ ke bgair chal nahi sakte.
Yani jab tak Bare Magar Machh aur Ghareeb Mulkon ka Concept maujood hy tab tak Sarmayadar aur Mazdoor ka concept maujood hy.
Ghareeb mulk Amree mulk ka Ghulam ban ke survive kar sakta hy, per Mazdoor ko Sarmayadar ko Ghulam banne ki bhi ijaza nahi. !!!


Mulk ki Islah (Socialism k Nifaz me) 2 chez buhut important hyn:

1. Eemdandari:
jb tk emandari nahien tb tk chahe kitne i achhe usool kyon na bna liye jayen, koi faida nahien. Qanoon jb sirf Kaghzoon me para rhe aur muashre ne Napeed ho to ese Qanoon ka kya faida!?

2. Govt:
jb tk govt khud Ghasib, Zalim, Chor aur Jahil ho to Mulk ka sirf aur sirf 'Berra Garak' hy.

____________________

Wednesday, May 19, 2010

Ghulami Ka Na Hona Lanat Hy

'Ghulami' ka Na Hona Maujoodah Sarmayadar Nizam ka bunyadi juz hy!

Jo log Ghulami ko lanat samajhte hyn, wo us bat per ghaur nahi krte k is chez k na hone se muashre me akhr kya kharabiyan janam legin !
Aur jb kharabiyan janam leti hyn to usko wo alag se dkhte hyn, ye nahi analyse karte ke akhr in kharabiyon ne janam kese liya.

Ye ese ee hy ke ek bnda kehta hy is darakht ka Tana (stem) kat do k ye burai ki jar hy, phr jb darakht ko neche se kata jata hy to wo dharam se uski jhopri pe girta hy aur bnda bolta hy 'Hay Re Hay! Theniyon ne to mera ghar tbah kar diya.' aur wo in dono chezon ko alag alag se dkhta hy, wo ye nahi sochta darakht ki theniyan is k ghar k ooper iski bunyad katne ki waja se i giri!

Ghulami k na hone ki waja se wohi gareeb tabqa ab dar padar bhatak rha hy, aur jis tbqe ka ab buhut bure tariqe se istehsal ho rha hy!
Na uske izat o namoos mehfoz hy, na us mai sakkat hy k zamane o muashre se lar sake.
Na wo apne bchon ko talim hi de sakta hy aur na apni bhen beti ki shadi krwa skta hy!
Phr jo Zalim o Jabir is per zulm kare (chahe wo jabir awam me se ho ya hukumat me se) ye khamoshi se sehne k elawa kuch nahi kr skta!
Phr is k pas sirf 2 raahen i bchti hy ya to Khudkashi kr le, ya apne ap ko (aur apni aulad ko) saste damon bech de.
[aur is saste damon bechne se murad ghulami nahien bulke wohi mazdori hy jis me insan majburi ki halat me bhooti kori per kam krne per b razi ho jata hy, bulke apni aulad tk ko bech deta hy! Kyoni k khud to unki kifalat nahien kr skta, phr ehsase mehroomi, muflisi, nadari, bemari... wali zindagi se bnda ya to khudkashi krle, ya saste damon bik jaye! (per yahan per b ye satam zarifi hy k koi Kharidar nahi milta!)]

Ghulami k hone me chand khoobiyan hoti hyn!
Ek to wohi Gareeb (proltaria) tbqa (jin per Marx chekh chekh k thak gaya) ka majority Ehle Surwat k pas ghulam bn k jeeta. Phr ehle surwat k pas inka nan nafuqqa libas o rehaish k bndobst krne ka masla nahi is liye inki Halate Zeest behtar hogi, ksi Zalim k zulm krne per ghulam apne Malik se shikayat kr sakta hy aur Malik apne ghulam k liye apne muashre se lar sakta hy. Ghulam o Kaneez jese k Ghar k Fard bnkar jeette hyn is liye (maujoodah zamane k Nokron k muqable main) zyada mukhlis hote hyn (bulke jo ghar ka fard ho us ke liye be-imani be-matlab hy), aur Malik bhi apne ghulamo se Apnaiyat aur Unsiyat rakhta hy.
Wse B Fitri Tor Per Insan Apni 'Milkiyat' se Muhabbat Rakhta Hy!

Ye b jan lena chahiye TABQATI NIZAM is Dunya ki sirusht me dakhil hy bilkul ese i jese Kainat main Newtons Law.
Koi bnda apni Jahalat ki bina per Gravitation se inkar to kr skta hy per uski Khilaf warzi Nahien kr skta.


Ghulami Ka Khaatma ki wajah:

Ghulami ke qanoon ko mansookh kr k 2 nuqsanat hue.. 1 FEUDALISM wujud me aya 2 CAPITALISM wujud me aya.. Pehle gulam aqaon ke kam krte the.. Per gulam ka nan nafaqa libas rehn sehn even shadi sb aqa k zimme hota tha.. Per 'gulami' ka khatma khud FEUDALISTS n CAPITALISTS ki aqalmandi ho sakti hy.. Kyon ab ye 'logon' se gulami wala kam to lene lage per ab unki zarooryate zindagi ke zimme se aari rahe. Ab unki mehnat k bdle me bus thori si raqam de di jati thi, us per b kai mehsoolat, qarze, aur sakhtiyan ki jati thi. Plus me choonke ye mehnat kash gulamon ki trah apne aqaon ke sath nhi rehte the is liye gurbat inke dimagon me raasikh hokar 'muqaddar' bn gai.

___________________

Saturday, May 15, 2010

Mazdoor Ko Akhir Kitne Pese Chahiyen!

Mazdoor Ko Akhir Kitne Pese Chahiyen!

Chalo maan liya Mazdoor ko Jitni Ujrat Chahiye Wo Usko Dee, Chalo 4 guna barha kar dee, Mazdoor 2000 ki demand kar raha tha hum use 10,000 dete hyn, mazdoor 10,000 ki demand kar raha tha hum use 50,000 dete hyn, PER Phir Mazdoor Ko Kaam Bhi Hamari Marzi Se Karna Hoga!
(Jab Ujrat Apni Marzi se Le Raha hy to Kaam bhi Hamari Marzi Se Karega!)

To Kya Ye Baat Theek Rahegi !?

Mazdoor apni mun boli raqam se 5 guna zyada kama raha hy, per subha savere kaam pe lag jata hy, aur raat der tk ghar ko lotta hy wo b sirf sone ke liye, aur kal subha sawere dobara kaam pe … aur ye silsisla saalhasal continuously chalta rahta hy, … wo subha se raat tak band mahol main sirf aur sirf apne kaam main muqeed rehta hy, aur iska dimag ko apne kaam k elawa aur kuch sochne tak ka moqa nahi milta, aur apne band mahol main is tarah qed rehta hy k na sardi ka pata na garmi ka pata, na seasons ke badalne ka pata na mausam ki tabdili ka, kab toofan aya, kab baarish hui, kab dhoop nikli, kab shaam hui, kb khizan guzri, kab bahaar ayi, kab asman garja aur kab hawa chali, na logon ki amad o raft ka pata na unki hartalon ka, na unki khusyon ka pata na jalse julosoon ka! …
Ab Ye Bhi Kya Zindagi Hy!

Aur sub se kharab baat,
insan apni Family tk ko time nahi de pata, bv her roz intezar kar ke thak jaye aur bachhe sirf hafte main ek din hi baap ki shakal dekh payen. Jub beemar hon to ispatal tak le jane k liye baap maujood na ho, jub khush hon to khushi shareek karne ke liye baap maujood na ho!
To kya Ye Bhi Zindagi Hy!

Esa Mazdoor (Jo Marxism ki badolat) apni Mun Boli Raqam to Lele per uske Baad Kya … … …
!

Thursday, May 13, 2010

Munafa to Chahiye ee

MUNAFA TO CHAHIYE ee CHAHIYE

Insan ko Apni Zindagi chalane k liye Munafa to chahiye i, bgair munafe k esa hy 10 rupe ki chez kharide aur 10 rupe me beche aur phr Mar Jaye!
Chalo chezon ko Simple Style me shuru se dkhte hyn.

Me ek garib insan hon aur mujhe apni zindagi ke liye kam se kam Khorak aur Libas chahiye per meri jeb main bhooti koori nahin.
Ab me kya karon? Pehla tariqa to ye hy k ksi ki Nokri krlon. Yani ya to Permanant Ghulam bn jaon aur Muash se Befikr hojaon ya temporary Nokar ban k kam karlon. Per ye Nokri wali wohi kefiyat hy jse Mazdori kaha jata hy, phr mujhe apni Mazdori ki kitni ujrat milti hy aur kitna kam liya jata hy... Ye wohi bat hy jo Socialist, Mazdoron waghera ka Sar Dard hy.

Dusri Kefiyat ye hy k ager mujhe koi hunur ata hy to:
ye karon k shuru me ksi se qarz lekar kham mal kharidon aur apni Mehnat se us se Product peda karon / bnaon aur bechon.

3sra taraka ye hy k (ager mujhe koi hunur nahi ata) to ye karon k ksi se qarz lekar apne gaon k dayen janib shehr pedal jaon wahan se kuch chezain kharidon aur apne gaon k bayen janib shahr jake bech don.

4th Kefiyat ye hy k Bheek Mangon. Aur is bheek mangne ke hazar tariqe hyn, is main sirf wohi bhikari i sahmil nahin jo raod raston per ghoomte hyn per bare bare khush poshak bhi ap ko Bheek Mangte hue milenge. Bheek Mangne se simple murad bgiar koi kaam kare mufat main pese lena.


Ab her ek kefiyat per ek ek kr k detail main nazar dalte hyn:

4. Bheek Mangna
Bunyadi tor per ye ksi ka Zati Fa'l ho sakty hy, is per Sakhti Nahien ki ja sakti, aur her Nation fitri tor per is amal ko Na-Qabile-Tarif aur Taszheeq se dkhta hy.
Yaqinan ager Poori Dunya ke Log is peshe ko ikhtiyar karain to Mulk ki kya halat hogi, wo her koi samajh sakta hy, bulke Survive krna Na mumkin hojayega!

2. Ugana/Banana
Ab suppose kijiye me ek Garib bnda hon, meri ek Bv hy aur main ek chhote se gaon me rehta hon. Mere pas khane peene k liye kuch b nahien hy, meri halat bilkul zero hy. Aur mere ghar ka kharch km se km 4 rupe hy. Ab main kya karon pet k liye kuch to krna parega.
Main Bheek nahien mang sakta, ye meri izzat o shan k khilaf hy, me Nokri b nahien kr sakta ye b ksi hawale se mahal hy. Per Mere Pas Hunur (ya Zamin) Hy!
Phr main ye krta hon k apne ek dost se 10 rupe qarz leta hon aur us chez ka khaam mal kharidta hon. Aur us se Product bnane me lag jata hon. Sham tk product tayar hojati hy. Aur agle din main use market lejata hon bechne k liye!

Ab sari asal kahani yahan se shuru hoti hy. yani Munafe se,
Ab ager me us Chez ko 10 rupe me i bechon to phr to main Mar jaon, kyon wo 10 rupe apne dost ko qarz wapas kardon, aur me abhi tk Bhookha aur nanga hon!
Market me wo chez 14 rupe ki mujh se farokht hoti hy. (yani 4 rupe Nafa k sath)
In 14 rupyon me se 4 rupe me mere ghar ka kharch niklega aur 10 rupyon se dobara me kham mal kharid kar process repeat kr skta hon.
Yaqinan main apni halat behtar bnane k liye chez ko zyada achhe se bna kar aur zyada peson pe bechna chahonga. (jse 15 ya 16 rupe) take zayd raqam se apne dost ka qarz b chukta kr sakon aur apni halat-e-zeest ko b behtar bna sakon!

Ye b janna chahiye k main Product ko market main apni Mun Mangi raqam pe nahien bech sakta, mtlb esa nahien ho skta k main market main jaon aur kahon k is (14 rupe wali) product ki qeemat 100 rupya hy. Yaqinan log b bewakuf nahien, wo chezon ki value ko (kam o besh) jante hyn. Phr wo Product muashre me dusre b farokht kr rahe hyn is liye us ki Price apni jaga per muayyan hy.

10 rupe se bani chez 14 rupe main bechne se ye 4 rupe koi muffat main nahien batole ja rahe, bulke ye wohi Mazdoor ki Mazdoori jse wo Cash krwa kr apne Ghar ka Charkha chala pa rha hy, warna 10 rupe to wohi bachte hy dobara product bnane k liye.


3. Tijarat
ye kahani b thre se faraq k saath kuch is tarah hy:
Me ek muflis garib nadar bnda hon, chhota sa kachi mitti ka ek kamre wala ghhar hy jis me chhota sa sehn hy. Ek chhote se gaon me apni bv k sath rehta hon.
Meri halat is waqt esi hy k agr hath per na mare to 2 din me marjaonga.
Mere pas na Zamin hy na Hunar, Bheek mangne se Marjana behtar hy aur Nokri krna b mushkil hy.
Phr me ek kam krta hon, apne ek dost se 10 rupe qarz leta hon, aur apna gadha lekar nikal parta hon. Qarib hi ek shehr puhuncta hon. Wahan se kuch Ashya Kharidta hon. Wapas akar apne Ghoth aur gird nawah elaqon main un ashya ko farokht (4 ane 8 ane Munafe main) krta hon. Kul mila kar mere pas 14 rupe jama hojate hyn. 4 rupe main apne pet k liye bndobst krta hon. Aur 10 rupe wohi bachte hyn jin se dobara tijarat kar sakon. [yahan bhi 10 rupe wali ashya 14 main rupe main 4 rupe munafe ke saath bechi ja rahi hyn, tabhi mere ghar ka charkha chalne lgta hy, 10 wali chezen subha ko khareed kar shaam ko 10 main i bech kar phir ghar per aakar qabar khod kar so jaon!]

Dono hi Type 2 aur 3 main Zamane k Hawadas shamil hojate hyn, Kbhi Mausam se Product per asar parta hy to Kbhi Looteron k Hathe charh jata hy kbhi Achhai hoti hy Zyada qeemat per bik jata hy to kbhi Burai hoti hy Nuqsan uthana parta hy!

[isi asna me ye bt b gosh guzar hoti jaye k Islam ne Kheti Bari aur Tijarat ko Pasand kiya gya hy Jbke Nokri ko Napasand (bheek mangna to ofcourse had se zyada na pasandeedah hy). Iska reason Aleem Shaikh sahb ne ye byan kiya tha k Tijarat me bnda Khuda pe Bharosa rakhta hy jb k Nokri me apne Boss per!]

1. Nokri
ye wo Kam hy jis me Na ashaya Bnane ki tension, Na ashya Farokht krne ki tension, Na mal Lut jane ki tension, Na Mausam k achhe ya bure hone ki tension, ager kam/product Seasony hy to Season k hone ya Na hone ki Na koi tension.
Bus ek muntakhib kam kiya jata hy Ksi k liye aur Pese lekar ghar ko ravana hua jata hy, aur un peson se Na Kham Mal kharidne (kharid o farokht me) Invest krne ki tension! (ye saare Tension Kam Muhaiya karne wale (Malik) ke gale main hote hyn, Mazdoor ko sirf Kam karna hy, baqi is kaam se Aage kya ho raha hy Peeche kya ho raha hy, koi parwah nahin)
[Oooper wali 2 misalon mian Banda Kaam ke Resources bhi khud peda kar raha tha aur Kaam bhi khud kar raha tha, Per is Nokri wale Amal main ye procedure Half ho jata hy/ 2 hisson main bat jata hy, is main Kaam ke Resources ek Banda Muhaiya karta hy, aur Kaam Doosra. Technically is hisab se Mazdoor ko Aadhi Ujrat milni chahiye!]

Bunyadi tor per Ye Kam 2 bndon ki beech me ek ‘Personal Deal’ ki trah hota hy. Shuru main ee Bnda Mazdor ko kam btata hy, Mazdoori btata hy, dono ager Razi to phir … Jub Miyan Bivi Razi to Kya Karega Qazi.!

______________


Bagiar Munafe ke Ye Dunya Kesi Chalne Wali Hy… Ye Baat Mujh Gareeb Bande ki Samajh se to Bahar Hy!

Cheezon main se Munafa Nikalna Matlab, Mazdoor ki Mehnat nikalna, Sarmaya main se Zinda Saramaya nikalna.


Hum ne Cheezon ki Analysation Simple Style main ki hy, is ko ager zyada Wasee’ pemane per aur Pecheedah bana diya jaye tb bhi Bunyadi Chez same rehegen , bus Miqdar barh jati hy.

Yaqinan apni jaga per Bare Pemane per Jama Andozi aur Munafa Khori buhut Buri chez hy, jis ka Khaatma hona chahiye (aur yahan per Munafa se murad, Cheezon ko Asal Value se zyada qeemat per bechna. (mozdoor ke mehnat shaamil karne ke saath), aur is tarah Jama Andozi karna k Currency/Money/Value ka dobara Re-criculate hona. Munafa usi waqt nikal sakta hy jub khali 'Murdah Sarmaya' ho!

Wednesday, May 12, 2010

5.Sarmaya - Sanat o Harfat (Critics)

Sarmay - Das Kapital
Karl Marx

Sanat o Harfat

CRITICS:

Yahan se chand chapters Waqt ki Irtiqa ka Haal (Mazi) btate hyn k kese Dast-kari se Ijtimai-Dastkari se Sanatkari ke dor tk puhunchen.

Pehle ek Dastkar shuru se akhr tk ek jins ko khud bnata tha phr Ijtamai Dastkari me ek hi jins ko (kamon ko bant kr) mukhtalif dastkar bnate the aur phir Machinen Aagayeen!

Bunyadi tor per ye sara amal Tareekhi aur Irtiqai tha. Isme se Sahi o Galat ka pehlu nikalna Beja hy. Ye ksi ek Fard ya Jamat ka (ek hi waqt main hone wala) Kam nahi tha bulke ye Waqt ki Irtiqa tha, na sirf Important tha bulke Lazim tha.

(Zarooart Eejad Ki Maa Hoti Hy)
Isi Zaroorat ne Machine Peda kar daleen.

Jub Dunya Ki Abadi Achanak Barh Jaye aur 3 sadyon ke andar andar 800 million se 7 billion tak puhunch jaye to Kaseer tadad ke logon ki Zarooriyat poori karne ke liye Tezi se aur Kaseer tadad main hi kaam karna parega. Jis ke liye Michenin, Sanatkari aur Sarmayadari Lazim ban gai.

Ager ye tasawur karain ke ye sub kuch Dunya ke Ek Kone main ho raha tha jub ke Baqi Dunya in chakkaron se Azad thi, to ‘Baqi Dunya’ ko Stone Age aur Bronze Age main ee rehna parega! Lekin jo dunya ka “Kona” taraqqi kar raha hy wo is ‘Stone Age Dunya’ ka Istehsal kiye bagair nahi reh sakta. Phir ham jaante hyn ke kis tarah Europe ne Africa, Asia, America, … ka istehsaal kiya, aur sadyon tak in ke maal per qaabiz rahe aur lootte rahe. Lekin jb Ghulam aur Malik ek hi Chhat ke neeche rahenge to Ghulam bhi Malik ki tips aur tricks seekh ee jayega. !!

Is liye ye Irtiqai Dor Waqt Ke Hisab se Zaroori tha.

Per Marx shb apni baat manwane k khatir akhri jumla bol hi dete hyn:
"Ek Nuqta Nigah Se To Ijtimai Tariqa Pedawar Tarikhi Tor Per Infaradi Dastkari Ki Taraqqi Yafta Shakal Hy Lekin Dusre Nuqta Nigah Se Ye Sarmaya Ka Tariqakar Hy Jis Se Wo Mazdoor Ko Qadr Zayd Peda Karne Ke Liye Istimal Karta Hy." 93


Tuesday, May 11, 2010

4.Sarmaya - Mazdoor Ka Zaaid Waqt (Critics)

Sarmaya – Das Kapital
Karl Marx

Qadr Zaaid Ki Miqdar Ya Mazdor Ka Zaroori aur Zaaid Waqt

CRITICS:

Is Ch. Main samjhaya gaya hy ke Mazdoor ko Ujrat Uski Mehnat se Kam di jati hy, Mazdoor ager 9 ghante kaam karta hy to usko actually ujrat uske 6 ghante ke kaam ki milti hy jab ke 3 ghante wo zaayid kaam karta hy sarmayadar ke liye.

Lekin Masala Ye Hy Ke:
Ager Mazdoor sirf utne i ghante kaam kare jitne me uske personal zarooriyat o ikhrajat poore hote hyn, aur ager Poori Dunya ke Mazdoor esa karain to phr Agle i Mahine Poori Dunya se SANAT KARI nizam ka Khatma Hojayega!

Ye bilkul esi i hy jese ek dukandar apni dukan ki sari ashya farokht karde, aur us se hasil shuda poori raqam apne ooper (apne ghar bal bachon k ooper) kharch karde aur phr sada k liye Shutter Down kar le! Kyon k ab is ke pas pese nahien k dobara ashya kharid kr farokht kare!
Ya phr ese k Ek Dehqan ek season me apni zamin se hasil shuda raqam ko apni ikhrajat per poora kharch krde aur phr hath pe hath rakh kr bhet jaye kyon isko dobara kasht karne k liye ek booti koori b nahien k beej kharid kr sake aur dobara kasht kar sake!

Mehnat aur Meezan:
Mazdoor kitne ghante apne liye kam krta hy aur kitne ghante Malik (Sarmayadar) k liye - ye ek Vague process hy.
[Matlab ye jaanna Na-Mumkin hy ke Aya Konsa Mazdoor Konsa Kaam Kitni Muddat aur Kis Shiddat ke saath karta hy, aur Is Hisab se uski Ujrat Kitni Honi Chahiye! In sub cheezon ko ek saath Tolna yaqeenan Na-Mumkin hy, khusoosan aaj ke zamane main jahan Mazdoori ki definations badal gai hyn, jahan log sirf Baat karne aur Salah dene ke b pese lete hyn!]

Mazdoor jb ksi factory ya ksi Bande k pas kam krne ata hy to deal kuch is trah nahien hoti k mazdoor kahe: "main 6 ghante apne liye kam karonga aur 3 ghante tere liye." bulke poora kam mazdoor ko bta diya jata hy aur poore din ki ujrat (ya poore kam ki ujrat) use bta di jati hy.
Ager wo razi nahien hota to kher (koi zor zabardasti nahien). Agr wo razi hota hy to ye 2 Fariqeen k beech ek Personal Deal ki trah hota hy. Aur Aqali tor per 2 bndo k personal deal - js me wo dono Razi hon - me parna na sirf Illogic hy per Illegal bhi.
Ab ek mazdoor ko kitni ujrat milti hy aur actually Iqtisaadiyat ko made nazar rakhte hue kitni milni chahiye, ye ya to Arbabe Ikhtiyar (Govt. etc) isko Mutaaiyan karain ya phir sarmayadar aur mazdoor ager ek raqam per razi hyn to phir baat ee khatam.

Sunday, May 9, 2010

3.Sarmaya - Murda aur Zinda Sarmya (Critics)

Sarmaya - Das Kapital
Karl Marx

Murdah Sarmayah aur Zindah Sarmayah

CRITICS:

Marx ke Baqol:
Ek she (jins) jb tayar hojati hy to wo Murda Sarmaya kehlati hy, aur jb use Munafe per becha jata hy to Zinda Sarmaya kehlati hy.

Marx bhi Ajeebul Khalqat Makhlooq hy..
Ek taraf Mazdooron ki Mehnat Mazdooron ki Mehnat ka dhandoora peette hyn,
Dusri janib jb us Mehnat ko Cash karwaya jata hy to kehte hyn Ye SARMAYA hy iska Khaatma zaroori hy! %S


Is Ch. ko agr thora bareek beni se dekha jaye to ye batain b Qabile Gaur hyn k
Murda Sarmaya aur Zinda Sarmaya alaihda alaihda Nahien hyn! Marx ne jo Machinon ki example di hy us me Machines khud b khud (Insani Operation k bgair) Nahien chalne waleen.
Aur phr Jins bna kr usme se Munafa na kamaya jaye to yehi bat hogi k insan 10 rupe ki chez kharide aur 10 me farokht kare aur phr mar jaye! Ye munafa wohi chez hy jis me insan kharid farokht ki chakar me Money Circulation peda krta hy aur apne Nan Nafaqqe ka bndobst kr pata hy!

Munafa ko Beech me se Nikalna esa i hy jese Mazdoor ki Mehnat BE QADR O QEEMAT kar dena!

Is liye Murda Sarmaya aur Zinda Sarmay Ek hi hy.
Jb ye ek hi hy to phr Murda aur Zinda ko alag alag kr k parakhna Fuzool hy.
Marx ko samjhana chahiye k dono ko mila kr konsi kefiyat bnti hy!

Murda Sarmaya kam se kam hum tabhi keh sakte hyn jub Ksi Chez per Insani Haath na laga hon aur wo Natural Environment main Pari mile, jesa ke Marx Kitab ki shurwat main khude define karte hyn k, “Dunya Ki Her Jins Do She Se Murakkab Hoti Hy, Madah – Insani Mehnat, Madah Qudarat Ki Taraf Se Muft Ata Kiya Gaya Hy Is Liye Jins Main Jo Qadar Peda Hoti Hy Wo Mehnat Ka Natija Hy”. Page 41
is Hisab se ager ek banda kisi she ko sirf baahar se ghar tak utha kar laata hy, tab bhi us main Qadar peda hojayegi, ager koi doosra is se lena chahe to use ikhtiyar hy ke us ne jo Bahar se Utha Kar Ghar tak lane main Mehnat ki, aur She main Qada peda ki, us ki Ujrat le!

Is liye Murda Sarmaya hm Maadah ko ee kahen ge, Insani Haath lagne ke baad wo Zinda Sarmaya hojati hy aur us main Qadar peda hojati hy.
.
.
Dusri ek Chhoti Si Baat:
Marx ne kaha Machino me is Miqdar me Qadar hoti hy jis Miqdar me wo Qadar transfer krti hyn!

"Ek Machine Me 2000 rupe Ke Masavi Qadar Maujood hy to wo Kapre Me Sirf 2000 ke Masavi hi Qadar Muntaqil Kar Sakti Hy."73

ye bat kehna Philosophy ki had tak to thek hy per Samaji, Iqtisadi aur Nafsiyat lehaz se buhut buri hy. . Warna ek bnda 5000 ki Silai Machine 500000 me furokht karega ye keh kr k is machine me itni Value ka Kapra seenne ki salahiyat hy! Phr chonka kis machine me kitni salahiyat hy ye napne ka ala dobara maujood nahi (insani mehnat ko tolne ki tarha), to insan dobara Ddacche main!

2. Sarmaya - Sarmayi (Critics)

Sarmaya: Das Kaptal
by Karl Marx


CRITICS:

Sarmayadari Ki Ibtida:
"Sarmayadari Ki Ibtida Us Waqt Shuru Hui Jb Se Ke Afrad Ne Jins Ko Nafa Ki Khatir Banana Shuru Kiya." 53

-Ye baat Ghalat hy! Nafa Khori insan ki sirusht me dakhil hy. Aur ye Nafa Khori (Sarmayadari) shuru se i chali aa rahi hy. (ager Stone Age ko hata b diya jaye tb bhi Bronze Age se to hy hi)(han ye dusri bt hy k iski ibtidai shakal zyada sada thy.).
Aj se 1400 sal pehle b jb log Tijarat krte the to Nafa k liye hi krte the. PER bat ye hy k shurwat me Ajnas o Mehnat ka Tabadilah kuch is andaz se hota tha k insan zyada Nafa nahin kama sakta tha, jo kamata tha (peshtar) uski Zarooriyat me kharch ho jata tha. (halanke Exceptions us zamane me b milte hyn jo zyada kamate the aur Ameer kehlate the!).. Per 15ven Sadi k bad Nayi Dunyaon Ki Daryaft aur Emperailism ki badolat Dusri Aqwam ki Loot Khasoot aur unke Raw Material per tasallut se Had se Zyada Munafa Khori ki Rahen daryaft huin!
.

Kharid o Farokhat ke Chakar
Formulae: “
A. Jins = Rupya = Jins
B. Rupya = jins = Rupya

"1. Gardish Farokht Ke Amal Se Shuru Hoti Hy Aur Kharid Ke Amal Per Khatam Hoti Hy aur Iske BarAks B Gardish Kharid Ke Amal Se Shuru Hoti Hy Aur Farokht Ke Amal Per Khatam Hoti Hy."

- Marx Sahb itna Nahi jante k Tali Ek Hath se Nahi Bajti, ager Ek Side se Farokht Ka Amal ho rha hota hy to Dusri Janib se Kharid ka Amal ho rha hota hy. Is liye ek Amal ki Shurwat Dono i (Kharid Farokht se hoti hy.)
Phr Marx ooper khud Pese Dene k Amal ko b Pese Farokht krne ka nam dete hyn: "Kapra Kharid Raha Hy To Rupya Farokht Kar Raha Hy Ya Agr Kapra Farokht Kar Raha Hy To Uske Ye Mani Hy Ke Rupya Kharid Raha Hy."
is Hisab se Dono i Amal Dono i Kharid o Farokht aur Farokht o Khard se horha hy.
(Matlab Dono Formalae main Dono Jahat se Kharid o Farokhi bhi ho rahi hi aur Farokh o Khirid bhi, Jins Bechi Ja Rahi Hy, Pese Kharide Ja Rahe Hyn, Pese Kharide Jarahe Hyn, Jins Bechi Ja Rahi Hy)

Marx sahb ki point No. 1 Illogic thehri.

Ager Chezon ko Marx sahb sirf Ek Jahat se dkh rahe hyn (to pehli bt to wo bewaqufana amal kr rahe hyn per) tb b donon amal ki shurwat Farokht se hogi, ya to Jins farokht ki ja rahi hy ya to Pese! (halanke Pese Farokht krne ka term Marx hi define kiya hm ne Nahi.)

ye bhi (Marx sahb ko) janna chahiye dono hi amal (Formalae) do mukhtalif logon ke liye Nahien hyn (esa nahi hy k pehla amal aam logon k liye hy aur dusra sarmayadaron k liye) bulke dono amal sbhi logon k liye hy.
Is munasbat se dono formulas ko apas me milaya ja sakta hy.
Jese ager shurwat A se ki jaye:

Jins = Rupya = Jins = Rupya
aur
Rupya = Jins = Rupya = Jins

aur ooper wala formulas muashre ki poori haqiqat hy aur sb k liye hy.
Ab ye hr bnde per individually depend krta hy k aya wo apni transition pehle 2 (Jins = Rupya) pe khtam krta hy ya 3 (Jins = Ruya = Jins) per ya 4 per ya aur aage barhta hy!

Aur is trah kahani puri samne ane se Marx ki shikayat door hojayegi. [frmla A ka khatma ab ek qadam aage barhne se Jins se Rupya pe hone laga, aur frmla B ka Rupya se Jins per; yane Balafaze Deeger Achai ka khatma Burai pe hone laga aur Burai ka khatma Achha pe!]
is liye ksi b formule per hm Good or Bad ka thappa nahi laga sakte, ye 2 mukhtalif tariqe kar hyn jo Muash Kamane k liye Muashre me raij hyn.

Lekin sb se Important Bat jo samajhni hy wo ye k:
Formula A ka taluq PRODUCTION se hy, aur
Formula B ka taluq TRADE (tijarat) se.
Frmla A me bnda (dehqan/hari) ya to jo Jins Peda krta hy/Ugata hy (Zamin se) ya to (Dastkar) Hath se Banata hy.

Shuroo me simple life thi log Jins ka tabadila direct Jins se krte the. Per waqt guzarne aur pechedgiyan brhne ke bad Currency raij hogai taake Chezon ki Value Qadar Ehmiyat Sahi Napi ja sake aur Jins ka Tabadila Zyada Adalat Ki Bunyad per ho sake! (jins ka tabadila direct jins ke hone se Na-Insafi ki gunjaish rehti thi aur cheezen apni Asal Qadar ki munasbat se nahin bechi (exchange) ja sakti thi.)

Per MUNAFA dono formulas me hi khatre malhoz rakha jata hy AGER MUNAFA BECH ME NA AYE TO PHR ZINDAGI MAHAL HY, PHR BUS CHEZON KI ADLA BADLI HOTI RAHEGI AUR INSAN KO APNE KHANE PINE ORHNE REHNE WAGHERA K LIYE KUCH B NA HOGA. Yaqinan ye Munafa Muft me nahi mil raha hota. Uske liye Insan Apni Mehnat i Cash krwa raha hota hy.

Frmla A me jb bnda koi product ugata ya bnata hy to usko jb ek qeemat per bechta hy to us raqam se ek to dobara us product ka Khaam Maal kharidta hy, jo ke us product ki Asal Value hoti hy, aur Munafe se apni Zarooriyati Zindagi puri krta hy.

Frmla B me ek bnda dunya ke ek kone se ek chez ek raqam pe kharidta hy aur use dunya k dusre kone me (munafe ke saath) dusri raqam pe bechta hy, aur apni Mehnat ko ee Munafe se Cash karwa raha hota hy, jis se ye apni Nan Nafaqqe ka bandobast kar sake, aur iski ye mehnat asan nahi hoti, ek to wo safar ki masoobtain jhelta hy, apne ghar bal bchon se door hota hy, use apni jan ki koi gauranti nahi hoti aya sahi salamat ghr puhunchega b k nahi, apni mal ki koi waranti nahi hoti aya sahi qemat pe bike ga k nahin, aya faida uthane parega k nuqsan aur us per b mustazad ye k kahin esa na ho raste me i looteron ki hathe charh jai, aur mal peson k sath sath sari mehnat pani me...

Munafa per alag se column ‘Munafa to Chahiye ee’ parhiye.
.
.
.
MARX DUALITY:

Marx khud Dual batain karte hyn wo bhi Wasooq ke bagair:

Pehle ye samjhate hyn ke Kharid o Farokht se Majmooi tor per Sarmayadari Nahi ho pati:

"Sarmyadar Jamat Sirf Ajnas Ki Kharid o Farokht Se Majmooi Tor Per Sarmya Main Izafa Peda Nahien Kar Sakti." 59
“Mahereen Iqtesaadiyat ne ajnas ki qeematon ka ek naqsha murattab kiya hy jis se zaahir hota hy ke agar mukhtalif ajnas ki qeematon ke utar charhao ke ek taveel muddat ke a’dad o shumar jama’ kiye jayen aur her jins ki qeematon ki haasil jama ko jinson ki tadad ya miqdar se taqsim karain to ye nateeja nikalta hy ke her she apni qadar asal per farokht hoti hy masalan ek jins ki qadar asal 4 ane hy lekin maang ki zyadati ki waja se us ki qeemat ek hafte tak hasbe zel hy.

4.33 ana, 4.57 ana, 5 ana, 5.25 ana, 5.50 ana, 5.75 ana, 6 ana
Lekin agle hafte maang ki kami ki waja se isi jins ki qeemat hasbe zel reh jati hy
3.50 ana, 1.75 ana, 3 ana, 2.75 ana, 2.50 ana, 2.25 ana, 2 ana

Yani farokht karne wale ko pehle hafte 8 ana 9 pai ka nafa hua to doosre hafte itna hi nuqsan hoga. Natajatan farokht karne wale ko jins ki sirf qadar asal yani 4 ana hi wusool hue.” Page. 59

Ye samjhane ke baad ke “Sarmaya darana dor main samaj ki iqtisadi zindagi main ek gardish waqe’ hoti hy, yani chand saal to tijarat chamakti hy, Sanat o Harfat ko khoob tarqqi hoti hy, karobar walon ko khoob nafa hota hy lekin ek khas muddat ke baad iqtisadi zindagi main aashoob ajata hy jis ki waja se karobari dunya ko nuqsan hota hy aur agar is 15 20 sala gardishi dor ke awwal se laga kar akheer tak ke tamam samaji ajnas ke qeematon ke a’dad o shumar alag alag jama kiye jayen aur hasil jama ko ajnas ki tadad ya miqdar se taqsim kiya jaye to ye maloom hota hy ke samaj main ajnas hamesha qadar asal ke qareeb hi qareeb farokht hoti hyn”. Page. 59-60

Yani doosre alfazon main Sarmayadari Mahal hy, aaj ager ek jins ek Zayd qeemat pe bik rahi hy to kal ek Kam qeemat pe bike gee, aur over all Marx ke apne alfaz main “samaj main ajnas hamesha Qadar Asal ke qareeb hi qareeb farokht hoti hyn”.

Jab Muashre main Iqtisaadi Amal aur Iqtisadi Dhaancha ee esa hy ke Ajnas apne Qadar Asal per he farokht hoti hyn to Qadar Zayd ka sawal kesa, aur jab Qadar Zayd nahien to Mazdooron ka Istehsaal kesa !

Lekin aage chal ke bgair kisi thoos wazahat ke Marx sahab likhte hyn:
“Lekin jab ye dekha jata hy ke iqtisaadi dunya main siwaye ajnas ki kharid o farokht ke kuch nahin hota aur ye do amal tamam iqtisadi dunya ka ahaata kiye hue hyn her iqtisadi amal ko tehleel kar ke dikha jata hy to ye zaahir hota hy ke wo sirf kharid o farokht se murakkab hy. Koi amal kharid o farokht ke gardish se baahar nahi jata to ye guman guzarta hy ke galti se dunya Taqsim Qadar hi ko to kahin nafa ya qadr zaayd nahin samajhti. Lekin her mutanaffis ka mushahida is ko ye zaroor bata deta hy ke samaj main qadr zayd ya nafa peda zaroor ho raha hy agar qadr zayd ya nafa is kharid o farokht ki gardish se peda na hota to bedar sarmayadar jamat samaj ki iqtisadi zindagi ki jidojahad se muddat se dast-bardar ho chuki hoti. Is liye ho na ho. Isi kharid o farokht ki gardish se qadr zayd peda hoti hy.” Page. 60

_________________________

Wednesday, May 5, 2010

1. Sarmaya - Qadar (Critics)

Sarmaya – Das Kapital
Karl Marx
1867


CRITICS:
.
Qadar (Value)
Page. 41
"Jins Me Jo Qadr Peda Hoti Hy Wo Mehnat Ka Nateeja Hy."
“Qadar – Dunya Ki Her Jins Do She Se Murakkab Hoti Hy. Mada, Insani Mehnat. Mada Qudrat Ki Taraf Se Muft Ata Kiya Gaya Hi Is Liye Jins Main Jo Qadar Peda Hoti Hy Wo Mehnat Ka Nateeja Hy.”


- Is Hisab se Zamin, Ped Pode Darakht Jangalat (jo insani mehnat k bgair ugte hyn), Pahaar, Samandar, Darya, hatta k Koyle aur Heeron ki Kanain, Zamin se nikalne wale Khazane, Tel, Gas, Samandar se nikalne wale Khazane . . . Ksi insan ki milkiyat nahi honi chahiyen.
Halanke is amal (theory) ko aur bareek beni se dekha jaye to aur cases samne ayenge, Jese koi esa amal jis main insan apni mehnat kam sarf kare aur Natural Resources ko zyada utilize kare!, jese ager ek insan Chopaya Mal (Maweshi) charata hy to ye janwar jo zamin se uge hue per pode darakht khate hyn aur isi se phalte pholte hyn to ye Kis ki Milkiyat hone chahiyen, yaqinan charane wala bnda kaseer tadad me bher bakryon (gayen, oont waghera) k muqable me zyada kam nahi karta. agr is charane ki use ujrat de b jaye to bus iske khate me ek 2 janwar i ayenge. To Baqi Ki Milkiyat Kis Ki Hogi.

Phr Ye Bat Bhi Buhut Bari Questionable Hy K Agr Koi Insan In Khazinon Per Jabran Qabiz Hona Chahe To Kya Usool Hyn Jin Se Unko Roka Jaye?
.

Insani Mehnat
page. 42
"Her Qism Ki Mehnat Insan Ko A'sabi Tor Per Thaka Deti Hy Sub Mehnatain Masavi Hyn."
“Insani Mehnat Rag Pathon Aur Qoowat-E-Amal Ke Kharch Ka Naam Hy Jis Se Insan Thak Jata Hy Is Etbaar Se Ke Her Qism Ki Mehnat Insan Ko A’sabi Tor Per Thaka Deti Hy Sub Mehnatain Masavi Hyn. Yahan Ye Yaad Rakhna Zaroori Hy Ke Marx Ke Nazdeek Sirf Mayari Zaroori Samaji Mehnat Hi Qadr Peda Karti Hy Yaani Mehnat Jo Samaj Ke Liye Zaroori Ho Aur Jo Ravaj Ke Mutabiq Khas Waqt Main Khas Qawam Ki Mehnat Se Jins Tayar Karde.”
.
- Sub Mehnatian Masavi NAHIEN Hyn. Dimagi Mehnat Ko Jismani Mehnat per Fazeelat hy, aur Zaruri Nahien k her Mehnat insan k “A'sabi” tor per thaka de jese Tafakkur o Tadabbur. Aur Her Mehnat Jins Peda Karne Ke Liye Nahien ki jati aur Na hi her Mehnat Samaji Ho Sakti hy. (warna insan ki sari ibadaten bekar jayengi. Mujhe btaiye us insan ki Mehnat ko ap kis Khate me rakhenge jo Adhi Rat ko Tehjud parhne ke liye uthta hy aur tan tanha namaz parhta hy! Aur iski ye Mehnat aya konsi Samaji Jins Peda krti hy!)
.
.

Qadar Asal
page. 45-46
"Ager Samaj Socialist Hy To Us Ek Gaz Kapre Ka Tabadila Her Us Jins Se Ho Sakta Hy Jo Usi Shiddat Ki 2 Ghante Ki Mayari Samaji Zaroori Mehnat Se Bani Ho."

-Yahan pehla sawal uthta hy k ager ek insan ki mehnat koi Jins peda krna na ho, bulke Service provide krna ho, to wo apni mehnat ko is hisab se kese tole?
Dusri bat Ager Jins Ki Qadar Asal us per Sarf Kiye hue Waqt (Ghante) hy to phr iska Taiyun Dusri Mehnaton se kese ho? Misal k tor per ek gaz kapra banna me 2 ghante lagte hyn aur mujhe 6 ghaz kapra chahiye to usoolan 12 ghante ki Mehnat k bad mujhe wo kapra mil jana chahiye. Yani , ager mera kam dukan chalana hy to 12 ghante k dukan chalane k bad mujhe wo kapra mil jana chahiye. [yad rahe yahan Mehnat ka Tabadillah Mehnat se ho raha hy, Peson se Nahien!] (jub ke dukan chalane se jo maine munafa kamaya wo alag baat their.)

2 Masale Tehre:
Ek k mukhtalif Mehnaton ka apas me Muakhza kese kiya jaye? (yani Mukhtalif Mehnaton ki Same SHIDDAT kese toli jaye!) Ek dhop me khare hue jismani mehnat karne wale mazdor ko ek AC me bhethe hue Computer Oprtr se kese brabar kiya jaye? Ager Barabari Ka Mayar GHANTE hyn to ye Gair-Adlana aur Bewakufana bat hy.

Dusri bat Ye kese pata chale k kis ne kitni mehnat ki ?
Ager uski Mehnat koi Product/Jins nahien peda krti to phr to ye masla zyadah Pecheedah hy, per agr uski Mehnat Product peda krti hy to phr b masla unsolvd hy Kyön k product (sanati dor me bunyadi tor per) ijtimai andaz me peda hoti hy, jesa ke agle ch "Mukhtalif Qism Ki Mayar Samaji Zaroori Mehnatain Samaj me kis trha Napi Jati Hyn" me btaya gaya hy k Averege ko khatre malhoz rakha jaye ga. “… Us Samaj Ke Ausat Ke Mazdoor Ko Jis Main Koi Hunur Na Ho Aur Jo Hath Per Se Thek Ho Mayar Man Kar Maahir Mazdoor Ki Mehnat Ko Aust Ke Mazdoor Ki Masavi Mehnat Main Muntaqil Kar Diya Jata Hy Maahir Mazdoor Ki Kam Mehnat Jo Qawam Main Gharhi Hoti Hy Aust Ke Mazdoor Ki Zyadah Mehnat Ke Barabar Hoti Hy. Farz Kijiye Ke Ek Radio Banane Wale Ki Ek Ghante Ki Ghaarhe Qawam Ki Mehnat Aust Ke Mazdoor Ki 10 Ghante Ki Mehnat Ke Barabar Hy Aur Radio Das Ghante Main Tayar Hota Hy To Ausat Ke Mazdoor Ko Radio Haasil Karne Ke Liye Apni 100 Ghanton Ki Mehnat Deni Hogi.” Page 46-47.
Mtlb misal ke tor per 12 ghante me 6 gaz kapra tayar hota hy per ek bnda 12 ghante bad sirf 3 ghaz i tayar kr pata hy to use 3 gaz apni taraf se mufat dene parenge, aur isi traha ek bnda agr 12 ghante me 24 gaz tayar krta hy tb b use 6 gaz dene parenge. [kyone Mehnat Masavi hy.]
"Ye Is Tarah Kiya Jata Hy Ke Is Samaj Ke Aust Ke Mazdoor Ko Jis Main Koi Hunur Na Ho Aur Hath Per Se Thek Ho Mayar Man Kar Maahir Mazdoor Ki Mehnat Ko Aust Ke Mazdoor Ki Masavi Mehnat Me Muntaqil Kr Diya Jata Hy." 46

Yane dusre Lafzon main:
Haqdar Ko Haq Nahien Milta
aur Tricky Kam Seekhna Fuzool hy,
Kareegar Banna main Koi Faidah Nahien!.

(Isi munasbat se isi blog ke shurwati pages main ek Class Room ki misal di gai hy, wo qabil-e-ghaur hy.)

.
Mehnga o Arzan:
"... Kapra Mehnga Hone Ki Waja Se Us Ki Kharidari Kam Hojayegi... Kapra Arzan Hone Ki Waja Se Zyada Kharida Jayega..".49

- Sawal ye hy k agr ek chez insan ki Zarooriyat me shamil hy to Mehnga ya Sasta hone per Kam ya Zyada kyonker kharida jayega. (muashre ko jitne ki zaroorat ho her hal me uski Maang utni hi rehni chahiye!). Kya Mehnga hone ki soorat me log Nanga ghoomna pasand kr rahe hyn ya Arzan hone ki soorat me Zyada kharid kr Sarmayadari krna chahte hyn!!
______________
Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...